ایس اے ساگر
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس اخیر زمانہ میں حضرات علمائے دیوبند کو اپنے دین کی تجدید کے لیے منتخب فرمایا، یوں تو اس مقدس اور پاک باز جماعت کا ہرفرد نرالا اور بے مثال ہے، لیکن حکیم الامت، محی السنة، قطب الارشاد، شیخ المشائخ، مولانا ومقتدانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمة اللہ علیہ نہ صرف خود مجدّد تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے صحبت یافتہ کئی افراد کو تجدید و احیائے دین کے شرف سے نوازا ہے، حکیم الامت رحمہ اللہ نے مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا کہ:
"الیاس نے یاس کو آس میں بدل دیا۔"
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا کہ:
"عطاء اللہ کے علوم عطاء الہی ہیں۔"
مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا کہ:
"منا احسن کے سارے مناظر احسن ہیں ۔ فرمایا کہ تلاک (بالتاء) سے بولنے والے کے بارے میں فرمایا کہ طلاق ہوگئی، جب نکاح کیا تو نکاہ (بالہاء المہملہ) سے ہوگیا تو تلاق (بالتاء) پر کیوں اعتراض؟"
مشائخ کے خادمین کے بارے میں فرمایا کہ بعض مقربین، درحقیقت مکربین ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ معتقدین کی اصلاح زیادہ کرتا ہوں نہ منتقدین کی فرمایا کہ کسی نے ایک چیز کی حکمت کا سوال کیا، میں نے سوال عن الحکمہ کی حکمت پوچھی تو خاموش ہوگیا۔ فرمایا کہ غیر مقلدی بے عقلی کی دلیل ہے، بے دینی کی نہیں، ہاں ائمہ مجتہدین پر تبرا بے دینی ہے۔
فرمایا کہ اکرام ضیف (مہمان کا اکرام) تو کرتا ہوں، اکرام سیف (صاحب قوت و اقتدار کی وجہ کسی کا اکرام) نہیں کرتا۔
لوگوں کے ادھوری بات کے سلسلہ میں فرمایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عالم الغیب ہوں، حالانکہ عالم الغیب نہیں بلکہ عالم العیب ہوں، ان کی ادھوری بات سے عیب کا پتہ چل جاتا ہے۔
فرمایا کہ لوگ مجھے شدید کہتے ہیں اور میں حدید ہوں، میرے حدت ہے، شدت نہیں۔
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا کہ:
"عطاء اللہ کے علوم عطاء الہی ہیں۔"
مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا کہ:
"منا احسن کے سارے مناظر احسن ہیں ۔ فرمایا کہ تلاک (بالتاء) سے بولنے والے کے بارے میں فرمایا کہ طلاق ہوگئی، جب نکاح کیا تو نکاہ (بالہاء المہملہ) سے ہوگیا تو تلاق (بالتاء) پر کیوں اعتراض؟"
مشائخ کے خادمین کے بارے میں فرمایا کہ بعض مقربین، درحقیقت مکربین ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ معتقدین کی اصلاح زیادہ کرتا ہوں نہ منتقدین کی فرمایا کہ کسی نے ایک چیز کی حکمت کا سوال کیا، میں نے سوال عن الحکمہ کی حکمت پوچھی تو خاموش ہوگیا۔ فرمایا کہ غیر مقلدی بے عقلی کی دلیل ہے، بے دینی کی نہیں، ہاں ائمہ مجتہدین پر تبرا بے دینی ہے۔
فرمایا کہ اکرام ضیف (مہمان کا اکرام) تو کرتا ہوں، اکرام سیف (صاحب قوت و اقتدار کی وجہ کسی کا اکرام) نہیں کرتا۔
لوگوں کے ادھوری بات کے سلسلہ میں فرمایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عالم الغیب ہوں، حالانکہ عالم الغیب نہیں بلکہ عالم العیب ہوں، ان کی ادھوری بات سے عیب کا پتہ چل جاتا ہے۔
فرمایا کہ لوگ مجھے شدید کہتے ہیں اور میں حدید ہوں، میرے حدت ہے، شدت نہیں۔
کیسے نکلے گی 'میں'
مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ العالی کی مجالس فقیر سے رجوع کریں تو 'میں' کا نکلنا قابل غور ہے ...
