Friday, 26 February 2016

اللھم انی اعوذ بک من جار السوء

ایس اے ساگر
اسلام نے مختلف وسعت پذیر دائروں میں مسلم معاشرے کی زندگی بسر کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی ہے تاکہ پورا معاشرہ منظم ہو جائے۔ یہ سلسلہ والدین اور رشتہ داروں کے حقوق سے شروع ہو کر پڑوسیوں ، دوستوں اور آشناﺅں سے ہوتا ہوا غریبوں اور غیر مسلموں تک جاپہنچتا ہے. پڑوسی ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے رازوں سے آشنا ہوتے ہیں۔ ہر آنے جانے والی چیز کا انہیں علم ہوتا ہے۔ مخفی باتوں کی اطلاع ہوتی ہے، صبح شام کے معاملات ان کے سامنے ہوتے ہیں، آوازیں سنتے ہیں اور ہوائیں سونگھتے ہیں۔ اختلاف ہو یا اتفاق، جھگڑا ہو یا صلح، انہیں سب خبر ہوتی ہے۔ گھر کے ذخائر ان سے مخفی نہیں ہوتے اور خاندانوں کی مخفی باتیں ان سے پوشیدہ نہیں ہوتیں۔
کسے کہتے ہیں پڑوسی؟
جوار یعنی پڑوس کا لفظ اپنے اصل معنی میں ہر اس چیز سے عبارت ہے جس کا حق عقلاً اور شرعاً بہت عظیم ہو۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے فلاں سے پناہ مانگی اور فلاں نے اسے پناہ دی۔ جبکہ صرف اللہ کی ذات پناہ دینے پر قادر ہے اور جس کے خلاف کسی کو پناہ نہیں دی جا سکتی۔ ابلیس ملعون نے اپنے پیروکاروں کو یہ کہہ کر ذلیل کیا تھا کہ میں تمہارا جار (پڑوسی) ہوں۔ چنانچہ پڑوسی کو جار اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے پڑوسی کو پناہ دیتا ہے، اس سے تکلیف اور پریشانی ہٹاتا ہے اور اس کیلئے خیر اور نفع تلاش کرتا ہے۔
پڑوسیوں کی اقسام :
پڑوسیوں کی کئی اقسام اور درجات ہیں۔ ان میں سے بعض دوسروں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہیں۔ حافظ ابن حجر a فرماتے ہیں: پڑوسی کا لفظ مسلمان اور کافر، عابد اور فاسق، دوست اور دشمن، رشتہ دار اور اجنبی، قریب کے گھر والا اور دور کے گھر والا سب کو شامل ہے۔ ان کے درجات ہیں۔ بعض پڑوسی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ درجہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے سب سے بالا تر درجے والاوہ پڑوسی ہے جس میں پہلے ذکر کی گئی ساری صفات جمع ہو جائیں۔ علی ہذا القیاس جس میں جتنی صفات ہوں گی اسی تناسب سے اس کے حقوق ہوں گے۔ نیز ایسے پڑوسیوں کی بھی کمی نہیں ہے جن سے پناہ مانگی گئی ہے.
