ایس اے ساگر
دہشت گردی کے حوالہ سے ایک انگریزی روزنامہ نے نام نہاد وہابی اور صوفی ازم کی ایسی بحث چھیڑ دی ہے جس سے مسلم صفوں میں اتحاد کو مزید نقصان پہنچا ہے. اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا جب ایک نجی مجلس میں کسی صاحب نے مدرسہ کاشف العلوم کے شیخ الحدیث مولانا الیاس بارہ بنکوی سے کہا کہ صوفی ازم نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے. اس پر مولانا نے فرمایا کہ صوفی ازم نے اسلام کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ شریعت سے عاری صوفی ازم نے نقصان پہنچایا ہے.تقسیم وطن سے قبل پنجاب میں ایک ایسا ہی نام بلھے شاہ کا ہے. تاریخ کے اوراق الٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ بلھے شاہ کا اصل نام عبداللہ اور والد کا نام سخی محمد درویش تھا اس کے آباواجداد ملکوال کے رہنے والے تھے جہاں سے ترک وطن کر کے قصور کے نزدیک ایک گاؤں پانڈوکی میں آبسے بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں 1680 میں ہوئی. اسے بدقسمتی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ بچپن میں واجبی سی ابتدائی تعلیم کے علاوہ مزید نہ پڑھ سکے جبکہ جوان ہوکر علم باطن کے چکروں میں الجھے اور یوں دینی تعلیم سے محروم ہوگئے۔ اور ایک صوفی شاہ عنایت کے مرید ہوگے۔ پریم سنگھ بیدی نے 1896 کے دوران شائع ہونے والی کتاب “ کافی ہائے بلھے شاہ“ میں بلھے شاہ کو ان پڑھ قرار دیا ہے .عجیب بات یہ ہے کہ بلھے شاہ اپنے سید ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں جیسا کہ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں،
دہشت گردی کے حوالہ سے ایک انگریزی روزنامہ نے نام نہاد وہابی اور صوفی ازم کی ایسی بحث چھیڑ دی ہے جس سے مسلم صفوں میں اتحاد کو مزید نقصان پہنچا ہے. اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا جب ایک نجی مجلس میں کسی صاحب نے مدرسہ کاشف العلوم کے شیخ الحدیث مولانا الیاس بارہ بنکوی سے کہا کہ صوفی ازم نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے. اس پر مولانا نے فرمایا کہ صوفی ازم نے اسلام کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ شریعت سے عاری صوفی ازم نے نقصان پہنچایا ہے.تقسیم وطن سے قبل پنجاب میں ایک ایسا ہی نام بلھے شاہ کا ہے. تاریخ کے اوراق الٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ بلھے شاہ کا اصل نام عبداللہ اور والد کا نام سخی محمد درویش تھا اس کے آباواجداد ملکوال کے رہنے والے تھے جہاں سے ترک وطن کر کے قصور کے نزدیک ایک گاؤں پانڈوکی میں آبسے بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں 1680 میں ہوئی. اسے بدقسمتی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ بچپن میں واجبی سی ابتدائی تعلیم کے علاوہ مزید نہ پڑھ سکے جبکہ جوان ہوکر علم باطن کے چکروں میں الجھے اور یوں دینی تعلیم سے محروم ہوگئے۔ اور ایک صوفی شاہ عنایت کے مرید ہوگے۔ پریم سنگھ بیدی نے 1896 کے دوران شائع ہونے والی کتاب “ کافی ہائے بلھے شاہ“ میں بلھے شاہ کو ان پڑھ قرار دیا ہے .عجیب بات یہ ہے کہ بلھے شاہ اپنے سید ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں جیسا کہ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں،
بلھنے نوں سمجھاون آئیاں بھیناں تے بھرجائیاں
آل نبی، اولاد علی، بلھیاں توں کیہ لیکاں لائیاں
آل نبی، اولاد علی، بلھیاں توں کیہ لیکاں لائیاں
بلھے شاہ کے مشاغل میں سب سے دل پسند مشغلہ ناچنا اور رقص کرنا تھا اور یوں وہ طریقیت کی چھتری تلے رقص کرکے اپنے ناتمام عشق کی بھڑاس نکالتے تھے ناچنے، گانے اور رقص وسرود کی بناء پر ان کی دوستی ناچنے گانے والے لوگوں سے خوب تھی. اس دور میں ایک طبلہ نواز فقیر بخش جو بابا دھنا کے نام سے مشہور تھا، بلھے شاہ کا ہمنوا تھا. جب بلھے شاہ گھنگرو باندھنے کے بعد چھن چھن رقص معرفت فرماتے تو یہ بابا دھنا خوب طبلہ بجاتا. یوں دونوں اپنی اپنی جدوجہد میں مصروف رہتے اور طریقیت کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے منزلیں طے کرنے کا ذریعہ تھے یہی وجہ ہے کہ ان کاموں نے فلمی طبقہ کو ان کا عقیدت مند بنادیا ہے جس کی بناء پر ہرسال ان کے عرس (شادی) پر آکر وہ خوب بابا کے چلن یعنی “رقص ناچ گانے“ پر عمل کرتے ہیں. بابا کے عرس کہ جس کے معنی ہی شادی ہے، کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ بلھے شاہ کی تو ساری زندگی شادی ہی نہ ہوسکی اور نہ انہوں نے شادی کی کیوں؟ کیا وجوہات تھیں؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اہل طریقیت کے ہاں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے برعکس شادی نہ کرنا بھی ولایت کی ا یک بہت بڑی نشانی ہے. بہرحال، بابا بلھے شاہ کی شادی کی تو حقیقی شادی سے وہ مرتے دم تک محروم رہے جبکہ مرنے کے بعد اب ہر سال فلمی ادکارائیں اور اداکار ان کا عرس یعنی شادی کرتے ہیں. ایک بات یہ بھی ہے کہ بابا بلھا کی اگرچہ شادی تو نہ ہوسکی لیکن وہ عورتوں میں عشق مجازی اور حُسن کے ہمیشہ متلاشی رہے اس لئے ان کے کلام میں عورت بن کر شعر کہنا اپنے آپ کو عورت کے روپ میں ظاہر کرنا، جوان لڑکیوں کو مخاطب کرنا۔۔۔۔۔ عام طور پر پایا جاتا ہے جس کو عشق کا نام دیا جاتا ہے. بلھے شاہ کے کلام سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ شاید عشق مجازی کے ذریعہ عشق حقیقی تک رسائی کیلئے کسی دوشیزہ میں دلچسپی رکھتے تھے جو ان کے قریب وجوار میں موجود تھی اور چرخہ کاتا کرتی تھی. ان کے کلام میں اس کے متعلق کافی اشعار پائے جاتے ہیں ایک جگہ اس کو مخاطب کرکے یوں کہتے ہیں،
کر مان حسن جوانی دا
پردیس نہ رہن سیلانی دا
پردیس نہ رہن سیلانی دا
سانوں آمل یار پیاریا!۔
بلھے شاہ کا دور وہ تھا جب انگریز برصغیر میں اپنی مکروہ چالوں اور سازشوں کے ذریعہ قبضہ کرتا ہوا آندھی کی طرح بڑھتا چلا آرہا تھا، مسلمان تھے کہ اپنی آزادی کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، مجاہدین سر پر کفن باندھے ہوئے تھے، لوگ علمائے کرام ، فقہاء، مشائخ صوفیا او گدی نشیں حضرات کی طرف کان لگائے ہوئے تھے کہ وہ جہاد کا حکم دیں تو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں. خون مسلم سے گلیاں بازار اور شہر لہو لہان تھے. اس وقت جب انگریز کی لگائی ہوئی آگ پنجاب تک آپہنچی، بچہ بچہ مضطرب وپریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔ بلھنے شاہ۔۔۔۔ چونکہ حُسن وعشق اور محبوب پسند طبعیت کے مالک تھے اس لئے اس وقت وہ اپنے محبوب کی تعریف میں مگن تھے اور دنیا ومافیان سے بےخبر اس کو یوں پکارہے تھے۔
