Friday, 5 February 2016

زلزلوں کی رات

ایس اے ساگر
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم  پر ناپ تول میں کمی کی وجہ سے جب عذاب اور زلزلہ آسکتا ہے تو آج حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کمی بیشی کی وجہ سے زلزلہ آگیا تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ سورہ اعراف میں اللہ جل شانہ کا پاک ارشاد وارد ہے کہ
فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْن
کون جانے رات کو بستر پر جانے والے کو صبح کا سورج دیکھنا نصیب ہو یا نہیں! گذشتہ شب نیپال، ہندوستان اور تائیوان زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اٹھے. نیپال میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ یہ جھٹکے رات 10 بجے کے بعد محسوس کئے گئے۔ زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5.2 بتائی گئی۔ نیپال کے علاوہ ہندوستان میں بہار کے دربھنگہ، موتیہاری، شیوہر، سیتامڑھی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ واضح رہے کہ اپریل کے آخری ہفتے میں نیپال میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں جہاں ہزاروں لوگوں کی جانیں تلف ہوگئی تھیں ، وہیں اربوں روپے کی جائیداد بھی برباد ہو ئی تھی۔ اس سانحہ کے محض نو ماہ بعد گذشتہ رات تقریبا 10 بجے ایک بار پھر کھٹمنڈو اور اس کے ارد گرد زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔ جھٹکے اتنے تیز تھے کہ لوگ دہشت کے مارے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ بعد میں ریکٹر اسکیل پر اس زلزلے کے 5.2 ہونے کی تصدیق کی گئی۔ زلزلے کے یہ جھٹکے صرف نیپال ہی نہیں ،بلکہ بہار کے بھی کئی اضلاع میں محسوس کئے گئے۔ دربھنگہ، موتیہاری، شیوہر، سیتامڑھی، پورنیہ میں یہ جھٹکے محسوس کئے گئے۔ زلزلے سے تادم تحریر کسی طرح کے جانی یا مالی نقصان کی خبر نہیں ہے ، لیکن گزشتہ سال آنے والے تباہ کن زلزلے کی یاد اس نے ضرور تازہ کر دی ، جس کی وجہ سے لوگوں میں زیادہ خوف و ہراس پھیل گیا۔
متعدد عمارتیں منہدم:
لیکن تائیوان کے جنوبی حصے میں شدید زلزلے سے تائینان شہر میں متعدد عمارت منہدم ہوگئیں جبکہ امدادی عملہ ملبے تلے پھنسے افراد کو نکالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ فوری طور پر کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ہفتہ کی علی الصبح درپیش اس زلزلے کی شدت 6.4 تھی۔ اطلاعات کے مطابق کم از کم چار عمارتیں منہدم ہوگئیں جن میں ایک بلند رہائشی عمارت بھی شامل ہے۔ تقریباً 20 لاکھ کی آبادی والے شہر تائینان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہر کی انتظامیہ نے ہنگامی ٹیم قائم کر دی ہے۔ جبکہ امریکی ارضیارتی مرکز کا کہنا ہے زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی میں نہیں تھا جس کے باعث اس کے اثرات زیادہ ہوتے ۔ تائیوان کے اخبار لبرٹی ٹائمز کے مطابق منہدم ہونے والی ایک عمارت رہائشی کمپلیکس تھی اور اس میں لوگ سو رہے تھے۔ ٹی وی پر دکھائی جانے والی تائنان کی تصاویر میں امدادی کارکنوں کو منہدم ہونے والی عمارتوں میں پھنسے ہوئے افراد کو نکالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی علاقوں میں بجلی منقطع ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ زلزلے کے جھٹکے 300 کلومیٹر فاصلے پر واقع دارالحکومت تائی پی میں بھی محسوس کئے گئے اور اس وقت سے اب تک کئی آفٹرشاکس بھی آچکے ہیں۔جبکہ تائیوان ایسے خطہ میں واقع ہے جہاں دو ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور وہاں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔ تائیوان میں 1999 کے دوران 7.6 کی شدت کے زلزلے سے 2300 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام؟
یہاں دارالعلوم حیررآباد کے استاذ محمد تبریز عالم قاسمی کا پر مغز مقالہ خاطر خواہ رہنمائی کرتا ہے کہ سنن ترمذی کی ایک حدیث  سے زلزلہ کی وجہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ :
(جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کیساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ باتیں یہ ہیں )
1- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔
2-                امانت دبالی جائے۔
3-                 زکاة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔
4-                 علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔
5-                 انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔
6-                 دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔
7-                مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔
8-                 قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔
9-                انسان کی عزت اِس لیے کی جائے؛ تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔
10-               گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔
11-                شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔
12-               بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔
(سنن الترمذی، رقم: ۲۱۱، ما جاء فی علامة حلول المسخ)
اہل علم کا مبارک وجود :
موجودہ ماحول کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے مذکورہ ساری پیشین گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، دھوکہ، بے ایمانی، بد عنوانی ، سرکاری وعوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں، مسلمانوں کے مالیہ کا نظام بد سے بدتر ہے، عصری تعلیم اس قدر غالب ہے کہ دینی درس گاہوں کے طلبہٴ کرام، مدرسے کی چہار دیواری میں رہتے ہوئے دینی تعلیم سے بے فکر ہو کر، عصری علوم کے حصول کیلئے کوشاں ہیں. جبکہ ممبئی کے قریبی علاقہ میں 14 طلبا پکنک مناتے ہوئے سمندر میں غرقاب ہوچکے ہیں.  بھلا ہو ان علمائے کرام کا جن کی اذان کی بدولت لاشیں دیکھنی نصیب ہوگئیں، بصورت دیگر سرکاری عملہ تو مایوس ہوچکا تھا.
