Tuesday, 23 February 2016

کہاں ہیں بی جمالو؟ Why Jat Protest?

ایس اے ساگر

کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ مرکزی دارالحکومت دہلی پر ایسا قہر برپا ہوا کہ محض ریزرویشن کے حصول کیلئے پانی فراہمی تک متاثر ہو گئی ہو؟ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کے مطالبہ پر جاری جاٹ برادری کے مظاہروں کے دوران دہلی کو پانی سپلائی کرنے والی نہر پر ایسا قہر ٹوٹا کہ کربلا کی یاد آگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ پیر کو فوج نے نہر پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس بحران کے سبب پیر کو تمام اسکولوں میں تعطیل کا اعلان کر دیا گيا۔ جبکہ دہلی میں تقریباً پونے دو کروڑ افراد رہتے ہیں جن کیلئے 60 فی صد پانی مونک نہر سے سپلائی ہوتا ہے. تخریب کاری کا نشانہ بننے والی اس نہر کا قصور محض اتنا ہے کہ یہ ہریانہ سے گزرتی ہوئی دہلی پہنچتی ہے۔

عام آدمی کی شامت !

تین دن تک جاری رہنے والے احتجاج میں کم از کم 18 افراد ملک عدم روانہ ہوچکے ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں. عام آدمی فریاد کرتا رہ گیا کہ
بس اور ٹرین تو غریب کی سواری ہے ...راستہ
ہوائی جہاز کا روکو تو جانیں ...ذرائع نقل و حمل کو روک کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے... عام آدمی کو پریشان مت کیجئے... کیونکہ بس اور ٹرین میں خواص سوار ہی نہیں ہوتے...اس کا تو علم نہیں کہ توڑ پھوڑ، آتشزدگی اور لوٹ مار  میں کتنے اثاثہ جات قربان ہوئے لیکن بھلا ہو حکومت کے خواب خرگوش سے جاگنے کا، فوج نے روہتک اور جھججر میں گولیاں چلا دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آزاد ذرائع سے موصولہ ویڈیو کلپس انتظامیہ کی عدم فعالیت کا رونا رورہی ہیں.

نسلی برتری کا شاخسانہ :

غنیمت ہے کہ سرحد پار سے وسعت اللہ خان نے اس طوائف الملوکی کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی،  بصورت دیگر پتہ ہی نہ چل پاتا کہ خاردار باڑھ کے دونوں جانب اس مسئلہ کی جڑیں تاج برطانیہ سے جا کر ملتی ہیں. فرنگیوں نے ہی جاٹوں کو نسلی برتری کے احساس برتری میں مبتلا کیا تھا کہ رنجیت سنگھ، مہاراجہ بھرت پور سورج مل، مہاراجہ پٹیالہ، بھگت سنگھ شہید، چوہدری چرن سنگھ، دیوی لال، دارا سنگھ، دھرمیندر، وریندر سہواگ، انڈین چیف آف آرمی اسٹاف جنرل دلبیر سنگھ، نوابزادہ لیاقت علی خان، سر چھوٹو رام، ظہور الٰہی، کھر، قمر زمان کائرہ، بیرسٹر اعتزاز احسن اور ملائکہ شراوت۔ یہ سب تاریخی، معروف یا کامیاب ہندو، سکھ، مسلمان جاٹ ہیں۔

مارشل ریس میں شامل :

