ایس اے ساگر
لندن کے بسنے والوں کیلئے18 فروری 2016
بہت سخت ثابت ہوئی۔ ہند نژاد عالم دین اور برطانیہ و یوروپ میں تبلیغی
جماعت کے امیر حافظ یوسف پٹیل کا 92 سال کی عمر میں ویسٹ یاک شائر میں
انتقال ہوگیا۔ انہوں نے لندن کے مرکز کے قیام میں کلیدی رول ادا کیا تھا جو
تبلیغی جماعت کا یوروپین ہیڈکوارٹر شمار کیا جاتا ہے۔اس سانحہ سے پورا
یوروپ ہل کے رہ گیا. یہی وجہ ہے کہ نماز جنازہ میں دس ہزار سے زائد افراد
شامل تھے.جنازہ میں لندن کے علاوہ یوروپی ممالک بشمول فرانس ، جرمنی ،
اسپین اور پرتگال سے کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی۔کل کی سی بات معلوم
ہوتی ہے جب 1960 کی دہائی میں گجراتی مسلم برادری نے انہیں دعوت و تبلیغ
کیلئے لندن مدعو کیا تھا اس کے بعد انہوں نے ایسے غیرمعمولی دعوتی کام
انجام دیئے کہ رہتی دنیا تک انہیں فراموش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن
بھی ہے۔
داعی اسلام کیلئے متکلم السلام کے تاثرات :
عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت کے امیر اور متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسلام تو نازل ہی اس لئے ہوا کہ اس نے ہر سو پھیلنا ہے ، باقی ادیان پر دلائل کی قوت سے غالب ہونا ہے ، تاقیامت رہنا ہے۔ یہ خداوند قدوس کا پسندیدہ دین ہے اس میں ساری انسانیت کی دنیاوی اور اخروی کامیابیاں ہیں۔ یہ خدا کی وہ امانت ہے جو خاتم الانبیاحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کڑے اور تلخ حالات میں امت تک دیانت بلکہ حق دیانت کے ساتھ باکمال پہنچائی جب جہالت، ضد، انا اور خواہشات کے بتوں کو پوجنے والے کسی کی نہیں سنتے تھے۔ پھر دین کی اسی دعوت کو لے کر امت کے جلیل القدر طبقات صحابہ و اہل بیت ، تابعین و تبع تابعین ، فقہا، محدثین ، مفسرین اور اولیااللہ لے کر چلے۔
تواصی بالحق، تواصی بالصبر :
دعوت کا یہ عمل حالات کے مدوجزر کے مطابق اپنے آپ کو برقرار رکھتے ہوئے بلاتعطل پوری آب و تاب کیساتھ مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ اس نے اپنے داعیوں کی تربیت تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی بنیادوں پر کی یعنی باہم حق بات کی تلقین کو مسلسل دہراتے رہنا تاکہ تمہارا ایمان و ایقان پختگی کے اعلی درجے کو پہنچ جائے۔ اور اگر حالات ناموافق آ جائیں تو دل برداشتہ ہو کر اسلام کے دامن عافیت سے ہاتھ نہیں کھینچنا بلکہ خدائے حکیم و خبیر کے حکم صبر پر لبیک کہتے رہنا۔
مولانا الیاس رحمة اللہ علیہ کی فراست :
پچھلی صدی عیسوی میں دین اسلام کی اشاعت کو جو انتظامی طور پر منظم شکل دی گئی وہ حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی رحمہ اللہ بانی تبلیغی جماعت کی فراست ایمانیہ کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کےتمام خطوں میں بسنے والے انسانوں تک اسلام کا پر امن اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں پر منحصر نظام سامنے آ چکا ہے۔
علمی، عملی، روحانی، اخلاقی اور فکری تربیت :
برصغیر میں تبلیغ دین کا عمل نسبتاً یوروپ کے آسان ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں پر اکابر علمااہل السنت والجماعت کی علمی، عملی، روحانی ، اخلاقی اور فکری تربیت زیادہ رہی ہے۔ آج کے اس دور میں جب یوروپ کا نام سنتے ہیں فحاشی ، عریانی ، بے حیائی ، بے لباسی ، بے شرمی اور فکری آوارگی کا تصور ابھر کر ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے-
حافظ صاحب کا درد اور کڑھن :
ایسے دور میں یوروپ میں اسلام کی دعوت انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ ان حالات میں اللہ کریم نے اپنے جس عظیم ولی کا انتخاب کیا دنیا اسے حافظ محمد پٹیل رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ 1962 میں انڈیا سے دل میں ایک درد ، کڑھن ، جذبہ لے کر یوروپ تشریف لائے۔ آپ نے اس عرصے میں یہاں کے کئی بڑے بڑے دینی مراکز قائم کئے۔ کئی مساجد بنوائیں ، خلق خدا کی کثیر تعداد کو تبلیغ جیسی عظیم محنت سے وابستہ کیا۔ ہزاروں لوگوں کی دل کی دنیا بدلی۔ ان کو یوروپ کی غلاظتوں سے پاک کر کے اسلام کے پاکیزہ ماحول سے متعارف کروایا۔ کئی لوگوں کو دولت ایمان سے مالا مال فرمایا۔ اور یہاں کے باسیوں کو دین حق کی حقیقت سے آشنا کروایا۔ ساری زندگی اللہ کیلئے وقف کی حالات کے تیکھے اور تند و تیز جھکڑچلے۔
فحاشی و عریانیت پر شکنجہ :
فحاشی و عریانی ، بے راہ روی کے منہ زور سیلاب آئے۔ لیکن آپ نے نہ صرف یہ کہ وہاں کے لوگوں کو اس سے بچایا۔ بلکہ ان میں ایسی روح پھونکی کہ وہ دوسروں کو بچانے والے بن گئے۔ جس ذات کی محبت، قربت، معیت، وصل اور کے حصول کیلئے آپ نے زندگی بھر تکالیف و مصائب کا سامنا کیا۔ مشکلات جھیلیں بالآخر اسی کے آغوش رحمت میں جا کر ڈیرے
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
حضرت حافظ پٹیل صاحب رحمة اللہ علیہ کے بارے میںحضرت مفتی عبد القادر صاحب بھٹی دامت برکاتہم کا خواب بھی منظر عام پر آچکا ہے جس میںگویا حافظ صاحب فرمارہے ہیں کہ گرچہ میں مرچکا ہوں ،مجھے جہاں چاہے دفنا دو لیکن میری خدمات اور میرے افکار زندہ رہیںگے۔فرماتے ہیں کہ گزشتہ شب جمعہ میں دعوت و تبلیغ کی عظیم ہستی اور خصوصا اہل یوروپ اور امریکہ کی جان حضرت اقدس حافظ محمد صاحب پٹیل رحمہ اللہ تعالی اپنے کروڑہا کروڑ متوسلین کو روتا بلکتا چھوڑکر راہی آخرت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔چونکہ آں مرحوم کی خدمات جلیلہ کا ایک وسیع میدان رھا اور آپ مرحوم نے لوجہ اللہ؛ اللہ کی مخلوق کو اپنے مالک حقیقی کے ساتھ جوڑنے میں ساری عمر کھپادی یہ ایک ایسا عمل ھے جو توفیق خداوندی کے شمولیت کے بغیر نا ممکن ہے جب باری عز اسمہ نے ان کا انتخاب خدمت خلق کیلئے فرمایا تھاتو اب ان کی وفات کے بعد مختلف حضرات کو جو ان کے عقیدت مند رہے، ان کی موت کے بعد مبشرات کے ذریعہ حضرت حافظ رحمة اللہ علیہ کے مقام عالی اور قرب خداوندی کو بتلایا جارہا ہے ۔
کیا دیکھا خواب میں؟
عبدالرحیم صاحب فرماتے ہیں کہ اسی سلسلہ کا خواب بندہ کے برادر کبیر مفتی پنامہ اور مقرر شیریں بیان حضرت اقدس مفتی عبد القادر صاحب کاہے جو اس وقت والد محترم کی خدمت کی غرض سے اپنے آبائی وطن بھٹی میں تشریف فرما ہے۔جس شب حضرت کا انتقال ہوا اسی دن بعد نماز فجر بھائی صاحب تسبیحات کا ورد اور موصوف مرحوم کو ایصال ثواب کرتے ہوئے تھوڑی دیر سستانے کی غرض سے سوئے توکیا خواب دیکھ رہے ہیں کہ حافظ صاحب انتقال فرما چکے ہیں اور آپ کا جنازہ پنامہ لایا گیا اور مسجد کے ایک کنارے رکھا گیا، بس کیا تھا متوسلین کا ایک تانتا بندھا زیارت کیلئے، متوسلین بھائی صاحب کو اور بھائی صاحب متوسیلن کی تعزیت کررہے ہیں۔ اسی درمیان ایک اسی مسجد میں ایک تعزیتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا تو کیا دیکھتے ہیں خود حافظ صاحب اس کی صدارت فرما رہے ہیں،خواب ختم۔
فنا فی التبلیغ:
بھائی صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی تعبیر فوری میرے ذن میں یہ آئی کہ گویا حافظ صاحب فرمارہے ہیں کہ گرچہ میں مرچکا ہوں مجھے جہاں چاہے دفنا دو لیکن میری خدمات اور میرے افکار زندہ رہیں گے اس تعبیر کو بھائی جان نے مدرسہ دعوت الایمان کے تعزیتی اجلاس میں اور چند دیگرعلمائے کبار کے سامنے پیش کی تو سب نے اس کی تائید فرمائی اللہم اغفر لہ وارحمہ اور کیوں نہ ہوتی یہ تعبیر خود قرآن کہتا ہے ۔
ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاعند ربہم یرزقون
نوٹ: بقول برادرمکرم کہ ایک عام نظریہ ہے کہ آں مرحوم فنا فی التبلیغ تھے ۔یہ بات سو فیصد صحیح ہے لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت اس سے آگے جامعیت کی شان رکھتی تھی۔ آپ جامع الشریعت والطریقت تھے اور افکار الیاسی کے حامل اور پکے ترجمان اور مکمل تصویر تھے۔ آں مرحوم نے امریکہ، یوروپ اور دیگر دور دراز کے ممالک میں تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ جو اصلاحی محنتیں کی ہیں، اس کا تصور فرد واحد سے ناممکن ہے، بس یہ ایک خالص تائید ایزدی تھی،
اللہم وفقنا لما تحب وترضی
بندہ کے منجھلے بھائی محمد صالح جو اسم با مسمی ہے اور بہت ہی ظریف الطبع ہے۔ جب آپ کا انڈیا آنا ہوتا تو حضرت حافظ صاحب کی ثنا خوانی کرتے ہوئے بہت ہی ظریفانہ انداز میں فرماتے رہتے کہ جب قیامت قائم ہوگی نا تو پورا پوروپ ،امریکہ،اور فرانس آپ کے پیچھے چل رہاہوگا ۔ان کی امارت تو وہاں دیکھنے کے قابل ہوگی۔
داعی اسلام کیلئے متکلم السلام کے تاثرات :
عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت کے امیر اور متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسلام تو نازل ہی اس لئے ہوا کہ اس نے ہر سو پھیلنا ہے ، باقی ادیان پر دلائل کی قوت سے غالب ہونا ہے ، تاقیامت رہنا ہے۔ یہ خداوند قدوس کا پسندیدہ دین ہے اس میں ساری انسانیت کی دنیاوی اور اخروی کامیابیاں ہیں۔ یہ خدا کی وہ امانت ہے جو خاتم الانبیاحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کڑے اور تلخ حالات میں امت تک دیانت بلکہ حق دیانت کے ساتھ باکمال پہنچائی جب جہالت، ضد، انا اور خواہشات کے بتوں کو پوجنے والے کسی کی نہیں سنتے تھے۔ پھر دین کی اسی دعوت کو لے کر امت کے جلیل القدر طبقات صحابہ و اہل بیت ، تابعین و تبع تابعین ، فقہا، محدثین ، مفسرین اور اولیااللہ لے کر چلے۔
تواصی بالحق، تواصی بالصبر :
