Saturday 13 February 2016

آج نقد، کل ادھار

ایس اے ساگر

اپنے بچپن میں مذکورہ بالا جملہ آپ نے متعدد دکانوں پر آویزاں دیکھا ہوگا لیکن بدلتے ماحول میں اب ایسی روش چل پڑی ہے کہ یہ شرم کی بات نہیں رہی ہے. جائیدادوں سے لیکر موبائل فون اور موٹر سائیکلوں سے لیکر کاروں تک بیشمار اشیا کی فروخت ادھار کی جارہی ہے. کاروباری مراکز پر ایسے بینر اور اشتہارات آویزاں ہوتے ہیں جن پر باقاعدہ قسطوں پر سامان خریدنے کی ترغیب شائع کی گئی ہوتی ہے. قرض، ادھار، ڈیٹ یا لون کا سہ حرفی لفظ بظاہر بہت ہی مختصر ہے لیکن اس نے زمانہ قدیم سے دور حاضر تک جو تباہی برپا کی ہے اس کو سن کر ہر ذی حوش انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کے اثرات صرف وہی انسان محسوس کر سکتا ہے جو کبھی اس مصیبت سے دوچار ہو چکا ہو، خواہ قرض لے کر یا قرض دے کر۔ بد قسمتی سے اغیار کی نقالی میں امت کا ایک طبقہ ادھار یا قرض کو آمدنی کا ایک بہت ہی آسان ذریعہ سمجھتا ہے حالانکہ اللہ رب العزت نے کلام مجید میں صاف صاف اس لعنت سے دور رہنے کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے:

(1) اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ (سورة البقرہ آیت 257 )

(2) جو لوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے روز وہ نہیں اٹھیں گے مگر جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جسے شیطان نے چھو کر مخبو ط الحواس یعنی پاگل کر دیا ہو۔ یہ اس سبب سے ہوگا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ سودا بیچنے کا معاملہ بھی تو سود کا سا ہے حالانکہ اللہ نے سودا بیچنے کو حلال کیا ہے او ر سود کو حرام کیا ہے ۔ پھر جس کو اپنے پروردگا ر کی طر ف سے نصیحت پہنچی وہ باز آگیا تو جو وہ لے چکا وہ اس کا رہا، اور اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہے اور جس نے پھر سو د لے کر حد سے تجاوز کیا تو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سود سے حاصل شد ہ دولت کو مٹاتا ہے اور صدقات میں دی ہوئی دولت کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکر گزار گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔

(سورة البقرہ آیت (275-276
(3)اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرا کرو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم سچے مومن ہو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور سود لیتے رہے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارا راس المال تمہارا ہی ہے ۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم پر ظلم ہو گا۔

(سورة البقرہ آیات 278-279 )
(4)اے ایمان والو، سود مت کھاؤ ، اصل سے کئی گنا زیادہ کر کے ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔

(سورة آل عمران آیت 130)
(5)اور جو کچھ تم قرضہ سود پر دیتے ہو تا کہ وہ بڑھتا رہے لوگوں کے مال میں مل کر اور اللہ کے نزدیک یہ نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم زکوٰة (خیرات) میں دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی دولت بڑھتی جاتی ہے (یعنی اس میں برکت ہوتی ہے)۔ (سورة روم آیت 39)

(6)سو یہود کے ظلم کے سبب ہم نے ان پر بہت سی ستھری (پاک ) چیزیں حرام کر دیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں اور اس کے سبب سے بھی کہ وہ اللہ کی راہ سے (خلق خدا کو )بہت روکتے تھے اور بہ سبب ان کے سود لینے کے حالانکہ اس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور بہ سبب لوگوں کے مال ناحق کھانے کے اور ان میں سے نافرمانوں کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔(سورة النساء آیت 161)