سب کے سب کسان پس منظر سے ہیں اور پاکستانی و بھارتی پنجاب، سندھ، راجستھان، یوپی، مدھیہ پردیش تک پھیلے ہیں۔ طبعاً آزاد منش، جنگجو اور زمین سے جڑے احساسِ برتری سے سرشار ہیں۔ لیکن آج کی زندگی میں آگے بڑھنے کا مقابلہ اتنا گلا کاٹ ہوگیا ہے کہ محض احساسِ برتری کے سہارے نہیں جیتا جا سکتا۔ ہریانہ کے جاٹوں کا غصہ اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کہنے کو ہریانہ خوشحال ریاست ہے اور پچیس فیصد جاٹ 75 فیصد زرعی زمین کے مالک ہیں۔ کھیتی باڑی کو آج بھی اتم اور نوکری کو نیچ سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی نوکری اعلیٰ ہے تو بس فوج کی۔ کیونکہ انگریز نے انہیں مارشل ریس کی فہرست میں شامل کردیا تھا۔
چونکہ کاشتکاری میں تعلیم ثانوی درجہ رکھتی ہے لہٰذا جب تک ساٹھ کی دہائی کے سبز زرعی انقلاب کے سحر کے اسیر ہریانوی جاٹ کا گھر فصل کی آمدنی سے چلتا رہا وہ مست رہا۔ کوئی لمڈا کچھ پڑھ لکھ گیا بھی تو زیادہ سے زیادہ کانسٹبل، چھوٹا موٹا وکیل، پراپرٹی ڈیلر، ماسٹر جی، کھلاڑی، پہلوان یا فوجی ہو گیا۔ ہریانوی جاٹ نے یہ بھی نہ سوچا کہ غلہ تاجر، کمیشن ایجنٹ، ڈیری فارمر اور رائس ملر بنئے، کھتری اور اروڑے ہیں اور جاٹ بس اکڑو کسان۔ اور اگر ان کے پاس ہے تو بس سیاسی طاقت۔

خود پرستی اور انانیت :

اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’ہیٹلی جاتوں‘ کے بچے جنہیں خود پرست جاٹ منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا تھا آہستہ آہستہ انگریزی سیکھنے لگے، ٹکنیکل ایجوکیشن میں جانے لگے۔ جاٹ کو پتہ بھی نہ چلا کہ کب سیاسی و اقتصادی پاور کا مرکز زمینداری کے ہاتھوں سے پھسل کر شہری کارپوریٹ مڈل کلاس کے ہاتھوں میں شفت ہوگیا اور اس کلاس کے چھوکرے چھوکریاں پچاس ہزار، لاکھ دو لاکھ مہینے کی پگار سے عملی زندگی شروع کر رہے ہیں اور میاں جاٹ کو فی ایکڑ پچاس ہزار روپے سال کے بھی بچ جائیں تو بڑی بات ہے۔

کہاں ملی احتجاج کی ترغیب؟

چنانچہ ہریانہ کا جاٹ کسان جب 20 ہزار روپے ماہانہ کی اوسط آمدنی میں قید ہوگیا کہ جس میں بچوں کو انگریزی اسکول تک بھیجنا بھی محال ہے تو اس کی آنکھ کھلی اور اس نے بھاگم بھاگ ترقی کی اس ٹرین پر چڑھنے کی کوشش کی کہ جس میں دیگر جاتیوں کے لوگ پہلے ہی کھچا کھچ بھرے تھے۔
ایک ہی راستہ بچا تھا کہ جس طرح راجستھان، یو پی، دلی اور مدھیہ پردیش کے جاٹوں نے اپنی روایتی اکڑ کی پگ معیشت کے دیو کے قدموں میں بروقت رکھ کر خود کو پسماندہ ذاتوں کے کوٹے سے جڑوا لیا ویسا ہی کوٹہ ہریانہ کے جاٹوں کو بھی مل جائے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ تمام تعلیمی و ملازمتی کوٹے 20 برس پہلے ہی بھر چکے اور سپریم کورٹ کے حکم کے تحت کسی بھی سرکاری ملازمت میں ریزرویشن کوٹہ 49 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔

تفاخر کی دوڑ :

چنانچہ جاٹوں نے گھیراؤ، جلاؤ، پتھراؤ کا راستہ اختیار کیا اور اب تک ہریانہ کے مختلف شہروں میں 19 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ مگر اس مسئلے کا کوئی فوری حل دکھائی نہیں دیتا۔ گذشتہ اگست میں بھارت کی سب سے ترقی یافتہ ریاست گجرات کے پٹیل کسانوں نے ایک نوجوان ہردیک پٹیل کی قیادت میں ریزرویشن میں حصہ مانگنے کے آندولن میں دس پٹیل مروا دئے۔ مہاراشٹر کے نسلی و تاریخی تفاخر کے مارے مراٹھا اور راجستھان کے گجر بھی معاشی پسماندگی میں گھرنے کے سبب ریزرویشن کے ڈبے میں سوار ہونا چاہتے ہیں مگر جو ڈبے کے اندر پہلے سے ہیں وہ کسی قیمت پر دروازہ کھولنا نہیں چاہتے۔ سرکار نے اگر زبردستی دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تو اندر والے ٹرین کو توڑ بھی سکتے ہیں۔

مزید تشدد کے خدشات :

سرکاری نوکریاں باقی نہیں بچیں اور قلانچیں بھرتے ہوئے معیشت پر گرفت مضبوط کرنے والے پرائیویٹ سیکٹر کو جس معیار کے سافٹ وئیر انجینرز، مینجمنٹ ایگزیکٹو، سائنسداں، ٹیکنالوجسٹ اور طبی ماہرین درکار ہیں اسے حاصل کرنے میں یہ برادریاں پیچھے رہ گئی ہیں۔ اب سخت مقابلے کی دیوار ہے اور ان کا سر۔ جوں جوں بھارتی معیشت مڈل سے ہائی ٹیک ہوتی چلی جائے گی توں توں آبادی کے پیچھے رہ جانے والے مختلف نیم اعلیٰ طبقات میں متشدد بے چینی بڑھتی چلی جائے گی۔ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ اس مشہور گانے کا خالق ادتیہ پرتیک سنگھ سسوڈیہ بھی ہریانوی جاٹ ہیں ۔ ایسے میں بھلا مسلمانوں کی پسماندگی پر ٹسوے بہاتی سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کروانے کیلئے کون مائی کا لال جرات کرے گا؟

Why Jats are protesting

It is said, railway station, mall, several police and civilian vehicles and a minister's house set on fire, an armoury looted, highways dug up, rail tracks damaged. Jat protesters demanding reservation in jobs and education in Haryana have unleashed a reign of violence across the state.
According to reports, the Jat quota agitation has crippled Haryana for the second time in less than a year. The latest protest, however, has been more violent. This quota issue goes back to the 1990s.
Jats: The Jats are primarily farmers. Traditionally, they are not considered backward. They are economically and politically well off.  Jats are 29 per cent of Haryana's total population.
Demand: Jats are demanding to be declared OBC (other backward class), which will help them secure the 27 per cent OBC reservation in government jobs.
What the Haryana govt offered them: Jats have rejected the Special Backward Class quota offered by the Khattar government on the basis of their economic status.
The Supreme Court's take: Hearing a plea of the Jats, the Supreme Court had made it clear that caste alone cannot be the reason to approve reservation for a certain community. The top court had said that to determine backwardness of a community, social backwardness should be the prime concern. The Supreme Court has capped caste based reservation upto 50 per cent and if the Haryana government succumbs to Jat pressure and add Jat quota to the present OBC reservation (27 per cent plus SC, ST quota of 22.5 per cent) it will be flouting Supreme Court's rules.   Ever since the implementation of Mandal Commission report in 1991, Jats have been opposing mention in the OBC list of the Union government and other states.
In 1997, Jats in Haryana, Uttar Pradesh and Madhya Pradesh demanded them to be included in the central OBC list. It was reject by the National Commission for Backward Classes.
In 2012, a survey was conducted in six states on the directives of the commission to review the economical and social status of the Jats. States like Haryana and Uttar Pradesh were also included in the survey. In Haryana, the survey conducted compared the Jats to higher castes.
During 2004 Haryana Assembly election campaign, Congress's Bhupinder Singh Hooda promised Jats a quota. Hooda won the election.
Ahead of Assembly election in 2014, Hooda included Jats and four other castes in Specially Backward Class (SBC) quota.
However, in July 2015, the Punjab and Haryana High Court rejected the Hooda government's plan to give 10 per cent reservation to the Jats after the Supreme Court refused the state government's quota recommendations.
Centre's decision to include Jats from 9 states - Haryana, Uttar Pradesh, Madhya Pradesh, Rajasthan, Gujarat, Himachal Pradesh, Uttarakhand and Bihar - in OBC list rejected by the Supreme Court in March, 2015.

No comments:

Post a Comment