ارشاد فرمایا: "انسان کے اندر سے میں بہت دیر سے نکلتی ہے. اس لئے مشائخ کرام اپنے لئے 'میں' کا لفظ استعمال نہیں کرتے بلکہ فقیر اور عاجز کا لفظ استعمال کرتے ہیں. یہ فقیر بھی اپنے لئے انہیں لفظوں کو پسند کرتا ہے. اللہ تعالٰی کے سامنے انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لئے انسان کو کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا کہ رب تعالٰی شانہ کے سامنے بے ادبی کرے. یاد رکھیں انسان میں ذکر کے ساتھ ساتھ.. میں.. بھی بڑھتی رہتی ہے. آخری چیز جو انسان کے دل سے نکلتی ہے وہ تکبر ہے بڑا بننے کی خاطر انسان ذلت بھی گوارا کر لیتے ہیں. یہ اسمبلی کے ممبران ووٹ لینے کی خاطر لوگوں کی وقتی ذلت بھی اٹھالیتے ہیں اس کی پروا نہیں کرتے اور بعد میں کوئی خبر نہیں لیتے.
انسان کا نفس 'میں' کا بڑا دلدادہ ہوتا ہے. جس کام میں انسان کی عزت بنتی ہو وہ کام کرنا اسے آسان لگتا ہے. اپنے آپ کو مٹاکر کام کرنا انسان کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے. لیکن کام میں برکت تبھی آتی ہے جب اپنے آپ کو مٹاکر کام کیا جائے. اپنے آپ کو مٹانے سے ہی اخلاص پیدا ہوتا ہے.
انسان کا نفس 'میں' کا بڑا دلدادہ ہوتا ہے. جس کام میں انسان کی عزت بنتی ہو وہ کام کرنا اسے آسان لگتا ہے. اپنے آپ کو مٹاکر کام کرنا انسان کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے. لیکن کام میں برکت تبھی آتی ہے جب اپنے آپ کو مٹاکر کام کیا جائے. اپنے آپ کو مٹانے سے ہی اخلاص پیدا ہوتا ہے.
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے."
ارشاد فرمایا: "جب 'میں' کو مٹایا جائے گا تو اپنی کوئی حیثیت نظر نہیں آئے گی. پھر اپنی عبادت بھی کچھ نظر نہیں آئے گی اور پھر انسان دو نفل پڑھ کر اللہ تعالٰی پر احسان نہیں جتلائے گا. شیطان کو تکبر نے ہی گمراہ کیا تھا وہ اللہ تعالٰی کے سامنے دلیل دینے لگا کہ میں آدم سے اچھا ہوں. شیطان سینکڑوں سال تک اللہ تعالٰی کی عبادت کرتا رہا، عالم اتنا تھا کہ استاد الملائکہ بن گیا.
عارف بھی تھا کہ عین اللہ تعالٰی کے جلال اور غضب کی حالت میں مہلت کی دعا مانگتا ہے اور قبول ہوجاتی ہے. گمراہی کی اصل وجہ یہ نکلی کہ وہ عاشق نہیں تھا جس کی وجہ سے اس کا بیڑا غرق ہوگیا. اسے اللہ تعالٰی سے محبت نہیں تھی، اگر محبت ہوتی تو اپنے تکبر کیلئے دلیلیں نہ دیتا، عاشق دلیلیں نہیں دیا کرتے بلکہ سر تسلیم خم کیا کرتے ہیں.
