Monday, 14 December 2015

مروّجہ میلاد کی مجالس Prophet’s Birthday Celebration ‘Sinful’ عبادت کیسے بن گئی بدعت!

ایس اے ساگر

ماہ ربیع الاول شروع ہوچکا ہے۔ اہل علم امت کو بدعت سے بچنے کی مسلسل ترغیب دے رہے ہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مروّجہ میلاد کی مجالس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک جیسی عبادت کو بدعت بنادیا گیا ہے۔ فصل ربیع یعنی موسم بہار کے شروع میں واقع مہینہ تہوار کی شکل اختیار کر گیاہے، جیسے ہی ماہ ربیع الاول آتا ہے، نہ جانے کہاں سے جلسے جلوس کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔غنیمت ہے کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلہ میں تقریبات کے حوالہ سے واضح طور پر کہا ہے کہ’یہ توہم پرستی ہیں اور شریعت کے منافی ہیں۔‘مفتی اعظم کے بقول ’یہ ایک بدعت ہے جو بعثت اسلام کی پہلی تین صدیوں کے بعد سے شروع ہوئی ہے۔‘ مفتی اعظم نے ان خیالات کا اظہار امام ترکی بن عبداللہ مسجد میں اپنے خطبہ کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو دوسروں کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کی ترغیب دیتے ہیں وہ برائی کے مرتکب ہوتے ہیں، مسلمانوں کا فرض ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اللہ کے بندے او رسول کے طور پر مانیں جس نے پوری انسانیت کیلئے ہدایت نازل فرمائی ہے جبکہ پوری دنیا میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی’ پرونور محافل‘ اور’ تقریبات‘ کا آغاز ہوچکا ہے، اور مسلمانان عالم اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن ولادت بھرپور مذہبی عقیدت اور احترام کیساتھ منا نے پر مصر ہیں، ایسے میں سعودی مفتی اعظم کے اس بیان سے مسلمانوں میںبیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگر چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہو سکتی لیکن یہ سب کچھ کرتے ہوئے امت یہ بھول جاتی ہے کہ جس ذات اقدس کی سیرت کا بیان ہورہا ہے اور جن کی ولادت کا جشن منایا جارہا ہے خود ان کی کیا تعلیمات ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخ انسانیت کا اتنا عظیم الشان واقعہ ہے کہ اس سے زیادہ پر مسرت واقعہ روئے زمین پراس سے قبل پیش نہیں آیا۔
کہاں سے آئی یہ قبیح رسم؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً تریسٹھ 63 سال رہی اور چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی،اس اعتبار سے نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیئس سال اس دنیا میں رہے ۔ظاہر ہے کہ23 مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بارہ ربیع الاول کی تاریخ آئی ہوگی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنا یوم پیدائش نہیں منایا۔ دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً سوا یا ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چھوڑ گئے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچی محبت کرنے والے ساتھی تھے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے یہ یوم پیدائش نہیں منایا اور نہ کوئی جلسہ نکالا نہ چراغاں کیا ۔۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اسلام کوئی رسموں کا دین نہیں جیساکہ دوسرے اہل مذاہب ہیں کہ ان کے یہاں چند رسموں کو ادا کرنے کا نام دین ہے بلکہ اسلام تو عمل اور اتباع کا دین ہے۔ کیا مسلم معاشرہ مین یہ تصور عیسائیوں سے نہیں آیا ہے ؟ حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش کرسمس کے نام سے25 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریباً تین سو سال تک ان کی یوم پیدائش کا تصور بھی نہ تھا۔ آپ علیہ السلام کے حواریین میں سے کسی نے یہ دن نہیں منایا بلکہ بعد میں کچھ لوگوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا، حالانکہ اس وقت جو لوگ دین عیسوی پر پوری طرح عمل پیرا تھے، انھوں نے ان لوگوں کو منع کیا اور کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا تذکرہ کریں بلکہ اس طرح تو لوگوں میں عمل کا شوق پیدا ہوگا۔ چنانچہ تذکرے کے بہانہ یہ سلسلہ شروع ہوگیا، شروع شروع میں تو چرچ میں ایک پادری کھڑے ہوکر حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت پر بیان کرتا اور پھر اجتماع ختم ہوجاتا، لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے سوچا کہ اس مجلس میں نوجوان طبقہ نہیں آتا، لہذا اسے دلچسپ اور پرکشش بنانے کیلئے اس موقع پر نہ صرف موسیقی شروع کردی گئی بلکہ ناچ گانا بھی شامل کردیا گیا۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات تو پیچھے رہ گئیں اور یہ ایک جشن کی صورت اختیار کرگیا، لہذا عام مشاہدہ ہے کہ مغربی ممالک میں اس دن کیا طوفان برپا ہوتا ہے۔ اسی کی طرز پر امت مسلمہ میں بھی خرافات شروع ہوگئیں اور شریعت مطہرہ پرکاربند ہونے کی بجائے ایسے رسوم وقیود اپنالئے جو عیسائیت کی اندھی تقلید ہیں۔ مسلمانوں میں غیرمسلموں کیساتھ میل جول اوراسلامی تعلیم کے فقدان کے سبب یہ رسم و رواج شروع ہوگئے۔امت اگر اپنے فرض منصبی پر فائز ہوتی اور نہج نبوت پر دعوت کی ذمہ داری نبھاتی تو ان باطل رسوم کو اسلام کا نام کبھی نہ دیتی۔ آج سادہ لوح مسلمان اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ دین ہے!
