Saturday, 20 February 2016

فبی آلآ ربکما تکذبان A Dolphin Saves A Drowning Dog

ایس اے ساگر

ان دنوں انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک ڈولفن مچھلی ڈوبتے ہوئے کتے کی مدد کرتی ہے. اپنی انسان دوستی کیلئے مشہور ڈولفن کا یہ عمل واقعی قابلِ ستائش ہے. شائقین اس منظر کو دیکھ کر دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہوجاتے ہیں. لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ختم نبوت کے طفیل پورے عالم میں بالکل اسی طرح دعوت و تبلیغ کے عنوان سے جاری کام کیساتھ اس کی کتنی مماثلت ہے. گوشت خور ہونے کے باوجود ڈولفن نے کتے کو لقمہ تر نہیں سمجھا. سمجھتی بھی کیسے جبکہ کتا حلال نہیں ہے. بصورت دیگر ہم نے اپنے انڈمان سفر کے دوران خود دیکھا کہ شارک مچھلی حلال و حرام کی تمیز سے مبرا ہوتی. سمندر میں غرقاب حادثہ کے شکار انسانوں کو منٹوں میں چٹ کرجاتی ہے. یہ الگ بات ہے کہ ڈولفن ڈوبتوں کو لقمہ بنانے کی بجائے کنارے لگاتی ہے . بالکل اسی طرح جیسے کہ دعوت و تبلیغ سے وابستہ مخلصین پورے عالم کی سلامتی کیلئے کسی بھی پرفتن ماحول میں اتر کے افراد کو راہ راست پر لانے کی سعی کرتے ہیں.

بلیات کے دروازے بند :

جہاں کہیں دعوت کی محنت ہوتی ہے، وہاں سے بلاوں کا دفعان ہوتی ہیں اور خیر کا نزول ہوتا ہے. پنج وقتہ نمازوں کیلئے جب دعوت تامہ اذان دی جاتی ہے تو شیاطین دفع ہوتے ہیں. ڈولفن سمندر کے جس حصے میں پہنچ جاتی ہے وہاں سے شارک جیسی ہلاکت خیز مچھلی دم دبا کر بھاگ جاتی ہے.

سیکھنے کا ہنر :

عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہے کہ ڈولفن ایسی سمندری مچھلی ہے جو اپنے بچوں کو خواتین کی طرح دودھ پلاتی ہے۔ یونانی زبان میں ڈولفن کے معنی ہی رحم والی مچھلی ہے جبکہ عربی میں اسے  دخس کہا جاتا ہے۔ اس کے چند انواع میٹھے پانی میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سمندری مخلوق بہت جلد کوئی بھی چیز سیکھ لیتی ہے۔ جبکہ دعوت کی محنت میں لگنے والے احباب دین کی طلب میں جلد سیکھنے والے تسلیم کئے جاتے ہیں.

اجتماعیت کی برکات :

ماہرین کے مطابق یہ مچھلی کسی بھی زبان میں دئے جانے والے چند احکام کو ضروریات کے مطابق سمجھ سکتی ہے۔ اسے سماجی جاندار کہا جاتا ہے جو اجتماعیت کیساتھ  رہتی ہے۔ اس کے گروپ کو  ’اسکول‘ کہا جاتا ہے جسے مدرسہ بھی کہہ سکتے ہیں. اس کے گروپ میں 10 تا 12 ڈولفن پائی جاتی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ دعوت کی مبارک محنت کے تحت بننے والی جماعت کے ساتھیوں کی تعداد بھی عام طور پر اتنی ہی ہوتی ہے.

ساتھیوں کی مدد :

دعوت میں شامل احباب مدتوں بعد بھی کسی دور دراز علاقے کے ساتھی کو نہیں بھلا پاتے اور مستقل  اس کی خیر خواہی میں لگے رہتے ہیں. بعینہ  اس سمندری مخلوق کے پاس دوستی اور رشتہ کی بہت قدر ہوتی ہے۔ مادہ ڈولفن ایام حمل کے وقت تیزی کساتھ تیرتی رہتی ہے تاکہ ماں اور بچے کے درمیان لگی ڈور ’آنول‘ Umbilical Cord کٹ جائے۔ یہ ڈور منقطع ہوجانے کے بعد ماں فوری اپنے بچے کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور اپنے بچے کو سطح آب پر لے جاکر اس کے تنفس کے نظام کو بحال کرتی ہے۔

عدیم المثال دوستی :

اسی طرح ڈولفن کی دوستی بھی مثالی ہوتی ہے۔ جب کوئی ڈولفن زخمی یا بیمار ہوجائے تو اس کی کراہت کی آواز سے دوسری ڈولفن اس کے پاس آجاتے ہیں اور اس زخمی یا بیمار کو پانی کی سطح پر پہنچاکر اس کے نظام تنفس کو بحال کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مادہ ڈولفن 5 سال اور نر 7 سال میں تولیدی فعل انجام دینے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ یہ پانی سے نکل کر 20 فٹ اُوپر تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مدت حمل اور رضاعت میں مماثلت :

ڈولفن میں مدتِ حمل ایک سال ہوتی ہے۔ 12 ماہ کے بعد بچہ پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ اپنے بچہ کی نگہداشت کی ذمہ داری اپنی ماں یا کسی دوست کے سپرد کرنے والی ڈولفن کسی دوسری مچھلی کو اپنے بچہ کے قریب جانے نہیں دیتی۔ اس کا بچہ 4 فٹ لمبا اور 20 کلو وزنی ہوتا ہے۔ پیدائش کے چھ گھنٹے بعد ڈولفن اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے۔ دو برس تک بچوں کو پالتی ہے جبکہ قریب اتنی ہی مدت بنی نوع انسان کیلئے بھی مقرر ہے.

غذائی عادت اور عمر میں یکسانیت :

ڈولفن گوشت خور سمندری جانور ہے۔ وہ روزانہ 20 کلو چھوٹی بڑی مچھلیاں کھالیتی ہے۔ اس کے منہ میں تقریباً ایک سو دانت پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ مخلوق 40 تا 50 سال تک زندہ رہتی ہے۔ اس کا جسم تیرنے کے لئے موزوں رہتا ہے۔ یہ بسا اوقات 2 ہزار فٹ گہرائی میں بھی چلی جاتی ہیں۔ وہ پانی میں بھی آسانی سے دیکھ سکتی ہے۔ یہ آوازوں کی شناخت کرتی ہے۔ اس لئے اسے ’انسان دوست‘ مچھلی کہا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ڈولفن کا سانس لینے کا عمل انسان کے برعکس ارادی ہوتا ہے۔

آنسوؤں کا نکلنا :

لیکن اس کی آنکھوں سے انسان کی طرح آنسو نکلتے ہیں جبکہ یہ آنسو اس کی آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ کاش امت میں پوری انسانیت کیلئے آنسو بہانے کا مزاج عام ہوجاتا. اس کی قیمت تو آخرت میں پتہ چلے گی.مختصر یہ کہ ڈولفن ہر 10 تا 15 منٹ بعد پانی کے اُوپر آکر سانس لیتی ہے۔ یہ بلوہول کے ذریعہ سانس لیتی ہے جو دراصل یہ سوراخ ’بلوہول‘ نتھنوں کی متبدلہ شکل ہوتی ہے۔ تحقیق کی جائے تو نہ جانے ایسی کتنی مماثلتیں منظر عام پر آئیں جس سے ایمان کو مزید تقویت ملے!


No comments:

Post a Comment