عشق فرمودہ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنئ پیغام ابھی"
نام نامی ولقب گرامی
مفتی ابو عبید الرحمن عارف محمود، رفیق شعبہ تصنیف و تالیف واستاد جامعہ فاروقیہ کے مطابق آپ کا نام نامی اشرف علی ہے، یہ نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور مجذوب و بزرگ حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا۔ آپ کا لقب ”حکیم الامت“ ہے، جسے عرصہ دراز سے حق تعالیٰ نے خواص و عوام میں القا فرمادیا ہے اور جو بلاد و اَمصار میں عام طور پر شائع و ذائع ہے۔
شرف نسب
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا نام عبدالحق تھا، آپ قصبہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس، صاحب نقد و جائیداد تھے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخُدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں، نیز اُن کی عقل و فراست اور فہم و بصیرت کی تصدیق حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔
وطن مالوف
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا وطن مالوف قصبہ تھانہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے، اس کا اصل نام تھانہ بھیم تھا، کیوں کہ یہ کسی زمانہ میں راجا بھیم کا تھانہ تھا، کثرت استعمال سے تھانہ بھون ہوگیا، البتہ جب مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے تو شرفائے قصبہ کے بعض اجداد نے اپنے ایک فرزند ”فتح محمد“ کے نام سے اس کا نام محمد پور رکھا، جو کاغذات شاہی میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن عام طور پر پرانا نام تھانہ بھون ہی مشہور ہے۔
ولادت باسعادت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔
بچپن کے حالات
حضرت رحمة اللہ علیہ بچپن ہی سے اعزہ و اقارب، اپنوں اور بیگانوں سب میں محبوب رہے، بچپن میں شوخیاں بہت فرمائیں، مگر ایسی کوئی شرارت نہیں کی جس سے دوسروں کو تکلیف وایذا پہنچے، شروع ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف 13-12 برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اُٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔
تحصیل علوم
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔ ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف اُستادوں سے پڑھی، پھر تھانہ بھون میں فارسی کی متوسطات حضرت مولانا فتح محمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں اور انتہائی کتب اپنے ماموں واحد علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں، جو ادب فارسی کے اُستاد کامل تھے۔تحصیل عربی کے لیے دیوبند تشریف لے گئے، وہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں فرمائی اور صرف 19 یا 20 سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ التحصیل ہوگئے ۔
واقعہ دستار بندی
جس سال حضرت حکیم الامت دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے اس سال دیوبند میں بہت بڑا شان دار جلسہ دستار بندی رکھا گیا، حضرت کو معلوم ہوا تو اپنے ہم سبقوں کو لے کر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ ہم نے سُنا ہے کہ ہم لوگوں کی دستار بندی کی جائے گی اور سند فراغ دی جائے گی؟ حالاں کہ ہم اس قابل ہرگز نہیں، لہٰذا اس تجویز کو منسوخ فرمادیا جائے، ورنہ اگر ایسا کیا گیا تو مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی کہ ایسے نالائقوں کو سند دی گئی، یہ سُن کر مولانا کو جو ش آگیا اور فرمایا کہ تمہار خیال غلط ہے، یہاں چوں کہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں، اس لئے اُ ن کے سامنے تمھیں اپنی ہستی کچھ نظر نہیں آتی ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے، باہر جاوٴگے تو تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی، جہاں جاوٴگے بس تم ہوگے، باقی سارا میدان صاف ہے، اطمینان رکھو۔ یوں حضرت کی دستار بندی حضرت اقدس قطب العالم حضرت مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے مقدس ہاتھوں سے 1300 ھجری میں ہوئی۔ اللہ کے فضل و کرم سے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمة اللہ علیہ کی پیشین گوئی کو اللہ نے حرف بحرف سچ کردکھایا، عوام و خواص تو کیا بڑے بڑے علمائے وقت بھی حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کو وقعت، عزت و احترام اور عظمت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔
اساتذہ کرام
آپ کے تمام اساتذہ ہر فن ماہر ہونے کے ساتھ بڑے صاحب باطن اور کامل بھی تھے، گویا ان میں ہر ایک غزالی اور رازی وقت تھا۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قرأت کی مشق شہرہ آفاق قاری، قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔
درس و تدریس
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315ھ تقریبا 14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھانہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔
تلامذہ
قیام کان پور کے زمانہ میں نزدیک و دور کے صدہا طلبہ نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کئے، سب کا استقصا تو ممکن نہیں، البتہ چند مخصوص حضرات قابل ذکر یہ ہیں:
مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفی صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری، مولانا مظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی وغیرہ رحمہم اللہ کے علاوہ ہند،'پاک کے بے شمار حضرات نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے فیض پایا ہے۔
باطنی علوم واعمال
اللہ تعالی نے حضرت رحمة اللہ علیہ کے باطنی علوم و اعمال کی تکمیل و تہذیب کے لئے ایک یگانہ عصر، شیخ المشائخ حضرت حاجی شاہ امداد اللہ صاحب تھانوی، ثم مہاجر مکی قدس سرہ العزیز سے شرف تعلق عطا فرمایا، 1299 ھجری میں حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے واسطے سے بذریعہ خط حضرت حاجی صاحب سے درخواست کی کہ وہ حضرت گنگوہی سے بیعت فرمالینے کی سفارش فرمادیں، حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نے حضرت مولانا سے اس کا تذکرہ فرمایا اور پھر خود ہی ارشاد فرمایا:
”اچھا میں خود ہی اُن کو بیعت کئے لیتا ہوں.“
اور حضرت رحمة اللہ علیہ کو بھی تحریر فرمایا کہ میں نے خود آپ کو بیعت کرلیا ہے، مطمئن رہیں۔
حضرت حاجی صاحب سے بیعت اور خلافت و اجازت
1301ھ میں حضرت حج کے لئے تشریف لے گئے تو آ پ کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، 1310 ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔ بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہو کر حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نے خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا:
”میاں اشرف علی! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہی“،
”ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء“․
تھانہ بھون میں مستقل قیام
1310 ھجری میں کان پور سے سبک دوشی اختیار کرکے اپنے وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی، تو انہوں نے جواب میں فرمایا:
”بہتر ہوا آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دُعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے“۔
چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمہم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خُدا کو مستفید فرمانے لگے۔
تصوف میں در آنے والی بدعات کا قلع قمع
