Monday 8 February 2016

اقرار باللسان و تصدیق بالقلب

ایس اے ساگر
علامہ اقبال نے 
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
کیا  کہا کہ آج بہت سے لوگ اپنی علم شرعی میںکم مائیگی اور کم عقلی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ علم شرعی علم تجربانی یاسائنس سے اخذ کیا جاتا ہے۔کسی کو شک ہوتو وہ کسی ڈاکٹروں سے پوچھ کر دیکھ لے کہ عقل کا بسیرا کہاں ہے؟ دل میں یا دماغ میں؟ 
تو وہ یقینا آپ کو جواب دیں گے کہ سر میں، 
ان کا یہ جواب اپنے علم تجرباتی کی بنیاد پرہوتا ہے ۔ کیونکہ ان کے نزدیک کوئی انسان بے عقل یا باگل دماغ میں کوئی خرابی پیدا ہونے سے ہی ہوتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظریہ صحیح ہے یا نہیں؟ کیاعقل سر میں ہوتی ہے؟لیکن اس کا کیا کیجئے کہ یہ کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ بخاری، مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا،
سنو، انسانی جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ جائے گا۔ جان لو کہ یہ قلب ہے۔‘مشکوةشریف کی جلد اول کی حدیث 1 میں ایمان کے معنی یقین کرنا، تصدیق کرنا، مان لینا ہے۔ اصطلاح شریعت میں ایمان کا مطلب ہوتا ہے ، اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور ماننا کہ اللہ ایک ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود اور پروردگار نہیں، اس کے تمام ذاتی و صفاتی کمالات برحق ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں، ان کی ذات صادق و مصدوق ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب و سنت کی صورت میں اللہ کا جو آخری دین و شریعت لے کر اس دنیا میں آئے اس کی حقانیت و صداقت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

کیا ہے ایمان مجمل اور ایمان مفصل؟

ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ علمائے اسلام نے ایمان کی صفات کو دو طرح سے بیان کیا ہے :
1. ايمانِ مُجْمَل
2. ايمانِ مُفَصَّل
اِیمانِ مُجْمَل میں ایمانیات کو نہایت مختصر مگر جامع طریقے سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ مُجْمَل کا معنی ہی ’’خلاصہ‘‘ ہے۔ اس میں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے کہ بغیر اعلان کیے جملہ ایمانیات اس میں در آئیں،ایمانِ مُجْمَل یہ ہے
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ  بِالْقَلْبِ
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘‘
 جبکہ ایمانِ مُفَصَّل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت شدہ ایمانیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایمانِ مُفَصَّل یہ ہے،
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
’’میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر
اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل امور پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔
فرشتوں پر ایمان لانا۔
کتابوں پر ایمان لانا۔
رسولوں پر ایمان لانا۔
یومِ آخرت پر ایمان لانا۔
تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لانا۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا۔

تکمیل ایمان : 

