Monday, 4 December 2017

دلی؛ یادوں کے دریچہ سے

زینب حمیرا زنیرا
کیاکبھی آپ نے شاہجہاں آبادعرف دہلی کی شاہی جامع مسجد کے مشرقی دروازے کے باہر کا منظرکا منظر دیکھا ہے؟آپ کو جوجو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی کیا وہایک دن میں قائم ہوگئی؟انگریزی زبان کی مشہور کہاوت یا دکیجئے کہ ’روم ایک دن میں نہیں بنا‘؛ یہی مقولہ دلّی پر بھی صادق آتا ہے۔ عہد پارینہ سے لے کر عہدمغلیہ تک،مبالغہ آرائی سے خداحفاظت فرمائے،تاریخ شاہد ہے کہ دلّی نے سینکڑوں انقلابات دیکھے ہیں۔ماضی پر نگاہ رکھنے والے بتاتے ہیں کہ وقت کے بہاو ¿ پررواں دواں یہ قدیم شہر ہر آنے والی تہذیب کو گلے لگاتا رہا اور ایک نیا روپ دھارتا رہا۔ وقت کے ساتھ نہ صرف اس کا نام اور تہذیب بدلی بلکہ ذائقے بھی بدلتے رہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سن 1639 کے دوران مغل بادشاہ شاہجہاں نے شاہجہاں آباد کی بنیاد رکھی وہ سب سے زیادہ بابرکت ثابت ہوئی۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کیا جو 1656میں مکمل ہوئی۔ یہ ملک کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے۔دلی وہ دیار ہے جو مغلوں کی شان و شوکت کامرکز ثابت ہوا، شعرو شاعری کا مرکز رہا، پیسے کی ریل پیل تھی، شاہجہاں آباد کی رونق کا مرکز چوک تھا۔اس کے بازار ہنگاموں اور رونق سے پر تھے۔ چھلکارہ کٹورہ بجاتا چلا آ رہا ہے، ’میاں آب حیات ہے شربت نہیں۔‘ ککڑیاں سجائے خوانچے والا آواز لگاتا:
 ’لے لو بھائی لے لو، لیلی کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں۔‘ گرما گرم پکوان خوانچوں میں دھرے ہیں۔ لونگ چڑے، قلمی بڑے، تئی کے کباب، کلیجی کی سیخیں۔ گاہک پر گاہک ٹوٹا پڑتا ہے۔ واہ کیا سماں ہے۔
خواہ کھائے یا نہ کھائے لیکن طبیعت خوشبو سے سیر ہو جائے۔سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ فرماتی ہیں کہ اگر نہاری 12 مصالحے کی چاٹ تھی تو حلیم تین ہانڈی کا پکوان۔ شاہی حلوائی بہت نفاست سے ادرک گاجر کے حلوے بنانے کے لئے بیٹھے کہ انگور ایسے کہ اصل کا گمان ہو۔ بریانی زردے کی دیگیں کھلیں اور گاہک ٹوٹ پڑے۔ یہ تھا سماں دلّی چوک کا۔
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ایک دن مغلیہ سلطنت پرایسا زوال آیا کہ شاہی باورچی خانوں کے چولھے ٹھنڈے پڑ گئے۔ کباب اور بریانی کی خوشبو ہوا میں گم ہو گئی۔ چاندنی چوک کی دکانیں ویران اور خوانچے فروشوں کی آوازیں کہیں کھو گئیں، تام سراور تال غائب ہو گئے۔
ملک کی اذیت ناک تقسیم نے دلّی کو تندور سے آشنا کیا، سانجھا چولہا سلگنے لگا اور گرما گرم روٹیاں سکنے لگیں۔ موتی محل جیسے ریستوراں شہر کی رونق بنے۔ تندوری مرغ، مکھنی چوزہ، دال مکھنی، بھٹی کا مرغ جیسے پکوان انھی کے مرہون منت ہیں۔