لینا ہے آسان، دینا ہے مشکل؛

ذرا محلہ کے پرچونئے سے معاملہ کرکے دیکھ لیجئے، پتہ چل جائے گا کہ قرض لینا بہت آسان ہے لیکن جب ادائیگی کی تاریخ آتی ہے تو مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے ، قرض کے مہلک اثرات سے کون واقف نہیں، حتی کہ فقیر بھی دل کو چھو جانے والی دعا دیتا ہے ،
”اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی کسی کا قرض دار یا محتاج نہ کرے۔“ دوسری جانب قرض دینا جتنا آسان ہے اس کا وصول کرنا اتنا ہی مشکل ہے بلکہ بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے. ایسے کاروباری اداروں کی کمی نہیں ہے جنھوں نے وصولیابی کیلئے باقاعدہ شہ زوروں اور وکلا کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو ڈرا دھمکا کر قرض وصول کر لیتے ہیں ۔

قرض چندضروری احکام :

یہ ساری نحوست اہل علم سے دوری کے سبب پیش آتی ہے. عوام الناس کو کیا پتہ کہ اغیار نے فضول خرچی اور بیحیائی کے فروغ کیلئے کمر کس رکھی ہے.  مفتی ثناء الله خان ڈیروی، رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ نے اس سلسلہ میں امت کی خاطر خواہ رہنمائی کی ہے.

قرض دینے کا ثواب صدقہ سے زیادہ :

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا ، صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا۔ تو میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ اے جبرئیل !کیا وجہ ہے کہ قرض کا ثواب صدقہ سے زیادہ ہے ؟ تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا اس لیے کہ مانگنے والا سوال کرتا ہے حالاں کہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا ضرورت کی وجہ سے ہی قرض مانگتا ہے۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب القرض، رقم الحدیث:2431)

تین آدمیوں کا قرض الله تعالیٰ ادا فرمائیں گے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین آدمیوں کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے قرض لیا اور ادا نہیں کر سکے موت سے پہلے، تو قیامت کے دن الله تعالیٰ ان کی طرف سے قرض ادا فرمائیں گے۔
ایک وہ آدمی جو جہاد میں جانے کے لیے اپنے پاس کچھ نہیں پاتا اور وہ قرض لے کر الله کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے۔
وہ آدمی جس کے پاس ایک مسلمان فوت ہو گیا او راس کے پاس مال نہیں کہ اس کا کفن دفن کردے اور وہ قرض لے کر اس کا کفن دفن کر تا ہے۔
تیسرا وہ آدمی جس کو شادی کی شدید خواہش ہو اور وہ قرض لے کر نکاح کر لیتا ہے، اس سے نکاح کے لیے جو ضروری اخراجات مہر وغیرہ ہوتے ہیں ان کے لیے قرض لینا مراد ہے، آج کل جو شادی میں فضول خرچیوں کے لیے قرض لیے جاتے ہیں، وہ مراد نہیں۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب ثلاث من ادّان فیھن قضی الله عنہ، رقم الحدیث:2435)

ٹال مٹول کرنے والے کو جیل میں ڈال سکتے ہیں
اگر کوئی شخص بلاوجہ ٹال مٹول کرے، تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ ( سنن ابن ماجہ، ابواب الصدقات، باب الحبس فی الدین، رقم الحدیث:2427)

قرض دیتے وقت کے احکام
جب آپ نے کسی کو قرض دیا ہے تو قرض دینے کے وقت کسی کو اس پر گواہ بنانا چاہیے او راگر کسی کو گواہ نہیں بنایا اور بعد میں وہ انکاری ہو گیا تو عندالله تو وہ ماخوذ ہو گا، لیکن دنیا میں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی۔

اس لیے الله تبارک وتعالیٰ نے اس کے احکام صاف بیان فرما دیے، چناں چہ ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا تَدَایَنتُم بِدَیْْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوہُ﴾․ (سورہ البقرہ:282)
ترجمہ:اسے ایمان والو! جب تم آپس میں معاملہ کرو ادھار کا کسی وقت مقررہ تک ، تو اس کو لکھ لیا کرو۔

﴿وَاسْتَشْہِدُواْ شَہِیْدَیْْنِ من رِّجَالِکُم﴾․(سورة البقرہ:282)
ترجمہ:اور گواہ کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے۔

