ایس اے ساگر
خواتین کی نام نہاد آزادی اور مساوات کی آڑ میں ایسا سماں باندھا گیا ہے کہ معاملات اور مقدمات میں ان کی نصف گواہی نے شریعت پر سوالیہ نشان قائم کردئے ہیں. اپنی تہذیب سے ناواقف لوگ بے جڑ کے پودے ہوتے ہیں.
جبکہ اہل علم کے نزدیک اللہ تعالیٰ، مردوں اور عورتوں کے مالک و خالق ہیں اور وہ ان کی ظاہر و پوشیدہ صلاحیتوں، عقل و شعور اور حفظ و اتقان کو خوب جانتے ہیں، جب انھوں نے ہی عورت کی گواہی مرد کے مقابلہ میں آدھی قرار دی تو کسی ایسے انسان کو جو اللہ تعالیٰ کو خالق و مالک مانتاہو، یا کم از کم اس کی ذات کا قائل ہو، اس حکمِ الٰہی پر اعتراض کا کوئی حق نہیں جبکہ سورہ البقرہ کی آیت 282
واستشہدوا شہیدین رجالکم، فان لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشہداء ان تضل احداہما فتذکر احداہما الاخری
میں یوں ارشاد ہے کہ ،اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے، پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دوعورتیں ان لوگوں میں سے کہ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں، تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو وہ دوسری۔
مصلحت اور حکمت :
عورت کی گواہی مرد کی نسبت آدھی کیوں قرار دی گئی؟ اور اس کی کیاحکمت ومصلحت ہے؟ تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اس کی حکمت ومصلحت قرآن وحدیث دونوں میں مذکور ہے، چنانچہ قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت میں صراحت و وضاحت کیساتھ اس کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہےکہ،
ان تضل احداہما فتذکر احداہما الاخریٰ
یعنی کہ،تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو وہ دوسری۔
سہو کی رعایت :
جس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ خواتین عدالتی چکروں کی متحمل نہیں ہیں، ان کی اصلی وضع گھر گرہستی اور گھریلو ذمہ داریوں کے نبھانے کیلئے ہے، اس لئے عین ممکن ہے کہ جب عورت عدالت اور مجمع عام میں جائے تو گھبرا جائے اور گواہی کا پورا معاملہ یا اس کے کچھ اجزاء اُسے بھول جائیں، اس لئے حکم ہوا کہ اس کیساتھ دوسری خاتون بطور معاون گواہ رکھی جائے تاکہ اگر وہ بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے۔
ضعف کی رعایت :
دوسرے یہ کہ عورتیں عام طور پر مردوں کے مقابلہ میں کمزور ہوتی ہیں، ان کے دماغ میں رطوبت کا مادہ زیادہ ہوتاہے، اس لئے ان سے نسیان بھی زیادہ واقع ہوتا ہے، اور وہ بھول بھی جاتی ہیں، یہ ایک انسانی فطرت ہے، وگرنہ بعض عورتیں بڑی ذہین بھی ہوتی ہیں، اور بعض عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص صلاحیت بخشی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ذہین بھی ثابت ہوتی ہیں، تاہم عام فطرت اوراکثریت کے اعتبار سے چونکہ عورت کا مزاج 'اعصابی' ہوتا ہے، اس لئے وہ اکثر بھول جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دماغی کیفیت ہی ایسی بنائی ہے، لہٰذا دوعورتوں کو ایک مرد کیساتھ رکھا گیا ہے۔
نقصان عقل کی تائید :
تیسرے یہ ہے کہ عورتوں کے نقصان عقل کی تائید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں فرمایا:
ما رأیت من ناقصات عقل و دین اغلب لذی لب منکن، قالت: یا رسول اللّٰہ وما نقصان العقل والدین؟ قال: اما نقصان العقل فشہادة امرأتین تعدل شہادة رجل، فہذا نقصان العقل، وتمکث اللیالی ما تصلی و تفطر فی رمضان فہذا نقصان الدین
بحوالہ، صحیح مسلم، صفحہ ۶، جلد1
کیسے ہیں ناقص العقل؟
یعنی کہ،میں نے عقل اور دین کے اعتبار سے ناقصات میں سے ایسا کوئی نہیں دیکھا، جو تم میں سے صاحبِ عقل کی عقل کو گم کردے؟ ایک خاتون نے عرض کیاکہ، ہم ناقص عقل و دین کیوں ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: عورت کے نقصانِ عقل کی وجہ یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے، اور اس کے نقصانِ دین کی وجہ یہ ہے کہ وہ (مہینہ کے) کچھ دنوں اور راتوں میں نماز نہیں پڑھتی اور ماہ رمضان المبارک میں روزہ بھی نہیں رکھتی۔
No comments:
Post a Comment