لالچ ہے بری بلا :
رونا ان حضرات کی عقل پر آتا ہے جوبدعات و رسوم کی حقیقت سے آگاہی کے باوجود محض دنیوی اغراض اور عاجلانہ مقاصد کے حصول اور لالچ میں بدعتوں وجاہلانہ روایتوں کو’سنت‘کا نام دے کر عوام کو تاریکی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں؛ بلکہ ان بدعتوں و خرافات کو سنت ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔مسلم معاشرے میں بدعات و خرافات کا چلن پیدا ہوگیا، آج باطل نظریات اور غلط عقائد وافکار کی حکمرانی ہے، اہل باطل ان بدعتوں پر دین کا لیبل چسپاں کرکے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ بدعتیں پھیل جاتی ہیں اور معاشرے میں اس کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ ان بدعتوں میں عیدمیلاد النبی سرکاری تعطیلات میں شامل ہوچکی ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ معاشرے کے اکثر افراد دین تصور کرتے ہیں اور عبادت سمجھ کر منائی جاتی ہے، جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں کا اہتمام کیاجاتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام انتہائی بلند ہے، کوئی دوسری شخصیت وہاں تک رسائی نہیں حاصل کرسکتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے امت کو آگاہ کرنا اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے اوراس میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مسرت کا باعث ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت پر خوشی ہونا فطری امر ہے؛ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی آڑ میں بدعات وخرافات کا سلسلہ شروع کردیا جائے ؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف ارشاد فرمایاکہ’ تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے، ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور نئی نئی باتوں سے دور رہو؛ اس لئے کہ دین میں ہر نئی بات (جس کا حکم نہ دیاگیا ہو) بدعت ہے۔‘ حوالے کیلئے مستدرک حاکم، جلد اول ،صفحہ 94 سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
ساتویں صدی کی پیداوار :
اہل علم مسلسل متوجہ کر رہے ہیں کہ مروّجہ میلاد کا اسلام میں کہیں ثبوت نہیں ہے؛ بلکہ یہ مروّجہ میلاد ساتویں صدی ہجری کی پیداوار ہے۔ پوری چھ صدی تک اس بدعت کا مسلمانوں میں کہیں رواج نہ تھا؛ نہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے، نہ تابعی رحمہ اللہ نے، نہ تبع تابعین رحم اللہ عنہم نے عید میلاد نبی منائی، نہ کسی محدث نے، نہ مفسر نے، نہ فقیہ نے؛ بلکہ سب سے پہلے میلاد منانے والی شخصیت موصل کے علاقے اربل کا ظالم، ستم شعار اور فضول خرچ بادشاہ ملک مظفرالدین ہے۔ 604ھ کے دوران سب سے پہلے اس کے حکم سے محفل میلاد منائی گئی۔ دول الاسلام، جلد دوم، صفحہ104 پر اس کی وضاحت موجود ہے، نیز امام احمد بن محمد مصری اپنی کتاب 'القول المعتمد' میں رقم طراز ہیں کہ:
اس ظالم اورمسرف بادشاہ (ملک مظفرالدین) نے اپنے زمانے کے علماکو حکم دیاکہ وہ اپنے’اجتہاد‘ پر عمل کریں اور اس میں کسی غیر کے مذہب کا اتباع نہ کریں تو اس وقت کے وہ علما جو اپنے دنیوی اغراض ومقاصد کی سرتوڑ کوششیں کررہے تھے ان کی طرف مائل ہوئے، جب انھیں موقع ملا تو ربیع الاوّل کے مہینے میں عیدمیلاد النبی منانا شروع کیا۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے عیدمیلادالنبی منانے والا شخص ملک مظفرالدین ہے جوموصل کے علاقے اربل کا بادشاہ تھا۔“ اس سلسلہ میں علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
یہ شخص ہر سال میلاد پر لاکھوں روپے خرچ کرتا تھا اس طرح اس نے رعایاکے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اوراس کیلئے ملک وقوم کی رقم کو محفل میلاد پر خرچ کرنا شروع کیا اوراس بہانے اپنی بادشاہت مضبوط کرتا رہا اور ملک وقوم کی رقم بے سود صرف کرتا رہا۔ حوالے کیلئے’فیض الباری‘ کی جلد دوم صفحہ 319سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