اس آیت میں ایک اصول تو یہ بتلا دیا کہ ادھار کے معاملات کی دستاویز لکھنی چاہیے، تاکہ بھول چوک، یا انکار کے وقت کام آئے۔
دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ اس تحریری معاملے پر گواہ بھی بنا لیے جائیں، تاکہ اگر کسی وقت باہمی نزاع پیش آجائے تو عدالت میں ان گواہوں کی گواہی سے فیصلہ ہو سکے، اس لیے کہ صرف تحریر حجت شرعی نہیں ہے۔

کن چیزوں کو بطور قرض لے سکتے ہیں؟
کسی نے کوئی بھی چیز ادھار خریدی تو اب اس کے ذمہ جو قرض ہے ، فقہاء کی اصطلاح میں اس کو دین کہا جاتا ہے، البتہ قرض کہتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز کسی سے قرض لینا، جس چیز کی مثل بازار میں ملتی ہو اور آپس میں قیمت میں بہت زیادہ فرق نہ ہو مثلاً100 روپے قرض لینا یا ایک کلو چینی قرض لینا تو اس جیسی چینی بازار میں موجود ہے، اس کو واپس کر سکتا ہے ،یا مثلاً دکان دار کے پاس فی الحال کوئی چیز نہیں ہوتی اور وہ دوسرے دکان دار سے وہ چیز قرض لے کر گاہک کو دے دیتا ہے تو اگر وہ چیز ایسی ہے کہ اس کی مثل ملتی ہے تو اس طرح کا قرض صحیح ہے، اگر ایسا نہیں ، مثلاً بکری مرغی قرض لینا، یہ صحیح نہیں، اس لیے کہ ہر بکری اور مرغی قیمت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔ (الدر مع الرد، کتاب البیوع، فصل فی القرض،191/4، رشیدیہ)

بینک سے سودی قرض لینے کا حکم
جس طرح سود لینا حرام ہے ، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔ حضرت جابر رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کے معاملے کو لکھنے والے او راس معاملے کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب (گناہ میں) برابر کے شریک ہیں۔ (مشکوٰة المصابیح، باب الربوٰا الفصل الأول، ص243، قدیمی) بنا برین کسی بھی بینک سے سودی قرضہ لیناناجائز وحرام ہے۔

ادھار کے خرید وفروخت میں مدت کی تعیین
اگر کوئی چیز ادھار خرید رہا ہے یا بیچ رہا ہے تو ایسی صورت میں مدت متعین کرنا ضروری ہے ، مثلاً یہ چیز میں ادھار خرید رہا ہوں اور پیسے ایک مہینہ بعد فلاں تاریخ کو دوں گا۔ ( شرح المجلہ، سلیم رستم باز، رقم المادہ،245، ص:124، حنفیہ کوئٹہ)

البتہ اگر کسی سے پیسے وغیرہ قرض لے رہا ہے تو اس میں مدت متعین کرنا ضروری نہیں، بلکہ قرض دینے والا جب چاہے مطالبہ کر سکتا ہے۔ (الدرمع الرد،190/4)

ادھار میں چیز کی قیمت زیادہ لگانا
اگر کوئی ایک چیز کو نقد مثلاً100 روپے میں بیچتا ہے اور اگر کوئی ادھار لے تو 110 روپے میں بیچتا ہے اس طرح بیچنا صحیح ہے۔ بشرطیکہ ادائیگی کے مقررہ وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس پر جرمانہ نہ لگایا جائے۔ (المبسوط للسرخی، باب البیوع الفاسدہ،9/13 غفاریہ کوئٹہ)

لیکن ادھار کی وجہ سے زیادہ قیمت بڑھانا بے مروتی ہے، خاص کر جب خریدار حاجت مند ہو مجبوراً ادھار لیتا ہو تو وہ مستحق رحم وشفقت ہے، اس کو مجبور اور بے بس پاتے ہوئے ، زیادہ قیمت لینا خلاف مروت ہے ۔ ( فتاوی محمودیہ ، کتاب البیوع152/16)