وقت نے کروٹ لی،مسلمانوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے، غیر مسلموں کے ہاں بھی عمدہ اور لذیذ کھانے پکنے لگے۔ اپنی غذائی عادات و اطور کے سبب کائستھوں کو، آدھا مسلمان‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ترکاری کے ساتھ گوشت کا استعمال خوب کرتے تھے۔ کہتے ہیں شب دیگ کی روایت انھی پر ختم ہو گئی ہے اور مسور کی دال کا کیا کہنا، مچھلی کے کوفتے، خستہ بھنڈی، کریلے ایسے مہکتے کہ تازے کا گمان ہو۔
دوسری جانب تاجر یشہ مارواڑی گوشت مچھلی سے پرہیز کرنے والے پنیر، پالک، اروی اور بیسن کے ایسے عمدہ پکوان بناتے کہ جی چاہے کھاتے جاو ¿۔ یہ لہسن اور پیاز کے کھانے نہ صرف صحت مند بلکہ لذت سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ چاٹ کے خوانچے والے گھر گھر آواز لگانے لگے۔
 وقت گزرتا رہا، بہتے زخموں پرماہ و سال نے مرہم رکھا اور زندگی ذرا پرسکون ہوئی تو قلعہ معلی کے کھانوں سے دلّی کی ویران گلیاں پھر سے آباد ہوئیں۔ بھٹیارے سرائے چھوڑ کر شہر کی گلیوں میں آبسے اور اپنے چولھے روشن کئے۔ آج بھی ان کی روٹی انھی پرانے کھانوں کی روایات کا حصہ ہیں لیکن وہ نزاکت اور نفاست کہاں؟ نہ وہ روپے رہے اور نہ وہ لگن۔ زندگی کی تیز دھوپ میں سب کچھ جھلس کر رہ گیا۔
عصر حاضر نے ایک بار پھر کوشش کی ہے کہ دہلی کے ذائقوں کو پھر سے مروج کریں اور پرانی لذتوں سے لوگوں کو آشنا کریں۔ دلّی دراصل ایک ایسی دیگ ہے جس میں ہر مذہب و ملت کے ذائقے موجود ہیں۔
خدا کرے کہ ہو جائے یہ چمن پھر آباد
مثال گل ہوں باشندے یاں کے خرم وشاد
بھلااس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ مغل حکمرانوں نے فن آشیزی یعنی کھانا پکانے کے فن کو آگے بڑھایا اور ہندوستان کے سادہ کھانوں کو ایک فن کی شکل دی۔دسویں اور گیارھویں صدی میں مسلمانوں کے عہد حکومت میں آشیزی نے غیر ملکی اثرات قبول کئے۔ ایرانی، ترکی، ہندوستانی اور مشرق وسطی کے دوسرے ممالک کے ذائقوں کے تال میل نے اس فن کو ایسے اعلی مقام پر پہنچایا کہ صدیوں بعد بھی مغلوں کی یہ میراث ہمارے درمیان زندہ و جاوید ہے۔ظہیرالدین محمد بابر اور بادشاہ ہمایوں کے عہدِ حکومت میں شاہی باورچی خانے نے قابل ذکر ترقی نہیں کی جس کی وجہ بابر کی قلیل مدت حکمرانی اور ہمایوں کی جلاوطنی تھی۔ لیکن اکبر کے دور حکومت میں شاہی باورچی خانے کا ذکر بہت باریک بینی اور جزیات کے ساتھ ملتا ہے۔
اکبر کے نورتن ابوالفضل کی تصنیف ’آئین اکبری کے اندرجات شاہد ہیں کہ اکبر بادشاہ کی بیشتر غذا گندم، چاول اور دالوں پر مشتمل تھی یعنی عہد اکبری کا کھانا تین اقسام کا تھا۔ صوفیانہ وہ کھانا جس میں گوشت شامل نہیں ہوتا تھا، چند کھانے اناج اور گوشت کو ساتھ ملا کر پکائے جاتے تھے اور کچھ کھانوں کو گھی، دہی اور مصالحہ جات کے ساتھ پکایا جاتا تھا۔ حلیم، دوپیازہ، زرد برنج، اور شیر برنج اسی دور کے پکوان (خوان) ہیں جو آج بھی ہم بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ ترکی، افغانی اور ایرانی کھانوں کے ساتھ اب ہندوستانی کھانے بھی شاہی دسترخوان کی زینت بننے لگے تھے۔
