Thursday, 11 February 2016

Horses recognise emotions? بحر ظلامات میں دوڑادئے گھوڑے ہم نے

ایس اے ساگر
ابتدائے زمانہ سے انسان اور مویشیوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔یوں تو آج سے سینکڑوں برس قبل اسلام نے گھوڑوں کے حوالہ سے فضائل پیش کردیئے تھے تاہم گذشتہ روز پتہ چلا ہے کہ یہ وہ مخلوق ہے جو ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے کی ایک فطری صلاحیت کی مالک ہوتی ہے.تازہ ترین تحقیق کے مطابق گھوڑوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ انسان کے خوشی اور غم کے تاثرات کے درمیان امتیاز کرسکیں۔ یہ نظریہ برطانیہ کی سسیکس یونیورسٹی University of Sussexکے سائنسدانوں کا ہے۔اس یونیورسٹی کے محققین نے ایک تجربہ کیا جس میں انسانی چہروں کی تصاویر کا استعمال کیا گیا اور تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پالتوگھوڑوں نے غصے والے تاثرات کو دیکھ کر ’ناراضگی کا اظہار کیا۔‘ اس رویہ کے سبب سائنسداں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان گھوڑوں کو پالنے کی وجہ سے شاید ان کا انسانی رویوں کو اپنانے اور سمجھنے کا عمل فعال ہو سکتا ہے۔ یہ ایمان افروز تحقیق سائنسی جرنل بائیولوجی لیٹرز Biology Lettersمیں شائع ہوئی ہے۔
کیسے چلایا پتہ ؟
تحقیقی ٹیم اپنے ٹیسٹ کے نمونے اصطبل میں لے کر گئی اور کل28 گھوڑوں کو یہ بڑی تصاویر دکھائیں۔تحقیق کار ایمی اسمتھ Amy Smithکے بقول، ’ایک شخص نے گھوڑوں کو تصاویر دکھائیں جبکہ دیگر نے گھوڑوں کو تھاما۔ اس کا اہم نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے ان تصاویر کو اپنی بائیں آنکھ یعنی غصے والے تاثرات سے دیکھا۔ غورطلب ہے کہ ممالیہ یعنی دودھ پلانے والے جانور کے دماغ کے تار یہ معلومات ذخیرہ کرتے ہیں جبکہ دماغ کی دائیں جانب سے یہ معلومات لے کر بائیں آنکھ ا ±س پر عمل کرتی ہے۔ دماغ کی دائیں جانب کا نصف حصہ منفی محرکات پیدا کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ یہ صرف توانائی کی تقسیم کے متعلق ہے اس میں پورا دماغ استعمال نہیں ہوتا۔محققین نے گھوڑوں کو دل کی شرح ناپنے والے مانیٹرز سے بھی منسلک کیا۔ جس سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ غصے والے چہروں کی وجہ سے گھوڑوں کے دل کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی طرح پالتو کتوں پر کی گئی تحقیق کے بھی ایسے ہی نتائج دیکھنے میں آچکے ہیں۔ جس سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ انسانوں کیساتھ زندگی گزارنا جانوروں کی صلاحیتوں پر کس قدر اثر انداز ہوتا ہے۔
اضافی صلاحیت کا اظہار:
تاہم گھوڑوں میں ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے کی ایک فطری صلاحیت ہوتی ہے۔ دور حاضر میں مختلف وجوہ کے سبب بھلے ہی جدید سواریوں نے انسان کو گھوڑوں سے بے نیاز کردیا ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کی جانب سے ان کی دیکھ بھال کی وجہ سے شاید ان میں انسانی صلاحیتیں اپنانے کی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس عمل سے گھوڑوں کی اس اضافی صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اردگرد انسانی رویے ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘
کیا ہے گھوڑوں کی فضیلت؟
ان محققین کو کون سمجھائے کہ مشکوة شریف، جلد سوم ،جہاد کے بیان میں حدیث 980 کے تحت گھوڑوں کی فضیلت میں وارد ہے،
راوی:
وعن قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : ( البرکة فی نواصی الخیل )
(2/378)
3867 – [ 7 ] ( صحیح )
وعن جریر بن عبد اللہ قال : رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یوی ناصیة فرس باصبعہ واقول : الخیل معقود بنواصیھا الخیر الی یوم القیامة : الاجر والغنیمة۔ رواہ مسلم
(2/379)
3868 – [ 8 ] ( صحیح )
وعن ابو ہریرة قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : من احتبس فرسا فی سبیل اللہ ایمانا وتصدیقا بوعدہ فان شبعہ وریہ وروثہ وبولہ فی میزانہ یوم القیامة ۔ رواہ البخاری۔اوربخاری ومسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں برکت ہے۔
برکت کا ذریعہ :
پیشانی سے مراد’ ذات‘ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں میں ایک خاص قسم کی برکت رکھی ہے کیونکہ گھوڑوں کے ذریعہ جہاد کیا جاتا ہے جس میں دنیا وآخرت کی خیر وبھلائی ہے۔
خیر و بھلائی کا خزانہ:
اور مسلم شریف میں حضرت جریر ابن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے کی پیشانی کے بالوں کو اپنی انگلی سے بل دیتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ گھوڑے (وہ جانور ہیں ) جن کی پیشانیوں میں قیامت تک کیلئے خیروبھلائی بندھی ہوئی ہے کیونکہ گھوڑوں کے ذریعہ جہاد کے کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے جس میں دنیا کا مال غنیمت حاصل ہوتا ہے۔
کیا ملے گا پالنے پر؟
اور بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے وعدے کو سچ جاننے کی وجہ سے اللہ کی راہ میں (کام لینے کیلئے اپنے گھر ) گھوڑا باندھا تو اس گھوڑے کی سیری وسیرابی (یعنی اس نے دنیا میں جو کچھ کھایا اور پیا ہے وہ ) اور اس کی لید اور اس کا پیشاب قیامت کے دن اس شخص کے اعمال کی ترازو میں تولے جائیں گے۔