کسی انسان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا مناسب نہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”لایرحم الله من لا یرحم الناس“․ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الأدب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، الفصل الأول، ص:421 قدیمی)
ترجمہ:الله تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتے، جو لوگوں پر رحم نہ کرے۔

گھریلو اشیا قرض لینا
عام طور پر گھروں میں روٹی بطور قرض لیتے ہیں تو امام محمد رحمہ الله تعالیٰ کے نزدیک وزن اور عدد دونوں اعتبار سے درست اور اسی پر فتوی ہے۔ ( الدرمع الرد،کتاب البیوع، فصل فی القرض،192/4 رشیدیہ)

آٹا بھی قرض لینا جائز ہے، لیکن وزن کرکے، اندازے سے جائز نہیں۔ ( الدر مع الرد،195/4)

اگر کوئی چیز قرض لی ، مثلاً گندم وغیرہ اور اس وقت گندم سستی تھی ،بعد میں مہنگی ہو گئی تو قیمت کا اعتبار نہ ہو گا، بلکہ اس نے جتنی گندم قرض لی ہے اتنی واپس کرے ۔ ( الدر مع الرد ،192/4)

اکثرکاشت کے وقت بیج ادھار دیتے ہیں اور کھیت کاٹنے کے بعد جتنا دیا تھا اس سے زیادہ لیتے ہیں ، یہ سود ہے۔ ( فتاوی محمودیہ، کتاب البیوع،345/16)

قرض کی ادائیگی کا ایمان افروز واقعہ
امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ نے اپنی مسند میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا بیان کردہ ایک واقعہ نقل فرمایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک آدمی نے دوسرے سے ایک ہزار دینار قرض طلب کیا تو دوسرے آدمی نے اس سے کہا کہ کوئی گواہ لاؤ، تاکہ اس پر گواہ بناؤں۔ تو اس آدمی نے کہا کہ الله تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔ تو دوسرے نے کہا کہ چلو کفیل لاؤ۔ تو اس نے کہا کہ الله تعالیٰ کافی ہے بطور کفیل تو اس دوسرے آدمی نے کہا کہ تونے سچ کہا اور ایک ہزار دینار اس کو دے دیے ، چناں چہ وہ قرض لے کر سمندری سفر پر چلا گیا اور اس نے اپنی ضرورت پوری کی پھر واپسی کے لیے کشتی کو تلاش کرنا شروع کیا، تاکہ واپس آکر قرض اتار دے، اس لیے کہ جس دن قرض واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا ، وہ آگیا تھا، قرض دینے والے کے پاس جانے کے لیے اس نے کشتی تلاش کی، لیکن اس کو کشتی نہیں ملی، لہٰذا اس نے ایک موٹی لکڑی لی اور اس کو اندر سے کھوکھلا کرکے اس میں ایک ہزار دینار رکھ کر اس کو بند کر دیا اور ایک خط بھی لکھ کر اس میں رکھ دیا، جو دائن ( قرض دینے والے کے نام لکھا تھا ) اور اس لکڑی کو لے کر سمندر کے پاس آیا ، پھر کہا کہ اے الله آپ جانتے ہیں کہ میں نے فلاں سے ایک ہزار دینار قرض طلب کیا تھا تو اس نے مجھ سے کفیل مانگا تھا اور میں نے کہا تھا کہ الله بطورکفیل کافی ہے تو وہ اس پر راضی ہو گیا، پھرمجھ سے گواہ مانگا تو میں نے کہاتھا کہ الله تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔ تو وہ اس پر بھی راضی ہو گیا اور اب میں نے بہت کوشش کی کشتی ڈھونڈنے کی، تاکہ میں اس کا قرض ادا کردوں، لیکن میں نے کشتی نہیں پائی ، لہٰذا میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اور اس کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ لکڑی سمندر میں چلی گئی، پھر وہ وہاں سے لوٹا اور کشتی کی تلاش میں رہا جو اس شہر کی طرف جائے۔ دوسری جانب وہ قرض دینے والا سمندر کی طرف نکلا، یہ دیکھنے کے لیے کہ شاید آج اس کا مقروض قرض لے کر آجائے ( اس نے مقروض کو نہیں پایا)، لیکن ایک لکڑی دیکھی تو سوچاکہ چلو جلانے کے کام آجائے گی، جب اس لکڑی کو توڑا تو اس میں سے ایک ہزار دینار اور خط نکلا ،پھر وہ آدمی جس نے اس سے قرض لیا تھا، وہ قرض لے کر آگیا اور معذرت کرنے لگا کہ اس دن میں نے بہت کشتی تلاش کی، لیکن مجھے کشتی نہیں ملی تو اس دوسرے آدمی نے پوچھا کہ کیا تونے میری طرف کوئی چیز بھیجی ہے؟ تو اس آدمی نے کہا کہ میں آپ کو بتا نہیں رہا کہ میں نے کشتی نہیں پائی کہ میں آپ تک قرض پہنچا دیتا تو دوسرے آدمی نے کہا کہ الله تبارک وتعالیٰ نے تیری طرف سے ادا کر دیا جو تونے لکڑی میں بھیجا تھا لہٰذا مجھے اپنا قرض مل گیا اور یہ ہزار دینار تو واپس لے جا۔ ( فتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد ، کتاب القرض، باب ماجاء فی حسن القضاء، رقم الحدیث، 84/15,280، دارالحدیث)