جہانگیر ایک عاشق مزاج بادشاہ کی حیثیت سے بھی معروف ہے اور ان کے جمالیاتی ذوق کو بہت سراہا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے ان کی فرصت کا بیشتر وقت کشمیر کی حسین وادیوں میں گزرا۔ وہ شکار کے شوقین تھے اور چڑیوں کا بھی شکار کرتے تھے۔ان کے دربار کے باورچیوں نے بادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی جستجو میں چڑیوں کے انواع و اقسام کے خوان شاہی دسترخوان پر پیش کئے۔ تیتر، بٹیر، مرغابی، بطخ وغیر کے کباب اور سالن بادشاہ کو مرغوب تھے۔ نورجہاں نے اپنی جدت پسندی سے کھانوں کو مزید رونق بخشی۔ تاریخ میں تاثر دیا گیا ہے کہ مغل حکمراں طبعاً گوشت خور واقع ہوئے تھے جس کی اہم وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس جگہ کی آب و ہوا تھی جہاں سے ان کا تعلق تھا۔ گوشت کا تعلق طاقت اور بہادری سے تھا اور ایک بادشاہ میں ان صفات کا ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔
شاہی باورچی خانے میں روزانہ بے شمار کھانے تیار کئے جاتے تھے۔ کچھ پختہ اور کچھ نیم پختہ اور بادشاہ کا اشارہ پاتے ہی خاصہ لگ جاتا تھا۔ چاول کے آٹے کو عرق گلاب اور مصری کے ساتھ ابال کر ٹھنڈا ہونے کے بعد طشتریوں میں پیش کیا جاتا تھا۔ شاید یہ دور حاضر کی کھیر کا آغاز تھا۔چاول کے آٹے کو بادام اور مرغ کی بوٹیوں کے ساتھ کوٹ کر عرق گلاب اور عنبر کی آمیزش کے ساتھ ملا کر شیرینی بنائی جاتی تھی۔ یہ شاہی دسترخوان کی محبوب شیرینی تھی۔ ہر طرح کے اچار، مربے، چٹنیاں، تازہ ادرک کے لچھے، رسیلے لیموں، سبز دھنیے اور پودینے مختلف تھیلیوں میں مہر بند کئے جاتے تھے۔ دہی بھری طشتریاں بھی خاصہ کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ اچار مربے شاہی حکیم کی نگرانی میں تیار کئے جاتے تھے۔ پھلوں سے بنائے جانے والے شربت اور مربے اشتہا انگیز، زود ہاضم اور کئی بیماریوں کا علاج تھے۔
شاہی ضیافتوں کے علاوہ بادشاہ حرم میں خاصہ تناول فرماتے اور کسی بھی غیر شخص کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ بادشاہ کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھ لے۔ پان مغل تہذیب کا اہم حصہ تھا۔ پان کے پتوں کو عرق گلاب اور کافور سے ملا جاتا تھا۔ سپاری (ڈلی) عرق صندل میں ابالی جاتی تھی۔ چونا زعفران اور عرق گلاب کی آمیزش سے تیار کیا جاتا تھا۔ گیارہ پانوں کا ایک بیڑا تیار کیا جاتا اور چاندی کے خاص دان میں پیش کیا جاتا تھا۔
پان کھانے کے بے شمار فوائد بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے چبانے سے زبان ملائم، منھ خوشبودار اور پیٹ غیر ضروری گیس سے محفوظ رہتا ہے۔ سپاری قبض آور ہے اور چونا منھ سے کڑوی اور میٹھی رطوبت کو دور کرتا ہے۔ مغلوں کا دارالحکومت بادشاہ کے ساتھ منتقل ہوتا رہتا تھا۔ مغربی سیاح برنیئر لکھتے ہیں: 
