Saturday, 6 February 2016

کیا ہے کرکٹ ٹورنامنٹ کی شرعی حیثیت؟

ایس اے ساگر

کیا آپ نے کبھی کرکٹ ٹورنامنٹ کی شرعی حیثیت جاننے کی طرف توجہ دی ہے؟

سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں!

آج کل نوجوان کرکٹ میچ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور جیتنے والی ٹیم کو انعام کے طور پر کچھ نقدی یا ٹرافی وغیرہ دی جاتی ہے ۔

مسئلہ کی نوعیت کچھ یوں ہے !

مثلاً ٹیم کے کپتان زید پوری ٹیم سے یا چند کھلا ڑیوں سے کچھ چندہ، پیسے جمع کرتا ہے ، جس کا مجموعہ پانچ سو روپے بنتے ہیں یا پھر زید اپنے ہی جیب سے پانچ سو روپے دیتے ہیں۔

اب زید نے دوسری ٹیم کیساتھ میچ مقابلہ رکھا اور یہ مقابلہ جو بھی ٹیم جیتیگی وہ انعام کے پانچ سو روپے کے مستحق ہو گی، اب فرض کریں زید نے یہ مقابلہ جیتا ہے اور جیتنے کے بعد وہ پانچ سو روپے جوانہوں نے اپنے ساتھیوں سے جمع کئے تھے وہ ان ساتھیوں کو واپس کرتا ہے اور باقی جو پانچ سو روپے انعام میں ملے ہیں ٹیم کے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ مقابلہ میں انعام کی شرعی حیثیت اور جیتے ہوئے پانچ سو روپے جو زید کے پاس ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

دوسری صورت مقابلہ کی یہ ہے کہ جس کو کرکٹ کی اصطلاح میں ٹورنامنٹ کہتے ہیں اور یہ ٹورنا منٹ بکر چلا رہے ہیں او راس ٹورنا منٹ میں ٹوٹل چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور فی ٹیم پانچ سو روپے فیس جمع کرتے ہیں، پھر کچھ مرحلوں سے گزرنے کے بعد دو ٹیمیں فائنل میں پہنچ جاتی ہیں ، پھر اس میں جو ٹیم جیتے گی اس کو بارہ سو روپے اور ہارنے والی ٹیم کو آٹھ سو روپے انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں اور باقی جو رقم بچ جاتی ہے بکر اس کو کچھ ٹورنامنٹ کے دوران اخراجات پر خرچ کر لیتے ہیں او رباقی رقم اپنی جیب میں رکھ دیتے ہیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی ٹیم کا شرعی حکم اور پھر جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں کو جو انعام، نقدی یا ٹرافی وغیرہ کی صورت میں دی جاتی ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

اور بکر جو اس ٹورنامنٹ کو چلا رہے ہیں اور باقی رقم اپنی جیب میں رکھ دیتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

اگر مندرجہ بالاصورتیں ناجائز ہیں تو ایساکوئی طریقہ اور بدل بتائیں کہ امت مسلمہ اس گناہ سے بچ سکے۔ بینوا توجروا․

جواب… سوال میں مذکورہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں، اس لئے کہ دونوں صورتوں میں جوا اور قمار پایا جاتا ہے ، قمار ہر اس معاملے کو کہتے ہیں جس میں کچھ زائد ملنے کی امید کے ساتھ ساتھ اپنا مال جانے کا خطرہ بھی ہو ، مذکورہ دونوں صورتوں میں بھی ہر ٹیم کو جیتنے کی صورت میں اپنی جمع کرائی ہوئی رقم سے زائد ملتا ہے اور ہار جانے کی صورت میں اپنی جمع کروائی ہوئی رقم بھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور اسی کو جوا اور قمار کہتے ہیں، جو کہ ناجائز اور حرام ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إنما الخمر والمیسر والأنصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون
( المائدہ:90)

اور جہاں تک اس کے جائز متبادل کی بات ہے تو پہلے مسئلے میں جہاں دو ٹیمیں آپس میں مد مقابل ہوتی ہیں جواز کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ:

یا تو شرط کسی ایک جانب سے لگائی جائے یعنی ایک ٹیم ، دوسری ٹیم سے کہے : اگر تم جیت گئے تو ہم ، تم کو اتنے روپے دیں گے اور اگر ہم جیت گئے تو ہم کچھ نہ لیں گے۔

اور یا پھر کوئی ثالث ( تیسرا فریق) جیتنے والی ٹیم کو بطور انعام اپنی طرف سے تبرع او راحسان کے طور پر دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ٹورنامنٹ کی صورت میں چوں کہ کئی ٹیمیں آپس میں مد مقابل ہوتی ہیں ، لہٰذا اس میں جواز کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ کوئی تیسرا فریق اپنی طرف سے جیتنے والی ٹیم کو بطور انعام کچھ رقم دے دے۔

واضح رہے کہ آج کل جس طرح سے یہود ونصاری نے مسلمانوں کے ذہنوں پر باطل کی محنت کرکے انہیں کھیل کود ، لہو ولعب اور سیرو تفریح جیسے ضیاع وقت کے اسباب میں مشغول کرکے اپنے مقصدِ اصلی سے ہٹا دیا ہے اور اس مختصر سی زندگی کے قیمتی لمحات وہ جس طرح سے لایعنی میں ضائع کرتے ہیں کہ انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا، اسلام قطعاً ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔

بلکہ ہمارا فرضِ اولین یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر ہر موڑ پر شریعت کے حکم کو معلوم کرکے اپنی تمام تر اغراض، خواہشات اورمفادات کو پس پشت ڈال کر ، حکم خداوندی کی تعمیل کریں، یقینا اسی میں ہمار ی ابدی کامیابی اور دنیا وآخرت کی سرخروئی ہے۔

نہ یہ کہ ہم ہر مسئلے میں دین اور شریعت کو اپنی خواہشات کے تابع سمجھیں اور اگر خواہشات پوری نہ ہوں تو اس حکم شرعی کو غیر فطری سمجھتے ہوئے یا ” تکلیف مالا یطاق“ گردانتے ہوئے پس پشت ڈال دیں۔

یقینا جس مرد مؤمن کو اللہ تعالیٰ کی خوش نودی مطلوب ہو اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کے سامنے اپنی ہزاروں خواہشات کو قربان کرنا آسان ہوتا ہے نہ کہ حکم خداوندی کو پامال کرنا۔

لہٰذا کرکٹ یا کوئی بھی کھیل اگر اس کو کھیل ہی کی حد تک محدود رکھا جائے او راس میں کسی حرام کا ارتکاب نہ ہو رہا ہو تو اسے کھیلنے میں حرج نہیں اوراگر خداناخواستہ ایسا نہ ہو تو اسے ترک کر دینا لازم ہے۔

جامعہ فاروقیہ

No comments:

Post a Comment