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ یَوْمِ السُّوْءِ ، وَمِنْ لَیْلَۃِ السُّوْءِ وَمِنْ سَاعَۃِ السُّوْءِ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوْءِ وَمِنْ جَارِ السُّوْءِ فِی دَارِ الْمُقَامَۃ
(المعجم الکبیر 14227)
یا اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بُرے دن سے، اور بُری رات سے، اور بُرے وقت سے، اور بُرے ساتھی سے، اورمستقل جاے قیام کے برے پڑوس سے۔ لیکن کیا سلسلہ مرنے کے بعد تک دراز ہے؟ دہلی میں ایک معروف شخصیت کے انتقال پر جنازہ اٹھانے میں تاخیر ہوئی تو پتہ چلا کہ گھر والے تدفین کیلئے ایسی جگہ کیلئے کوشاں تھے جہاں نیک لوگوں کی قبریں ہیں. کافی کوششوں کے بعد معقول رقم خرچ کرکے مسئلہ حل ہوا. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ميت كیساتھ دفن كرنے سے دوسرى ميت پر اثر پڑتا ہے ؟ كيا كسى ميت كے پہلو ميں دفن ہونے سے اثر پڑتا ہے، مثال كے طور پر كوئى شخص وصيت كرے كہ اسے فلاں كے پہلو ميں دفن كيا جائے اور فلاں كے پہلو ميں دفن مت كيا جائے ؟
کیا فرماتے ہیں اہل علم؟
اہل علم کے نزدیک اس سلسلے میں متعدد پہلو قابل غور ہیں.
اول:
اگر تو سائل كا كا مقصد يہ ہے كہ كسى ایک قبر ميں دو مسلمان ایک دوسرے كے پہلو ميں دفن كئے جائيں، تو ايسا كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ ہر مسلمان شخص كو عليحدہ قبر ميں دفن كرنا واجب ہے، ليكن ضرورت كى بنا پر ایک سے زائد كو ایک ہى قبر ميں دفن كيا جا سكتا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور ایک ہى قبر ميں بغير كسى ضرورت كے دو ميتوں كو دفن نہيں كيا جائے گا." انتہى
ديكھيں: المغنى ( 2 / 222 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بالاتفاق مشروع ہے كہ ایک قبر ميں دو مسلمان دفن نہيں كئے جائيں گے، بلكہ ہر ایک كیلئے عليحدہ قبر كھودى جائے گى." انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 1 / 337 ).
رہا يہ مسئلہ كہ آيا كوئى ميت كسى دوسرے كے پہلو ميں دفن ہونے كى صورت ميں متاثر ہوتى ہے يا نہيں، دوسرے لفظوں ميں آيا اگر پہلو ميں دفن ميت كو عذاب قبر ہو رہا ہے يا پھر اہل نعمت والا ہونے كى وجہ سے سعادت حاصل كر رہا ہے تو آيا سات والے كو بھى اس كا اثر ہو گا يا نہيں ؟
ہمارے علم كے مطابق تو سننت نبويہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى."
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ مسئلہ نص شرعى كا محتاج ہے اور توقيف كا محتاج ہے؛ كہ اگر پہلو ميں دفن ميت كو عذاب ہو رہا ہے تو اسے بھى اذيت ہوتى ہے، ہمارے علم كے مطابق تو سنت نبويہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں، اگرچہ بعض علماء رحمہ اللہ يہ كہتے ہيں كہ:
اگر ساتھ والى ميت كو عذاب ہو رہا ہو تو پہلو ميں دفن ميت كو بھى اذيت ہوتى ہے، اور بعض اوقات اس كے پاس كوئى برا فعل كرنے كى بنا پر بھى اسے اذيت ہوتى ہے، ليكن مجھے تو سنت نبويہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملى جو اس كى تائيد كرتى ہو "
واللہ تعالى اعلم." انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 1 / 337 ).
اور ابو نعيم كى درج ذيل حديث جو كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنے فوت شدگان كو نيك و صالح لوگوں كے درميان دفن كيا كرو، كيونكہ جس طرح برے پڑوسى كى وجہ سے زندہ شخص اذيت محسوس كرتا ہے اسى طرح ميت كے پہلے ميں برے شخص كى بنا پر ميت كو بھى اذيت ہوتى ہے "
الحليۃ ( 6 / 354 ).
يہ حديث موضوع اور من گھڑت ہے، ديكھيں سلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ للالبانى حديث نمبر ( 563 ).
اور ابن حبان رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث باطل ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں اس كى كوئى اصل نہيں ملتى " انتہى
ديكھيں: كتاب المجروحين ( 1 / 291 ).
