Monday, 22 February 2016

نماز جمعہ صحیح ہونے کی شرطیں

شہید السلام حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ کے نزدیک جمعہ کے جواز کیلئے مسجد کا خاص طول و عرض ضروری نہیں، اور حاکم یا قاضی کی شرط قطعِ نزاع کیلئے ہے، اگر مسلمان کسی امام پر متفق ہوں تو اس کی اقتدا میں جمعہ جائز ہے. جمعہ شہر اور قصبہ  میں جائز ہے، چھوٹے گاوٴں میں نہیں. فقہِ حنفی کے مطابق جمعہ صرف شہر اور قصبات میں جائز ہے، چھوٹے گاوٴں میں جمعہ جائز نہیں۔ جو جگہ شہر کے حدود اور ملحقات میں شمار ہوتی ہو، وہاں جمعہ جائز ہے، اور جو ایسی نہ ہو وہاں جائز نہیں، اس لئے ملحقہ بستیوں میں جمعہ جائز نہیں، کیونکہ وہ شہر کا حصہ نہیں، بلکہ الگ آبادی شمار ہوتی ہیں۔ بڑے گاوٴں میں جمعہ فرض ہے، پولیس تھانہ ہو یا نہ ہو. زبدة الفقہ، کتاب الصلوٰة کے مطابق نماز جمعہ صحیح ہونے کی شرطیں مندرجہ ذیل ہیں :

١. مصر یعنی شہر یا قصبہ یا بڑا گائوں ہونا پس چھوٹے گائوں یا جنگل میں نماز جمعہ درست نہیں ہے، قصبہ یا بڑا گاوں وہ ہے جس کی آبادی مثلاً تین چار ہزار کی ہو یا اپنے آس پاس کے علاقہ میں وہ بڑا گاوں یا قصبہ کہلاتا ہو اور اس میں ایسی دکانیں ہوں جن میں روزمرہ کی ضروریات بالعموم میسر آ جاتی ہوں کوئی حاکم یا پنچائت وغیرہ بھی ایسی ہو جو ان کے معاملات میں فیصلہ کرتی ہو نیز کوئی ایسا عالمِ دین بھی رہتا ہو جو روزمرہ کے ضروری مسائل ان لوگوں کو بتا سکے اور جمعہ میں خطبہ پڑھ سکے اور نماز جمعہ پڑھا سکے پس ایسے گاوں میں نماز جمعہ درست و فرض ہے، شہر کے آس پاس کی ایسی آبادی جو شہر کی مصلحتوں اور ضرورتوں کیلئے شہر سے ملی ہوئی ہوں مثلاً قبرستان، چھاونی، کچھریاں اور اسٹیشن وغیرہ یہ سب فنائے مصر کہلاتی ہیں اور شہر کے حکم میں ہیں ان میں نماز جمعہ ادا کرنا صحیح ہے.
٢. بادشاہِ اسلام کا ہونا خواہ وہ عادل ہو یا ظالم یا بادشاہ کا نائب ہونا یعنی جس کو بادشاہ نے حکم دیا ہو اور وہ امیر یا قاضی یا خطیب ہو ان کے بغیر جمعہ ادا کرنا صحیح نہیں ہے، بادشاہ کا نائب موجود ہو اور وہ کسی دوسرے شخص سے نماز پڑھوائے تو جائز و درست ہے، اگر کسی شہر یا قصبہ میں ان میں سے کوئی موجود نہ ہو اور وہ بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں تو شہر کے لوگ ایک شخص کو مقرر کر لیں اور وہ خطبہ و نماز جمعہ پڑھائے یہ جائز و درست ہے چونکہ ہمارے زمانے میں حکومت کو ان امور کی طرف توجہ نہیں ہے لہذا لوگ خود کسی شخص کو مقرر کر لیں وہ ان کو خطبہ دے اور نماز پڑھائے یہ جائز و درست ہے.
٣. دارالسلام ہونا، دارالحرب میں نماز جمعہ درست نہیں ہے ( بعض فقہ نے دارالسلام کو شرائط جمعہ میں نہیں لکھا غالباً اس لئے کہ بادشاہِ اسلام ہونے میں یہ شرط خود ہی داخل ہے اور بعض نے بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کا ہونا بھی شرط قرار نہیں دیا کیونکہ یہ شرط عقلی احتیاط کے درجہ میں ہے نہ یہ کہ اس کے بغیر شرعاً نماز جمعہ درست نہیں ہوتی اسی لئے بعض فقہ کے نزدیک بادشاہ کا مسلمان ہونا بھی شرط نہیں ہے، واللّٰہ عالم بالصواب)
٤. ظہر کا وقت ہونا، پس وقت ظہر سے پہلے یا اس کے نکل جانے کے بعد نماز جمعہ درست نہیں حتیٰ کہ اگر نماز پڑھنے کی حالت میں وقت جاتا رہا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگرچہ قاعدہ اخیرہ بقدرِ تشہد ادا کر چکا ہو یعنی یہ نماز نفل ہو جائے گی اور اس کو نمازِ ظہر کی قضا دینی ہو گی جمعہ کی قضا نہیں پڑھی جاتی بلکہ اب ظہر ہی کی قضا واجب ہو گی اور اسی نیت جمعہ پر ظہر کی بنا نہ کرے کیونکہ دونوں مختلف نمازیں ہیں بلکہ نئے سرے سے ظہر قضا کرے
٥. وقت کے اندر نماز سے پہلے بلا فصل خطبہ پڑھنا، اگر بغیر خطبہ کے نماز جمعہ پڑھی گئی یا وقت سے پہلے خطبہ پڑھا یا نماز کے بعد پڑھا، یا خطبہ پڑھنے میں خطبہ پڑھنے کا ارادہ نہ ہو یا خطبہ و نماز میں زیادہ فاصلہ ہو جائے تو نماز جمعہ درست و جائز نہیں ہے.

No comments:

Post a Comment