یکم ستمبر 1905 کو جب ڈاکٹر اقبال اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے لاہور سے یوروپ روانہ ہوئے، تو 2 ستمبر کو دہلی پہنچے اورحضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمة اللہ علیہ کی درگاہ پر حاضری دی۔ یہاں 36 اشعارپر مشتمل اپنی نظم’ التجائے مسافر‘ سنائی۔ ڈاکٹر اقبال کو شہیدوں اور صوفیائے کرام سے اتنی عقیدت تھی کہ انھوں نے ٹیپو سلطان کے مزار پر یہ بات کہی تھی:
”قبر زندگی رکھتی ہے بہ نسبت ہم جیسے لوگوں کے جو بظاہر زندہ ہیں یا اپنے آپ کو زندہ ظاہر کرکے لوگوں کو دھوکا دیتے رہتے ہیں۔“
اس کا اندازہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیارحمة اللہ علیہ کی درگاہ پر ان کی نظم ’التجائے مسافر‘ کے اس حصے سے بھی لگاسکتے ہیں:
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تیری ،فیض عام ہے تیرا
تری لحد کی زیارت ہے زندگی د ل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
”دو دفعہ حضرت خواجہ نظام الدین رحمة اللہ علیہ کی درگاہ پر حاضر ہوا تھا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اچھی قوالی سنوائی۔“
ہند کا داتا ہے تو، تیرا بڑا دربار ہے
کچھ ملے مجھ کو بھی اس دربار گوہر بار سے
ڈاکٹر اقبال کبھی کبھار دلی آتے تھے،
جس میں ایک وجہ حکیم نابینا سے علاج و معالجہ کا سلسلہ بھی تھا۔ یہاں شروع میں 1905 کے جس مختصر قیام کا ذکر کیا گیا، اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال مرزا غالب کے مزار پر بھی گئے تھے۔ مرزا سے ان کی عقیدت کا اندازہ اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ مرزا غالب اور عبدالقادر کا نام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”انھوں نے مجھے یہ سکھایا کہ مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں۔“
ڈاکٹر اقبال غالب کے مزار پر پجب حاضر ہوئے تو:
”مجھ سے ضبط نہ ہوسکا، آنکھیں پرنم ہوگئیں…“
مرزا غالب کی طرح ہی ڈاکٹر اقبال کو آم بہت پسند تھے، لکھتے ہیں:
”آموں کی کشش، کشش علم سے کچھ کم نہیں، یہ بات بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے محبت ہے۔“
اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں لیکن یہاں دلی کی روداد ڈاکٹر اقبال کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
”(دہلی کے) ریلوے اسٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذر محمد صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے لئے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا۔ ازاں بعد حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن بسر کیا۔ اللہ اللہ! حضرت محبوب الہیٰ کا مزار بھی عجیب جگہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے۔ خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں۔ شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ:
ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہوجائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے ،جس پر خاک دہلی ہمیشہ ناز کرے گی۔ حسن اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا، اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر۔۔۔۔۔
دل سے تری نگاہ جگر تک اترگئی۔۔۔۔۔۔
کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہوگئیں، بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا:
وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھئے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی
تو مجھ سے ضبط نہ ہوسکا، آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔
اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دامن دل کو کھینچتے ہیں، مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا۔ شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے پر فاتحہ پڑھا، دارشکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ھوالموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرتناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا، جو صفحہ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ 3 ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہوکر بمبئی کو روانہ ہوا اور 4 ستمبر کو خدا خدا کرکے اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچا۔“
http://thewireurdu.com/19057/allama-iqbal-in-delhi-nizamuddin-ghalib-humayun-darashikoh/
dr iqbal ek din dilli me
No comments:
Post a Comment