امیری اور فقیری کے اسباب
غریبی آتی ہے سات چیزوں کے کرنے سے:
1.. جلدی جلدی نماز پڑھنے سے۔ 2.. کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے۔ 3..  پیشاب کرنے کی جگہ وضو کرنے سے۔ 4..  کھڑے ہو کر پانی پینے سے۔ 5..  منھ سے چراغ بجھانے سے۔ 6..  دانت سے ناخن کاٹنے سے۔ 7..  دامن یا آستین سے منھ صاف کرنے سے ۔

خوشحالی آتی ہے سات چیزوں کے کرنے سے
1.. قرآن پاک کی تلاوت کرنے سے۔
2..  پانچوں وقت کی نماز پڑھنے سے  ۔
3.. خدا کا شکر ادا کرنے سے۔
4..  غریبوں اور مجبوروں کی مدد کرنے سے.
5..  گناہوں سے معافی مانگنے سے۔
6..  ماں باپ اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے۔
7..  صبح کے وقت سورہ یسٰین اور شام کے وقت سورہ واقعہ پڑھنے سے۔ ( بکھرے موتی:114,113/1)

قرض کے اعتبار سے انسانوں کی چار قسمیں

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کچھ لوگ قرض ادا کرنے میں اچھے ہوتے ہیں ، لیکن قرض وصول کرنے میں سختی کرتے ہیں ، یہ لوگ نہ قابل تعریف ہیں، نہ قابل مذمت۔ کچھ لوگ قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتے ہیں ، لیکن قرض وصول کرنے میں نرمی برتتے ہیں، یہ بھی نہ قابل تعریف ہیں، نہ قابل مذمت۔ تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو قرض ادا کرنے میں بھی اچھے ہیں اور قرض وصول کرنے میں بھی اچھے ہیں۔ اور تم میں بدترین وہ لوگ ہیں ، جو نہ قرض ادا کرنے میں اچھے ہیں، نہ وصول کرنے میں اچھے ہیں۔( مشکوٰة المصابیح، ص:438)

قرض وصول کرنے کی تدبیر
اگر کسی کو قرض دیا اور وہ واپس نہیں کر رہا ہے تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جس کو قرض دیا ہے اس کی کوئی بھی چیز قرض کی مالیت کے بقدر اس کی اجازت کے بغیر اس سے لے سکتا ہے ۔ (الدر مع الرد ، کتاب الحجر،105/5 رشیدیہ)

ادا نہ کرنے کی نیت سے قرض لے کر کھانا حرام ہے
اگر کوئی اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ ادا نہیں کروں گا تو وہ ایسا ہے جیسے حرام کھارہا ہو۔ (الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة، الباب السابع والعشرون،366/5، رشیدیہ)

