رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یقیناً سایہ تھا، بعض لوگ حافظ سیوطی کی کتا ب “خصائصِ کبریٰ ” میں ذکر کردہ روایت آپ کے سایہ کی نفی میں پیش کرتے ہیں، جبکہ ائمہ اہل سنت میں سے کوئی بھی اس عقیدہ کا حامل نہیں رہا، “صحیح” احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سایہ مبارک ثابت ہے:
۱٭ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک سفر میں تھے، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے اونٹوں میں ایک فالتو اونٹ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا ، صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا تھا، آپ اسے اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ دے دیں تو بہتر ہے ،
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا، میں ایک یہودیہ کو اونٹ دے دوں؟ (صفیہ رضی اللہ عنہا ایک یہود ی سردار حییٔ بن اخطب کی بیٹی تھیں)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو یا تین ماہ تک نہ گئے ، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ، میں مایوس ہوگئی، میں نے اپنی چارپائی وہاں سے ہٹا دی، کہتی ہیں:
فبینما أنا یوماً بنصف النھار اذا أنا بظلّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبل.
“ایک دن دوپہر کے وقت میں نے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سایہ مبارک آتے دیکھا۔ ” (مسند الامام احمد : ۱۳۲/۶ ، ۲۶۱ ، طبقات ابن سعد : ۱۲۶-۱۲۷/۸ ، وسندہ صحیح)
اس حدیث کی راویہ شمیسہ بنتِ عزیز کے بارے میں امام یحییٰ بن معین فرماتےہیں کہ یہ “ثقہ” ہے ۔ (تاریخ الدارمی عن ابن معین : ت۴۱۸ ، الجرح و التعدیل لا بن ابی حاتم : ۳۹۱/۴)
نیز امام شعبہ نے اس سے روایت لی ہے ، وہ “ثقہ” سے روایت لینے میں مشہور ہیں ، اس پر “جرح” کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں ہے ، لہٰذا بلاشبہ یہ “ثقہ” ہے ۔
یہی روایت سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ۔ (مسند الامام احمد : ۳۳۸/۶)
یہ حدیث نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سایہ مبارک کے ثبوت پر نصِّ صریح ہے ۔
۲٭ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیساتھ صبح کی نماز پڑھی ، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ہاتھ مبارک پھیلایا، پھر پیچھے کھینچ لیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے دریافت کیا ، اے اللہ کے رسول، آپ نے اس نماز میں ایک ایسا کام کیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کیا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، میں نے جنت دیکھی ، وہ مجھ پر پیش کی گئی ، اس میں مَیں نے انگوروں کی بیل دیکھی ، جس کے خوشے (گچھے) قریب قریب تھے ، اس کے دانے کدو کی طرح تھے ، میں نے اس سے کچھ کھانے کا ارادہ کیا تو جنت کی طرف اس بات کا اشارہ کیا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائے ، چنانچہ وہ پیچھے ہٹ گئی ، پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی ، اس جگہ جو میرے اور تمہارے درمیان ہے ، حتّٰی
رأیت ظلّی و ظلّکم
(یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا) ، میں نے تمہاری طر ف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ تو میری طر ف وحی کی گئی کہ ان کو اپنی جگہ کھڑا رہنے دیں ، بے شک آپ نے بھی اسلام قبول کیا اور انہوں نے بھی اسلام قبول کیا ، آپ نے ہجرت کی اور انہوں نے بھی ہجرت کی ہے ، آپ نے جہاد کیا اور انہوں نے بھی جہاد کیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، میں نے اپنے لئے سوائے نبوت کے تم پر کوئی فضیلت نہیں دیکھی ۔ “
(صحیح ابن خزیمہ: ۵۱/۲ ، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ابوعوانہ (کمافی اتحاف المھرۃ لابن حجر: ۱۲/۲ ، ح : ۱۰۹۶) اور حافظ الضّیاء المقدسی (المختارۃ : ۲۱۳۶) نے “صحیح ” کہا ہے ، امام ابوعوانہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ایک ہزار احادیث کے برابر ہے ۔
امام حاکم (۴۵۲/۴) نے اس کو “صحیح الاسناد” اور حافظ ذہبی نے “صحیح” کہا ہے ۔
یہ حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سایہ مبارک کے ثبوت پر بین دلیل ہے ۔
تنبیہ: بعض الناس نبی کریم صلی اللہ وسلم کے سایہ مبارک کی نفی میں یہ روایت پیش کرتے ہیں:
أخرج الحکیم الترمذی من طریق عبدالرحمٰن بن قیس الزعفرانی عن عبدالملک بن عبداللہ بن الولید عن ذکو ان أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یُری لہ ظل فی شمس ولا قمر.
“نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا سایہ نہ سورج کی روشنی میں نظر آتا تھا نہ چاند کی چاندنی میں۔”
(الخصائص الکبریٰ للسیوطی : ۷۱/۱)
تبصرہ: یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے ۔
۱: اس کا راوی عبدالرحمٰن بن قیس الزعفرانی “متروک و کذاب” ہے۔
۲: عبدالملک بن عبداللہ کو ملا علی قاری حنفی نے “مجہول” کہا ہے ۔ (شرح الشفاء : ۲۸۲/۳ ، طبع مصر)
۳: ذکوان تابعی ہیں ، لہٰذا یہ “مرسل” ہے ، اس لیے قابلِ حجت نہیں ہے ، نیز یہ صحیح احادیث کے مخالف بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment