سلطنت مغلیہ کے آخری چراغ کو گل ہوئے ۱۳ سال گذر گئے۔ ہندو اور مسلمان حرّیت اوراستخلاص وطن کی آخری جدوجہد میں ناکام ہوچکے۔ سبز رنگ کا قمی نشان صلیبی نشان کے سامنے سر نگوں ہوچکا۔ دہلی کے لال قلعہ پر اسلامی پرچم کے بجائے یونین جیک لہرا رہا ہے۔
ایک ایک کر کے ہر اس شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یا جلاوطن کر دیا گیا جس نے تحریک حریت میں کوئی بھی جد جہد کی تھی۔ سینکڑوں علماء ہیں جنہوں نے دارو رسن کی مظلومانہ موت کو لبیک کہا اور جام شہادت پی کر ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئے۔ ہزاروں خاندان ہیں جو جاہ و جلال کی سربلندیوں کی بجائے بے کسی، تباہی اورخانہ بربادی کی پستیوں میں گر کر’’ان الملوک اذا دخلوا قرےۃ افسدوہا وجعلوا اعزۃ اہلہا اذلۃ‘‘کے فطری اصول کا تختہ مشق بن چکے۔
انقلاب کی تباہ کاریوں نے مسلمانوں کو اس درجہ پیس ڈالا کہ عمل تو درکنار سیاست کے نام سے بھی لرزنے لگے۔ ہندوستان کے طول و عرض پر عیسیٰ مسیح کے مذہب کا جھنڈا لہرانے کے شوق میں عیسائی اور مسلم نما پادری سانپ بچھو کی طرح ظلمت کدۂ ہند کے چپہّ چپہّ میں رینگنے لگے۔نظام تعلیم کی تباہی نے ایک عام جہالت کی چادر تمام ہندوستان پر تان دی۔ شاہ عالم کے معاہدہ کے برخلاف حکومت کی زبان انگریزی قرار دیکر عربی و فارسی کے تمام مکاتب و مدارس کو پیغام فنا سنا دیا گیا۔ علماء ملت کو دیہاتی جاہل سے بھی زیادہ بے حیثیت کر دیا گیا۔اسکولوں اور کالجوں کا کورس وہ تجویز کیا گیا جو مسلمان بچوں کو عیسائی نہ بنا سکے تو کم از کم ان کی رائے میں اتنی تبدیلی ضرور پیدا کرے کہ وہ اپنے مذہب کو لغو سمجھنے لگیں۔ایک مصیبت تھی، تباہی تھی جسمیں مسلمانان ہند پہلی مرتبہ مبتلا ہوئے تھے، تمام چارے ختم ہوگئے تھے، تقدیر تدبیر پر غالب آچکی تھی۔
جب شجر اسلام کی آبیاری نہ ہو تو اسلام سوز باد سموم کے تیزوتند جھونکوں میں اس نخل نو کا بقا کہاں؟ اس تاریک دور میں سیست اور مذہب کا سب سے بڑا مطالبہ یہی تھا کہ ملت اسلامیہ کو ڈاکؤوں اور رہزنوں اور ایسے افراد سے بچایا جائے جو مار آستین ہوں۔ اور ایک ایسا نظام قائم کردیا جائے جس کے ذریعہ مسلمان مسلمان رہ سکے۔ یہی وقت کا اہم ترین فرض تھا۔ اگر مسلمان مسلمان ہوگا اسلام اسلام ہوگا تو سیاست کے انقلاب میں کبھی وہ بازی لیجائیگا۔
’تلک الایام نداولہا بین الناس‘۔
لیکن اگر مسلمان مسلمان نہ رہے الحاد اور زندقہ کا نام اسلام رکھ دیا جائے تو پھر جو بھی ترقی ہوگی وہ اسلام کی ترقی نہ ہوگی ، کفرو الحاد و زندقہ کی ترقی ہوگی۔
ہاں کچھ وہ بھی تھے کہ انکے مقدس ایمان کے نور فراست نے دیدۂ بصیرت کو اس قدر تیز کردیا تھا کہ مستقبل بعید کو اپنے تدبر و تفکر کے آئینہ میں حال کی طرح دیکھ رہے تھے۔ ان ہی پاکبازوں کی پیشانیاں سر بسجود ہوئیں۔ اوقات سحر میں قاضی الحاجات کی بارگاہ میں دست دعا بلند کئے گئے۔انکے تضرع و ابتہال پر لطف الہی کا ترشح سرزمین ہند کی طرف منعطف ہوا۔ اور ہندوستان میں تحفظ اسلام کی ایک تجویز پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔یوں کہو رسالت عظمیٰ کے عہد مقدس کا ایک صفحہ انکی آنکھوں کے سامنے آگیا۔
تجویز کردہ لائحہ عمل:
