ایس اے ساگر
برصغیر ہند، پاک میں ان دنوں یہ سوال گردش کرنے لگا ہے کہ اسلام میں عورت طلاق کیوں نہیں دے سکتی؟ جبکہ اغیار میں یہ اختیار عورتوں کو حاصل ہے. ایسی ذہنیت کے حامل لوگ تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھتے.جبکہ بہو کو زندہ جلانے کے سانحات اسی اختیار کی بدولت وجود میں آتے ہیں. اس کے باوجود بعض خطوں میں تو ایسے نکاح نامے بھی وجود میں آگئے ہیں جن میں مرد اپنا طلاق کا اختیار عورت کو تفویض کردیتا ہے. اس کی شرعی حیثیت پر بات کرنے سے قبل سب سے پہلے یہ جان لیں کہ بعض اہل علم کے نزدیک دین اسلام میں 'خاندان' ایک نہایت اہم ادارہ ہے. ایسا ادارہ جہاں فرد کی تعمیر ہوتی ہے، جہاں نسل زندگی پاتی ہے، جہاں سے ایک تربیت یافتہ معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے. کسی بھی خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت مل کر شروع کرتے ہیں. یہ رشتہ جو ان کے درمیان قائم ہوتا ہے اسے کامیاب بنانے کیلئے کچھ الہامی ہدایات دی گئی ہیں.
کیا ہیں حفظ مراتب ؟
جس طرح کسی ادارے کی کامیابی کیلئے لازم ہے کہ اس کا ایک سربراہ ہو ، اسی طرح خاندان کے ادارے کو کامیاب بنانے کیلئے شوہر کو سربراہ بنایا گیا ہے. اس سے ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ مرد عورت سے افضل ہے. دونوں کو برابر عزت و توقیر دی گئی ہے مگر مختلف صورتوں میں مختلف 'حفظ مراتب' کا خیال رکھا گیا ہے. لہٰذا ماں باپ کے درجات میں ماں کو تین گنا زیادہ درجہ حاصل ہے حالانکہ باپ مرد ہے اور ماں عورت. خاندان کے ادارے کی صورت میں شوہر کو مراتب میں سربراہ بنایا گیا ہے. یعنی کسی صورت میں ایک کی دوسرے پر برتری جنس کے حوالے سے نہیں بلکہ رشتہ کے مراتب کی بنیاد پر ہے.
معزول کرنے اور مستعفی ہونے کی ترتیب :
ہمسفر، شریک حیات، جیون ساتھی، لباس ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مراتب میں فرق نہیں ہوسکتا. سفر میں بھی نظم قائم رکھنے کیلئے ایک کو 'امیر' بنایا جاتا ہے. اس مراتب کے فرق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں انسانوں میں دوستی کا رشتہ نہیں ہوگا. یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ماں اپنی بیٹی کی بہت اچھی دوست ہوسکتی ہے مگر مراتب کا فرق پھر بھی برقرار ہوگا. جب یہ بات سمجھ آگئی تو ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ادارے میں شمولیت ادارے کے سربراہ اور ادارے کے رکن دونوں کی باہمی رضامندی سے ہوا کرتی ہے. لیکن جب برطرفی کا معاملہ ہو تو سربراہ آپ کو براہ راست برطرف کر سکتا ہے اور رکن درخوست کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے. آسان لفظوں میں ایک فریق 'ڈس مس' کر سکتا ہے جبکہ دوسرا 'ریزائن '. یہی معاملہ طلاق کا ہے ، ایک براہ راست طلاق دے کر رشتہ ختم کرسکتا ہے جبکہ دوسرا خلع کے ذریعے علیحدہ ہوسکتا ہے.
تین مختلف اوقات :
طلاق تین مختلف اوقات پر دی جاتی ہے ، اور ہر طلاق کے بعد ایک مدت مقرر ہے جس میں دونوں فریق سوچ سمجھ کر ترک یا رجوع کا رستہ اپنا سکتے ہیں. اب اگر ایک شوہر گھر کا سربراہ تو بن گیا مگر خدا کی جانب سے دی گئی اس ذمہ داری کو اس نے مذاق بنا لیا. اس نے ایک بار طلاق دی پھر رجوع کر لیا ، دوسری بار دی پھر رجوع کرلیا لیکن اس کے بعد پھر تیسری بار طلاق دے بیٹھا. اب ظاہر ہے کہ ایسے شخص نے اس انتہائی نازک معاملے کو تماشہ بنا لیا ہے. ایسی صورت میں اب وہ رجوع کا اختیار کھو بیٹھا. اس عورت کو اب اجازت ہے کہ وہ اپنی زندگی کسی دوسرے مرد سے منسوب کر کے نکاح کرلے. یہ دوسرا نکاح عارضی نہیں ہوسکتا ، حلالہ کے نام پر آپ عارضی نکاح نہیں کرسکتے.
کرائے کا سانڈ !
اس طرح کے حلالہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور کرائے کے سانڈ جیسے سخت الفاظ سے تعبیر کیا ہے. یہ دوسرے شخص سے نکاح اس نیت سے ہی کیا جائے گا کہ ایک نیا کامیاب خاندانی ادارہ قائم ہو. لیکن خدا نہ کرے اگر اس بار بھی کوئی بات بگڑ گئی اور طلاق واقع ہوگئی تو اب عورت آزاد ہے کہ وہ کسی تیسرے شخص یا اسی پہلے شوہر سے واپس نکاح کرلے.
شرائط کی گنجائش :
یہ امر بھی غور طلب ہے کہ نکاح نامہ میں ایسی شقیں موجود ہیں جس میں خاتون طلاق کے متعلق اپنی شرائط رکھ سکتی ہیں لیکن اکثر اسے بتایا نہیں جاتا بلکہ اس حصہ پر کاٹی لگادی جاتی ہے. اسی طرح اگر کوئی شرعی قدغن نہ ہو تو نئی شرائط کو بھی اہل علم کے ذریعے متعین کیا جاسکتا ہے. اس کی مثال بھی ایسی ہی ہے جیسے ایک ادارے کا سربراہ اور رکن معاہدہ کے آغاز ہی میں عموم سے ہٹ کر کچھ اضافی شرائط طے کرلیں.
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شوہر اپنا طلاق کا حق بیوی کے علاوہ کسی اور کو تفویض کر سکتا ہے؟ اگر کر سکتا ہے تو تفویض کرنے کے بعدشوہر طلاق دے تو کیا طلاق مئوثر ہو گی یا نہیں؟
اس کے جواب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے دارالفتا کے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جی ہاں، شوہر اپنا حقّ طلاق کسی اور کو بھی تفویض کرسکتاہے، اور اس تفویض کے بعد بھی شوھر کو حسبِ سابق طلاق دینے کاحق رہتا ھے۔
اختیار دینے کا طریقہ :
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو نکاح کے وقت کون سے الفاظ کہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی وقت خود کو طلاق دے سکے؟ کیسے نکاح کرنا ہوگا؟
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاوٴن کے علمائے کرام کے نزدیک اس کی آسان صورت یہ ہے کہ نکاح سے پہلے شوہر اس طرح کا تحریری یا زبانی اقرار کرے کہ میں فلانہ بنت فلاں کےساتھ نکاح کے بعد اگر فلاں فلاں شرط کی خلاف ورزی کروں تو وہ جب چاہے اپنے اوپر طلاق واقع کرلے۔جتنی طلاقوں کا اختیار مطلوب ہو اتنی طلاقوں کا ذکر کردینا چاہے۔
واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment