Tuesday 16 February 2016

لفظ خدا کا استعمال

ایس اے ساگر

ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر یہ پیغام دھڑلے سے گشت کررہا ہے کہ 'لفظ خدا نہ تو اللہ کا ذاتی نام ہے اور نہ ہی صفاتی ، یہ لفظ شریعت میں کہیں بھی وارد نہیں ۔برصغیر اور فارس میں اکثر لوگ اور علماء طبقہ اللہ تعالی کے لئے اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ فارسی لفظ ہے اور فارسی میں یہ لفظ غیراللہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مثلا بیوی اپنے شوہر کو مجازی خدا کہتی ہے، کشتی کے ملاح کو ناخدا کہتے ہیں ، شعراء و ادباء کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔
اور خرابی کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ مجوسیوں کے عقیدہ کے مطابق دو خدا ہیں ایک ہزداں(اچھائی کا خدا) اور دوسرا اہرمن (برائی کا خدا) ۔ اور اللہ تعالی ان تما م عبوب و نقائص اور کسی کی ادنی شرکت سے بھی پاک و بری ہے ۔
لفظ خدا موجودہ دور میں اتنا عام ہو گیا ہے کہ اگر لوگوں کو لفظ خدا کی نفی کے بارے میں کہا جائے تو اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے علماء بھی تو خدا کہتے ہیں اور کتابوں میں لکھتے ہیں تو کیا یہ غلط ہیں .....؟
لفظ خدا نہ قرآن میں ہے اور نہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں ہے تو ہم مسلمانوں کو کیا مجبوری ہے کہ ہم آتش پرستوں والا نام خدا اپنے اللہ کے لئے بولیں اور لکھیں اور یہ دین میں اضافہ بھی ہے،بھلے لفظ خدا کئی سالوں سے بولا جاتا رہا ہو، کیونکہ لفظ خدا نہ قرآن میں ہے نہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے،نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے استعمال کیا،نہ تابعین نے اور نہ سلف صالحین نے لفظ خدا استعمال کیا،اس لئے دین میں اضافہ ہے، اور اللہ کے ذاتی نام کو چھوڑ کر غیر اللہ کے نام کا استعمال ہے، جو کہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔
کئی لوگ کہتے ہیں کہ خدا پہچان کے طور پر بولا جاتا ہے جیسے: گوڈ وغیرہ .
تو عرض ہے کہ جو مسلمان ہے اس کو لفظ۔ اللہ۔ کی پہچان بہت خوب ہو تی ہے کیونکہ نماز اور تلاوت قرآن کے دوران کتنی دفعہ اللہ کو یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمان بھلے ملک فارس کا ہو یا انگریز، ہر زبان اور نسل کا مسلمان خوب جانتا ہے،کہ ہمارے خالق حقیقی کا نام اللہ ہے۔ بس یہ کچھ لوگوں کی بناوٹی باتیں اور حیلے بہانے ہوتے ہیں کہ قرآن اور صحیح احادیث کے دلائل ہو تے ہوئے بھی صحیح بات کو نہیں مانتے اور پھر غلط بات پر غلط دلائل دے کر اڑے رہتے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالی نے ہدایت اور سمجھ دی ہو ان کے لئے قرآن کی صرف ایک آیت ہی دلیل کے لئے کافی ہے۔
آئیے اس کو مزید سمجھنے کے لئے قرآن کریم کی آیت دیکھتے ہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
٭"اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں،پس ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو،اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کیے کی ضرور سزا ملے گی"۔ (اعراف: 180)
ایک دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
٭"کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر، جس نام سے پکارو تمام اچھے نام اس کے ہیں" ... (بنی اسرائیل / اسراء: 110)
ان دونوں قرآنی آیتوں میں اللہ کے ذاتی اور صفاتی ناموں سے پکارنے کا حکم دیا گیا ہے،اور اللہ کے ناموں میں کج روی کرنے والوں کے لئے سزا ہے بلکہ اللہ کے پاک ناموں میں کج روی کرنے والوں سے لا تعلقی کا حکم دیا گیا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک اور نقطے پہ غور فرمائیں:
٭ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ملک فارس سے مدینہ طیبہ گئے تھے۔ اس وقت بھی فارس میں خدا تھے اور اور اپنے معبود کے لئے وہ لوگ یہی لفظ خدا ہی بولا کرتے تھے، اس کے باوجود بھی حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی اپنے خالق حقیقی کے لئے لفظ۔ خدا۔ استعمال نہ کیا۔
اگر لفظ خدا کہنا صحیح ہوتا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس لفظ کو ضرور کہتے مگر قربان جائیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات و ایمان پر کہ امام کائنات محمد رسول اللہ ﷺ نے جو فرما دیا وہی ان کا ایمان و عمل بن گیا۔ انہوں نے اپنی طرف سے کو ئی نہ اضافہ کیا اور اضافہ کو نامناسب سمجھا،اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ بعد کی پیداوار ہے۔
اس کے بعد اب ہمیں یہ سمجھنے میں قطعی دشواری نہیں کہ ہم غیر اللہ کے ناموں سے پرہیز کریں تاکہ اللہ کی سزا سے بھی بچ سکیں۔اوراس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ اللہ ہمارے رب کا ذاتی ہے اور اس کے علاوہ بے شمار صفاتی نام قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں ، اس لئے خود بھی لفظ خدا اپنی زبانوں سے ختم کریں اور جو بھی کوئی آپ کے سامنے خدا بولے اس کو بھی احسن طریقے سے دلائل کے ساتھ سمجھائیں اور ہمیشہ اپنے خالق حقیقی کو ذاتی نام اللہ سے یا صفاتی ناموں سے پکاریں اور اگر کسی کتاب میں خدا لکھا ہو تو پڑھتے وقت اللہ پڑھیں اور اس طرح کی تبلیغ عام کریں۔
شریعت کا حکم ہے حق کو قائم کریں اور باطل کا قلع قمع کریں کیونکہ ہمارا دین کامل و اکمل ہے نہ اس میں اضافے کی ضرورت ہے اورنہ اضافہ کا امکان۔
اللہ تعالی ہم سب کو دین میں نئی چیز ایجاد کرنےیا اس کی حمایت کرنے یا اس پر عمل کرنے سے بچائے۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام؟

اس سلسلہ میں جب جامعہ بنوری ٹاؤن، جامعہ علوم اسلامیہ کے دارالفتا سے رجوع کیا گیا کہ محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ لفظ خُدا کا استعمال کیا غلط ہے؟

جواب : اللہ تعالیٰ کیلئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں عجمی سازش نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کیساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح لفظ خدا جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتاہے۔ کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔ غیاث اللغات میں ہے:
خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ خدا مطلق باشدبر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا۔
ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ رب کا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتاہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ خدا صاحب اور مالک کے معنی میں ہے۔ اور لفظ رب کے مفہوم کی ترجمانی کرتاہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ رب کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائیگا؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں فقط واللہ اعلم

واضح رہے کہ جامعہ کی تاسیس محرم 1374ھ مطابق 1954ء میں محدث الکبیر علامہ شیخ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے علامہ بنوری ٹاؤن مسجد ، خط و کتابت کا پتہ، جامعہ علوم اسلامیہ، پوسٹ بکس نمبر 3465 جمشید روڈ کراچی

02134913570
02134121152
info@banuri.edu.pk

No comments:

Post a Comment