اگر قرض واپس کرنے کی کوئی صورت نہ ہو
اگر کسی نے کئی لوگوں سے قرض لیا یا کئی لوگوں کا حق کھایا، جن کو اب جانتا نہیں تو جس طرح ممکن ہو ان لوگوں کو تلاش کرے اور ان کو ان کا حق واپس کرے ، وہ نہ ہوں تو ان کے والدین یا اولاد کو دے دے، اگر ان کو تلاش کرنا ممکن نہ ہو توایسی صورت میں جتنی مقدار میں قرض لیا ہے یا حقوق کھائے ہیں اتنی مقدار صدقہ کرے۔ اور یہ نیت کرے کہ اس کا ثواب اصل مالک کو پہنچ جائے۔( الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة، الباب السابع والعشرون 367/5، رشیدیہ)

قرض سے متعلق زکوٰة کے چند ضروری احکام
مقروض کے ذمے زکوٰة کا حکم:
اگر کسی شخص کے ذمے اتنا قرض ہے کہ اس قرض کے ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے بقدر ( ساڑھے سات تولے سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی، یا اتنی مالیت کی رقم ، سامان تجات وغیرہ، یا اگر کچھ رقم اور سونا ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی بنتی ہو ) اگر اتنی مقدار میں مال نہیں بچتا ہے تو ایسے شخص کے ذمے زکوٰة واجب نہیں۔ ( فتح القدیر، کتاب الزکوٰة160/2، مصطفی البابی)

مقروض کو زکوٰة دینا
اگر کوئی آدمی اتنا مقروض ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے بقدر نہیں بچتا ہے تو ایسے شخص کو زکوٰة دینا جائز ہے ۔ (الدر مع الرد ، باب المصرف343/2 سعید)

قرض دی ہوئی رقم پر زکوٰة کا حکم
اگر کسی کو قرض دیا یا کوئی چیز ادھار بیچی تو قرض دینے والے شخص پر اس رقم کی زکوٰة واجب ہو گی، اگر وہ صاحب نصاب ہے ،لیکن زکوٰة کی ادائیگی میں اسے اختیار ہے کہ قرض کی وصولی سے پہلے زکوٰة ادا کرے یا بعد میں ، بعد میں ادا کرنے کی صورت میں جتنے سال میں وصول ہو، ہر سال کی زکوٰة دے گا ۔ ( الدر مع الرد، باب زکوٰة المال305/2 سعید)

عورت کے مہر میں زکوٰة کا حکم
اگر خاوند کے ذمے مہر کا دین ( قرض) واجب ہے، اگر وہ معجل ہے یعنی جس وقت بھی زوجہ طلب کرے اس کا ادا کرنا ضروری ہے یا مؤجل ہے، لیکن خاوند خود ہی اس کو ادا کرنے کی فکر او رکوشش میں لگا ہوا ہے او رجمع کر رہا ہے، تاکہ ادا کرے تو ایسا دین ( قرض) مانع عن وجوب زکوٰة ہے، ( یعنی اس مال پر زکوٰة واجب نہ ہو گی ) اس مقدار دَین ( قرض) کے علاوہ اس کے پاس بقدر نصاب مال ہو گا تو اس پر زکوٰة واجب ہو گی، ورنہ نہیں ۔

اگر خاوند ادا کرنے کی فکر او رکوشش میں لگا ہوا نہیں ہے، بلکہ اس کو اطمینان ہے کہ ، ادا نہیں کرنا ہے ، تو ایسا دین ( قرض) مانع عن وجوب زکوٰة نہیں ( یعنی اس مال پر زکوٰة واجب ہو گا) ۔( فتاوی محمودیہ ، کتاب الزکوٰة ، باب وجوب زکوٰة 319/9)

