Monday, 1 February 2016

شب معراج منانے کا کیا ہے حکم؟

رجب كى ستائيسويں رات كو اسراء و معراج كا جشن منانے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

اسراءاور معراج كى شب اللہ عزوجل كى ان عظيم الشان نشانيوں ميں سے ہے جونبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم كى صداقت اوراللہ کے نزديک آپ کے عظيم مقام ومرتبہ پر دلالت کرتي ہے، نيز اس سے اللہ عزوجل كى حيرت کن قدرت اور اس کے اپني تمام مخلوقات پر عالى وبلند ہونے کاثبوت ملتا ہے.

اللہ تعالى نے فرمايا:

{سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي بارکنا حوله لنريه من آياتنا إنه هوالسميع البصير }الاسراء (1).

پاک ہے وہ اللہ تعالى جواپنے بندے کو رات ہي ميں مسجد حرام سے مسجد اقصى تک لے گيا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھي ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپني قدرت کے بعض نمونے دکھائيں، يقينا اللہ تعالى ہي خوب سننے والا اور ديکھنے والا ہے.

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم کو آسمان پر لے جاياگيا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى خاطر آسمانوں کے دروازے کھولے گئے يہاں تک کہ ساتويں آسمان سے آگے گزر گئے، وہاں پر آپ کے رب نے اپنے ارادہ کے مطابق آپ سے گفتگو فرمائي اور پانچ وقت كى نمازيں فرض کيں، اللہ عزوجل نے پہلے پچاس وقت كى نمازيں فرض کيں تھيں،پھر ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم بار بار اللہ کے پاس جاتے اور تخفيف کا سوال کرتے رہے يہاں تک کہ اللہ تعالى نے اسے باعتبار فرضيت پانچ وقت كى کرديا اوراجر وثواب پچاس نمازوں ہي کا باقي رکھا، کيونکہ ہر نيكى دس گنا بڑھائي جاتي ہے لہذا اللہ تعالى ہي تمام تر نعمتوں پر حمد وشکر کا سزا وار ہے.

يہ رات جس ميں اسرا ومعراج کا واقعہ پيش آيا اس كى تعيين کے بارہ ميں کوئي صحيح حديث وارد نہيں ہے، بلکہ اس كى تعيين ميں جو روايتيں بھي آئي ہيں محدثين کے نزديک نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہيں، اور اس شب کو لوگوں کے ذہنوں سے بھلا دينے ميں اللہ تعالى كى کوئي بڑي حکمت ضرور پوشيدہ ہے، اور اگر اس كى تعيين ثابت بھي ہو جائے تو مسلمانوں کے لئے اس ميں كسى طرح کا جشن منانا يا اسےكسىعبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہيں ہے، کيونکہ نبي صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام نےنہ تو اس ميں كسى طرح کا کوئي جشن منايا اور نہ ہي اسے كسى عبادت کے لئے خاص کيا، اور اگر اس شب ميں جشن منانا اور اجتماع کرنا شرعا ثابت ہوتا تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم اپنے قول يا فعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے، اور اگر عہد نبوي يا عہد صحابہ ميں ايسي کوئي چيز ہوتي تو وہ بلا شبہ معروف ومشہور ہوتي اور صحابہ کرام اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے کيونکہ انہوں نے نبي صلى اللہ عليہ وسلم سے نقل کرکے امت کو ہر وہ بات پہنچائي جس كى امت کو ضرورت تھي، اوردين کے كسى بھي معاملہ ميں کوئي کوتاہي نہ كى بلکہ وہ نيكى کے ہرکام ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينے والے تھےچنانچہ اگر اس شب ميں جشن منانے اور محفل معراج منعقد کرنے كى کوئي شرعي حيثيت ہوتي تو وہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے.

نبي صلى اللہ عليہ وسلم امت کے سب سےزيادہ خيرخواہ تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے پيغام الہي کو پورے طور پر پہنچا کرامانت كى ادائيگي فرمادي، لہذا اگر اس شب كى تعظيم اور اس ميں جشن منانا دين اسلام سے ہوتا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم قطعا اسے نہ چھوڑتے اور نہ ہي اسے چھپاتے، ليکن جب عہد نبوي اور عہد صحابہ ميں يہ سب کچھ نہيں ہوا تو يہ بات واضح ہوگئى کہ شب معراج كى تعظيم اور اس کے اجتماع کا دين اسلام سے کوئي واسطہ نہيں ہے، اللہ تبارک وتعالى نے اس امت کے لئے اپنے دين كى تکميل فرما دي ہے، اور ان پر اپني نعمت کا اتمام کرديا ہے، اور ہراس شخص پرعيب لگايا ہے جو مرضي الہي کے خلاف بدعات ايجاد کرے.

اللہ سبحانہ وتعالى نے اپني کتاب مبين قرآن کريم ميں سورۃ المائدہ کے اندر فرمايا:

{ اليوم أکملت لکم دينکم وأتممت عليکم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا }المائدۃ ( 5 / 3 ).

آج ميں نےتمہارےلئےدين کوکامل کرديا، اور تم پر اپنا انعام پورا کرديا اور تمہارے لئے اسلام کے دين ہونےپر رضامند ہوگيا.

اور اللہ عزوجل نے سورۃ الشورى ميں فرمايا:

{ أم لهم شرکاء شرعوا لهم من الدين مالم يأذن به الله ولولا کلمة الفصل القضي بينهم وإن الظالمين لهم عذاب أليم }الشورى ( 42 / 21 ).

