جوتوں میں نماز پڑھنا جائز ہے؛ بشرطیکہ وہ پاک ہوں تاہم اس میں چند اُمور قابل لحاظ ہیں:
اوّل:
سجدے میں انگلیوں کا زمین سے لگنا ضروری ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جس وضع کے جوتے (نعال، چپل) پہنے جاتے تھے وہ زمین پر انگلیوں کے لگنے سے مانع نہیں تھے؛ اگرکسی نے اسی وضع کے جوتے پہن رکھے ہوں تو ان کے اندر نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں؛ لیکن اگر جوتے بند اور سخت ہوں جو انگلیوں کے زمین پر لگنے سے مانع ہوں تو اُن کو پہن کر نماز پڑھنا محلِ اشکال (قابلِ اعتراض) ہے۔
دوّم:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد کا فرش پختہ نہیں تھا؛ بلکہ کچے فرش پر کنکریاں تھیں؛ اس لئے وہ حضرات جوتے سمیت اس فرش پر چلتے تھے اور اس کوعرف میں بے ادبی نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ اب بھی جو مسجد زیرتعمیر ہو اس کے کچے فرش پر جوتوں سمیت چلنے کا معمول ہے، برعکس اس کے آج کل مساجد کے فرش پختہ ہیں اور ان پر دری، قالین وغیرہ کا فرش رہتا ہے اور ایسے فرش کو جوتوں سے روندنا عرفاً سوءِادب شمار کیا جاتا ہے؛ اسی کیساتھ یہ اضافہ بھی کرلیا جائے کہ مدینہ طیبہ کی پاک گلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خشک اور پاک ہوتی تھیں؛ ان پرچلنے سے جوتے آلودۂ نجاست نہیں ہوتے تھے اس کے برعکس آج کی گلیوں اور بازاروں میں جوتوں کا پاک رہنا ازبس مشکل ہے، اس لئے آج کل مسجد میں ایسے جوتے پہن کر آنا؛ انہیں جوتوں سے قالین اور فرش کو روندتے ہوئے گزرنا اور پھرانہی آلودہ جوتوں میں نماز ادا کرنا یا اس کی اجازت دینا مشکل ہے.
سوّم:
جوتوں میں نماز پڑھنے کا حکم یہودی کی مخالفت کیلئے دیا گیا تھا گویا جوتوں میں نماز پڑھنا بذاتِ خود کوئی نیک کام نہیں؛ لیکن اپنے مقصد یعنی یہود کی مخالفت کی وجہ سے اس کو مستحب قرار دیا گیا، آج یہود کا جوتے اُتارنا یا نہ اُتارنا تو کسی کو معلوم بھی نہیں؛ لیکن نصرانیوں کا بوٹوں سمیت عبادت گاہوں کو روندنا سب کو معلوم ہے؛ پس جس طرح مخالفتِ یہود کی بناء پر یہ فعل مستحب تھا، آج انگریزوں کی موافقت وتقلید کی بناء پر یہ فعل مکروہ ہونا چاہئے۔
چہارم:
علامہ شوکانی نے جوتوں میں نماز پڑھنے کومستحب کہا ہے، حدیث شریف کے پیشِ نظر ہمارے نزدیک بھی مستحب ہے، بشرطیکہ مذکورہ بالا اُمور کوملحوظ رکھا جائے؛ ورنہ یہی فعل مکروہ ہوگا؛ چنانچہ بعض اکابر (صحابہ وتابعین وائمہ دین) نے ان شرائط کے بغیر مکروہ قرار دیا ہے ان اقوال کی تفصیل شیخ کوثری کے مقالات (صفحہ:۱۷۰/ومابعد پر) دیکھ لی جائے۔
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل:
۲/۱۷۸، کتب خانہ نعیمیہ،
دیوبند)
No comments:
Post a Comment