دول الاسلام، جلد دوم، صفحہ 103پر علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ’اس کی فضول خرچی اور اسراف کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر سال میلادالنبی پر تقریباً تین لاکھ روپے خرچ کیا کرتا تھا۔‘ذرا اس باطل پرست اور کج فکر کی حالت بھی سن لیجئے جس نے محفل میلاد کے جواز پر دلائل اکٹھے کئے اور بادشاہ کو اس محفل کے انعقاد کے جواز کا راستہ بتایا اس کا نام ابوالخطاب عمرو بن دحیہ تھا۔لسان المیزان کی جلد چہارم کے صفحہ 294پر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ا ±س شخص کے بارے میں فرماتے ہیں کہ' وہ شخص ائمہ کی شان میں گستاخی کیا کرتاتھا، زبان دراز، بے وقوف اور متکبر تھا اور دینی امور میں سست اور بے پرواہ تھا۔ یہ تو میلاد کی محض ابتدائی تاریخ اور ا ±س کے موجد پر بحث تھی، جبکہ علمائے متقدمین ومتاخرین اس محفل میلاد کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں، جاننا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ الشریعة الالٰہیہ بحوالہ حقیقت میلاد ،صفحہ 41 پر علامہ عبدالرحمن مغربی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ’میلاد منانا بدعت ہے؛ اس لئے کہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، نہ اس کے کرنے کو کہا ہے۔ خلفائے کرام نے میلاد منائی ہے اورنہ ائمہ نے۔‘ علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ رقم طرازہیں کہ’اس میلاد کے بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے؛ لیکن اس میں قیاس آرائی پر عمل کیا جاتا ہے۔‘
بڑی عبادت کا مغالطہ :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ حرّانی دمشقی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب’اقتضاالصراط المستقیم‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ نصاری میلاد عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام مناتے تھے، جب مسلمانوں کی اس طرف نظر ہوئی تو دیکھا دیکھی مسلمانوں نے یہ رسم اختیار کی؛ حال آں کہ سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر یہ جائز ہوتی اوراس کے منانے میں خیر ہوتی، تو پہلے کے لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبت رکھتے تھے اوراچھے کام کرنے کے زیادہ حریص تھے، وہ مناتے، لیکن سلف صالحین کا میلاد نہ منانا یہ اس بات کابیّن ثبوت ہے کہ میلاد مروّجہ طریقے پر منانا درست نہیں ہے۔“ اس میں لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ بڑی عبادت ہے حال آں کہ یہ بدعت ہے اوراس میں محرمات کا ارتکاب ہوتا ہے اور دیگر لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ اگرمیلاد منائی جائے اور اس میں محرمات کا ارتکاب نہ ہو اور وہ تمام مفاسد نہ ہوں جو اس کے منانے میں ہوتے ہیں، تب بھی میلاد منانا بدعت ہے؛ کیوں کہ یہ دین میں زیادتی ہے اوراسلاف کا عمل نہیں ہے۔ اگر یہ کارِ خیر اور کارِ ثواب ہوتا تو سب سے پہلے سلف صالحین مناتے؛ لیکن ان کا میلاد نہ منانا اس کا ثبوت ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ حوالہ کیلئے مدخل، جلداول‘ صفحہ316 سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ دفتر اوّل مکتوب، صفحہ 173 پر مجدّد الف ثانی رحمة اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں: بالفرض اگر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں زندہ ہوتے اور یہ مجلس منعقد ہوتی تو آیا وہ اس پر راضی ہوتے اوراس اجتماع کو پسند فرماتے تو اس سلسلہ میں بندے کایقین یہ ہے کہ وہ ہرگز اسے قبول نہ فرماتے۔ القول المعتمد میں علامہ نصیرالدین الاودی الشافعی علیہ الرحمہ سے کسی نے سوال کیا کہ میلاد منانا کیسا ہے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا: محفل میلاد نہ منائی جائے؛ کیوں کہ سلف صالحین نے اختیار نہیں کیا ہم اسے کیسے اختیار کرلیں۔ القول المعتمد میں ہی علامہ شرف الدین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض امیر لوگ ہر سال محفل میلاد مناتے ہیں، اس میں بہت سے ناجائز تکلّفات پائے جاتے ہیں اور یہ محفل نفس پرستوں کی ایجاد کی ہوئی ہے جن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کا حکم دیا اور کس چیز سے منع کیا؟ اِس لئے یہ بدعت ہے۔ عزیز الفتاویٰ کے صفحہ 99 پر حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: مروّجہ میلاد اور اس میں مروّجہ قیام محدثہ، ممنوعہ ہیں، جو ناجائز اور بدعت ہیں۔ فتاوی رشیدیہ کے صفحہ 409 پر قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’ یہ محفل چونکہ زمانہ فخردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم میں اور زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور زمانہ تابعین وتبع تابعین اور زمانہ مجتہدین میں نہیں ہوئی، اِس محفل کا موجد چھ سو سال بعد کا ایک بادشاہ ہے جس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں؛ لہٰذا یہ مجلس بدعت اور گمراہی ہے۔ عدم جواز کے واسطے یہ دلیل کافی ہے کہ قرونِ خیر میں اس کو کسی نے نہیں کیا۔‘ امداد المفتیین کے صفحہ 79 پر حضرت مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’موجودہ مروّجہ میلاد ہمارے نزدیک ناجائز اور بدعت ہے۔‘