کيا ان لوگوں نے ايسے ( اللہ کے ) شريک ( مقرر کر رکھے ہيں جنہوں نے ايسے احکام دين مقرر کردئے ہيں جواللہ تعالى کے فرمائے ہوئے نہيں ہيں، اگر فيصلہ کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ( ابھي ہي ) ان ميں فيصلہ کر ديا جاتا، يقينا ( ان ) ظالموں کے لئے ہي درد ناک عذاب ہے.

رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث ميں بدعات سے بچنے كى تاکيد اور اس کے گمراہي ہونے كى صراحت ثابت ہے، تاکہ امت کے افراد ان کے بھيانک خطرات سے آگاہ ہو کر ان کے ارتکاب سے پرہيزواجتناب کريں.

چنانچہ صحيح بخاري ومسلم ميں حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے مروي ہے کہ رسول صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد "

جس نے ہمارے اس دين ميں کوئي نيا کام نکالا جو ( دراصل ) اس ميں سے نہيں ہے وہ ناقابل قبول ہے.

اور صحيح مسلم كى ايک روايت ميں يہ الفاظ ہيں کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد "

جس نے کوئي ايسا عمل کيا جو ہمارے اسلام ميں نہيں تو وہ ناقابل قبول ہے.

اور صحيح مسلم ميں حضرت جابربن عبداللہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ کے دن اپنےخطبہ ميں فرمايا کرتےتھے:

" أما بعد فإن خير الحديث کتاب الله وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة "

حمدوصلاۃ کے بعد: بيشک بہترين بات اللہ كى کتاب اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم کا طريقہ ہے، اور بدترين کام نئي ايجاد کردہ بدعتيں ہيں اورو ہر بدعت گمراہي ہے.

اور سنن ميں حضرت عرباض بن ساريہ رضي اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے وہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں انتہائي جامع نصيحت فرمائي جس سے دلوں ميں لرزہ طاري ہوگيا اور آنکھيں اشکبار ہوگئيں، تو ہم نے کہا اے اللہ کےرسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ الوداعي پيغام معلوم ہوتا ہے لہذا آپ ہميں وصيت فرمائيے آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" أوصيکم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن تأمرعليکم عبد فإنه من يعش منکم بعدي فسيرى اختلافا کثيرا فعليکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي تمسکوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة "

ميں تمہيں اللہ سے ڈرتے رہنے، حاکم وقت كى بات سننے اور ماننے كى وصيت کرتا ہوں اگرچہ تم پر حبشي غلام ہي حاکم بن جائے، اور ميرے بعد جوشخص زندہ رہےگا وہ بہت سے اختلافات ديکھے گا، اس وقت تم ميري سنت اور ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت کو لازم پکڑو اسے دانتوں سے مضبوط پکڑلو اوردين ميں نئي نئي باتوں سے بچو کيونکہ ہر نئي چيز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہي ہے.

رسول اکرم صلى اللہ عليہ وسلم کے صحابہ اور سلف صالحين بھي بدعتوں سے ڈراتے اور ان سے بچنے كى تاکيد کرتے رہےکيونکہ بدعات دين ميں زيادتي اور مرضي الہي کے خلاف شريعت سازي ہيں بلکہ يہ اللہ کے دشمن يہود ونصاري كى مشابہت ہے، جس طرح انہوں نے اپنے اپنے دين ( يہوديت، عيسائيت ) ميں نئي چيزوں کا اضافہ کرليا اور مرضي الہي کے خلاف بہت سي چيزيں ايجاد کرليں نيز بدعات ايجاد کرنے کا لازمي نتيجہ دين اسلام کونقص اور عدم کمال سے متہم کرنا ہے.

اور يہ تو واضح ہي ہے کہ بدعات کے ايجاد کرنے ميں بہت بڑي خرابي اور شريعت كى انتہائي خلاف ورزي ہے، نيز اللہ عزوجل کے اس فرمان

{ اليوم اکملت لکم دينکم }

آج ميں نے تمہارے لئے تمہارا دين مکمل کرديا ہے، سے ٹکراؤ اور بدعات سے ڈرانے اور نفرت دلانے والي احاديث رسول كى صريح مخالفت بھي ہے.

مجھےاميد ہے کہ اس مسئلہ ميں ہماري طرف سے پيش کردہ دليليں حق کے طلبگار کے لئے بدعت شب معراج کے انکار اور اس سے ڈرانے کے لئے کافي اور تسلي بخش ہوں گي، اور ان سے يہ بھي واضح ہوگيا ہو گا کہ شب معراج کےجشن اور اجتماع کا اسلام سے کوئي تعلق نہيں ہے.

چونکہ اللہ نے مسلمان بھائيوں کے ساتھ خيرخواہي اور ان تک شريعت كى تبليغ واشاعت کو واجب اور علم کے چھپانے کوحرام قرار ديا ہے، توميں نےمناسب سمجھا کہ مسلمان بھائيوں کو اس بدعت سے باخبر کردوں جو بيشتر ملکوں ميں پھيلى ہوئي ہے يہاں تک کہ بعض لوگوں نے اسے دين کا ايک حصہ سمجھ ليا ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے احوال كىاصلاح فرمادے انہيں دين كىسمجھ عطا فرما دے اور ہميں اور ان کو حق پر کاربند اور ثابت قدم رہنے اور خلاف حق امور سے گريز کرنے كىتوفيق عطا فرمائے، وہ اللہ اس کا کارساز اوراس پر قادر ہے.

اور اللہ اپنے بندے اور رسول ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اور آپ کے اہل وعيال اور ساتھيوں پر رحمت وسلامتي اور برکت نازل فرمائے.

No comments:

Post a Comment