Sunday, 21 February 2016

کون تھے حافظ پٹیل رحمہ اللہ؟

ایس اے ساگر

لندن کے بسنے والوں کیلئے21 فروری 2016 بہت سخت ثابت ہوئی. ہند نژاد عالم دین اور برطانیہ و یوروپ میں تبلیغی جماعت کے امیر حافظ یوسف پٹیل کا 92 سال کی عمر میں ویسٹ یاک شائر میں انتقال ہوگیا ۔ انہوں نے لندن کے مرکز کے قیام میں کلیدی رول ادا کیا تھا جو تبلیغی جماعت کا یوروپین ہیڈکوارٹر شمار کیا جاتا ہے ۔اس سانحہ سے پورا یوروپ ہل کے رہ گیا. یہی وجہ ہے کہ نماز جنازہ میں لندن کے علاوہ یوروپی ممالک بشمول فرانس ، جرمنی ، اسپین اور پرتگال سے کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی ۔کل کی سی بات معلوم ہوتی ہے جب 1960  کی دہائی میں گجراتی مسلم برادری نے انہیں دعوت و تبلیغ کیلئے لندن مدعو کیا تھا اس کے بعد  انہوں نے ایسے غیرمعمولی دعوتی کام انجام دیئے کہ رہتی دنیا تک انھیں فراموش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے.

داعی اسلام کیلئے متکلم السلام کے تاثرات :

عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت کے امیر اور متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسلام تو نازل ہی اس لئے ہوا  کہ اس نے ہر سو پھیلنا ہے ، باقی ادیان پر دلائل کی قوت سے غالب ہونا ہے ، تاقیامت رہنا ہے۔ یہ خداوند قدوس کا پسندیدہ دین ہے اس میں ساری انسانیت کی دنیاوی اور اخروی کامیابیاں ہیں۔ یہ خدا کی وہ امانت ہے جو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کڑے اور تلخ حالات میں امت تک دیانت بلکہ حق دیانت کے ساتھ باکمال پہنچائی جب جہالت، ضد، انا اور خواہشات کے بتوں کو پوجنے والے کسی کی نہیں سنتے تھے۔ پھر دین کی اسی دعوت کو لے کر امت کے جلیل القدر طبقات صحابہ و اہل بیت ، تابعین و تبع تابعین ، فقہاء ، محدثین ، مفسرین اور اولیاء اللہ لےکر  چلے ۔

تواصی بالحق، تواصی بالصبر :

دعوت کا یہ عمل حالات کے مدوجزر کے مطابق اپنے آپ کو برقرار رکھتے ہوئے بلاتعطل پوری آب و تاب کیساتھ مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ اس نے اپنے داعیوں کی تربیت تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی بنیادوں پر کی یعنی باہم حق بات کی تلقین کو مسلسل دہراتے رہنا تاکہ تمہارا ایمان و ایقان پختگی کے اعلی درجے کو پہنچ جائے۔ اور اگر حالات ناموافق آ جائیں تو دل برداشتہ ہو کر اسلام کے دامن عافیت سے ہاتھ نہیں کھینچنا بلکہ خدائے حکیم و خبیر کے حکم صبر پر لبیک کہتے رہنا ۔

مولانا الیاس رحمہ کی فراست :

پچھلی صدی عیسوی میں دین اسلام کی اشاعت کو جو انتظامی طور پر منظم شکل دی گئی وہ حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی رحمہ اللہ بانی تبلیغی جماعت کی فراست ایمانیہ کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کےتمام خطوں میں بسنے والے انسانوں تک اسلام کا پر امن اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں پر منحصر نظام سامنے آ چکا ہے ۔

علمی، عملی، روحانی، اخلاقی اور فکری تربیت :

برصغیر میں تبلیغ دین کا عمل نسبتاً یوروپ کے آسان ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں پر اکابر علماء اہل السنت والجماعت کی علمی، عملی، روحانی ، اخلاقی اور فکری تربیت زیادہ رہی ہے ۔ آج کے اس دور میں جب یورپ کا نام سنتے ہیں فحاشی ، عریانی ، بے حیائی ، بے لباسی ، بے شرمی اور فکری آوارگی کا تصور ابھر کر ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے-

حافظ صاحب کا درد اور کڑھن :

ایسے دور میں یوروپ میں اسلام کی دعوت انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے ۔ ان حالات میں اللہ کریم نے اپنے جس عظیم ولی کا انتخاب کیا دنیا اسے حافظ محمد پٹیل رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے ۔ آپ 1962 میں انڈیا سے دل میں ایک درد ، کڑھن ، جذبہ لے کر یوروپ تشریف لائے۔ آپ نے اس عرصے میں یہاں کے کئی بڑے بڑے دینی مراکز قائم کئے۔ کئی مساجد بنوائیں ، خلق خدا کی کثیر تعداد کو تبلیغ جیسی عظیم محنت سے وابستہ کیا۔ ہزاروں لوگوں کی دل کی دنیا بدلی۔ ان کو یوروپ کی غلاظتوں سے پاک کر کے اسلام کے پاکیزہ ماحول سے متعارف کروایا۔ کئی لوگوں کو دولت ایمان سے مالا مال فرمایا۔ اور یہاں کے باسیوں کو دین حق کی حقیقت سے آشنا کروایا۔ ساری زندگی اللہ کیلئے وقف کی حالات کے تیکھے اور تند و تیز جھکڑچلے ۔

فحاشی و عریانیت پر شکنجہ :

فحاشی و عریانی ، بے راہ روی کے منہ زور سیلاب آئے۔ لیکن آپ نے نہ صرف یہ کہ وہاں کے لوگوں کو اس سے بچایا ۔ بلکہ ان میں ایسی روح پھونکی کہ وہ دوسروں کو بچانے والے بن گئے ۔ جس ذات کی محبت، قربت، معیت، وصل اور  کے حصول کیلئے آپ نے زندگی بھر تکالیف و مصائب کا سامنا کیا۔ مشکلات جھیلیں بالآخر اسی کے آغوش رحمت میں جا کر ڈیرے لگالئے ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

No comments:

Post a Comment