"جیسے ہی کوچ کا اعلان ہوتا شاہی باورچی خانہ اپنے تمام عملے کے ساتھ مع ساز و سامان آگے چل پڑتا۔"
اطالوی سیاح منوچی نے لکھا ہے کہ: 
"شاہی باورچی خانہ رات کے دس بجے کوچ کرتا تاکہ بادشاہ کو صبح کا ناشتہ فراہم کرواسکے۔"
"باورچی خانے کا قافلہ 50 اونٹ مع اشیا خوردنی، 50 تندرست فربہ مویشی دودھ کے لئے، 200 حمال دسترخوان پر پیش ہونے والے برتنوں کے ساتھ، بڑی تعداد میں باورچیوں کا ٹولہ (ایک خوان کے لئے ایک باورچی)، مصالحہ جات مخمل کے ٹکڑوں میں مہربند، آبدار خانے کا عملہ، مشک بردار، مشعل بردار، اور صفائی کرنے والے سپاہیوں کی نگرانی میں سفر کرتا۔"
مغل بادشاہوں کے شاہی باورچی خانے کے قلمی دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ کھانوں میں مصالحوں کا استعمال بے حد کم تھا۔ زیرہ، دھنیا، ادرک، کالی مرچ، دار چینی، لونگ، سونف جیسے مصالحوں سے کھانے تیار کئے جاتے تھے۔
خشک میوے اور زعفران کھانوں کو مرغن اور لذیذ بنانے کے لئے تھے جبکہ بید مشک، عنبر، عرق گلاب اور کیوڑہ کھانے کو معطر بناتے تھے۔ عمدہ، لذیذ اور خوشبودار کھانے بادشاہوں کے شوق اور کمزوری تھے۔پرتگالیوں کی آمد کے ساتھ مغل عہد کے آخری دور میں آلو اور مرچ کا اضافہ ہوا اور نت نئے پکوان دسترخوان کی زینت بنے۔ بہادر شاہ کا دسترخوان بے حد وسیع تھا جو ترکی، افغانی، ایرانی اور ہندوستانی کھانوں سے مزین رہتا تھا۔
قورمہ، قلیہ، پلاؤ، نان، کباب کے ساتھ پوری کچوری، کھانڈوی دال، ہندوستانی مٹھائیاں اور حلوے تجربہ کار باورچیوں کے ہنرمند ہاتھوں کی داد دینے لگے۔ کھانوں کی تفصیل اس بات کی شاہد ہے کہ مغل حکمرانوں نے کس طرح فن آشیزی کو اس کی نفاست اور غذائیت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے آگے بڑھایا اور اسے نئی بلندیاں عطا کیں جو صدیوں بعد آج بھی زندہ وجاوید ہے۔یہ حکمراں نہ صرف تاج محل اور لال قلعے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں بلکہ ان کے عہد کے کھانوں نے بھی انھیں زندہ و جاوید کر دیا ۔
سلمیٰ حسین مزید رقمطراز ہیں کہ: ہندوستان کے راجہ مہا راجہ اور نوابوں کے دسترخوان پربہار ہوا کرتے تھے۔ ہر ایک کے دسترخوان کا الگ مزاج تھا۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب ہر چھوٹا بڑا راجہ اور نواب اپنے دسترخوان پر فخر کرتا نظر آتا تھا۔ ہر ایک کے دسترخوان کی دو تین چیزیں اپنی مثال آپ ہوتی تھیں جن کے لئے وہ دسترخوان مشہور ہوتا تھا۔دسترخوان کی یہ خصوصیت پشت در پشت برقرار رکھی جاتی۔ ان کے مطبخ کا ہر باورچی نئے نئے پہلو نکال کر انواع و اقسام کے کھانے تیار کرتا تھا۔راجاوں اور نوابوں کی سرپرستی اور قدر دانی کی بدولت بہترین باورچی پیدا ہوتے رہتے تھے لیکن کچھ ہی مدت بعد زمانہ ایسا بدلا کہ نہ وہ راجواڑے رہے اور نہ اب ہنرمند باورچیوں کا نشان باقی ہے۔’