علماء كرام كى ايك جماعت نے صالح اور نیک لوگوں كے پہلو ميں ميت دفن كرنا مستحب قرار ديا ہے، ليكن اس پر سنت نبويہ سے كوئى صريح دليل ذكر نہيں كى، بلكہ يہ صرف بعض احاديث سے استنباط كرتے ہوئے كہا ہے، اسى طرح بعض علماء نے اس كا استنباط درج ذيل حديث سے بھى كيا ہے:
" جب موسى عليہ السلام كى موت كا وقت آيا تو انہوں نے اپنے پروردگار سے سوال كيا كہ وہ انہيں ارض مقدس كے اتنا قريب كر دے جتنى مسافت تک پتھر پھينكا جا سكتا ہو." متفق عليہ.
امام بخارى رحمہ اللہ نے اس حديث پر باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
" ارض مقدس وغيرہ ميں دفن ہونا پسند كرنے والے شخص كے متعلق باب." انتہى
ابن بطال رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" موسى عليہ السلام كا اپنے رب سے ارض مقدس كے قريب كرنے كے متعلق سوال كرنے كا معنى يہ ہے كہ ( باقى علم تو اللہ كے پاس ہى ہے واللہ اعلم ) كيونكہ ارض مقدس ميں دفن ہونے كى فضيلت ہے كيونكہ وہاں انبياء ( کرام علیم السلام ) اور صالحين (علیہم الرحمہ ) دفن ہيں، اس ليے فوتگى ميں ان كا پڑوس اختيار كرنا مستحب ہو، بالكل اسى طرح جس طرح زندگى ميں ان لوگوں كا پڑوس اور قرب ا ختيار كرنا مستحب ہے، اور اس ليے بھى كہ فاضل قسم كے لوگ جگہ بھى افضل ہى اختيار كرتے ہيں، اور وہ افضل اور بہتر لوگوں كى قبروں كى زيارت كرتے ہيں اور ان كے ليے دعا كرتے ہيں " انتہى
ديكھيں: شرح ابن بطال ( 5 / 359 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں افضل جگہ اور اچھے و مبارک مقام پر دفن ہونے اور صالحين كے مدفن كے قرب كا استحباب پايا جاتا ہے." انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 15 / 128 ).
اور يہ مخفى نہيں كہ يہ حديث اس مسئلہ ميں صريح نہيں ہے، اور اسى لئے امام بخارى رحمہ اللہ نے اس حديث سے ارض مقدس ميں دفن ہونے كا استحباب اخذ كيا ہے، اور اس سے يہ استنباط نہيں كيا كہ نیک و صالح افراد كے ساتھ دفن ہونا مستحب ہے.
اور پھر كئى ايک سلف اور اہل علم سے نیک و صالح افراد كے ساتھ دفن كرنے كى وصيت وارد ہے.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے وصيت كى تھى كہ انہيں عثمان بن مظعون رضى اللہ تعالى عنہ كى قبر كے قريب دفن كيا جائے.
ديكھيں: الثقات لابن حبان ( 3 / 208 ).
اور امام بخارى رحمہ اللہ كے ساتھى غالب بن جبريل رحمہ اللہ نے وصيت كى تھى كہ انہيں امام بخارى رحمہ اللہ كے پہلو ميں دفن كيا جائے.
ديكھيں: المتفق و المفترق ( 3 / 201 ).
اور حافظ ابو بكر الخطيب رحمہ اللہ نے وصيت كى تھى كہ انہيں بشر بن الحارث كے پہلو ميں دفن كيا جائے.
ديكھيں: تاريخ دمشق ( 5 / 34 ).
چنانچہ جو شخص ان علماء كى اقتدا كرتے ہوئے كسى نیک و صالح شخص كے پہلو ميں دفن ہونے كى وصيت كرتا ہے تو اس كا انكار نہيں كيا جا سكتا ـ اگرچہ ہميں يقين ہے كہ اسے اس سے كوئى فائدہ نہيں ہو گا ـ كيونكہ سنت نبويہ ميں اس كا كوئى ثبوت نہيں ملتا .