سیاست کے نام پر کوئی تحریک انگریزی پالیٹکس میں حرام تھی، تنظیم قوم اول تو خود خطرناک چیز تھی۔ پھر کسی مقصد کے بغیر تنظیم ناممکن۔ محض وعظ و تبلیغ یا فتویٰ نویسی موجودہ نسلوں کے لئے مفید ہوجاتی ہے مگر آئندہ کے لئے ان چیزوں میں تحفظ ملت کی کوئی قوت نہیں۔ہاں ایک چیز اور صرف اور صرف ایک چیز تھی جسکا نقشہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں صفہ کی صورت میں نظر آیاتھا۔
اب اس کو مدرسہ کی شکل دی گئے یعنی محض اللہ کے توکل پر مذہبی مدارس کا ایک سلسلہ قائم کیا جائے جو مسلمانوں کو مسلمان اور اسلام کو اپنی حقیقت کے ساتھ باقی رکھ سکے۔انگریزی کالجوں اور اسکولوں کے مقابلہ میں ایسے مدارس کا قیام نہایت دشوار تھا کیونکہ زمانہ کا انقلاب ، طبائع کا تغیر، انگریز کا اقتدار ایسے مدارس کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔لیکن ان مقدس اکابر نے تحفظ ملت اور بقاء اسلام کی خاطر ہر قسم کی قربانی، جفا کشی، فاقہ مستی اور ایثار کو منظور کیا۔ اور محض اللہ پر بھروسہ کرکے خاندان ولی اللّٰہی کے جانشینوں نے سرزمین دیوبند، سہارن پور اور پھر مراد آباد کی طرف عنان جدوجہد کو منعطف کیا۔
دیوبند میں دارالعلوم، سہارن پور میں مظاہرالعلوم، مراد آباد میں مدرسہ قاسم العلوم عرف مدرسہ شاہی قائم کیا گیا۔ ان مدارس میں دارالعلوم نے مرکزیت کی شان حاصل کرلی اور واقعہ تو یہ ہے کہ وہ عظمت حاصل کی جس کی نظیر سے مسلمانوں کی تاریخ خالی ہے۔
(علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے/مولانا سید محمد میاں صاحب/ص:۴۹تا۵۳/ج:۱)
بانیان دارلعلوم دیوبند:
(۱) حضرت حاجی حافظ سید عابد حسین صاحب قدس سرہ ۔ دیوبند میں دینیات کی تعلیم کے لئے ایک مکتب کے قیام کا تخیل سب سے پہلے آپ ہی کے ذہن میں آیا۔
(۲) مولانا مہتاب علی صاحب: حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب قدس سرہ العزیز کے عم اکبر(تایا) تھے۔ ان دونوں بزرگوں نے مشورہ کرنے کے بعد ایک مکتب کے قیام کی تحریک کی۔
(۳) تیسرے بزرگ جنکو بانیان کے سلسلہ میں شمار کرنا چاہئے وہ جناب شیخ نہال احمد صاحب رئیس اعظم دیوبند تھے۔
(بحوالۂ سابق/ص:۶۵)
بانی اعظم:
بلا شبہ دیوبند میں پاک باطن بزرگوں کی ایک جماعت تھی جس نے ایک مکتب کی بنیاد ڈالی۔ مگر جس مقدس بزرگ نے معمولی مکتب کے خاکہ پر دارالعلوم جیسی عظیم الشان انقلابی درسگاہ کی بنیاد رکھی وہ حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم صاحب کی ذات گرامی تھی۔
(بحوالۂ سابق/ص:۶۸)
تاریخ قیام:
۱۵؍ محرم الحرام ۱۳۸۳ ھ مطابق ۱۸۶۷ ء یوم پنجشنبہ اسلامئ ہند کی تاریخ کا وہ مبارک دن ہے جس میں ارض بطحاء کا چشمۂ علم سرزمین ہند سے پھوٹا۔ رشدو ہدیٰ کا ایک پودہ سرزمین دیوبند میں لگایا گیا جو بہت جلد شجر طوبیٰ بنا۔ تاریخ مذکور پر چند باخدا بزرگوں کا اجتماع ہوا۔ چندہ جمع کیا گیا۔ اورمسجد چھتہ کے فرش پر درخت انار کی ٹہنیوں کے سایہ میں ایک مدرسہ کا افتتاح ہوا۔
(بحوالۂ سابق/ص:۷۳)
سب سے پہلے:
دارالعلوم کے سب سے پہلے مدرس ملاّ محمود صاحب تھے۔ سب سے پہلے متعلم حضرت مولانا محمود الحسن صاحب قدس سرہ العزیز تھے۔سب سے پہلے مہتمم حضرت حاجی حافظ سید عابد حسین صاحب ؒ بنائے گئے۔
No comments:
Post a Comment