شوہر کے ذمے یہ دَین ( قرض) مانع ہو یا نہ ہو، بہرصورت زوجہ پر اس کی زکوٰة لازم نہیں۔ ( یعنی عورت پر زکوٰة اس وقت واجب ہو گی ، جب وہ مہر پر قبضہ کرے اس سے پہلے اس پر زکوٰة لازم نہیں۔) ( فتاوی محمودیہ، کتاب الزکوٰة، باب وجوب زکوٰة320/9)

کیا کاروبار میں ادھار سامان دینے پرز ائد منافع لینا درست ہے؟

(۲) کیا ہم گراہک سے پوچھ سکتے ہیں کہ کتنے دن کا ادھار وہ چاہتا ہے اور اپنا منافع اسی طرح سے بڑھا لیں مثلاً میں سونا فروخت کرتا ہوں اور آج کا ریٹ دس ہزار روپے ایک تولہ ہے۔ میں گاہک سے کہتاہوں کہ ایک مہینہ کے ادھار پر ایک تولہ کی قیمت گیارہ ہزارروپے ہے ، دو مہینے کے ادھار پر ایک تولہ کی قیمت بارہ ہزارروپے ہے، چھ مہینے کے ادھار پر ایک تولہ کی قیمت سولہ ہزارروپے ہے۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اگر نہیں تو اس کو کیسے کریں؟
(۳) وعدہ خلافی کی کیا تعریف ہے؟ اگر کوئی شخص مجھ سے کہتاہے کہ تم مجھ سے ملاقات کرنے کیلئے کب آرہے ہو میں اس سے کہتاہوں کہ پندرہ منٹ میں، لیکن میں وہاں پندرہ منٹ میں نہیں پہنچتا ہوں جان بوجھ کر یا انجانے میں، کیا یہ وعدہ خلافی ہے؟ کیا مجھ کو پندرہ منٹ کے اندر پہنچنا فرض ہے؟ ناگزیر حالات میں کیا ہدایت ہوگی؟
(۴) میں نے ایک شخص سے تین دن کیلئے ادھار لیا ہے یہ جانتے ہوئے کہ میں اس کو اپنے گاہکوں کی ادائیگی کے ذریعہ سے ادا کردوں گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا کسی بھی وجہ سے ۔میں تین دن کے بعد قرض کو ادا کرنے سے معذور ہوں لیکن میری حقیقی پریشانی کی وجہ سے میں اس کو راضی کرلوں گا اور سات دن کے بعد قرض کو واپس کردوں گا اور اس سے معذرت کرلوں گا وہ مجھ کو معاف کرتا ہے یا نہیں یہ اس کی مرضی ہوگی۔ لیکن میرے لئے شریعت میں کیا انجام ہوگا؟
والسلام
  Nov 18,2009  Answer: 17231
فتوی(ب):1816=194tb-11/1430

(۱) کاروبار میں ادھار مال دینے پر زیادہ قیمت لینا درست ہے۔
(۲) جی ہاں، آپ کو مال فروخت کرتے وقت گاہک سے ایک پہلو متعین کرنا ضروری ہے، یعنی آپ ادھار خریدنا چاہتے ہیں یا نقد؟ گاہک متعین کرکے کہہ دے کہ میں ادھار خریدنا چاہتا ہوں تو آپ اسے زیادہ منافع کیساتھ قیمت بتاسکتے ہیں، لیکن یہ طریقہ جائز نہیں ہے کہ گاہک سے آپ یوں کہیں کہ ایک مہینہ کے ادھار پر اتنی قیمت اوردو مہینے کے ادھار پر اتنی قیمت ہوگی، یہ سود کی شکل ہے۔ اسی طرح سونے کی خرید وفروخت میں ادھار جائز نہیں۔
(۳) پندرہ منٹ میں حاضر ہونے کا زبانی وعدہ کیا ہے، اگر وعدہ کرتے وقت اسے پورا کرنے کی نیت نہیں تھی یا وعدہ کرکے قصدااس کے ۱۵ منٹ پر نہیں پہنچے تو یہ وعدہ خلافی ہے، کسی عذر کی وجہ سے دیر ہوگئی تو یہ وعدہ خلافی نہیں ہے۔ یعنی اس پر گناہ نہ ملے گا۔
(۴) آپ نے تین دن کیلئے کسی سے قرض لیا اور تین دن میں ادا کرنے کی نیت تھی لیکن بعد میں ایسے حالات سامنے آئے کہ تین دن کے بعد ادا کرنے کی شکل بنی تو معذرت تاخیر کی کردینے کے بعد وعدہ خلافی کے گناہ سے آپ محفوظ رہیں گے۔ وہ آپ کی معذرت قبول کرے یا نہ کرے۔
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