محدثین کے نزدیک ایمان کے تین اجزاء ہیں :
" تصدیق با
قلب" یعنی اللہ کی وحدانیت ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور دین کی حقانیت پر دل سے یقین رکھنا اور اس یقین و اعتماد پر دل و دماغ کا مطمئن رہنا۔ " اقرار باللسان" یعنی اس دلی یقین و اعتقاد کا زبان سے اظہار ، اعتراف اور اقرار کرنا۔" اعمال بالجوارح" یعنی دین و شریعت کے احکام و ہدایات کی جسمانی بجا آوری کے ذریعہ اس دلی یقین و اعتقاد کا عملی مظاہرہ کرنا۔ ان تینوں اجزاء سے مل کر " ایمان" کی تکمیل ہوتی ہے اور جو آدمی اس ایمان کا حامل ہوتا ہے اس کو " مومن و مسلمان" کہا جاتا ہے۔
ایمان اور اسلام :
کیا ایمان اور اسلام میں کوئی فرق ہے یا یہ دونوں لفظ ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں؟ اس سوال کا تفصیلی جواب، تفصیلی بحث کا متقاضی ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ خلاصہ کے طور پر اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ظاہری مفہوم و مصداق کے اعتبار سے تو یہ دونوں لفظ تقریباً ایک ہی مفہوم کے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن اس اعتبار سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے کہ " ایمان" سے عام طور پر تصدیق قلبی اور احوال باطنی مراد ہوتے ہیں جبکہ " اسلام " سے اکثر وبیشتر ظاہری اطاعت و فرمانبرداری مراد لی جاتی ہے اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ " وحدانیت، رسالت اور شریعت کو ماننے اور تسلیم کرنے" کا جو باطنی تعلق دل و دماغ سے قائم ہوتا ہے اس کو " ایمان" سے تعبیر کرتے ہیں اور اس باطنی تعلق کا جو اظہار عمل جوارح کے ذریعہ ظاہری احوال سے ہوتا ہے اس کو " اسلام" سے تعبیر کرتے ہیں، ایک محقق کا قول ہے تصدیق قلبی جب پھوٹ کر جوارح " اعضاء" پر نمودار ہوجائے تو اس کا نام " اسلام" ہے اور اسلام جب دل میں اتر جائے تو " ایمان" کے نام موسوم ہو جاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حقیقت ایک ہے مواطن کے اعتبار سے اس کو کبھی " ایمان" کہا جاتا ہے اور کبھی " اسلام" اسی لئے ایمان اور اسلام ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں، نہ تو ایمان کے بغیر اسلام معتبر ہوگا اور نہ اسلام کے بغیر ایمان کی تکمیل ہوگی۔ مثلاً کوئی آدمی پانچوں وقت کی نماز بھی پڑھے، ہر سال زکوۃ بھی ادا کرے، استطاعت ہو تو حج بھی کر ڈالے اور اسی طرح دوسرے نیک کام کر کے اپنی ظاہری زندگی کو " اسلام" کا مظہر بنائے ہوئے ہو مگر اس کا باطن " قلبی تصدیق و انقیاد" سے بالکل خالی ہو اور کفر و انکار سے بھرا ہوا ہو تو اس کے یہ سارے اعمال بیکار محض قرار پائیں گے اسی طرح اگر کوئی آدمی ایمان یعنی قلبی تصدیق و انقیاد تو رکھتا ہے مگر عملی زندگی میں اسلام کا مظہر ہونے کے بجائے سر کشی و نافرمانی کا پیکر اور کافرانہ و مشرکانہ اعمال کا مجسمہ بنا ہوا ہے تو اس کا ایمان فائدہ مند نہیں ہوگا۔
بعض اہل نظر نے " ایمان اور اسلام" کی مثال " شہادتین" سے دی ہے یعنی جیسے کلمہ شہادت میں دیکھا جائے تو شہادت وحدانیت الگ ہے اور شہادت رسالت الگ ہے۔ لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ شہادت رسالت کے بغیر شہادت و حدانیت کار آمد نہیں، اور شہادت وحدانیت کے بغیر شہادت رسالت کا اعتبار نہیں۔ ٹھیک اسی طرح " ایمان" اور " اسلام" کے درمیان دیکھا جائے تو بعض اعتبار سے فرق محسوس ہوتا ہے لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ اعتقاد باطنی (یعنی ایمان) کے بغیر صرف اعمال ظاہرہ (اسلام) کھلا ہوا نفاق ہیں اور اعمال ظاہرہ کے بغیر اعتقاد باطن کفر کی ایک صورت ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں کے مجموعہ کا نام " دین " ہے۔


" جاننے" پر نہیں" ماننے" پر ہے 
ایمان کا مدار:

ایمان کے بارے میں اس اہم حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تصدیق یعنی ماننے کا نام ایمان ہے نہ کہ محض علم یا معرفت یعنی جاننے کا ۔ مطلب یہ کہ ایک آدمی جانتا ہے کہ " اللہ " ہے اور اکیلا ہے وہی پروردگار اور معبود ہے، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے سچے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین و شریعت اور تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، وہ مبنی برحقیقت و صداقت ہے ۔ مگر وہ آدمی دل سے ان باتوں کو نہیں مانتا ، ان پر اعتقاد نہیں رکھتا، اس کا قلب ان باتوں کے اذعان و قبول سے خالی ہے تو اس آدمی میں" ایمان" کا وجود نہیں مانا جائے گا اس کو مومن نہیں کہا جائے گا۔ مومن تو وہی آدمی ہو سکتا ہے جو ان باتوں کو سچ اور حق بھی جانے اور دل سے مانے اور تسلیم بھی کرے۔ جب داعی حق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پیش کی تو تمام اہل عرب بالخصوص اہل کتاب (یہود و نصاری) الوہیت کے بھی قائل تھے اور یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں اور جو دین و شریعت پیش کر رہے ہیں وہ حق اور سچ ہے۔ مگر ان میں سے جو لوگ حسد و عناد رکھنے کے سبب ان حقائق کو مانتے اور تسلیم نہیں کرتے تھے ان کے دل و دماغ میں ایمان کا نور داخل نہیں ہوسکا اور وہ کافر کے کافر ہی رہے ، ان حقائق کا " جاننا " ان کے کسی کام نہ آیا۔
بعض صورتوں میں " اقرار باللسان" کی قید ضروری ہے : جن حقائق کو ایمان سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کا زبان سے اقرار کرنا گووجود ایمان کے لئے ضروری ہے لیکن بعض حالتوں میں یہ زبانی اقرار (اقرار باللسان) ضروری نہیں رہتا۔ مثلاً اگر کوئی آدمی گونگا ہے اور اس کے قلب میں تصدیق تو موجود ہے لیکن زبان سے کوئی لفظ ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس کا ایمان زبانی اقرار کے بغیر بھی معتبر مانا جائے گا ، اسی طرح کوئی آدمی جانی خوف یا کسی واقعی مجبوری کی بنا پر زبان سے اپنے ایمان کا اقرار نہیں کر سکتا تو اس کا ایمان بھی زبانی اقرار کے بغیر معتبر ہوگا۔


" اعمال" کی حیثیت : 


وجود ایمان کی تکمیل کیلئے " اعمال" بھی لازمی شرط ہیں کیونکہ تصدیق قلب اور زبانی اقرار کی واقعیت و صداقت کا ثبوت " اعمال" ہی ہیں۔ یہی عملی ثبوت ظاہری زندگی میں اس فیصلہ کی بنیاد بنتا ہے کہ اس کو مومن و مسلمان کہا جائے اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ اگر کوئی آدمی دعوائے ایمان و اسلام کے باوجود ایسے اعمال کرتا ہے جو خالصتاً کفر کی علامت اور ایمان و اسلام کے منافی ہیں، یا جن کو اختیار کرنے والے پر کافر ہونے کا یقین ہوتا ہے تو وہ آدمی کافر ہی شمار ہوگا اس کے اور ایمان و اسلام کا دعوی غیر معتبر مانا جائے گا۔


کہاں‌ ہے عقل کا مرکز؟

 اگر آج آپ ڈاکٹروں سے پوچھیں عقل کا مرکز کہاں‌ ہے؟ صدر(سینے/دلل( میں یا راس(سر/دماغ) میں؟ تو وہ یقینا آپ کو جواب دیں گے کہ سر میں، وہ یہ جواب اپنے علم تجرباتی کے ذریعہ دیں گے کیونکہ (ان کے نزدیک( کوی انسان بے عقل یا باگل دماغ میں کوی خرابی پیدا ہونے سے ہی ہوتا ہے، (ان کے متعلق( یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟ ) بالکل صحیح‌ہے وہ ایسا ہی کہتے ہیں( تو) ان کے مطابق ( ثابت یہ ہوا کہ عقل سر میں‌ ہوتی ہے مگر یہ قراآن کریم کے خلاف ہےجہاں‌وہ فرماتا :
لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا ۔۔۔۔(الحج، 46)، (الاعراف: 179)
(ان کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں‌ سمجھتے)
یہ نہیں‌فرمایا : ام لھم رووس لا یعقلون بھا( کیا ان کے ایسے سر نہیں جن سے وہ سوچیں)
اور یہ مسلمان کے لیے تنبیہ بھی ہے کہ مجھے ایک مسلم ہونے کے ناطے اس چیز کا اعتقاد رکھنا ہے جو اللہ تعالی نے فرمایا :
لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کی تاکید خود رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم( نے اپنی مشہور حدیث کے ذریعہ فرمائی:
"الاوان فی الجسد مضغتہ اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب"
ترجمہ: خبردار! بیشک جس میں ایک گوشت کا لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح‌ ہے اور اگر اس میں‌فساد ہے تو سارے جسم میں‌فساد ہے اور جان لو کہ وہ لوتھڑا دل ہے۔
پھر اللہ تعالی نے سابقہ آیت کی تاکید کرتے ہوے فرمایا:
إِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ(سورتہ الحج، آیت نمبر 46)
ترجمہ: کیونکہ (حقیقت یہ ہےکہ( آنکھیں‌اندھی نہیں‌ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو کہ سینوں میں‌ہیں۔
چناچہ شرعی و نقلی اعتبار سے ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ ہم یہ کہیں عقل سر یا دماغ میں‌ہے بلکہ وہ و دل میں‌ہوتی ہے۔
حوالہ: سلسلتہ الھدی والنور ، شریط رقم ،644
شیخ محمد بن صالح العثمین(رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ
انسان کے افعال کی تدبیر کا مرکز دل ہے کیونکہ(دل کے متعلق( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ( کا فرمان ہے:
"اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ"
ترجمہ: اگر یہ صحیح‌ہو تو سارا بدن صحیح‌ہوگا اور اگر اس میں‌فساد ہو تو سارے بدن میں‌فساد ہوگا۔
کیا اس میں‌دلیل ہے کہ عقل دل میں‌ہوتی ہے؟
جواب ہے ہاں، بلکل اس میں‌اشارہ ہے کہ عقل دل میں‌ہوتی ہے، اور مدبردل ہوتا جس کا بیان قرآن کریم میں‌بھی ہے۔
افَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ(سورتہ الحج، آیت نمبر 46(
ترجمہ: کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے۔ اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہوتے ہیں
لیکن اس عقل کا دل سے کس طرح تعلق ہے؟