دعوت کا یہ عمل حالات کے مدوجزر کے مطابق اپنے آپ کو برقرار رکھتے ہوئے بلاتعطل پوری آب و تاب کیساتھ مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ اس نے اپنے داعیوں کی تربیت تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی بنیادوں پر کی یعنی باہم حق بات کی تلقین کو مسلسل دہراتے رہنا تاکہ تمہارا ایمان و ایقان پختگی کے اعلی درجے کو پہنچ جائے۔ اور اگر حالات ناموافق آ جائیں تو دل برداشتہ ہو کر اسلام کے دامن عافیت سے ہاتھ نہیں کھینچنا بلکہ خدائے حکیم و خبیر کے حکم صبر پر لبیک کہتے رہنا۔
مولانا الیاس رحمة اللہ علیہ کی فراست :
پچھلی صدی عیسوی میں دین اسلام کی اشاعت کو جو انتظامی طور پر منظم شکل دی گئی وہ حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی رحمہ اللہ بانی تبلیغی جماعت کی فراست ایمانیہ کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کےتمام خطوں میں بسنے والے انسانوں تک اسلام کا پر امن اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں پر منحصر نظام سامنے آ چکا ہے۔
علمی، عملی، روحانی، اخلاقی اور فکری تربیت :
برصغیر میں تبلیغ دین کا عمل نسبتاً یوروپ کے آسان ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں پر اکابر علمااہل السنت والجماعت کی علمی، عملی، روحانی ، اخلاقی اور فکری تربیت زیادہ رہی ہے۔ آج کے اس دور میں جب یوروپ کا نام سنتے ہیں فحاشی ، عریانی ، بے حیائی ، بے لباسی ، بے شرمی اور فکری آوارگی کا تصور ابھر کر ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے-
حافظ صاحب کا درد اور کڑھن :
ایسے دور میں یوروپ میں اسلام کی دعوت انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ ان حالات میں اللہ کریم نے اپنے جس عظیم ولی کا انتخاب کیا دنیا اسے حافظ محمد پٹیل رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ 1962 میں انڈیا سے دل میں ایک درد ، کڑھن ، جذبہ لے کر یوروپ تشریف لائے۔ آپ نے اس عرصے میں یہاں کے کئی بڑے بڑے دینی مراکز قائم کئے۔ کئی مساجد بنوائیں ، خلق خدا کی کثیر تعداد کو تبلیغ جیسی عظیم محنت سے وابستہ کیا۔ ہزاروں لوگوں کی دل کی دنیا بدلی۔ ان کو یوروپ کی غلاظتوں سے پاک کر کے اسلام کے پاکیزہ ماحول سے متعارف کروایا۔ کئی لوگوں کو دولت ایمان سے مالا مال فرمایا۔ اور یہاں کے باسیوں کو دین حق کی حقیقت سے آشنا کروایا۔ ساری زندگی اللہ کیلئے وقف کی حالات کے تیکھے اور تند و تیز جھکڑچلے۔
فحاشی و عریانیت پر شکنجہ :
فحاشی و عریانی ، بے راہ روی کے منہ زور سیلاب آئے۔ لیکن آپ نے نہ صرف یہ کہ وہاں کے لوگوں کو اس سے بچایا۔ بلکہ ان میں ایسی روح پھونکی کہ وہ دوسروں کو بچانے والے بن گئے۔ جس ذات کی محبت، قربت، معیت، وصل اور کے حصول کیلئے آپ نے زندگی بھر تکالیف و مصائب کا سامنا کیا۔ مشکلات جھیلیں بالآخر اسی کے آغوش رحمت میں جا کر ڈیرے
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