میرا سوال یہ ہے کہ ایک آدمی چاول فروخت کرتاہے ۔ نقد 800/ روپے من اور ایک من فروخت کرتاہے اور 6/ مہینوں بعد1200/ روپے لیتاہے، حالانکہ ریٹ اس وقت 800/روپے ہیں تو کیا یہ 400/ روپے سود و ہوگا؟
(۲) دو ایک آدمی کاروبار کیلئے تین لاکھ ایک شخص سے لیتاہے، اس شرط پر کہ جو نفع یا نقصان ہوگا اس میں شریک ہو ، 6/ مہینوں بعد اس شخص کو تین لاکھ کیساتھ 25000/ روپے زیادہ دیتاہے کہ یہ تیرے تین لاکھ سے نفع ہوا کیا یہ سود ہے؟
براہ کرم، اس بارے میں مشورہ دیں۔
  Mar 01,2011  Answer: 30208
فتوی(د):457=298-3/1432

نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق ہونا منع نہیں ہے؛ لیکن نقد اور ادھار کا معاملہ وقت عقد طے کرنا ضروری ہوگا۔ اور ادھار بیچنے کی صورت میں رقم کی مقدار اور اس کی ادائیگی کا وقت، عقد کے قت طے کرنا ضروری ہے، نیز اس میں متعینہ مدت پر عدم ادائیگی کی صورت میں رقم میں اضافے کی شرط نہ لگائی جائے، لہٰذا اگر مذکور فی السوال مسئلے وہ شخص ایک من چاول ادھار فروخت کرتا ہے اور 1200قیمت متعین کرکے رقم کی ادائیگی کا وقت متعین کردیتا ہے تو بیع درست ہے، لیکن اگر وہ چاول 800روپئے میں نقد فروخت کرے اور یہ کہے کہ اگر ۶/ مہینے بعد دوگے تو 400اضافے کے ساتھ 1200 روپئے ادا کرنے ہوں گے تو یہ سود ہوگا اور اس صورت میں بیع حرام ہوگی۔
(۲) اگر کاروبار کیلئے تین لاکھ دیتے وقت ہونے والے نفع کی مقدار فیصد کے اعتبار سے طے کرلی تھی، پھر اسی اعتبار سے ۶/ مہینے بعد کاروبار کا حساب وکتاب کرکے ہونے والے نفع میں سے متعین فیصدکے اعتبار سے وہ شخص یہ رقم دے رہا ہے تب تو اس زائد رقم کا لینا جائز ہوگا ورنہ اضافہ سود ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

قسطوں میں زیادہ دام دے کر خرید و فروخت

س… ایک شخص ٹرک خریدنا چاہتا ہے، جس کی قیمت ۵۰ہزار روپے ہے، لیکن وہ شخص مجموعی طور پر اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ اس ٹرک کی یکمشت قیمت ایک ہی وقت میں ادا کرسکے، لہٰذا وہ اسے قسطوں کی صورت میں خریدتا ہے، لیکن قسطوں کی صورت میں اسے ٹرک کی اصلی قیمت سے ۳۰ہزار روپے زیادہ ادا کرنے پڑتے ہیں اور ایڈوانس ۲۰ہزار روپے اور ماہوار قسط ۱۵ سو روپے ادا کرنے ہوں گے۔ براہِ مہربانی شریعت کی رُو سے جواب عنایت فرمائیں کہ اس ٹرک کی یا اور اسی قسم کی کسی بھی چیز کی خرید و فروخت جائز ہوگی یا نہیں؟
ج… جائز ہے۔

No comments:

Post a Comment