معاشرتی نظام کا زوال :
معاشرتی اقدار میں اس قدر زوال آچکا ہے کہ والدین کی نافرمانی کے واقعات اجنبی نہیں رہے ہیں، بیوی کی اندھی محبت نے کتنے بنے بنائے گھر اجاڑ دیے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول پراگندہ ہوچکا ہے، عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نا اہل کے ہاتھوں تاراج ہوچکے ہیں ...مزید یہ کہ گانا، موسیقی ، سینما بینی اور اِسی قبیل کی لغویات کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اِس حوالے سے کچھ کسر باقی رہ گئی تھی تو اسے موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پورا کردیا ہے ، ام الخبائث کا شوق جہاں غیروں کو ہے، وہیں اپنے بھی اب پیچھے نہیں رہے، اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیا اور نیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، اور یہ ساری باتیں آج سے نہیں بہت پہلے سے ہیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہی متنبہ کردیا تھا ، جہا ں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، وہیں دوسری طرف زلزلوں کی آمد کی وجوہات سمجھنے میں معین ومدد گاربھی ہے. کیا یہ وہی ماحول نہیں ہے جس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا تھا:
جب لوگ زنا کو حلال کرلیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنا لیں تو اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ وہ زلزلہ برپا کردے۔
کیا کہتی ہے تاریخ؟
گذشتہ شب نیپال، ہندوستان اور تائیوان  کے واقعات نئے نہیں ہیں بلکہ جب بھی ایسا ماحول ہوا، قدرت نے انسانوں کو سنبھلنے کیلئے متنبہ کیا ہے، انھیں آگاہ  کیا ہے کہ ”ہے وقت ابھی جاگو اے مومنو، غفلت سے“
۲۰ھ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی زلزلہ آیا، انھوں نے زمین پر ایڑی ماری اور فرمایا:
اے زمین تو کیوں ہلتی ہے، کیا عمر نے تیرے اوپر عدل قائم نہیں کیا؟ اور زمین کا زلزلہ رک گیا۔
59ھ میں ایک زلزلہ آیا جو 60 دن تک رہا، کئی شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
223ھ کے دوران شہر غرناطہ میں زلزلہ آیا اور پورا شہر تباہ وبرباد ہوگیا۔
۲۴۱ھ میں وامغان میں زلزلہ آیا، جس میں تقریبا پچیس ہزار لوگ جاں بحق ہوگئے۔
کسی کو شک ہو تو زلزلہ مشاہدات وواقعات،ص:۱۰ سے رجوع کر سکتا ہے.
کیوں نہیں سنبھلتے؟
اسی طرح 8 اکتوبر 2005 کو پاکستان میں آنے والا زلزلہ، دنیا کا چوتھا بڑا زلزلہ تھا، جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کل ہلاکتیں ۷۴۶۹۸ تھیں،اُس سے قبل ۲۰۰۴ء میں انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں، ایران کے شہر بام میں ۲۰۰۳ء میں زلزلے سے ۳۰ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے، جنوری ۲۰۰۱ء میں ہندوستان کے صوبہٴ گجرات میں ۲۰ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کی شہادت ویکی پیڈیاآزاد دائرة المعارف سے ملتی ہے.