عظیم اجرت و ثواب :
’اللہ پر ایمان لانے اور اس کے وعدے کو سچ جاننے کی وجہ سے‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جہاد میں جانے اور دشمنوں سے لڑائی کیلئے جو گھوڑا اپنے ہاں باندھا ہو اس میں اس کی نیت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور اس کے حکم کی فرمانبرداری کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کیلئے جس عظیم اجرت وثواب کا وعدہ کیا ہے اس کی طلب گاری کی خاطر ہو۔
کیا ہے سیری اور سیرابی :
" سیری اور سیرابی " سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے جانور کا پیٹ بھرتا ہے اور سیراب ہوتا ہے یعنی گھاس ، دانہ ، پانی وغیرہ لہٰذا یہ ساری چیزیں بھی ثواب ملنے کے اعتبار سے اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی کہ قیامت کے دن یہ چیزیں ثواب کی شکل میں اس کو حاصل ہوں گی اور اس کے میزان اعمال میں تولی جائیں گی۔
حملہ کیوں نہیں کرتا؟
ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تاریخی کتاب دعوت و جہاد کے صفحہ 495، باب فضائل حملہ میںرقم طراز ہیں کہ سلطان ظاہر بیبرس جو بہت بڑا مجاہد گزرا ہے اور جو دن رات جہاد میں مشغول رہتا تھا. ان کے زمانے میں ایک مجاہد اپنے گھوڑے پر جہاد کیا کرتا تھا. گھوڑا بہت عمدہ تھا اور نہایت چستی سے دشمن پر حملہ کیا کرتا تھا ایک موقع پر گھوڑے نے آگے بڑھنے اور دشمن پر حملہ کرنے سے بالکل انکار کیا چنانچہ مالک جتنا اس کو آگے بڑھنے کیلئے مارتا گھوڑا پیچھے کی طرف مڑتا تھا آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتا تھا۔
آگے کیوں نہیں بڑھا گھوڑا؟
یہ آدمی حیران و پریشان ہوا کہ گھوڑے کو کیا ہوگیا جب رات آئی اور مالک سو گیا تو اس نے اپنے گھوڑے کو خواب میں دیکھا اور گویا یہ شخص خواب میں اپنے گھوڑے کی سرزنش کررہا ہے کہ تو آگے کیوں نہیں بڑھ رہا تھا تو گھوڑے نے جواب میں کہا، میں دشمن کی طرف کیسے بڑھ سکتا ہوں حالانکہ آپ نے جو چارہ خرید لیا تھا اس کے بدلے میں آپ نے کھوٹہ سکہ دیا تھا. چنانچہ صبح یہ شخص چارہ والے کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ،
کل آپ نے جو درہم دیا تھا وہ کھوٹا تھا،یہ کہہ کر اس نے درہم واپس کردیا۔
معمولی گناہ کی نحوست :
بظاہر معمولی سے گناہ کے سبب جہاد کو کتنا نقصان پہنچ گیا۔ایسی صورت میں مجاہدین بھائیوں کو چاہئے کہ وہ جہاد کے اس عظیم مبارک عمل کو اپنے نامناسب اعمال سے نقصان پہنچانے والے نہ بنیں تاکہ جہاد کی برکات سے خود بھی اور پورا عالم مبارک بن جائے اور فتوحات کے دروازے کھلیں اور شکست و فرار کے راستے بند ہو جائیں،جیسے کہ ماضی میںحضرت سعدرضی اللہ عنہ کیساتھ نصرت کا معاملہ ہوا۔
کمال کی اطاعت:
ذراحضرت سعدرضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی اطاعت کا اندازہ کیجئے ۔آپ کو اب اس بات کا خیال تھا کہ جس قدر جلد ہو مدائن پر قبضہ کریں؛ لیکن دریائے دجلہ درمیان میں حائل تھا، اس کا پایاب عبور کرنا سخت دشورا تھا۔ ایرانیوں نے بہرہ شیر سے بھاگتے ہوئے پل کو بالکل مسمار اورمنہدم کردیا تھا۔دور دور تک کوئی کشتی بھی نہیں چھوڑی تھی،دوسرے کنارے پر ایرانی فوج بھی متعین تھی جو عبوردریا سے مانع تھی ۔دوسرے روز حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے گھوڑے پر سوار ہوکر اورتمام فوج کی کمر بندی کرواکے فرمایا کہ
’ تم میں کون ایسا بہادر سردار ہے جو اپنی جمعیت کیساتھ اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ ہم کو دریا کے عبور کرنے کے وقت دشمن کے حملے سے بچائے گا؟‘
حضرت عاصم بن عمرورضی اللہ عنہ نے اس خدمت کی ذمہ داری قبول کی اورچھ سو تیر اندازاوں کی ایک جماعت لے کر دریائے دجلہ کے اس کنارے ایک اونچے مقام پر جا بیٹھے حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے
نستعین باللہ ونتوکل علیہ حسبنا اللہ ونعم الوکیل ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم
کہہ کر اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا ان کی تقلید میں دوسروں نے بھی جرات سے کام لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لشکر اسلام دجلہ کی طوفانی موجوں کا مقابلہ کرتا ہوا دوسرے کنارے کی طرف متوجہ ہوا ۔یہ سیلاب لشکر جب نصف سے زیادہ دریا کو عبور کرچکا تو اس طرف سے ایرانی تیر اندازوں نے تیر بازی شروع کی۔ ادھر سے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ اوران کی جماعت نے ایرانی تیر اندازوں پر اس زور وقوت کیساتھ تیر پھینکے کہ بہت سے ایرانی مقتول ومجروح ہوئے اوراس بلائے بے درماں سے اپنی جان بچانے کی تدبیروں میں مصروف ہوکر لشکر اسلام کو عبور دریا سے نہ روک سکے اورحق کو غلبہ نصیب ہوا۔علامہ اقبال نے’بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے‘ میں اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف ہے جب حضرت عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر گھوڑا بحر اوقیانوس میں ڈال دیاتھا۔
دشت تو دشت ہیں دریابھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے


Horses recognise emotions?
By: S. A. Sagar
In an experiment using photographs of male human faces, scientists from the University of Sussex showed that domestic horses "responded negatively" to angry expressions.
According to reports, 10 February 2016, the scientists say domestication may have enabled horses to adapt to and interpret human behaviour. The findings are published in the journal Biology Letters. The team carried out their tests at riding stables - presenting large photographs to a total of 28 horses. "One person presents the photo while another holds the horse," explained researcher Amy Smith. "The main result," she explained, "was that they looked [at angry faces] with their left eye." Mammal brains are wired such that input from the left eye is processed by the right side of the brain. "The right hemisphere is specialised for processing negative stimuli," explained Miss Smith. "It's really about the partition of energy - not using the whole brain." The researchers also fitted the horses with heart monitors, which revealed that angry faces caused their heart rates to rise significantly. Similar results have been reported recently in domestic dogs, raising questions about how living with humans might have influenced animals' abilities. While horses might have an innate ability to recognise emotions in each other, their domestication by humans could have caused them to adapt that ability to humans. "It also shows this extra ability of horses," said Miss Smith. "[It shows that] our behaviour around them has an impact." Prof Debra Archer, an equine veterinary surgeon at the University of Liverpool, said that anyone who was around regularly with horses would recognise that their behaviour had a "marked impact" on the animals. "But it's fascinating to see this tested scientifically; it's an interesting insight into the relationship between horse and human." Gillian Higgins, an equine anatomist who runs the organisation Horses Inside Out agreed. "When I'm relaxed, the horses will be relaxed. And if someone comes in who is stressed and nervous, they will pick up on that," she told BBC News.
120216_Bahr-e-Zulmaat Mein Daura Diye Ghore Hum Ne_by s a sagar
http://sagarurdutahzeeb.blogspot.in/2016/02/horses-recognise-emotions.html

No comments:

Post a Comment