ڈائن ود رائلٹی‘ کی بانی سونل سکسینہ کی ان تھک محنت نے ہندوستان کے ہر حصے سے چھوٹے بڑے تقریباً دو درجن شاہی خاندانوں کو حال ہی میں دہلی میں یکجا کیا کہ وہ اپنے روایتی کھانوں کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو نفیس اور لذیذ کھانوں کا ذوق رکھتے ہیں۔مرکزی دارالحکومت دہلی میں بیلجیئم کے سفارت خانے کے وسیع لان میں ہر شاہی خاندان کے لئے الگ الگ خیمے لگوائے گئے جن کی سجاوٹ انہی کے ذوق کے مطابق عمل میں آئی۔ ہر خیمے کے متصل باورچی خانے کا انتظام تھا جہاں شاہی خاندان کے موجودہ باورچیوں نے اپنی ہنرمندی کے نمونے پیش کئے۔شاہی دعوت کے آغاز سے پہلے شاہی خاندان کے افراد نے پیش کئے جانے والے اپنے کھانوں کا مفصل ذکر کیا جن میں کھانوں کی تاریخی روایات، جغرافیائی محل وقوع، خارجی اثرات وغیرہ کا ذکر شامل تھا۔ بعض ایسے بھی گمنام شاہی خاندان تھے جن کے بارے میں جان کر ہمیں دلی مسرت ہوئی۔ ہندوستان کی وسیع و عریض مملکت ہے اور اس کے ہر گوشے و کنار میں کئی شاہی ریاستیں سالہا سال سے وجود رکھتی تھیں جو وقت کے ساتھ اب گمنام ہوچکی ہیں۔ چار روزہ جشن کا لب لباب یہ رہا کہ اگلے وقتوں کے باورچی خانے وسیع ہوا کرتے تھے۔ شاہی دعوتوں کا سلسلہ شب و روز جاری رہتا تھا۔ باورچیوں کی تعداد کثیر ہوا کرتی تھی۔ باورچی خانہ کئی محکموں میں منقسم ہوا کرتا تھا۔ ان کا نگراں ایک تجربہ کار شخص ہوتا تھا جو داروغہ باورچی کہلاتا۔ ہر باورچی اپنے فن میں ماہر ہوتا تھا کیونکہ نفیس غذاؤں کے ساتھ اچھا پکانے کے ہرنے واقفیت کا ہونا ضروری تھا۔ صفائی اور پاکیزگی کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔سفارت خانے کے وسیع و عریض لان میں ہندوستان کے راجہ اپنی اپنی رانیوں، شاہزادوں اور شہزادیوں کے ہمراہ براجمان تھے اور آزاد ہند کی تاریخ میں یہ نادر موقع تھا۔ جشن صرف کھانے کے متعلق بات چیت اور مہمان نوازی پر مشتمل نہیں تھا بلکہ موسیقی اور جام نے محفل کو اپنے رنگ میں شرابور کر رکھا تھا۔
سونل کی اس کوشش سے نہ صرف بہت سی ریاستیں ایک بار پھر سے روشنی میں آئیں بلکہ ان کے خاندانی باورچیوں کی ہمت افزائی بھی ہوئی جنھوں نے اپنی میراث کو آگے بڑھانے میں حصہ بھی لیا۔
ان کی کوششوں سے شاید علاقائی روایتی کھانے ناپید ہونے سے بچ جائیں۔ بیلجیئم کے سفیر جون لولک اور ان کی اہلیہ بیگم راکا سنگھ نے مہمانوں کا پرجوش استقبال کیا اور جشن میں شرکت کی۔ اس موقعے پر یہ بات سامنے آئی کہ علاقائی کھانوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اکثر ہم شمالی ہند کے ذائقوں کا لطف اٹھاتے ہیں اور ملک کے بقیہ حصے نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی تقریبات معلومات کے وہ خزانے پیش کرتے ہیں جن سے ہم عام طور پر نابلد رہتے ہیں۔
............