کیا ہے اسلام اور سائنس کا موقف ؟
نیپال کے گذشتہ شدید زلزلے کے بعد سوالات گردش کرنے لگے تھے کہ آخر زلزلے کیوں آتے ہیں؟ لوگوں میں عجیب وغریب آرا پائی جاتی ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیو ہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں وہ زلزلے پیدا کرتے ہیں، برادران وطن کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر ٹکی ہوئی ہے، جب و ہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زمین ایک بڑے کچھوے کی پیٹھ پر ہے، وہ جب حرکت کرتا ہے تو زلزلے آتے ہیں، یہ سب غیر اسلامی نظریات ہیں، سائنس داں حضرات کے نظریات میں اختلاف ہے ، کچھ کا کہنا ہے کہ زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں، اور کچھ کہتے ہیں کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اِس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے جس سے زلزلے آتے ہیں، کچھ سائنس داں حضرات کا دعوی ہے کہ زمین کے اندرونی حصے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھولتی ہے؛ لیکن اِس وقت سب سے مقبول نظریہ پلیٹ ٹیکٹوٹس کا ہے، جس کی معقولیت کو تمام غیر مسلم ماہرین نے تسلم کرلیا ہے. اس کے مطابق جب زمین کی پلیٹ جو تہہ در تہہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضیاتی دباوٴ کا شکار ہور کر ٹوٹتی یا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمین پر زلزلے کی لہریں پیدا ہوتی ہیں، یہ لہریں نظر تو نہیں آتیں؛ لیکن اِن کی وجہ سے سطح زمین پر موجود ہرچیز لرزنے لگتی ہے۔ اِسلامی نقطہٴ نظر سے زلزلے کا بنیادی سبب انسان کی بد اعمالیوں پر مداومت ہے ، اور اِس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست آزمائش ہے، ہمیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ تمھارا رب تم سے ناراض ہے، تم نیکیوں کی جانب متوجہ ہوجاوٴ،اور مامورات کا امتثال اور منہیات سے اجتناب اپنا شیوہ بنالو۔
اسلام اور سائنس میں کیا ہے فرق؟
سائنس نے یہ تو بتادیا کہ زمین کی پلیٹیں ہلتی ہیں تو زلزلہ آتا ہے؛ لیکن ایسے مواقع پر کیا کرنا چاہئے،  نہیں بتایا؛جبکہ اِسلام نے نہ صرف زلزلے کے اسباب بتائے ہیں بلک اُس کا معقول حل بھی بتایا ہے. دنیا کی تاریخ، بالخصوص تباہی کی شکار اقوام کی تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے جو کچھ بتایا ہے اُس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، اسلامی نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تو یہ زلزلے ہمیں یہ سبق سکھاتے ہیں کہ تم نے کتنی بھی ترقی کرلی، کیسی بھی مشین ایجاد کرلی، کتنی ہی مضبوط عمارتیں بنالیں، اڑنے کے سامان بنالئے، کمپیوٹر ایجاد کرلئے، چاند اور مریخ پرکمندیں ڈال دیں ، مسافت سمیٹ کر دنیا کو ایک آنگن بنادیا، سردی میں مصنوعی گرمی اور گرمی میں مصنوعی سردی کے اسباب مہیا کرلئے اور ترقی کے سارے رکارڈتوڑ ڈالے؛ لیکن تم اپنی اوقات یاد رکھو، اپنی تخلیق کا مقصد یاد رکھو، اپنے مالک وخالق سے لا تعلق مت ہوجاوٴ، اس کی مرضیات ونا مرضیات کو پہچانو، دنیا وآخرت کا فرق سمجھو، حیات وما بعد الحیات کا راز جانو، اور یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھو کہ تم سے بڑھ کر بھی کوئی ذات ہے، جس کی قدرت وعظمت اور قہاریت وجباریت کا تم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے؛ چنانچہ ابن ابی شیبہ کے مطابق  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ کے اندر زلزلہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاوٴں کی معافی مانگو۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:۸۳۳۴ فی الصلاة فی الزلزلہ)
