Saturday, 20 February 2016

مصافحہ بالیدین

ایس اے ساگر

اہل علم کے نزدیک اہل اسلام میں ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کا معمول اور متوارث رہا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے امت کو کہیں کا نہیں رکھا. تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر ہند، پاک میں انگریز کی آمد سے پہلے کسی اسلامی کتاب میں دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو بدعت اور خلاف سنت نہیں کہا گیا،
انگریز جب ایک دوسرے کو ملتے تو ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے اور دیکھا دیکھی کالجوں وغیرہ میں ایک ہاتھ سے مصافحہ کا رواج شروع ہوگیا۔
اور عمل بالحدیث کا دم بھرنے والے حضرات  میں بھی صرف دائیں ہاتھ سے مصافحہ کا رواج چل پڑا،
اور ستم بالائے ستم یہ کہ بعض حضرات نے سنت نبوی کے عین موافق اور عھد نبوی سے متوارث دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو بدعت اور خلاف سنت قرار دیا اور انگریز کے طریقہٴ مصافحہ کو سنت نبوی قرار دیا۔اس سلسلہ میں غیرمقلدوں کی ایک جماعت کےساتھ دل چسپ مناظرے کی مختصر روداد ملاحظہ فرمائیے. فضیل احمد ناصری القاسمی، دیوبند فرماتےہیں کہ گذشتہ روز بتاریخ 19فروری کو میرےبرادرخورد مولوی فیاض احمد ناصری کامیسیج میرےنام آیا کہ غیرمقلدین آپ کی صلاحیت علمی کوموضوعِ بحث بنارہےہیں اور یہ کہہ رہےہیں کہ اہل حدیث کوکسی بھی مسئلہ میں کوئی زیرنہیں کرسکتا-
میں نےان کےاس دعوے کی قلعی کھولنےکیلئے "مصافحہ "کےموضوع پربحث کا چیلنج دےڈالا- وہ تیارہوگئے-
جب میں نےشرائط کی بات رکھی تووہ آئیں بائیں شائیں کرنےلگے-
میں نےکہاکہ چلیں، بغیرکسی شرط کےہی مناظرہ کرلیں-
وہ خوش ہوگئے-
میں نےیہ دعویٰ کیا: ہم اہلِ سنت والجماعت احناف کا موقف یہ ہےکہ مصافحہ دو ہاتھوں سےہی مسنون ہے-ایک ہاتھ سےمصافحہ بدعت اورگم راہی ہے-
کہنےلگے: ثبوت پیش کریں!
میں نے بخاری شریف جلد اول کی حدیث پیش کردی: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں "علمنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التشہد وکفی بین کفیہ. "
یعنی حضورعلیہ السلام نےمجھےتحیات سکھائی، جبکہ میراہاتھ آپ کےدونوں ہاتھوں کےدرمیان تھا-
کہنےلگے: دوسری دلیل؟
میں نےکہا: بخاری شریف میں ہی ہے:
باب الاخذ بالیدین، اوراس کےتحت بخاری نےنقل فرمایا: صافح حمادبن زید ابن المبارک بالیدین-حضرت حمادابن زید نےحضرت عبداللہ ابن مبارک سےدونوں ہاتھوں سےمصافحہ کیا-
میں نےکہا: جناب عالی! دونوں حدیثیں بخاری جلداول کی ہیں اورامام بخاری رحمہ اللہ مصافحہ بالیدین کوثابت کرنےکیلئے لائےہیں- امت کاعمل متوارث ہونےکےاثبات کیلئےانہوں نےدونوں بزرگوں کےمصافحہ بالیدین کاتذکرہ کیاہےاورکسی محدث وناقدحدیث نےامام بخاری کےان استدلالات کوردنہیں کیا-علامہ ابن حجرعسقلانی اورعلامہ قسطلانی جیسےبےشمارجبال علم ان کےاستدلال کوصحیح مان رہےہیں اوروہ بھی مصافحہ بالیدین کےقائل  ہیں-حتی کہ غیرمقلدین کےسوااس مسئلےپرتمام ہی امت کااتفاق ہے-
کہنےلگے: میں دلائل پیش کروں؟
میں نےکہا: ضرور -
وہ حضرت عبداللہ ابن بسرکی روایت لےکرآے اورکہنےلگےکہ اس میں  بیدی کالفظ ہے، جوکہ مفردہے-لہذاایک ہاتھ مرادہے-
میں نےکہا: میرےبھائیو! انسان کےجسم میں جومکرراعضاہیں، جب انہیں مفردبولاجائےتوجنس سےمرادہوکرمجموعہ مرادہوتےہیں-
کہنےلگے: کوئی دلیل؟
میں نےکہا: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، اسی طرح "من رایٰ منکم منکرافلیغیرہ بیدہ-وغیرہ-ان احادیث میں "ید "سےمجموعہ مرادہے، نہ کہ "ایک ہاتھ "-
کہنےلگے: عبداللہ بن بسروالی روایت میں "ید "کےبعد ھذہ "بھی ہےاورآگے "بہا "بھی -یہ دونوں"ید "کےواحد ہونےپرصاف دلالت کررہےہیں، ورنہ ھذین اور بہما آناچاہئےتھا-
میں نےکہا: اچھاجناب! "ید "مذکرہےیامؤنث؟ توپہلےتوبغلیں جھانکنےلگے، پھربولے: کہ دونوں میں مستعمل ہے، البتہ مذکرزیادہ چلتاہے، کیوں کہ  "یدت "سنانہیں گیا-علامت تانیث "ۃ "اس میں نہیں ہے، اس لیے مذکرہے-
میں نےکہا: آپ گرامرپڑھ لیجئے! یہ لفظ مؤنث سماعی ہے، اسی لئے "ھذہ "اور "بہا " مؤنث آیاہے-چوں کہ ید مؤنث ہے، اس لئےاس کی رعایت میں یہ اشارہ اورضمیرمؤنث لائی گئی ہے-اوریہاں بھی "ید "سےجنس ید ہی مرادہے-آپ کامدعاثابت کہاں ہوا؟ ھذہ اوربہاسے "ید "سے "ید واحدۃ "کیسےمرادلےسکتےہیں؟
میں نےپھرضرب لگائی: اگرآپ کسی بھی حدیث سے "یدواحدہ "ثابت کردیں، تومیں اپنی شکست کااعلان کردوں گا اوروہ ثابت نہ کرسکے-
گروپ ممبران نے جب ان کی کھلی شکست دیکھی، توبوکھلاکرحنفیوں کوگالیاں بکنےلگے-اس پرمجھے علامہ رمضانی البوطی رحمہ اللہ کا یہ بلیغ جملہ یادآگیا:
اللامذھبیۃ اخطربدع فی الاسلام-
اسلام غیرمقلدیت سےسب سےزیادہ خطرہ ہے

No comments:

Post a Comment