جواب یہ کہ اس چیز کو معلوم نہیں‌کیا جاسکتا، ہم تو بس اس بات پر ایمان لاتے ہیں‌کہ عقل دل مین‌ ہوتی ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں‌آیا ہے، لیکن ہم یہ نہیں جانتے ان کا آپس میں‌کیسا ربط ہے، ہم پر یہ رد نہیں‌کیا جاسکتا کہ اگر کسی کافر کے دل کو مسلمان کے دل میں‌فٹ کر دیا جائے تو کیا وہ مسلمان کافر بن جائے گا یا نہیں، کیونکہ ہم یہ نہیں‌جانتے کہ عقل کا دل سے تعلق کس طرح کا ہے۔ واللہ اعلم۔
حوالہ: شرح اربعین النوویتہ: حدیث نعمان بن بشیر
عقل تصرف و تدبر اور عقل تصور و ادراک میں‌فرق
شیخ محمد بن صالح العثمین(رحمتہ اللہ علیہ)
آپ فرماتے ہیں :
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا(آل عمران، 8(
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں‌ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کرنا۔
فعل پر دل کے کنٹرول کو ثابت کیا گیا کیونکہ دل پر ہی عمل کا دارومدار ہے اسی لئے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( کا یہ فرمان ہے:
"الاوان فی الجسد مضغتہ اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب"
ترجمہ: خبردار! بیشک جس میں ایک گوشت کا لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح‌ ہے اور اگر اس میں‌فساد ہے تو سارے جسم میں‌فساد ہے اور جان لو کہ وہ لوتھڑا دل ہے۔
دل وہ جز ہے جو صدر(سینے) میں‌ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ(سورتہ الحج، آیت نمبر 46(
ترجمہ: بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں اندھی نہں‌ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں‌ہیں۔
اور اسی دل میں‌عقل ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِ
هَ(الحج، 46)
پس ان دلائل سے کی بنیاد پر یہ واضح ہوتا ہے کہ عقل دل میں‌ہوتی ہے نا کہ دماغ میں، اور قدیم وجدید علمائ کرام کا اس بات پر اختلاف ہے کہ عقل آیا دل مین‌ہوتی ہے یا کہ دماغ میں‌مگر جس چیز پر قرآن کریم دلالت کرتا ہے وہ یہی ہے کہ عقل دل میں‌ہوتی ہے۔ لیکن عقل قلبی عقل تصرف و تدبیر ہوتی ہے عقل ادراک و تصور نہیں‌ہوتی کیونکہ عقل ادراک و تصور تو دماغ میں‌ہوتی ہے۔ دماغ تصور کرتا ہے اور سوچتا ہے جس کی حیثیت دل کے لئے ایک سیکریٹری کی مانند ہے جو وہ چاہتا ہے اسے دل کے سامنے پیش کر دیتا ہے پھر دل ہی فیصلے صادر کرتا ہے، دماغ ان فیصلوں کو رعایا(دیگر اعضاء( تک پہینچانے کا کام انجام دیتا ہے پھر باقی اعضاء ان فیصلوں کی تابعداری کرتے یہ سب دماغ کی کاروائی ہوتی ہے۔ پس جو تصور و ادراک کرتا ہے اور جس میں‌عقل ادراک ہوتی ہے وہ دماغ ہے جبکہ عقل تصرف و تدبیر اور رشاد وفساد عقل قلبی ہوتی ہے۔ دماغ اشیاء کا تصور و ادراک کرتا ہے اور انہیں‌پہیچانتا ہے پھر انہیں‌گویا کہ لکھ کر دل کے پاس بھجتا ہے تا کہ وہ ان پر دسختط کر دے پھر دل ہی حکم کرتا یا منع کرتا ہے، لیکن وہ براہ راست یہ کام نہیں‌کرتا اس کا درجہ اس سے بلند ہے کہ وہ ان جمود سے خود مخاطب ہو۔ لہذا وہ اس معاملہ کو دماغ کی جانب واپس بھیج دیتا ہے پھر وہ باقی اعضاء کو بتاتا ہے کہ بادشاہ سلامت آپ کو یہ یہ حکم فرما رہے ہیں‌اور ان کے حکم کی بجا آوری کی جاتی ہے۔ اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( کا فرمان ہے: "الاوان فی الجسد مضغتہ اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب"
اسی طرح ہر اشکال کا ازالہ ہو جاتا ہے کہ حی و شرعی دلائل میں‌بھی مواقفت ہوجاتی ہے، جناچہ عقل ادراکی کا مقام دماغ ہے اور عقل الارشادی جس سے ارشاد یا فساد واقع ہوتا ہے وہ دل ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا(آل عمران، 8
ترجمہ: اے ہمارے رب!‌ہمارے دل ٹیڑھے نہ کرنا
