Monday 1 February 2016

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب نہ کر

ایس اے ساگر
فروری کی آمد کیساتھ ہی گلاب کے پھولوں کی طلب میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے. مخلوط معاشرے نے زناکاری کی ایسی راہ ہموار کی ہے کہ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھی بھلا بیٹھی ہے. حدیث کی معتبر کتاب مسند احمد میں وارد ہے کہ حضرت عامر بن امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک جوان شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا،
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، مجھے زنا کی اجازت دیں۔ وہاں موجود لوگ اس کے قریب آئے اور اسے ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے،
رک جا۔۔۔ رک جا۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے قریب بلا کر بٹھا لیا اور فرمایا،
کیا تو پسند کرتا ہے کہ ایسا تیری ماں کیساتھ کیا جائے؟
اس نے جواب دیا۔
اللہ کی قسم ہرگز نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا،
لوگ بھی اپنی ماؤں کیلئے یہ پسند نہیں کرتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا،
کیا تو ایسا اپنی بیٹی کیلئے پسند کرتا ہے؟
اس نے جواب دیا، اللہ کی قسم نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
لوگ بھی اپنی بیٹیوں اسے پسند نہیں کرتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
کیا تو اپنی بہن کیلئے ایسا پسند کرتا ہے،
اس نے کہا، اللہ کی قسم ہرگز نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
لوگ بھی اپنی بہنوں کیلئے پسند نہیں کرتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
کیا تو ایسا اپنی پھوپھی کیلئے پسند کرتا ہے؟
اس نے کہا، ہرگز نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
اپنی خالہ کیلئے؟
اس نے جواب دیا،
اللہ کی قسم ہرگز نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کیلئے پسند نہیں کرتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سینہ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا،
اے اللہ اس کے گناہ بخش دے، اس کا دل پاک کر دے اوراس کی شرمگاہ کو محفوظ کر دے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرما تے ہیں کہ پس اس کے بعد اس شخص کو کبھی بھی ادھر ادھر نظر اٹھاتے تک نہیں دیکھا گیا۔
اس حدیث کے باوجود آج جبکہ 14 فروری سر پر آرہا ہے تو مسلم معاشرے پر ویلنٹائن ڈے المعروف عاشقوں کا دن کا خوف مسلط ہے۔
کیا ہوتا اس دن؟
اس روز آپس میں پیار و محبت کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے اظہار عشق کرتے ہوئے سرخ گلاب پیش کرتے ہیں۔ بڑے شہروں میں تو باقاعدہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ افسوس کہ ہمارا میڈیا بھی اس میں پورا حصہ ڈالتا ہے اور بے نوجوان نا محرم لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے سے بے باکی سے بغلگیر ہوتے پھول پیش کرتے یوں دکھایا جاتاہے کہ جیسے یہ سب مسلم تہذیب کا حصہ ہو۔۔۔ اب اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ یہ تہوار منانے والوں نے کبھی سوچا کہ اظہار عشق میں جو پھول وہ کسی کی بہن کو بھیجتے ہیں ، اگر ایسے ہی پھول کوئی ان کی اپنی سگی بہن کو پیش کرے یا ان کے گھر بھیج دے تو وہ اسے کتنابرداشت کر لیں گے۔۔۔؟ اگر کوئی اپنی بہن کیلئے پسند نہیں کرتا تو یہ کسی دوسرے کی بہن کیلئے کیوں پسند کرتا ہے.
برادران وطن سے سیکھیں سبق :
وطن عزیز کے بیشمار مندر وں کی ہزاروں سال پرانی عمارتیں بھی دیکھ لیں، ان میں آپ کوہندو دیویوں اور دیوتاؤں کی حالت زنا میں اس قدر فحش و غلیظ، الف ننگے بت اور مورتیاں دکھائی دیں گی، انسانی شرمگاہ کی پوجا کو بہت تقدس حاصل ہے اور مندر میں اس کی بڑی سی پتھر سے بنی شبیہ موجود ہوتی ہے، جہاں اولاد کی طلب گار عورتیں خصوصی پوجا کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود برادران وطن نے ویلنٹائن کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ہر سال ملک بھر میں ویلنٹائن منانے والوں پر سخت گیر مذہبی ہندو تنظیمیں نہ صرف حملے کرتی بلکہ پھول و تحائف بیچنے والوں کی دکانیں توڑ پھوڑ  بھی دیتی ہیں۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ ویلنٹائن سامان بے حیائی اور ان کی تہذیب و ثقافت کے انتہائی خلاف ہے۔ لہٰذا اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
کیا ہوگیا مسلم معاشرے کو؟
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ویلنٹائن ڈے انتہائی خوف و دہشت کے سائے میں منایا جاتا ہے لیکن بے باک اور جدیدیت کے شکار مسلم معاشرے  میں ویلنٹائن کو باقاعدہ سماج کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور یوں ڈھٹائی سے ہر جگہ، ہردکان، ہر گلی، سڑک، محلے ہی نہیں سارے میڈیا میں اس کا غلغلہ مچتا ہے.
ویلنٹائن کی کہانی کچھ یوں ہے کہ جب موجودہ عیسائیت کے مرکز روم میں پہلی بار عیسائیت منظر عام پر آئی تو عیسائیوں نے اس حوالے سے جشن منانے کی کوشش کی اور پھر 14 فروری کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہ دن تھا جب رومیوں نے عیسائی پادری ویلنٹائن کو پھانسی دی تھی۔ اسے پھانسی دینے کا قصہ بھی عجیب ہے۔ اس زمانے میں روم پر ایک بادشاہ جس کا نام کلاڈیئس دوئم تھا کی حکومت تھی۔ جنگوں کے دوران قتل و غارت گری اس قدر ہوئی کہ اس کی فوج میں سپاہی کم ہو گئے اور پھر ملک کے نوجوان موت کے ڈر سے بیویوں کو چھوڑ کر جنگ میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔
غیروں کی ہے یہ نقالی :
بادشاہ نے مسئلہ حل کرنے کیلئے شادیوں پر ہی پابندی عائد کر دی تاکہ نوجوان شادیوں کے چکر سے نکل کر فوج میں بھرتی ہوں۔ یہیں رہنے والے عیسائی پادری ویلنٹائن نے عیسائیت کی تبلیغ کیلئے خفیہ شادیوں کا پروگرام بنایا۔ عقدہ کھلا تو بادشاہ کلاڈیئس دوئم نے اسے گرفتار کر کے جیل ڈال دیا۔ کمال یہ ہوا کہ وہاں پادری ویلنٹائن کا معاشقہ جیل کے انچارج آسٹیریئس کی بیٹی سے ہو گیا اور وہ یوں اسے روزانہ ملنے آنے لگی۔ عیسائی مذہب میں پادریوں کی شادیوں پر تو ویسے ہی پابندی تھی اور شادی تو ممکن نہ تھی۔ پھر یہ بات کھل گئی تو بادشاہ نے ویلنٹائن کو پیشکش کی کہ وہ عیسائیت چھوڑ کر رومی دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرے تو اسے مکمل معاف کر دیا جائے گا، بادشاہ اسے اپنی قربت دے گا اور اپنی سگی بیٹی بھی اس سے بیاہ دے گا، لیکن ویلنٹائن نے اس سب سے انکار کر دیا۔ یوں رومی جشن سے ایک روز پہلے یعنی 14 فروری 270 عیسوی میں اسے سزائے موت دے دی گئی۔ مرنے سے پہلے اس نے جیل انچارج کی بیٹی کو جو آخری خط لکھا اس کے الفاظ تھے،
’’تمہارے ویلنٹائن کی جانب سے‘‘۔
پھر چل نکلی رسم :
پھر یوں یہ رسم چلی اور چلتی گئی۔ عیسائیوں نے اسے اپنایا کیونکہ مبلغ پادری ہونے کی وجہ سے ویلنٹائن ان کیلئے مقدس تھا لیکن آج صدیاں گزرنے کے بعد خصوصاً گزشتہ چند برسوں سے جب ہمارے ہاں ابلاغیات کا طوفان آیا ہے تو نام نہاد مسلمانوں نے بھی اسے کھلم کھلا منانا شروع کر دیا۔ اس کی مذہبی حیثیت کو دیکھا، نہ اس میں خرافات کی جانب نظر و توجہ کی۔ بس ایک اندھی چال چلی گئی اور ہمارے لوگوں کو تو کھیل تماشہ چاہئے، چاہے اس میں عزت برباد ہو یا گھر بار اور سب کچھ۔۔۔
کون سمجھائے امت کو؟
صحیح بخاری شریف شاہد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے بارے میں:
ابو سعید حذری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے سے پہلی قوموں کے طریقوں پر بالشت بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ لازماً پیروی کرو گے حتیٰ کہ ان میں سے کوئی گوہ کی بل میں گھسا ہو گا تو تم اس کی بھی پیروی کرو گے۔
ہم نے پوچھا (وہ قومیں) یہودی اور عیسائی ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
تو پھر اور کون ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ
’’جو جس قوم کی مشابہت کو اختیار کرے گا، وہ انہی میں سے ہو گا.‘‘
اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تو یوں کہا تھا۔۔۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ
گزشتہ سال کی بات ہے کہ جب 14 فروری قریب آیا تو عین اس وقت کشمیر میں بھی ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہاں کی چند لڑکیوں نے مل کر پہلی بار راک بینڈ تشکیل دیا جسے پراگاش کا نام دیا گیا لیکن مفتی بشیر الدین نے اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ صادر فرما دیا تو ان لڑکیوں نے بلا چوں چراں بینڈ کو بند کر کے اس کام کو ’’فٹے منہ‘‘ کہہ دیا اور کہا کہ انہیں دین اور فتویٰ عزیز ہے، اپنی موسیقی اور گانا بجانا نہیں۔۔۔صاف واضح ہے کہ امت کو رہنمائی کی شدید ضرورت ہے.

No comments:

Post a Comment