ليكن اتنا ہے كہ جس كا انكار كرنا اور لوگوں كو اس سے روكنا ضرورى ہے وہ يہ كہ: كوئى يہ وصيت مت كرے كہ اسے فلاں جگہ يا فلاں كے پہلو ميں دفن كرے تا كہ وہ اس ميت كى بركت حاصل كر سكے، اور وہ ميت اسے فائدہ دے گى يا پھر اللہ كے ہاں اس كى سفارش كرے گى.
يہ سب كچھ غلط ہے اور اس كى كوئى دليل نہيں، اور يہ اعتقاد ركھنا صحيح نہيں، بلكہ ايسا كرنا لوگوں کیلئے برے عمل كا باعث بن سكتا ہے، كيونكہ وہ كسى كى سفارش كا بھروسہ كرنا شروع كر ديں گے.
مسلمان پر واجب اور ضرورى يہ ہے كہ وہ موت كى تيارى كرے، اور اچھے و نیک و صالح اعمال كرے جو قبر ميں اس كیلئے انس كا باعث ہوں گے.
امام بخارى اور مسلم نے انس بن مالک رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميت كے پيچھے تين چيزيں جاتى ہيں، ان ميں سے دو واپس آ جاتى ہيں اور ایک اس كیساتھ رہتى ہے: اس كے پيچھے اس كے اہل و عيال اور اس كا مال اور اس كا عمل جاتا ہے، اور اس كا اہل و عيال اور مال واپس آ جاتا ہے، اور اس كے ساتھ اس كا عمل باقى رہ جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6514 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2960 ).
اور سلمان رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں:
" يقينا زمين كسى كى بھى تقديس نہيں كرتى، بلكہ انسان كو اس كا عمل مقدس بناتا ہے "
اسے امام مالک رحمہ اللہ  نے موطا امام مالک حديث نمبر ( 1500 ) ميں روايت كيا ہے.
چنانچہ آدمى كے عمل برے ہوں تو اسے اچھا پڑوس كوئى فائدہ نہيں ديتا، اور اسى طرح اگر اس كے عمل اچھے ہوں تو اسے برا پڑوس بھى كوئى نقصان ديتا.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارا خاتمہ اچھا كرے. واللہ اعلم .
حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف :
خطبات حکیم الاسلام، جلد سوم کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین میں ایک شخص اللہ دین تھا. میں نے بھی دیکھا ہے. بوڑھا آدمی بالکل ان پڑھ اور جاہل تھا اس کی گوشت کی دوکان تھی. بے پڑھا لکھا بھی تھا اور تجارت بھی ایسی تھی جس میں پڑھنے لکھنے کی ضرورت نہیں. گائے بھینس ذبح کی، اس کا گوشت بیچ دیا. وہ حضرت سے بیعت تھا. مگر میں نے اس کو دیکھا ہے کہ اس میں دین کی سمجھ اتنی اعلی تھی کہ آج علماء میں بھی وہ نہیں ملتی. جو اس جاہل میں محض صحبت یافتہ ہونے کی وجہ سے تھی. اس نے خود ہی مجھے یہ واقعہ سنایا تھا کہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے حضرت سے ایک سوال کیا؟
حضرت یہ جو سننے میں آیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مرنے کے بعد بزرگوں کے قرب و جوار میں دفن ہونے کی کوشش کی جائے اولیاء کی مزارات کے پاس اپنی قبر بنوائیں. اس کی لوگ کوشش کریں تو اس کا کیا فائدہ ہے؟
اس لئے کہ مرنے والا اگر نیک ہے اور اعمال صالحہ اس کیساتھ ہیں اسے کہیں بھی دفن کر دو. اس کی نیکی اس کیساتھ ہے. قبر اس کی روشن ہو جائے گی.. اور اگر وہ بد عمل ہے اسے نبی کے قریب بھی دفن کر دیں تب بھی اس کی بدی سامنے آئے گی. تو انبیاء و اولیاء کے قرب و جوار میں دفن کر نے کا کیا فائدہ ہوا؟
یہ اس نے سوال کیا.. اب سوال کرنے والا بالکل ان پڑھ جاہل آدمی اور عالم برزخ کا سوال کر رہا ہے اس کو اگر حقائق سمجھائے جائیں اور علم کی باریک باتیں بتائی جائیں. وہ کچھ بھی نہ سمجھتا. موٹی سمجھ کا آدمی تھا..