سلمیٰ حسین رقمطراز ہیں کہ میں جب نئی نئی بمبئی سے دہلی پہنچی تھی تو راج پتھ پر کھڑی رئیس جمہور کی کشادہ اور وسیع عمارت کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ میں رہی کھانے پینے کی شوقین، بس یہی سوال ذہن میں ابھرا کہ اس وسیع عمارت کا باورچی خانہ کس قدر بڑا ہوگا۔ کتنے باورچی اور خدمت گار یہاں کام کرتے ہوں گے اور سارے کھانے کون کون کھاتے ہوں گے۔
سال بھر پہلے قسمت نے یاوری کی اور اپنے تخیل کو عملی جامہ پہنانے کا اس وقت موقع ملا جب مجھے اور لز (یعنی الزبتھ کولنگھم) کو ’راؤنڈ انڈیاز فرسٹ ٹیبل‘ نامی ایک کتاب لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ 138 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا لکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ لیکن یہ ایک دلچسپ اور معلوماتی سفر تھا۔
سن 1912 سے اب تک اس موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تھی، نہ ہی ان تبدیلیوں کا کہیں ذکر ہوا تھا جو اس عمارت میں وقوع پذیر ہوئی تھیں۔
سن 1912 میں جب انگریزوں نے اپنا دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل کیا تو وہاں کا ساز و سامان مع باورچیوں اور خدمت گاروں کے اس وسیع اور کشادہ عمارت میں منتقل ہوگیا اور اس عالیشان عمارت میں زندگی کے آثار پیدا ہوئے۔
انگریز وائس رائے اور اس کے عملے نے یہاں کے انتظام میں لندن کے بکنگھم پیلس کی نقل کی۔ تقریبا 500 خدمت گاروں کا عملہ وائس رائے کے خاندان اور ذاتی مہمانوں کی خدمت کے لئے مامور تھا۔
اس وسیع عمارت کا باورچی خانہ عمارت کی نچلی منزل میں تھا، جہاں ایک وسیع کمرے چولھے دہکتے تھے۔ ایک طرف بیکری تو دوسری طرف شراب کا ذخیرہ تھا، ساتھ کے کمروں میں رسد رکھنے کا انتظام تھا۔
کھانا لمبی لمبی بھٹیوں پر پکایا جاتا۔ کیک، پیسٹری اور پائی بنانے کے لئے ایک ٹھنڈا کمرہ تھا جس کا درجہ حرارت کیک اور پیسٹری بنانے کے لئے موزوں تھا۔
کھانا نہ ہندوستانی تھا نہ انگریزی بلکہ نئے حکمراں فرانسیسی کھانوں کے شوقین تھے اور ان کے ساتھ آنے والے باورچی اس فن کے استاد تھے۔ لارڈ ریڈنگ نے لارڈ ارون کو بطور خاص ہدایت کی تھی کہ ہندوستان میں انگریز خدمت گاروں کی تعداد بے حد کم رکھی جائے۔
وقت تیزی سے آگے بڑھتا گیا اور رفتہ رفتہ اس وسیع عمارت کے انتظام میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ عمارت رئیس جمہور کی رسمی عمارت بن گئی اور ہر رئیس جمہور کے تقرر کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔
ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل راج گوپال آچاریہ ایک سیدھے سادے انسان تھے اور انھوں نے سب سے پہلے اپنا ذاتی باورچی خانہ شروع کیا، جہاں انھیں باورچی اور خدمت گار تو میسر تھے لیکن کھانا بالکل ہندوستانی تھا جو ان کا اپنا باورچی بنایا کرتا تھا۔
یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ ہر رئیس جمہور کا ذاتی باورچی ہوتا ہے جو ان کے ذوق اور مزاج کے مطابق کھانا بناتا اور پیش کرتا ہے۔ یوں انگریز اور فرانسیسی کھانے رسمی ضیافتوں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ لیکن یہ سلسلہ بھی ایک عرصے کے بعد ختم ہو گیا۔
انگریز بہادر کے عہد کا مفصل حال دریافت کرنا بے حد مشکل کام تھا اور قلمی دستاویز یا کسی کتاب کی عدم موجودگی میں یہ بہت مشکل امر تھا لیکن پرانے باورچی اور بٹلر کی مدد سے کام قدرے آسان ہوگیا اور دلچسپ تفصیلات اور مواد ہاتھ آہی گیا۔
کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ رسمی ضیافتیں، وائسرائے کا دسترخوان، جنگ آزادی اور اس کا اثر، رئیس جمہور کی رسمی دعوتیں، ہندوستان کے اپنے ذائقے۔
رسمی ضیافتوں کا انتظام ایک مشکل مرحلہ ہے جہاں نہ صرف دسترخوان کی اہمیت بلکہ ہندوستان کی عظمت بھی شامل حال ہے۔ ضیافتی کمرہ ایک وسیع کمرہ ہے جہاں رئیس جمہور بیرون سے آنے والے مہمانوں کی پذیرائی کرتے ہیں اور انھیں ہندوستان کی تہذیب اور ذائقوں سے آشنا کرتے ہیں۔
آزادی کے بعد رسمی ضیافتوں کا دسترخوان ہندوستان کے لذت سے بھرپور کھانوں سے سجنے لگا اور صدر عبدالکلام نے مہمانوں کی سہولت کے لئے یہ ہدایات جاری کیں کہ رسمی ضیافت میں مہمان کے اپنے ملک کے دو پکوانوں کا اضافہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ رئیس جمہور کے اپنے منطقے اور علاقے کے ذائقے بھی شامل کئے جائیں۔ آہستہ آہستہ ہندوستان کے ہر علاقے کے ذائقے رسمی ضیافتوں کا حصہ بن گئے۔
رسمی ضیافتوں میں خدمت گار کا کام مہمانوں کی دیکھ بھال، کھانوں کی پیشکش، کمرے کی سجاوٹ، موسیقی، شمعدانوں اور گلدانوں کا انتخاب، سرخ اور سبز بتیوں کا انتخاب وغیرہ شامل ہیں۔
کھانا سوپ یا شوربے سے شروع ہوکر شیرینی پر ختم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی قہوہ یا کافی کا دور بھی چلتا رہتا ہے۔ کھانا مختلف کورسز میں پیش کیا جاتا ہے۔ پہلے سوپ، پھر کباب یا اسی طرح کی کوئی چیز۔ اس معاملے میں خدمت گار کی مدد کے لئے دروازے پر لگی سرخ اور سبز بتیوں کا استعمال ہوتا ہے۔ سبز پر کھانا شروع اور سرخ پر ختم۔
یہ رسمی ضیافتیں سیاست کا ایک اہم حصہ ہیں، جہاں رئیس جمہور سے ملاقاتیں ہلکی پھلکی باتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ سیاست کے داؤ پیچ کا یہاں گزر نہیں۔ یہ رسمی دعوتیں صرف دو ممالک کے درمیان دوستی کا پیغام ہیں اور ہندوستان کی تہذیب سے آشنائی ہے۔ رسمی ضیافت کے مہمان ملک کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہندوستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
جب کبھی ہندوستان کے شاہی باورچی خانوں اور ان میں تیار کئے گئے شاہی پکوانوں کا ذکر ہوتا ہے تو لکھنؤ، حیدرآباد اور رام پور ہی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ ہندوستان کے جنوبی حصوں کے شاہی باورچی خانوں کا ذکر شاذ و نادر ہی سننے یا پڑھنے میں آتا ہے۔
جنوبی ہند کے راجا مہاراجہ بھی شمالی ہند کے نوابوں کی طرح ہی ذائقہ دار کھانوں کے دلدادہ تھے اور ان کے شاہی باورچی خانے بھی لذیذ اور متنوع کھانوں کی تیاری میں اپنی مثال آپ تھے۔ شاہی سرپرستی اور بے تہاشا مالی وسائل نے باورچیوں کے ہنر اور مہارت کو آگے بڑھایا۔ میسور، ارکاٹ، ٹراونکور اور تنجور کے شاہی باورچی خانوں کی کہانیاں بڑی دلچسپ اور مزیدار ہیں۔
حکایت ہے کہ میسور کے شاہی محل کے خزانچی نے ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا۔ باورجی سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی کام میں مصروف ہوگئے۔ کھانا شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل خزانچی نے باورچی کھانے کا دورہ کیا۔ اس نے دیکھا ایک بڑی سی ٹوکری میں سبزیوں کے تراشے کچھ حصے باورچی کھانے کے ایک کونے میں رکھے ہیں۔ پوچھنے پر پتہ لگا کہ سبزیوں کے یہ حصے استعمال سے خارج ہیں اور کسی مصرف کے نہیں ہیں۔ خزانچی باورچی سے کہا میاں عقل دوڑاو اور ان کے استعمال کی کوئی انوکھی ترکیب نکالو۔
