متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو جن اعتقادی ، معاشرتی اور عملی بے راہ رویوں سے روکا یقیناً وہ نقصان دہ تھیں اس لیے منع کیا اور صراط مستقیم کے جن معتدل خطوط پر چلنے کا حکم دیا وہ یقیناً انفرادی و اجتماعی ، قومی و ملی طور پر سراپا خیر ہیں اس لیے حکم دیا ۔ ورنہ منع کرنے اور حکم دینے کا کوئی راز سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے منصب پر فائز ہو کر اتمام حجت کرتے ہوئے فرمایا :
ان ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔
اسلامی اعتقادات و معاملات ، طور طریقوں اور اصولوں پر جمے رہو اور غیر مسلم اقوام کے معتقدات ، رسوم و رواج اور اختراعات و خرافات سے مکمل بچو ورنہ یہ چیزیں تمہیں اپنے رب سے دور کر دیں گی ۔
قرآن و سنت اور اسلاف کے زریں اقوال کی بے شمار شہادتیں اس بات پر موجود ہیں کہ ساری انسانیت کے لیے صرف دین اسلام ہی مکمل ضابطہ حیات اور ذریعہ نجات ہے ۔ اسلام ہی کامل و مکمل ، جامع اور ناقابل تبدیل دستور العمل ہونے کی ناقابل تردید حقیقت ہے ۔
دنیا و آخرت ، زندگی موت اور فوز و فلاح کے تمام شعبے اس کے وسیع دائرے میں سمٹے ہوئے ہیں ۔
اسی لئے تو لوح محفوظ سے روح القدس کے دوش پر اُدْخُلُوْا فی السلم کافۃ کا فرمان قلب محمد تک پہنچایا گیا اور پھر لسان محمد سے سارے عالم کو اس نہج پر آ کر ابدی کامیابی کی نوید دی گئی ۔
اسلام نے آ کراقوام عالم میں ہماری مستقل الگ شناخت پیدا کی اور ہمیں اس پر قائم رہنے کا حکم دیا،جب تک ہم اپنی شناخت کی حفاظت کریں گے ہمارا وجود باقی رہے گا ورنہ اہل تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو قومیں اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہیں وہ اپنے وجود اور بقاء سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔ اس لیے ہمارا ہر قول و فعل شریعت اسلامیہ کی پاکیزگی سے مہکتا ہوا ہونا چاہیے نہ کہ غیر اسلامی رسوم و رواج کی گندگی میں لتھڑا ہوا ہو ۔
حضرت انسان کا سب سے قدیم ، شاطر ، چالاک ، عیار اور خطرناک دشمن شیطان ہے ۔ وہ اس کو ہر اس کام پر ابھارتا ہے بلکہ مزین کر کے پیش کرتا ہے جو عقلی و حسی اور شرعی طور پر برا اور فحش ہو ۔ جس پر قرآن کریم انما یامرکم بالسوء والفحشاء کے الفاظ سے شہادت دے رہا ہے ۔ ان بے شمار کاموں میں سے ایک غیر اسلامی ،غیرشرعی ، غیر فطری اور غیر اخلاقی محبت کا اظہار بھی ہے ۔ جسے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
جو اخلاق باختگی اور بے ہودگی کی انتہاء پر پہنچ کر ہی منایا جاتا ہے ۔سرخ لباس زیب تن کیے ، ایک دوسرے کو پھول دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ مردو عورت کا یہ بے حجابانہ ملاپ جہاں عورت کے ماتھے سے حیاء کا زیور لوٹ کر ذلت کا داغ لگا تا ہے وہاں پر مرد کے سر سے انسانیت کا تاج اتار کر اسے شرم سے جھکا دیتا ہے اور دونوں کو انسانوں کی وادی سے نکال کر درندگی کے جنگل میں چھوڑ دیتا ہے ۔
گزشتہ ادوار میں ہر سال 14 فروری کو جنسیت زدہ غیر مسلم اقوام ناجائز خواہشات کی تسکین و تکمیل کے لیے اسے منانے کا اہتمام کرتے تھے ۔ پھر اس کو فروغ دینے کے لیے اس دن سے وابستہ کئی دیو مالائی داستانیں بھی اس سے منسوب کر دیں اور تاریخ کے اوراق کو اپنے من کی سیاہی سے سیاہ کر کے رکھ دیا ۔ قطع نظر اس سے کہ ان داستانوں میں کہاں تک واقعیت کو دخل ہے ؟ ہم اس غیر ضروری بحث میں الجھے بغیر اس کے چند معاشرتی و شرعی مفاسد پر نگاہ ڈالتے ہیں :
1. سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہ سراسر غیر اسلامی فعل ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض ہوتے ہیں۔ ہماری تباہی و بربادی اور تنزلی کا اصل سبب خدا و ر رسول کی ناراضگی ہے ۔
2. اس کے بعد یہ سنجیدگی ، متانت ، عزت و وقار اور حیاء کے سراسر منافی کام ہے ۔
3. اس دن کئی عفت مآب بہنوں کی عزت کے آنچل تار تار ہوتے ہیں ۔ کئی خاندانوں میں دشمنیاں جنم لیتی ہیں نوبت قتل و قتال تک جا پہنچتی ہے ۔
4. دسیوں ، بیسیوں نہیں سینکڑوں ایسے واقعات و سانحات ہیں کہ اس دن عزت و شرافت کے جنازے نکلتے ہیں اور غیور وباشعور خاندانوں میں ماتم کی صفیں بچھ جاتی ہیں ۔
5. جنسیت کے بُت کو ”اظہارِ محبت “ کا لبادہ اوڑھا کر پوجا جاتا ہے ۔
6. یوم محبت کے دلکش اور دلربا عنوان سے شیطانی عمل کو فروغ دیا جاتا ہے ۔
7. غیر مسلم اقوام کے مخصوص و متعین تہوار کومنا کر ان سے مشابہت کا وبال اپنے سر لیا جاتا ہے اورفرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم من تشبہ بقوم فھو منہم کہ جو کوئی بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا دن قیامت اس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا ۔ کے تحت خدا اور رسول دشمنوں کی صفوں میں شامل ہو ا جاتا ہے ۔ جو ہمارے لیے کسی طور پر فائدے مند نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی ہے ۔
اولیاء کرام اور اہل علم کی جماعت بالخصوص حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی نے ’’التشبہ فی الاسلام‘‘ میں اصولی بحث کی ہے اور مسئلہ تشبہ کی مکمل تحقیق تحریر کی ہے ۔ اہل اسلام کو اسلامی اقدار و روایات زندہ کر کے لشکر رحمان میں شامل ہونا چاہیے لیکن افسوس کہ ہم خود شیطانی شطرنج کے مہرے بن جاتے ہیں ہم اور ہماری آنے والی نسلوں کی عزت و حیا کا بقاء صرف اور صرف اسلام کی روشن تعلیمات میں ہے اس لیے ہمیں اپنے معاشرے سے تمام غیر اسلامی ، غیر اخلاقی اور غیر فطری رواجوں کو ختم کرنا ہوگا ،ورنہ یاد رکھیں !!
ع تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں!!
No comments:
Post a Comment