اسلام نے دنیاکو یہ حقیقت بھی سمجھائی کہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا، جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی اورسب سے بڑے دربار میں، سب کو اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینا ہے، اسلامی زبان میں اسے قیامت کہتے ہیں،یہ زلزلے انسان کواُسی قیامت کی یاد دلاتے ہیں کہ ابھی تو تھوڑی سی زمین ہلادی گئی ہے تو یہ حال ہے، جب قیامت کا زلزلہ آئے گا تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ لہٰذا وقت سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال درست کرلو؛چناں چہ بخاری کی روایت میں ہے: سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ علم اٹھالیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہوجائے۔(بخاری، رقم:۱۰۳۶) کیا ایک کامل ایمان شخص اِس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ زلزلے علاماتِ قیامت میں سے نہیں ہیں؟
لہٰذا اِس موقع پر ہمیں وہی کام کرنا چاہئے جو اِس موقع پر اسلام ہم سے چاہتا ہے؛ چناں چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
جہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کیلئے ہلاکت ہے۔
(الجواب الکافی لابن القیم،ص:۴۷)
ابن قیم نے اپنی کتاب میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحم اللہ کا ایک خط نقل کیا ہے، جو زلزلے کے موقع سے انھوں نے حکومت کے لوگوں کو لکھا تھا کہ اگر زلزلہ پیش آئے تو جان لو یہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں؛ لہٰذا تم صدقہ وخیرات کرتے رہا کرو۔ (الجواف الکافی،ص:۴۷)
اِس موقع پر نماز بھی پڑھ سکتے ہیں
علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے یہ اصول قائم کیا ہے کہ ہر گھبراہٹ کے موقع پر نماز پڑھنی چاہئے، زلزلہ بھی ان مواقع میں سے ہے؛ لہٰذا تنہا تنہا مسلمانوں کو نماز ادا کرنی چاہئے اور تضرع کیساتھ دعائیں کرنی چاہئیں  اور یہ نماز دو رکعت عام نمازوں کی طرح ہوگی؛ البتہ مکروہ وقت میں نہ پڑھی جائے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے بصرہ میں زلزلہ کی بنا پر نماز پڑھی ہے۔
(بدائع الصنائع ۱/۲۸۲)
دعاوں کا اہتمام :
زلزلے کے موقع پر مذکورہ دعاوٴں کا ورد رکھنا چاہئے، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اِس موقع پر لوگوں کو تین دعاوٴں کے اہتمام کی تاکید کی تھی، یہ تینوں دعائیں، قرآنی دعائیں ہیں؛ اِس لئے اِن کی اہمیت اور تاثیر کا انکار نہیں کیا جاسکتا:
۱- حضرت آدم علیہ السلام کی دعا
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن
(الاعراف:۲۳)
۲- حضرت نوح علیہ السلام کی دعا
وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُن مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ
(ہود:۴۷)
۳- حضرت یونس علیہ السلام کی دعا
لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْن
(انبیاء:۸۷)
                                                                                     (الجواب الکافی،ص:۴۷)
الغرض زلزلوں کے تعلق سے اسلام میں مکمل رہنمائی موجود ہے اور مشترکہ طور سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ زلزلے صرف زیر زمین پلیٹوں کے ملنے یا چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ سے نہیں آتے؛ بلکہ یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ زلزلے انھیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں؛ لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں؛ لیکن موجودہ سائنس کایہ مانناہے اور میڈیا چلا چلا کر اُس کے نظریات کی تشہیر کررہا ہے کہ مصائب، آفات اور زلزلوں کا ظہور کسی عبرت اور نصیحت کے لیے نہیں؛ بلکہ اِس کا تعلق تو طبعیات سے ہے اور الحاد ودہریت کے بڑھتے ہوئے دور میں انسان کی قساوتِ قلبی اِس انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے کچھ مسلمان بھائی بھی اِسے صرف سائنس کا کرشمہ ہی سمجھتے ہیں اوراِن حالات میں جانی ومالی حفاظت کا ہی تذکرہ کرتے ہیں، توبہ واستغفار اور انابتِ الی اللہ کو ضروری نہیں سمجھتے۔
کیا ہے مسلمان کا شیوہ؟
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