بلھے شاہ کا دور وہ تھا جب انگریز برصغیر میں اپنی مکروہ چالوں اور سازشوں کے ذریعہ قبضہ کرتا ہوا آندھی کی طرح بڑھتا چلا آرہا تھا، مسلمان تھے کہ اپنی آزادی کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، مجاہدین سر پر کفن باندھے ہوئے تھے، لوگ علمائے کرام ، فقہاء، مشائخ صوفیا او گدی نشیں حضرات کی طرف کان لگائے ہوئے تھے کہ وہ جہاد کا حکم دیں تو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں. خون مسلم سے گلیاں بازار اور شہر لہو لہان تھے. اس وقت جب انگریز کی لگائی ہوئی آگ پنجاب تک آپہنچی، بچہ بچہ مضطرب وپریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔ بلھنے شاہ۔۔۔۔ چونکہ حُسن وعشق اور محبوب پسند طبعیت کے مالک تھے اس لئے اس وقت وہ اپنے محبوب کی تعریف میں مگن تھے اور دنیا ومافیان سے بےخبر اس کو یوں پکارہے تھے۔
سانوں آمل یار پیار یا
درد کھلا حشر عذاب دا
برا حال ہو یا پنجاب دا
وچ ہاد یے دو زخ ساڑیا
سانوں آمل یار پیار یا
درد کھلا حشر عذاب دا
برا حال ہو یا پنجاب دا
وچ ہاد یے دو زخ ساڑیا
سانوں آمل یار پیار یا
بلھے شاہ کے عقائد اور افکار کہ جو شریعت مطہرہ کے سراسر خلاف ہی نہ تھے بلکہ وہ ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے جس کی تفصیل روح فرسا ہے. یہ عقائد ونظریات جب بلھے شاہ کے دور کے لوگوں کے علم میں آئے تو وہ بلھے شاہ سے سخت نفرت کرنے لگے۔ حتٰی کے جب ١٧٥٨ء میں بلھے شاہ نے وفات پائی تو علماء نے ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا اور عوام نے ان کا جنازہ نہ پڑھا حتٰی کہ ان کی میت تین روز تک قصور کے اس قبرستان میں جہاں آج دربار واقع ہے، بےیارومددگار نمونہ عبرت بنی پڑی رہی. تیسرے دن بلھے شاہ کے ایک ہم پیالہ وہم نوالہ پیرشاہ ہمدانی نے جو کسی کام کے سلسلہ میں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے، واپس آنے پر بلھے شاہ کا جنازہ پڑھوا کر ان کو اسی قبرستان میں دفن کردیا جہاں آج بلھے شاہ کا مزار واقع ہے .شروع میں یہ مزار سادہ قبر کی صورت میں تھا لیکن 1926 کے دوران یہاں کی ایک خاتون مراد بی بی نے اس کا پکا بنوا دیا ،یہ مراد بی بی کون تھی؟
یہ بعد میں پتہ چلا کہ وہ کوٹ مراد خان کی معروف طوائف اور رقاصہ تھی! کیسی بدقسمتی ہے کہ زندگی میں جو یاریاں تھی تو وہ ناچنے گانے والوں سے تھی پھر مزار بنا تو وہ بھی رقاصہ کے ہاتھوں سے اور آج وہاں میلہ لگتا ہے تو اس میلے میں بھی رقاصائیں اور ادکارائیں ہی زینت بخشتی ہیں۔
اب ذرا بلھے شاہ کے دربار کو دیکھئے ، ان کا کلام سنئے، پھر آپ خود فیصلہ کیجئے کے حق کیا ہے اور کہاں سے ملتا ہے؟ رہی بات بھانبڑ مچنے کی تو وہ تو اس وقت بھی مچایا گیا تھا جب اللہ کے خلیل امام الموحدین سیدنا ابراھیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے بزرگوں کی پتھر کی مورتیوں کو توڑ کر ان کی بےبسی کو ثابت کیا تھا اور سب لوگوں پر حق واضح کردیا تھا یہ بھانبڑ آج بھی بجتا ہے جب حق بات کہی جاتی ہے۔
شام تھیا تھیا! شام تھیا تھیا فلمی دنیا کی وہ مکروہ آواز ہے کہ جسے صنعت فحاشی کی ایک عورت نے گایا ہے اور فحاشی پھیلانے والی دوسری عورت پر اُسے فلمایا گیا ہے بسوں، ویگنوں اور بازاروں میں گونجتی ہے۔
تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا۔
تم کیا فلم کی طرح وہاں بھی ناچ ہوگا؟ گانا ہوگا؟ ڈآنس ہوگا؟ اور تھیا تھیا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔ جی ہاں، مشہور بھجن نواز چنچل نے راج کپور کی فلم بابی میں لہک کر مدح سرائی کی ہے ...