جب دلوں‌میں‌استقامت ہوتی ہے اور ٹیڑھ پن نہیں‌ہوتا تو تمام جوارح میں‌عقیدتہ، قولا استقامت ہوتی ہے
حوالہ: تفسیر سورتہ آل عمران، تفسیر آیت" ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا۔۔۔"
اور اس کے بعد اب سائنس کے میدان میں موجود کفار لوگ بھی اس بات کا اثبات کرتے نظر آنے لگے ہیں کہ دل میں بھی دماغ ہوتا ہے۔
الحمدللہ ۔ ۔ ۔ ۔ مومن کو تو بس ایمان لانا چاہیے۔ یہ دلائل ہمارے قرآن کی تصدیق نہیں کرتیں بلکہ قرآن ان کی ریسرچ کی تصدیق کرتا ہے۔
 قلب کی مختلف اقسام :
اللہ تعالٰی نے قرآن میں قلب کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ آئیے ہم جائزہ لیں کہ ان میں سے ہمارا دل کون سا ہے۔ بیمار قلوب کا علاج نسبت کے حصول اور اللہ کے ذکر میں ہے جس کی اہمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! انسانی جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ جائے گا۔ جان لو کہ یہ قلب ہے‘‘ (بخاری، مسلم )
قلب اپنی لطافتوں کی وجہ سے بے حد وسیع ہے. اللہ تعالیٰ کا نور جو زمینوں و آسمانوں میں نہیں سما سکتا وہ مومن کے قلب میں سما سکتا ہے الفاظ زبان پر ہوتے ہیں لیکن ان کا اصلی جوہر یعنی کیفیت قلب میں ہوتی ہے یہی تصدیق قلبی کہلاتی ہے. یہ کیفیات ایک قلب سے دوسرے قلب میں نفوذ کرتی ہیں جس طرح سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے ایمان والوں کو شرف صحابیت سے نوازا آج بھی اللہ والوں کی صحبت میں اگر عقیدت شامل ہو تو فیوضات و برکات کے خزانے اللہ کی محبت اور عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نعمتیں حاصل کی جا سکتی ہیں اور تزکیہ کی ابتدا اور انتہا سبھی "قلب" کی اصلاح پر موقوف ہے- عقائد کا یقین ، تسلیم و رضا کی کیفیت ، صبر و شکر کے جذبے ، اطمینان و سکون ، توکل ، اخلاص اور تقویٰ سبھی کا دار و مدار قلب کی اصلاح پر ہے
1- سخت قلب ۔ یہ ایسے دل ہیں جو عبرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی سخت ہی رہتے ہیں۔
مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے پتھروں کی طرح سخت۔ بلکہ سختی میں کچھ ان سے بڑھے ہوئے۔ کیونکہ پتھروں میں کوئی تو ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے۔ اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تعالٰی کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے (الم۔٧٤)
2- زنگ آلود قلب ۔ اعمال بد کی وجہ سے دلوں پر زنگ چڑھ جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسانوں کو حق بات بھی فسانہ ہی نظر آتی ہے۔
بلکہ دراصل ان کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے‘۔ (المطففین۔١٤)
3- گناہ آلود قلب ۔ جو لوگ شہادت کو چھپاتے ہیں اور حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں سمجھ لو کہ ان کے دل گناہ آلود ہوتے ہیں۔
‘اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ، جو شہادت کو چھپاتا ہے اس کا دل گناہ آلود ہے۔ اور اللہ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے‘۔ (البقرہ۔٢٨٣)
4- ٹیڑھے قلب ۔ جو لوگ فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں جان لو کہ ان کے دلوں میں ٹیڑھ ہے۔
‘جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں متشابہات ہی کے پیچھے رہتے ہیں، اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘ (ال عمران۔٧)
5- دانشمند قلب ۔ جسے دل کی کجی کا خوف ہو وہ دانشمند ہے۔ (دانشمند لوگ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں۔)