حضرت رحمة اللہ علیہ کے زمانہ میں خانقاہی فقیری و درویشی کی ہیئت کذائی بن چکی تھی، جہاں کتاب و سُنت سے بالکل بے گانہ اور بے نیاز ہو کر چند جوگیانہ رسوم اور طریقہ نفس کشی ہی کو واصل حق ہونے کا ذریعہ اور ملحدانہ عقائد کو حاصل تصوف سلوک سمجھ لیا گیا تھا، یہ ایک عالم گیر فتنہ تھا، جس میں اکثر دینی رجحان رکھنے والے نادان عوام مبتلا ہورہے تھے، چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے اپنی پوری مصلحانہ توجہ اور مجددانہ تبلیغ کی جدوجہد اسی طبقہ کے لیے خاص طور پر مبذول فرمائی اور اس موضوع پر عقائد واعمال کی اصلاح کے لیے متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں،سینکڑوں وعظ وملفوظات قلم بند کرواکے شائع فرمائے اور قرآن و حدیث کی غیر متزلزل سند کے ساتھ تمام باطل عقائد کا رد اور تمام غیر اسلامی رسم و روایات اور غیر معقول و ملحدانہ رموز و اسرار باطنی اور گمراہ کن اصلاحات کی تردید فرمائی اور نہایت نمایاں طور پر واضح کردیا کہ طریقت یعنی تصوف وسلوک یا دوسرے الفاظ میں تہذیب اخلاق و تزکیہ نفس دین مبین ہی کا ایک اہم اور بنیادی رکن ہے اور اس پر شریعت و سُنت کے مطابق عمل کرنا ایک درجہ میں ہر مسلمان پر فرض و واجب ہے۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء
(1) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ
(2) حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی رحمة اللہ علیہ
(3) حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیہ
(4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ
(5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمة اللہ علیہ
(6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ
(7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمة اللہ علیہ
(8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمة اللہ علیہ
(9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ
(10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمة اللہ علیہ
(11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ
(12) حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ
(13) حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمة اللہ علیہ
(14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کاکوروی رحمة اللہ علیہ
(15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمة اللہ علیہ
(16) حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ
(17) حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کیمبل پوری رحمة اللہ علیہ
(18) حضرت مولانا عبدالرحمن کان پوری رحمة اللہ علیہ
(19) حضرت مولانا عبدالکریم گھمتھلوی رحمة اللہ علیہ
(20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ
(21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ۔
تبلیغ و وعظ
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے خانقاہ تھانہ بھون میں مقیم ہوکر شروع ہی سے اپنی آئندہ زندگی کے انضباط اور اہم خدمات دین کے انتظام و انصرام کے لیے اپنے مذاق فطری اور نصب العین کے موافق ایک لائحہ عمل مقرر فرمایا اور اسی کے مطابق اپنے پیش نظر کام کے سر انجام دینے میں مشغول ہوگئے، اس وقت آپ کی عمر تقریباً 35 سال تھی، اس کے بعد یہ مجدد وقت اپنی مسند رشدو ہدایت پر ایک نسخہ اکسیر اصلاح امت کے لیے لے بیٹھے۔ خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں اللہ پر توکل کرکے قیام پذیر ہونے کے بعد حضرت رحمة اللہ علیہ کی ساری زندگی، تقریباً نصف صدی سے زائد تک تصنیف و تالیف اور مواعظ و ملفوظات میں بسر ہوئی۔ ملک اور بیرون ملک ہزاروں طالبین حق و سالکین طریق تعلیم و تربیت باطنی اور تزکیہ نفس سے فیض یاب اور بہرہ ور اندوز ہو کر بحمد اللہ امت مسلمہ کے رہبرو مرشد بن گئے، جن کا فیضان روحانی اب تک جاری و ساری ہے۔
”ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشآء“
اسی زمانہ میں تقریباً چالیس سال تک حضرت رحمہ اللہ علیہ کاملک کے طول عرض میں تبلیغی دوروں کا سلسلہ جاری رہا، بڑے بڑے شہروں میں مشہور دینی درس گاہوں، انگریزی تعلیم گاہوں اور اسلامی انجمنوں کے شاندار جلسوں میں حضرت کے بڑے انقلاب انگیز اصلاحی وعظ ہوئے ، بعض دفعہ وعظ کا سلسلہ چار چار گھنٹہ تک جاری رہتا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ والہانہ انداز میں جمع ہوتے اور دینی و دنیوی تقاضوں سے آگاہ ہوکر ایمانی تقویت اور روحانی فیض پاتے۔
مواعظ ا ور ان کی تاثیر
