فرائض و سنت و نوافل وغیرہ کی جو تقسیم کی گئی ہے یہ غیر شرعی اور فضول ہے اور ایجاد اور بدعت ہے؟؟؟
الجواب۔
احکامِ شرعیہ کا مدار دلائل پر ہوتا ہے، شریعت کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے کہ اس کی بنیاد دلیل شرعی پر نہ ہو، اور یہ بات واضح ہے کہ دلائل سب کے سب برابر درجہ کے نہیں ہیں، بلکہ ثبوت ودلالت کے اعتبار سے دلائل باہم متفاوت ہیں، چنانچہ اس اعتبار سے دلائل کے چار درجے ہیں:
۱۔ وہ دلائل جو ثبوت اور مفہوم دونوں اعتبار سے قطعی ویقینی ہوں۔
۲۔ وہ دلائل جو ثبوتاً قطعی ہوں البتہ مفئوم کے اعتبار سے ظنی ہوں
۳۔ وہ دلائل جو ثبوتاً ظنی ہوں البتہ مفہوم کے اعتبار سے قطعی ویقینی ہوں،
۴۔ وہ دلائل جوثبوتا اور مفہوم دونوں اعتبار سے ظنی ہوں۔
چنانچہ ثبوت اوردلالت علی المفہوم کے اعتبار سے دلائل کے یہ چار درجے ہیں، جن میں سے بعض کو دوسرے بعض پر قوت کے اعتبار سے ترجیح حاصل ہے، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ چاروں قسم کے دلائل سے ایک ہی طرح کے احکام ثابت نہیں ہوں گے، بلکہ جس طرح دلائل میں تفاوت ہے اسی طرح احکام میں بھی تفاوت ہوگا، لہٰذا دلیل میں جتنی قوت ہوگی اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی اتنا ہی قوی ہوگا۔
اس بنا پر دلائل کی مذکورہ چاروں قسموں میں سے پہلی قسم چونکہ قوت میں سب سے بڑھ کر ہے اس لیے اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی سب سے قوی ہوگا اوروہ جانب امر میں فرض اورجانب نہی میں حرام ہے،
دلائل کی دوسری اور تیسری قسم چونکہ قوت میں پہلی قسم سے کم درجہ کی ہیں، اس لیے ان سے ثابت ہونے والا حکم بھی پہلے حکم سے کم درجہ کا ہوگااور وہ جانب امر میں وجوب اور جانب نہی میں مکروہ تحریمی ہے،
رہی دلائل کی چوتھی قسم تو چونکہ وہ قوت میں تمام قسموں سے کمتر ہے اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی سب سے کم درجہ کا ہوگا، اور وہ ہے جانب امر میں سنت واستحباب اور جانب نہی میں مکروہ تنزیہی،
تو جب دلائل ہی میں مختلف درجات ہیں اور انہی دلائل پر احکام کا مدار بھی ہے تو لازمی طور پر احکام میں بھی مختلف درجات ہوں گے، اور انہی کو فرائض، واجبات، سنن، ونوافل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
قال في الشامي:
”إن الأدلة السمعیة أربعة: الأول قطعي الثبوت والدلالة کنصوص القرآن المفسرة أو المحکمة والسنة المتواترة التي مفھومھا قطعي․ الثاني: قطعي الثبوت ظني الدلالة کالآیات المؤولة․ الثالث: عکسہ کأخبار الآحاد التي مفھومھا قطعي․ الرابع: ظنیھما کأخبار الآحاد التي مفھومھا ظنی، فبالأول یثبت الافتراض والتحریم، وبالثاني والثالث الإیجاب وکراھة التحریم؛ وبالرابع تثبت السنیة والاستحباب“․ (الشامي: ۹/ ۴۰۹،ط: دار الکتاب)
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر کووجوب یا فرضیت پر محمول نہیں کیا جاسکتا بلکہ حسب قرائن وجوب، استحباب، اباحت وغیرہ پر محمول کیا جائے گا
مثال کے طور پر قرآن مجید میں ہے وإذا حلَلتُم فاصطادوا (المائدة آیۃ 2) کہ جب تم احرام سے حلال ہوجاؤ تو شکار کرو، فقہاء ومفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں امر وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ اباحت کے لیے ہے، تو جس شکار سے حالت احرام میں منع کیا گیا تھا اس کی اجازت دی جارہی ہے کہ اب شکار کرسکتے ہو،
غیرمقلدین اگر اباحت وغیرہ کا وجود نہیں مانتے ہیں اور ان کو اس بات پر اصرار ہے کہ شارع سے ثابت ہونے والی تمام چیزیں فرض اور ضروری ہیں تو یہاں بھی حالت احرام سے نکلنے کے بعد وجوبی طور پر شکار کی تلاش میں نکلیں،
نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی کام کیے ہیں سب کو امت پر فرض اور ضروری قرار نہیں دیا جاسکتا، نمونہ کے طور پر ایک حدیث پیش کی جارہی ہے جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ غیرمقلدین کی باتوں کی کیا حیثیت ہے،
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ نجد سے ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور انھوں نے اسلام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خمس صلوات في الیوم واللیلة “ کہ رات ودن میں پانچ وقتوں کی نمازیں آپ کے ذمہ ہیں، سائل نے عرض کیا ”ہل علي غیرہن’‘ کہ کیا ان پانچ نمازوں کے علاوہ اور بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لاَ إلاَّ أن تطَوّعَ“ کہ نہیں البتہ اپنے اختیار سے نفل پڑھ سکتے ہو، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وصیامُ شہر رمضان“ کہ آپ پر رمضان کے روزے بھی فرض ہیں، سائل نے عرض کیا ”ہل عليَّ غیرہ؟“ کیا رمضان کے روزے کے علاوہ اور بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”لاَ إِلاَّ أَن تَطَوّعَ“ کہ نہیں البتہ نفل رکھ سکتے ہو الخ۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن أبي سہیل، عن أبیہ، أنہ سمع طلحة بن عبید اللہ، یقول: جاء رجل إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من أہل نجد ثائر الرأس، نسمع دوي صوتہ، ولا نفقہ ما یقول حتی دنا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فإذا ہو یسأل عن الإسلام، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”خمس صلوات في الیوم، واللیلة“ فقال: ہل علي غیرہن؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع، وصیام شہر رمضان“ ، فقال: ہل علي غیرہ؟ فقال: ”لا، إلا أن تطوع“ ، وذکر لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الزکاة، فقال: ہل علي غیرہا؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“ ، قال: فأدبر الرجل، وہو یقول: واللہ، لا أزید علی ہذا، ولا أنقص منہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”أفلح إن صدق“ (مسلم شریف: ۱/۳۰،ط: رحیمیہ دیوبند)
اسی طرح رمضان المبارک کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے تم پر فرض کیے اور میں نے قیام رمضان (تراویح) کو تمھارے لئے سنت قرار دیا، حدیث شریف کے الفاظ ملاحظہ ہوں
عن عبد الرحمن بن عوف قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ تبارک وتعالیٰ فرض صیام رمضان علیکم، وسنت لکم قیامَہ فمن صامہ وقامہ إیمانًا واحتسابًا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمہ، أخرجہ النسائی بسند حسن وسکت عنہ․ (إعلاء السنن ۷/ ۶۶، ۶۷،ط: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
غیر مقلدین سے پوچھئے کہ ان احادیث سے سنن ونوافل کا ثبوت ہورہا ہے یا نہیں؟
ایک ورحدیث ملاحظہ فرمائیے: ”عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی للہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاصَلَ فِي رَمَضَانَ، فَوَاصَلَ النَّاسُ، فَنَہَاہُمْ قِیلَ لَہُ: أَنْتَ تُوَاصِلُ؟ قَالَ: ”إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَی“․ (مسلم شریف (۱/۳۵۱،ط: رحیمیہ دیوبند)
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صوم وصال رکھتے ہوئے دیکھ کر وہ بھی صوم وصال رکھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمادیا صحابہ نے اعتراض کیا کہ آپ تو رکھتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون میرے مانند ہے؟ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلایا پلایا جاتا ہوں، مطلب یہ کہ میں جو بھی کروں وہ سب کے سب تم پر ضروری نہیں،
غیرمقلدین کو اگر اس بات پر اصرار ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام امور امت پر فرض اور ضروری ہیں تو وہ صوم وصال کی پابندی کریں کیونکہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، الغرض اس طرح کے بے شمار دلائل قرآن واحادیث میں موجود ہیں جن کی بنا پر فقہائے کرام نے بلکہ تمام علمائے اہل سنت والجماعت نے احکام میں درجہ بندی کی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
No comments:
Post a Comment