حضرت حافظ پٹیل صاحب رحمة اللہ علیہ کے بارے میںحضرت مفتی عبد القادر صاحب بھٹی دامت برکاتہم کا خواب بھی منظر عام پر آچکا ہے جس میںگویا حافظ صاحب فرمارہے ہیں کہ گرچہ میں مرچکا ہوں ،مجھے جہاں چاہے دفنا دو لیکن میری خدمات اور میرے افکار زندہ رہیںگے۔فرماتے ہیں کہ گزشتہ شب جمعہ میں دعوت و تبلیغ کی عظیم ہستی اور خصوصا اہل یوروپ اور امریکہ کی جان حضرت اقدس حافظ محمد صاحب پٹیل رحمہ اللہ تعالی اپنے کروڑہا کروڑ متوسلین کو روتا بلکتا چھوڑکر راہی آخرت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔چونکہ آں مرحوم کی خدمات جلیلہ کا ایک وسیع میدان رھا اور آپ مرحوم نے لوجہ اللہ؛ اللہ کی مخلوق کو اپنے مالک حقیقی کے ساتھ جوڑنے میں ساری عمر کھپادی یہ ایک ایسا عمل ھے جو توفیق خداوندی کے شمولیت کے بغیر نا ممکن ہے جب باری عز اسمہ نے ان کا انتخاب خدمت خلق کیلئے فرمایا تھاتو اب ان کی وفات کے بعد مختلف حضرات کو جو ان کے عقیدت مند رہے، ان کی موت کے بعد مبشرات کے ذریعہ حضرت حافظ رحمة اللہ علیہ کے مقام عالی اور قرب خداوندی کو بتلایا جارہا ہے ۔
کیا دیکھا خواب میں؟
عبدالرحیم صاحب فرماتے ہیں کہ اسی سلسلہ کا خواب بندہ کے برادر کبیر مفتی پنامہ اور مقرر شیریں بیان حضرت اقدس مفتی عبد القادر صاحب کاہے جو اس وقت والد محترم کی خدمت کی غرض سے اپنے آبائی وطن بھٹی میں تشریف فرما ہے۔جس شب حضرت کا انتقال ہوا اسی دن بعد نماز فجر بھائی صاحب تسبیحات کا ورد اور موصوف مرحوم کو ایصال ثواب کرتے ہوئے تھوڑی دیر سستانے کی غرض سے سوئے توکیا خواب دیکھ رہے ہیں کہ حافظ صاحب انتقال فرما چکے ہیں اور آپ کا جنازہ پنامہ لایا گیا اور مسجد کے ایک کنارے رکھا گیا، بس کیا تھا متوسلین کا ایک تانتا بندھا زیارت کیلئے، متوسلین بھائی صاحب کو اور بھائی صاحب متوسیلن کی تعزیت کررہے ہیں۔ اسی درمیان ایک اسی مسجد میں ایک تعزیتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا تو کیا دیکھتے ہیں خود حافظ صاحب اس کی صدارت فرما رہے ہیں،خواب ختم۔
فنا فی التبلیغ:
بھائی صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی تعبیر فوری میرے ذن میں یہ آئی کہ گویا حافظ صاحب فرمارہے ہیں کہ گرچہ میں مرچکا ہوں مجھے جہاں چاہے دفنا دو لیکن میری خدمات اور میرے افکار زندہ رہیں گے اس تعبیر کو بھائی جان نے مدرسہ دعوت الایمان کے تعزیتی اجلاس میں اور چند دیگرعلمائے کبار کے سامنے پیش کی تو سب نے اس کی تائید فرمائی اللہم اغفر لہ وارحمہ اور کیوں نہ ہوتی یہ تعبیر خود قرآن کہتا ہے ۔
ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاعند ربہم یرزقون
نوٹ: بقول برادرمکرم کہ ایک عام نظریہ ہے کہ آں مرحوم فنا فی التبلیغ تھے ۔یہ بات سو فیصد صحیح ہے لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت اس سے آگے جامعیت کی شان رکھتی تھی۔ آپ جامع الشریعت والطریقت تھے اور افکار الیاسی کے حامل اور پکے ترجمان اور مکمل تصویر تھے۔ آں مرحوم نے امریکہ، یوروپ اور دیگر دور دراز کے ممالک میں تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ جو اصلاحی محنتیں کی ہیں، اس کا تصور فرد واحد سے ناممکن ہے، بس یہ ایک خالص تائید ایزدی تھی،
اللہم وفقنا لما تحب وترضی
بندہ کے منجھلے بھائی محمد صالح جو اسم با مسمی ہے اور بہت ہی ظریف الطبع ہے۔ جب آپ کا انڈیا آنا ہوتا تو حضرت حافظ صاحب کی ثنا خوانی کرتے ہوئے بہت ہی ظریفانہ انداز میں فرماتے رہتے کہ جب قیامت قائم ہوگی نا تو پورا پوروپ ،امریکہ،اور فرانس آپ کے پیچھے چل رہاہوگا ۔ان کی امارت تو وہاں دیکھنے کے قابل ہوگی۔
Who Was Hafiz Patel?