باورچی نے بڑے غور و فکر کے بعد ناریل کے تراشے اور دہی کے امتزاج سے گاڑھا شوربا بنایا۔ سبزیوں کے قابل استعمال حصوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں کاٹ کر ہلکے مسالے میں ملا کر ناریل کے شوربے میں ڈال دیا۔ مرکب ہلکی آنچ پر پکنے دیا اور شام کے وقت ضیافت میں ایک نئے پکوان ک طور پر پیش کیا۔
ضیافت میں موجود مہمانوں نے بڑے شوق سے نئے پکوان کا لطف اٹھایا اور نام دریافت کیا۔ باورچی نے بلا تامل کہا 'ایول'۔ اسی دن سے ایول شاہی دسترخوان کی زینت بنا اور آج تک جنوبی ہند کے لذیذ پکوانوں میں اس کا شمار ہوتاہے۔ ایک ہنر مند اور عقل مند باورچی کا انوکھا تجربہ۔
ٹراونکور جنوبی ہند کی مشہور ریاست ہے۔ دولت کی ریل پیل اورشوقین مزاج راجا مہاراجاوں کی سرپرستی نے اس کے شاہی باورچی خانے کو بھی بڑی شہرت کا مالک بنا دیا۔ ٹراونکور کے شاہی پکوان مہارانی سیتو پاروتی بائی کے شوق اور لگن کا نتیجہ تھے۔
مہارانی سیتو پاورتی بائی راجا پال رام ورما کی والدہ تھیں۔ مہارانی نہ صرف عمدہ کھانوں کی شوقین تھیں بلکہ ان کی نگرانی میں پکائے گئے پکوان ہر خاص و عام سے داد و تحسین حاصل کرتے تھے۔ مہارانی کے کھانوں سے بہت سی پرانی حکایتیں بھی وابستہ تھیں اور شاہی محل کو لوگ اس سے بڑا لطف اٹھاتے تھے۔ ’وا اماں‘ مہارانی کے نام سے مشہور تھیں۔
اماں مہارانی بذات خود باورچیوں کو ہدایات دیتی تھیں اور شاہی باورچی خانے میں تیار ہونے والے ہر پکوان کی نگرانی کرتی تھیں۔ دودھ سے بنی ہر چیز شاہی باورچی خانے میں تیار ہوتی تھی۔ ان کی نگرانی میں جمائے گئے دہی کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ ان کی مہمان نوازی بھی بے مثال تھی۔
بیسویں صدی کے موسیقار، مصور، سائنسدان، مختلف صوبوں کے سربراہ الغرض کوئی فرد ایسا نہ تھا جس نے اماں مہارانی کی ضیافتوں کا لطف نہ اٹھایا ہو۔ جس نے ان کے زیر نگرانی میں بنے کھانوں کو کھایا، اس نے بار بار اسے کھانے کی تمنا کی۔ ہر مہمان کے ساتھ ان کا رویہ یکساں ہوتا تھا چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی حصے سے ہو۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اماں مہارانی خود سبزی خور تھیں، گوشت، مچھلی اور مرغ سے اجتناب تھا لیکن ضیافت کی میز متنوع کھانوں سے سجی رہتی تھی۔ گوشت، مرغ اور مچھلی کے پکوان ایک الگ باورچی کھانے میں تیار ہوتے تھے۔ مہمانوں کی خاطر مدارت بہترین قسم کی شراب سے کی جاتی تھی۔ بلور کے بیش قیمت جاموں میں چھلکتی شراب، قابوں میں سجے خوشبودار پکوان ٹراونکور کی ضیافتوں کی جان تھے۔
شاہی خاندان کے لوگ سبزی خور تھے اور شراب کے بجائے صرف پانی پر اکتفا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پرانی روایتوں کے مد نظر اور اماں مہارانی کے بنائے اصولوں کے مطابق ٹراونکور میں آج بھی دو قسم کے باورچی خانے موجود ہیں۔ ایک میں جنوبی ہند کے روایتی سبزیوں کے پکوان اور دوسرے باورچی خانے میں مغربی طرز پر گوشت مچھلی اور مرغ کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں۔
گاجر کو بیچ سے چاک کرلیں اور تازہ تراشے ناریل سے بھردیں۔ گاجر کے اوپر کے حصے کو بریڈ کرمب سے بند کر دیں۔ تیل میں فرائی کرکے میز پر پیش کریں۔ سادہ آسان اور مزیدار۔

No comments:

Post a Comment