‘پروردگار! جب کہ تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔ ہمیں اپنے خزانۂ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاضِ حقیقی ہے۔‘ (ال عمران ۔٨)
6 - نہ سوچنے والے قلب ۔ جو لوگ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں وہ جہنمی ہیں۔ ‘ اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے۔‘ ‘ان کے پاس دل ہیں مگر سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں۔‘
7- لرز اٹھنے والے قلب ۔ اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل لرز اٹھے وہ سچا مومن ہے۔ ‘ سچے اہل ایمان وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں، اور اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘ (الانفال۔٢)
8- ٹھپہ لگے ہوئے قلب ۔ جو حد سے گزر جائے گا اس کے دل پر ٹھپہ لگ جائے گا (یعنی ہدایت حاصل نہ کر سکے گا)
‘اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔‘ (یونس۔٧٤)
9- مطمئن قلب ۔ اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے، جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ (الرعد۔٢٨)
10- مجرم قلب ۔ جن کے دلوں میں اللہ کا ذکر، قلب کی ٹھنڈک اور روح کی غذا بن کر اترے وہ اہلِ ایمان کے دل ہیں مگر جن کے دلوں میں شتابہ بن کر لگے اور اسے سن کر ان کے اندر آگ بھڑک اٹھے، گویا ایک گرم سلاخ تھی کہ سینوں سے پار ہو گئی وہ مجرمین کے دل ہیں۔
‘مجرمین کے دلوں میں تو ہم اس ذکر کو اس طرح (سلاخ کی مانند) گزارتے ہیں وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے‘۔ (سورہ زمر)
11- کانپ اٹھنے والے قلب ۔ اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل کانپ اٹھے وہ مومن ہے۔
‘اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! بشارت دیجیے عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ جو مصیبت ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘۔ (الحجر۔٣٤-٣٥)
12- اندھےقلب ۔ جو عبرت حاصل نہ کرے، اس کا دل اندھا ہوتا ہے۔
‘کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے، اور آج وہ اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں، کتنے ہی کنوئیں بیکار اور قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے، حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘۔ (الحج۔ ٤٥-٤٦)
13-قلبِ سلیم ۔ حشر کے دن صرف قلبِ سلیم فائدہ دے گا۔
‘(اس دن) جبکہ نہ کوئی مال فائدہ دے گا نہ اولاد۔ بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لئے ہوئے اللہ کے حضور ہو‘۔ (الشعراء۔ ٨٨-٨٩)
14- بے ایمان قلب ۔ خدائے وحدہ لاشریک کا ذکر سن کر جس کا دل کڑھنے لگے سمجھ لو کہ وہ بے ایمان اور منکرِ آخرت ہے۔
‘جب اکیلے خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں‘۔ (الزمر۔٤٥)
15- متکبر قلب ۔ اللہ ہر متکبر اور جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے۔
‘اس طرح ان سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے، جو حد سے گزرنے والے اور شکی ہوتے ہیں۔ اور اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں۔ بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے۔ اس طرح اللہ ہر متکبر اور عیار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے‘۔ (المومن ٣٤-٣٥)
16- ایمان والے قلب ۔ جن لوگوں کے دل اللہ کے ذکر پر پگھلتے ہیں، وہ اللہ والے ہیں۔
،کیا ایمان لانے والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے سامنے جھکیں۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں، جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں‘۔ (الحدید١٦)

No comments:

Post a Comment