By: S. A. Sagar
Bina kardan, aye khoosh rasmay, ba khaak o khoon ghalteedand
Khuda rehmat kunad een ashiqaan e pak teenat raWithout crime, o righteous one, you have mixed me in blood and dust
God, please have mercy on these lovers of clean intention). He forgave his murderer before his death sighting misunderstanding by a righteous person. According to reports, Mr Patel was the leader in Britain and Europe of Tablighi Jamaat, a global Islamic missionary movement that encourages Muslims to be more religiously observant. According to reports, huge crowds of mourners attended his funeral in Dewsbury on Friday. A Muslim community organisation in Bradford called Mr Patel a "pioneer of Islamic identity in Britain". News website Islam21c reported Mr Patel had died on Thursday at the age of 92. He had set up a seminary for imams and Islamic scholars in Dewsbury in 1978. Ishtiaq Ahmed, from the Bradford Council for Mosques, said: "We are all very saddened and shocked by his death. He will be missed by thousands in Britain and Europe. "He was a pioneer, a visionary when it comes to the Islamic identity, and the place of the Muslim community in Britain. "He established Dewsbury in West Yorkshire as a centre for European Muslims in Britain as far back as 1978. He also was a strong believer in British home-grown Islam." Every week large numbers of Muslims from around the world converge on an Islamic centre in Dewsbury. They are "tablighis" - lay people taking time out to do missionary work. The man responsible for attracting them to this corner of Yorkshire is Hafiz Yusuf Patel. He was invited to Dewsbury in the 1960s by local Gujarati Indian Muslims who wanted a religious guide. Such was his influence that the popularity of the Tablighi Jamaat movement grew across the UK. Dewsbury became home to the movement's European headquarters. Despite Hafiz Patel's importance, and the success of his organisation, little is known about the Tablighi Jamaat by outsiders. Its media shyness, and the fact that some convicted terrorists have spent time in it, fuelled suspicion. But the organisation's preaching is apolitical and strictly non-violent. The Tablighi Jamaat has done much to give Islam in Britain its conservative character and that perhaps is the most significant part of Hafiz Patel's legacy. Caroline Wyatt, BBC religious affairs correspondent, said Mr Patel was one of the most important figures in making Tablighi Jamaat, which means society for spreading faith) a global movement, particularly in spreading its work throughout Europe and the Americas. The organisation was founded in India in 1926 and is closely linked to the conservative Deobandi school of Sunni Islam. Estimates for its global membership today range from 12 million to 80 million, with European members thought to number at least 150,000. The group's plans to build what became known as a "mega mosque" in Newham for up to 9,000 worshippers at a time, near the Olympic Park in Stratford were rejected in 2015 by the Department for Communities and Local Government after a long-running planning battle. More than 250,000 people signed an online petition opposing the plans for the mosque in 2007, claiming to represent "the Christian population of this great country England". They said the mosque would cause "terrible violence and suffering".
220216_Khuda rehmat kunad een ashiqaan e pak teenat ra_by s a sagar
No comments:
Post a Comment