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کو زمانہ طالب علمی سے، بلکہ بچپن سے وعظ کہنے کا شوق تھا، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تقریر میں روانی ہوتی تھی اور جو اثر حضرت کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے نہایت ہی برجستہ، پرمعنی، فصیح و بلیغ اور جامع و مانع الفاظ میں ہوتا تھا، اس کا لطف کچھ وہی خوب جانتے ہیں جنہوں نے حضرت رحمة اللہ علیہ کا کوئی وعظ سُنا ہے، بلا مبالغہ بس یہ معلوم ہوتا کہ کسی زبردست محقق اور جید عالم نے نہایت فرصت میں اور نہایت غوروخوص کے ساتھ کسی ایک خالص اور دقیق و مفید علمی مضمون پر نہایت مبسوط اور مربوط،جامع مانع رسالہ تصنیف کیا ہے، وہ پڑھ کر سُنایا جارہا ہے، عام واعظوں کی طرح نہیں کہ بلا لحاظ اصل مضمون جو کچھ ذہن میں آتا چلاگیا اس کو بلا ترتیب بیان کرتے چلے گئے اور جہاں چاہا ختم کردیا۔ حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کے مواعظ خاص طور پر عقائد کی اصلاح، اعمال کی درستی، معاملات کی اہمیت اور اخلاق کی پاکیزگی کے لئے ہوا کرتے تھے، حضرت کی مساعی اور جدوجہد کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہو اکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کے ضمیر میں اسلامی شعور و شعائر کا جذبہ بیدار ہونے لگا اور حق و باطل کا صحیح معیار واضح ہوگیا۔ اکثر و بیشتر مواعظ قلم بندہوئے اور طبع ہو کر شائع ہوئے اور بعض شائع نہ ہوسکے، تاہم شائع شدہ مواعظ کی تعداد تقریباً، چار سو سے زائدہے، جواب بھی وقتاً فوقتاً شائع ہورہے اور ان سے اب بھی مسلمان فیض یاب ہورہے ہیں۔
مغربی فلسفہ و تہذیب کا انسداد
اس زمانہ میں انگریز کے برسر اقتدار آنے کی وجہ سے مغربی فلسفہ اور تہذیب و معاشرت کا اثر پھیل رہا تھا ، جس سے عام طور سے تعلیم گاہیں تجارتی ادارے اور سرکاری محکمے اور عوام بڑی تعداد میں متاثر ہورہے تھے، حضرت رحمة اللہ علیہ نے اس فتنہ کے انسداد کے لیے بڑے شدومد کے ساتھ تبلیغ شروع فرمائی، اس موضوع پر سینکڑو ں وعظ، مختلف عنوانات کے ساتھ بیان فرمائے اور متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں، جو کہ کثر ت سے طبع ہوکر شائع ہوئیں۔ اس ہمہ گیر مصلحانہ تبلیغ کا یہ اثر ہواکہ مسلمانوں میں دینی شعور اور اسلامی شعائر کی طرف رجحان پیدا ہونے لگا، ہر طبقہ کے اکثر و بیشتر انگریزی تعلیم یافتہ لوگ، خصوصاً سرکاری محکموں کے بڑے بڑے عہدہ دار، وکیل، بیرسٹر ،جج، منصف و مجسٹریٹ کثرت سے حضرت رحمة اللہ علیہ کی تعلیمات سے متاثر ہوئے اور بعض تو حلقہ بگوش عقیدت ہوگئے اور بعض کی باطنی تعلیم و تربیت سے دینی حالت میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی کہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے ان کو اپنے ”خلفائے مجازین صحبت” میں شامل فرمالیا تھا، اس طرح حضرت رحمة اللہ علیہ نے اس دور میں ایک زندہ مثال قائم فرمادی کہ مسلمان خواہ کسی مسئلہ زندگی میں ہو اگر چاہے، تو پکا دین دار بن سکتا ہے، یہ حضرت رحمةاللہ کی ایسی کرامت اور ایسا کارنامہ تبلیغ دین ہے جو ہر اعتبار سے انفرادیت کا درجہ رکھتا ہے۔
علوم دینیہ میں خدمات اور تصانیف
علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے اور ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں۔ حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات، تمام مواعظ و ملفوظات، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکارا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔
وفات وتدفین
آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر 16 رجب المرجب 1362 بمطابق 20 جولاائی 1943ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھانہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ”قبرستان عشق بازاں“ میں آپ کی تدفین ہوئی۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ کے علوم وفیوض سے استفادے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (أمین)
http://saagartimes.blogspot.in/2015/12/blog-post_97.html?m=1
No comments:
Post a Comment