اگر ایک شخص صاحبِ ایمان ہے تو اُس کیلئے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اِس واقعہ کے پیچھے کیا مصلحتیں کام کررہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کیا بھلائیاں پیدا کرے گا اور کائنات کے مجموعی نظام کے اعتبار سے اِس کے اندر کیا خیر کا پہلو ہے؟ میں نہیں جانتا؛ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اِس کائنات کا کوئی ذرہ، کوئی پتہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر نہیں ہلتا اور کوئی حرکت اِس کائنات میں اللہ کی حکمت کے بغیر نہیں ہوتی؛ لہٰذا سرِ تسلیم خم ہے، جو کچھ ہوا، وہ اُن کی حکمت کے عین مطابق ہوا، چاہے ہماری سمجھ میں وہ حکمت آئے یا نہ آئے، ہم اِس پر کوئی رائے زنی نہیں کرتے۔(اصلاحی خطبات۱۶/۱۳۸)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ہم جزم اور وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ (زلزلہ) عذاب تھا یا نہیں، اِس بحث میں پڑنے کی بجائے ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم سے متاثرین کی جتنی مدد ہوسکتی ہے ہم وہ مدد کریں، جو لوگ دنیا سے چلے گئے اُن کیلئے دعاءِ مغفرت کریں، جو موجود ہیں اُن کیلئے دعائے صحت کریں اور ساتھ ساتھ توبہ واستغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید مصائب اور تکلیفوں سے محفوظ فرمادے(یادرہے ہر تخریب، ایک تعمیر کا پیش خیمہ ہوتی ہے)
(اصلاحی خطبات۱۶/۱۴۱)
سائنس کی ناکامی :
مولانا پیر فقیرذوالفقار صاحب نقشبندی لکھتے ہیں:
سائنس زلزلے کا مرکز، زلزلے کی شدت اور گہرائی تو بتاسکتی ہے؛ لیکن کب آئے گا؟ اور کہاں کہاں کتنی تباہی پھیلائے کا، اِس بارے میں باوجود اتنی ریسرچ کے سائنس گنگ ہوجاتی ہے
قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّہِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْن
(الملک:۲۶)
کہہ دو کہ اِس کا علم تو فقط اللہ ہی کے پاس ہے میں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین کے کس حصے میں پلیٹیں ہلتی ہیں؟ اور کب ہلتی ہیں؟ یہ پلیٹیں روز روز کیوں نہیں ہلتیں، کیا اندھا قانون ہے جو اِنکو ہلاتا ہے؟ اِن سوالوں کا جواب ہمیں شریعت دیتی ہے شریعت یہ کہتی ہے کہ طبعی اسباب اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہیں، اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہوں تو اسباب بندے کے موافق ہوجاتے ہیں، بسا اوقات کسی جگہ کے لوگوں کے اعمال خراب ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو وہ ناراض کرلیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی تنبیہ کے لیے زمین کو حکم دیتے ہیں کہ تھوڑا ان کو جھٹکا دے تو زمین جھٹکا دیتی ہے، یا سائنس کی زبان میں یوں کہنا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہوتے ہیں تو جغرافیائی اور ماحولیاتی پیرامیٹرز کو بندوں کے موافق بنادیتے ہیں اور جب ناراض ہوتے ہیں تو پیرا میٹرز میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ لوگ آفات میں جکڑے جاتے ہیں........
وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَأَہْلُہَا مُصْلِحُون
(ھود: ۱۱۷)
اور آپ کا رب ایسا نہیں ہے کہ ہلاک کردے کسی بستی کو اور بستی والے نیک کام کرنے والے ہوں۔ (زلزلہ․․مشاہدات وواقعات،ص:۱۵)
شہید اسلام مولانا محمدیوسف صاحب لدھیانوی  لکھتے ہیں:
زلزلہ کے کچھ اسباب بھی ہیں، جن کو طبقات ارض کے ماہرین بیان کرتے ہیں؛ مگر ان اسباب کو مہیاکرنے والا ارادہٴ خداوندی ہے اور بعض دفعہ طبعی اسباب کے بغیر بھی زلزلہ آتا ہے، بہر حال ان زلزلوں سے ا یک مسلمان کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور دعا واستغفار، صدقہ وخیرات اور ترکِ معاصی کا اہتمام کرنا چاہئے۔
(آپ کے مسائل، ۱/۳۸۶)
اِس وقت جبکہ پوری دنیا زلزلے کے ا ثرات کو محسوس کررہی ہے، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے اپنے ناواقف اور دین سے برگشتہ مسلم نوجوان کا ذہن صاف کرے ،شکوک وشبہات مٹائیں، اِس کیساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات وہدایات اور قرآنی ارشادات وفرمودات پُر زور انداز میں پیش کریں اور اسلام وسائنس کا تقابلی جائزہ پیش کرکے معیارِ حق کو ثابت کرنے کی کوشش کریں، کیا پتہ کچھ بے راہ رو، راہِ راست پر آجائیں، ہر شر میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے،اور ہر تخریب، تعمیر کا پیش خیمہ ہوتی ہے، کھلے سمندر میں جائے حادثہ پر اذان کے ذریعہ  14 طلبا کی لاشوں کی برآمدگی نے ثابت کردیا ہے کہ اللہ آج بھی دل مضطر کی سنتا ہے! 

No comments:

Post a Comment