حضرت نے اس کو سمجھایا. اور ایک مثال کے ذریعے مسئلے کو واضح کر دیا کہ وہ جاہل بھی سمجھ گیا اور دوسرے بھی سمجھ گئے.. جب وہ سوال کر چکا حضرت نے فرمایا اچھا ہم اس کا جواب دیں گے. ابھی جواب نہیں دیا. موقع پر جواب دیں گے وہ بھی خاموش ہو گیا.
گرمی شدید پڑ رہی تھی وہ پنکھا لے کر حضرت کو جھلنے کھڑا ہو گیا اسے بھی یاد نہیں رہا کہ میں نے سوال کیا تھا پندرہ بیس منٹ گزر چکے.. حضرت نے اس سے پوچھا. میاں اللہ دین. تم یہ پنکھا کسے جھل رہے ہو؟
کہا حضرت آپ کو جھل رہا ہوں. فرمایا یہ جو لوگ مجلس میں ساتھ بیٹھے ہیں انہیں تو نہیں جھل رہا؟کہا نہیں انہیں تو نہیں جھل رہا. اس واسطے کہ نہ میں ان کا شاگرد نہ ان کا مرید. یہ تو سارے میرے برابر ہیں. مجھے کیا ضرورت تھی کہ ان کو پنکھا جھلوں اور ان کا خادم بنوں. میں تو آپ کو پنکھا جھلنے کھڑا ہو گیا..
فرمایا ہوا ان سب لوگوں کو لگ رہی ہے؟ کہ نہیں؟
جی ہاں ہوا تو لگ رہی ہے.
فرمایا یہ تمہارے سوال کا جواب ہے
تم نے یہ سوال کیا کہ انبیاء و اولیاء کے قریب دفن کرنے سے کیا فائدہ؟ فرمایا اولیاء اللہ کی قبروں پر رحمت کی ہوائیں چلتی ہیں. رحمت کی ہوائیں اترتی ہیں. مقصود اصلی وہ ہوتے ہیں لیکن آس پاس والوں کو بھی ہوا لگتی ہے رحمت کے اثرات سب کو پہنچتے ہیں. اس واسطے دفن کر نے کے بارے میں فرمایا گیا کہ کوشش کرو اہل اللہ اور صالحین کے پاس دفن ہوں. ان پر رحمت کی ہوائیں چلیں گی. آس پاس والوں کو بھی لگیں گی. چاہے وہ مقصود اصلی نہ ہوں. مقصود فقط وہ نبی یا ولی کامل ہوں.
فرمایا یہ تمہارے سوال کا جواب ہے. تو قبر اور برزخ کے عالم کا باریک مسئلہ اس کے دل میں اتار دیا. سب لوگ سمجھ گئے. تو مثال ایک ایسی کھلی دلیل ہوتی ہے کہ دقیق سے دقیق مسائل جو سمجھ میں نہ آسکیں. وہ مثال کے ذریعے سمجھائے جا سکتے ہیں..
اللہ رب العزت حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمۃاللہ علیہ کے اعمال صالحہ کی برکتوں سے ہم سب کو عذاب قبر سے حفاظت فرمائے آمین

No comments:

Post a Comment