بیشک مندر مسجد توڑو
بلھے شاہ یہ کہتا
پر پیار بھرا دل نہ توڑو
اس دل میں دلبر رہتا ...
کھلی ہوئی فحاشی کی تعلیم کا ہی نتیجہ تھا کہ یہ فلمی صنعت اور شائقین نے بابا بلھے شاہ کے کلام سے خوب رہنمائی حاصل کی. “بلھے شاہ کہندے نین“ نامی کتاب یعنی بلھے شاہ کا کلام کا ایک بند کچھ اس طرح سے ہے،
بیشک مندر مسجد توڑو
بلھے شاہ یہ کہتا
پر پیار بھرا دل نہ توڑو
اس دل میں دلبر رہتا ...
کھلی ہوئی فحاشی کی تعلیم کا ہی نتیجہ تھا کہ یہ فلمی صنعت اور شائقین نے بابا بلھے شاہ کے کلام سے خوب رہنمائی حاصل کی. “بلھے شاہ کہندے نین“ نامی کتاب یعنی بلھے شاہ کا کلام کا ایک بند کچھ اس طرح سے ہے،
چھپ گیا وے سورج، باہر رہ گئی آ لالی
وے میں صدقے ہواں، دیویں مڑجے دکھالی
پیرا! میں بھل گئیاں بیرے نال نہ گئیا
تیرے عشق بچایا کرکے تھیا تھیا۔
وے میں صدقے ہواں، دیویں مڑجے دکھالی
پیرا! میں بھل گئیاں بیرے نال نہ گئیا
تیرے عشق بچایا کرکے تھیا تھیا۔
تھیا تھیا! رقص کا ایک انداز ہے کہ جس میں ایڑی زمین پر ماری جاتی ہے یہ انداز آج عرس کے موقع پر قصور میں پیش کیا جاتا ہے. قصور کی بلدیہ کا گراؤنڈ کچھا کھچ بھرا ہوا ...وہاں کی دیوار اور مکانوں پر جم غفیر ہوتا ہے. یہ سب تھیا تھیا دیکھنے جاتے ہیں۔
راتیں جاگن کُتے!
راتیں جاگیں، کریں عبادت
راتیں جاگن کتے، تیتھوں اتے
بھونکن توں بند، مول نہ ہندے
جا روڑی تے ستے تیتھوں اتے
راتیں جاگیں، کریں عبادت
راتیں جاگن کتے، تیتھوں اتے
بھونکن توں بند، مول نہ ہندے
جا روڑی تے ستے تیتھوں اتے
اس شعری مجموعے کو پڑھنے کے بعد واضح ہوجائے گا کہ لوگ کیوں کہتے ہیں کہ میں تو فلاں دربار کا کُتا ہوں، کوئی کہتا ہے میں سگ (کتا) میراں ہوں اور کہتا ہے کہ میں مدینے کا کتا ہوں، بہرحال کتا مدینے کا ہو، ہے تو وہ کتا ہی.... وہ مدینے ہی کے ایک کتے کا بچہ تھا اسے حضرت حسن یا حسین رضی اللہ عنہ گھر میں لے آئے. اب حضرت جبریل علیہ السلام وعدے کے باوجود نہ آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے بعد میں پتا چلا کہ گھر میں تو کتے کا بچہ تھا ،چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو۔
اب ایسے ناپاک اور نجس جانور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کا چلن اہل دربار میں کیوں معروف ہے، یہ تو اصحاب طریقیت ہی بتلا سکتے ہیں ہم کہیں گے اگر مزید لب کشائی کی گئی تو پھر شکایت ہوگی اور شاید کوئی فتوٰی لگادیا جائے کہ جی یہ تو گستاخ ہیں ،معرفت واسرار کی باتوں کو یہ کیا جانیں؟
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مذکورہ بالا اشعار ایک مومن کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں کہ جن میں انتہائی بے باکی سے کتے کو ان لوگوں سے برتر بنا دیا گیا ہے کہ جو اللہ کے بندے اپنی راتیں اللہ کی محبت اور یاد میں نفل ونوافل میں رو رو کر گزارتے ہیں۔
بلھے شاہ کا کلام پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ یار کو منانے کیلئے ناچا کرتے تھے. کم از کم ان کے کلام سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے،
بلھا! شوہ نے آندا مینو عنایت دے بوہے
جس نے مینوں پوائے چولے ساوے تے سو ہے
جاں میں ماری ہے اڈی مل پیا ہے دھیا
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
جس نے مینوں پوائے چولے ساوے تے سو ہے
جاں میں ماری ہے اڈی مل پیا ہے دھیا
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
جبکہ بلھے شاہ کا پیر یعنی بابا عنایت شاہ کا دربار فاطمہ جناح روڈ لاہور میں. بدقسمتی سے یہ دربار مسجد اور محراب کے سامنے چھت کے بالکل وسط میں بنایا گیا ہے. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہوئے ایمان والوں کی اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔
اُم سلمہ رضی اللہ عنھا نے حبشہ میں عیسائیوں کا گرجا دیکھا جس میں تصاویر بھی آویزاں تھیں تو اس کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
اُم سلمہ رضی اللہ عنھا نے حبشہ میں عیسائیوں کا گرجا دیکھا جس میں تصاویر بھی آویزاں تھیں تو اس کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
ان میں جب کوئی نیک آدمی مرجاتا ہے تو یہ لوگ اس کی قبر کے پاس عبادت گاہ تعمیر کردیتے پھر اس میں اس شخص کی تصاویر لٹکا دیتے، آٌپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ لوگ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہیں
(رواہ بخاری ومسلم)۔
(رواہ بخاری ومسلم)۔
چٹی چادر لاسٹ کڑئیے!۔
اگر کبھی کسی نے عابدہ پروین جو اپنی گلوکار ماں زاہد پروین کی گلوکارہ بیٹی ہیں، بلھے شاہ کا کلام سنا ہو جو انہوں نے گایا تھا، کچھ یوں ہے۔
اگر کبھی کسی نے عابدہ پروین جو اپنی گلوکار ماں زاہد پروین کی گلوکارہ بیٹی ہیں، بلھے شاہ کا کلام سنا ہو جو انہوں نے گایا تھا، کچھ یوں ہے۔
رانجھا رانجھا کردی ہن میں آپے رانجھا ہوئی
سدو مینو دھیدورانجھا ہیر نہ آکھو کوئی
چٹی چادر لا سٹ کڑیئے
پہن فقیراں لوئی
چٹی چادر داغ نہ کوئی
سدو مینو دھیدورانجھا ہیر نہ آکھو کوئی
چٹی چادر لا سٹ کڑیئے
پہن فقیراں لوئی
چٹی چادر داغ نہ کوئی
غور فرمایائیے، سفید چادر تو شریعت ہے کلام میں خلاف شرع کام کیا تو فورا داغ لگے گا، مگر لوئی جو صوفیت کا نشان ہے اس پہ جو مرضی لگتا رہے اس داغ کا پتہ نہیں چلتا، لہذا تصوف میں جو بھی کیا جائے اس کے بارے میں کہہ دیا جائے گا کہ جی یہ معرفت کی باتیں ہیں ظاہر کچھ نظر آتا ہے مگر باطن میں اس کا مطلب کچھ اور ہے لہذا اس پر مت بولو، ولی صاحب کی توہین ہوگی .چنانچہ “رانجھا رانجھا کردی“ بولے گئے اللہ کی پناہ۔۔۔۔
بابا بلھے شاہ کا مزید کلام!
رانجھا میں وچ، میں رانجھے وچ
غیر خیال نہ کرو کوئی
میں نہیں اوہ آپ ہے، اپنی آپ کرے دلجوئی
رانجھا رانجھا کردی ہن میں آپے رانجھا ہوئی
رانجھا میں وچ، میں رانجھے وچ
غیر خیال نہ کرو کوئی
میں نہیں اوہ آپ ہے، اپنی آپ کرے دلجوئی
رانجھا رانجھا کردی ہن میں آپے رانجھا ہوئی
بلھے شاہ کے دربار پر!
درباری چادر فضیلت کے جسے بلھے شاہ نے لوئی کہا ہے ،اس کے تقدس میں لپٹی ہوئی محفل پر غور کیجئے، حضرت رانجھا اور محترمہ مائی ہیر صاحبہ کے مقدس تذکرے کا سماع بھی ملاحظہ فرمائیے، دربار کی داستان بھی سنئے،
درباری چادر فضیلت کے جسے بلھے شاہ نے لوئی کہا ہے ،اس کے تقدس میں لپٹی ہوئی محفل پر غور کیجئے، حضرت رانجھا اور محترمہ مائی ہیر صاحبہ کے مقدس تذکرے کا سماع بھی ملاحظہ فرمائیے، دربار کی داستان بھی سنئے،
ٹھگوں کا ٹھگ کون ہے؟
جی ہاں بلھے شاہ کے دربار پر۔۔۔۔۔
یہ ہے وہ قوال۔۔۔۔
اور یہ ہیں قوالیاں اور یہ ہیں سماع اور سماع محفل کے جس کا اور درباروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور طریقیت کا یہ مضمون تب تک مکمل نہیں ہوپاتا تاوقتیکہ کہ شراب شباب کی حمایت میں شریعت کے ساتھ مذاق کا عنوان نہ بندھے اس لئے بلھے شاہ کہہ رہا ہے۔
جی ہاں بلھے شاہ کے دربار پر۔۔۔۔۔
یہ ہے وہ قوال۔۔۔۔
اور یہ ہیں قوالیاں اور یہ ہیں سماع اور سماع محفل کے جس کا اور درباروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور طریقیت کا یہ مضمون تب تک مکمل نہیں ہوپاتا تاوقتیکہ کہ شراب شباب کی حمایت میں شریعت کے ساتھ مذاق کا عنوان نہ بندھے اس لئے بلھے شاہ کہہ رہا ہے۔
بلھیا پی شراب تے کھا کباب
پر بال ہڈاں دی اگ
چوری کر، تے بھن گھر رب دا
ایس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ
پر بال ہڈاں دی اگ
چوری کر، تے بھن گھر رب دا
ایس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ
اللہ کی پناہ۔۔۔۔۔ کہ شراب اور کباب کھانے کے بعد چوری اور پھر صاحب عرش عظیم کو اس قدر گالی کہ مولا کریم کو “ٹھگوں کو ٹھگ“ کہے۔۔۔۔۔۔ اور یار لوگ ایسے شخص کو ولی مانیں اور جب ہم ان گستاخیوں پر تنبیہ کریں تو ہمیں گستاخ کہیں؟
واللہ اعلم،
اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ امت کہاں کھڑی ہے!
واللہ اعلم،
اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ امت کہاں کھڑی ہے!
(بشکریہ صراط الہدی )
بابا بلھے شاہ (1680ء - 1757ء) جن کا اصل نام عبداللہ شاہ تھا اچھ، بہاولپور میں 1680 میں پیدا ہوئے۔ آپ پنجابی صوفی شاعر تھے۔ جب آپ کی عمر چھ ماہ تھی تو آپ کے والدین ملکوال، ضلع منڈی بہاودین ہجرت کر گئے۔ آپ کے والد مقامی مسجد کے امام اور استاد تھے۔ بعد میں آپ اعلی تعلیم کے لئے قصور تشریف لے گئے جہاں آپ کے استاد غلام مرتضی تھے۔
ReplyDeleteحقیقت کی تلاش بلھے شاہ کو مرشد کامل حضرت شاہ عنایت قادری کے در پر لے گئی۔ بابا عنایت شاہ قادری کا ڈیرا لاہور ميں تھا۔ آپ زات کے آرائیں تھے اور کھیتی باڑی اور باغ بانی پر گزارا کرتے تھے۔ شاہ عنایت کی صحبت نے بلھے شاہ کو بدل کر رکھ دیا اور بلھے شاہ بے اختیار پکار اٹھے :
بلھیا جے توں باغ بہاراں لوڑیں
چاکر ہو جا رائیں دے
ایک سید کا ایک معمولی آرائیں کو اپنا مرشد مان لینا کوئی معمولی بات نا تھی۔ بلھے شاہ کو اپنی زات برادری کے لوگوں کی مخالفت اور کئی قسم کے طعنے برداشت کرنے پڑے۔ بلھے شاہ نے ـ بڑی بے خوفی سے اس بات کا اعلان کیا کہ مرشد کامل خواہ کسی ادنا سے ادنا زات میں آۓ ہوں ان کا دامن کڑ کر ہی انسان بہر ہستی سے پار اتر سکتا ہے۔ وہ بے دھڑک ہو کر کہتا ہے کہ سید زات کا غرور کرنے والے دوزح کی آگ میںجلیں گے اور سائیں عنایت جیسے آرائیں کا دامن تھامنے والا روحانی دولت سے مالا مال ہو جائیں گئے۔
جیہڑا سانوں سید آکھے، دوزح ملن سزائیاں
جیہڑا سانوں آرائيں آکھے، بہشتی پینگاں پائیاں
جے توں لوڑیں باغ بہاراں، طالب ہو جا رائیاں
بابا بلھے شاہ کے چند مشھور اشعار جو انھوں نے عشق الہی میں کہے
ع عشق جناں نو لگ جاندے ٹٹ جاندے سک جاندے وانگ کانیاں دے
کش سک جاندے کش مک جاندے نال خلقت دے طعنیاں دے
کش عشق دا بدنام کردے کش سڑ جاندے وانگ پروانیاں دے
بلھے شاہ عشق دے بجے نی چھٹدے چھٹ جاندے قیدی جیل خانیاں دے
اویں تے دنیا ملن نی دندی ملاں گے نال بہانیاں دے
یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں
Or ap ne unki shairi k jo hawaly diye hain woh sab namukamal hain q k mukamal kalam pesh krny se apka k mazmoon me rangeeni nhi aa skti thi......
ReplyDeleteپڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ReplyDeleteہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی
Unhon ne ilam be amal ki mukhalifat ki hai....
ReplyDeleteبلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ ہے۔[1]آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 1680ء میں مغلیہ سلطنت کے عروج میں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہو ئے۔[2] کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد قصور کے قریب پانڈومیں منتقل ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان بھی پڑھی اور منطق، نحو، معانی، کنز قدوری،شرح وقایہ، سبقاء اور بحراطبواة بھی پڑھا۔
ReplyDelete