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام :
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ رقم طرازہیں کہ ذکر ولادتِ نبوی شریف صلی اللہ علیہ وسلم مثل دیگر اذکارِ خیر کے ثواب اور افضل ہے اگر بدعات وقبائح سے خالی ہو۔ اس سے بہتر کیا ہے کما قال الشاعر:
وذکرک للمشتاق خیر شراب
 وکل شراب دونہ کسراب
البتہ جیسا ہمارے زمانے میں قیودات اورشنائع کیساتھ مروّج ہے اس طرح بے شک بدعت ہے۔ بحوالہ امداد الفتاویٰ،جلد5،صفحہ249۔ فتاوی عبداللہ بن باز، جلد اول کے صفحہ 24 پر سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میلاد منانا کسی کیلئے بھی جائز نہیں، اِس لئے کہ یہ بدعت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ اور تابعین سے ثابت نہیں۔ ایک اور جگہ شیخ رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ عید منانا خواہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر ہو یا کسی اور کی پیدائش پر ناجائز ہے؛ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقے پر عید نہیں منائی اورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عید منائی ہے، سلف امت کا بھی یہی فیصلہ رہا ہے اور خیران کی اتباع میں مضمر ہے۔ مولانا بدرعالم میرٹھی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ مروّجہ میلاد حرام ہے؛ اِس لئے کہ یہ میلاد معاصی ظاہرہ وباطنہ پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں محرمات کا ارتکاب ہوتاہے موضوع روایات پڑھی جاتی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی ہے اور سب سے بڑی غلطی یہ کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مانا جاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس محفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں ان تمام امور کی وجہ سے اس محفل کا انعقاد حرام ہے۔ گویا کہ تمام علما، ائمہ، محدثین، مفسرین اور مفتیان کا اس پر اتفاق ہے کہ عید میلاد النبی منانا ناجائز اور بدعت ہے۔ اس کے باوجود ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دین سے ناواقف اور احکام شریعت سے نا آشنا ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب ربیع الاوّل کا مہینہ قریب آتا ہے تو ان میں جوش وخروش پیداہوتا جاتا ہے اور یہ عیدمیلاد النبی منانے کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔بھولپن کا یہ عالم ہے کہ اسے وہ اپنے تمام گناہوں کا کفارہ گردانتے ہیں جبکہ ان مجالس میں جن منکرات کاارتکاب ہوتا ہے اس سے اللہ تعالی پوری امت کی حفاظت فرمائیں عیدمیلاد النبی کی حقیقت اور مروّجہ میلاد کی مجالس کے منکرات کسی سے مخفی نہیں ہیں ، رونا تو یہ ہے کہ اس بے دینی کو نہ صرف دین کہا جارہا ہے بلکہ اسے اسلام اور مسلمانوں کا شعار سمجھا جارہا ہے۔ سادہ لوح عوام بلا کسی تحقیق کے ان مجالس کیلئے خون پسینے کی کمائی لٹا رہے ہیں !
مروجہ میلادسے کیا ہے مراد؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا تذکرہ تمام مسلمانوں کیلئے موجبِ خیروبرکت اور باعثِ فخرو سعادت ہے، لیکن شریعت نے ہر کام اور عبادت کیلئے کچھ حدود وقواعد مقرر کئے ہیں ، ان حدود وقواعد کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر عمل کا انجام دینا ضروری ہے اور ان سے تجاوز کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے، اسکی سادہ سی مثال یہ ہے کہ نماز اہم ترین عبادت ہے لیکن آفتاب کے طلوع وغروب کے وقت نماز پڑھنا جائز نہیں ، اسی طرح سیرتِ طیبہ کے مبارک تذکرے کے بھی کچھ حدود وقیود ہیں، مثلاً سیرت کے تذکرے کو کسی معین تاریخ یا مہینے کیساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ سال کے ہر مہینے اور مہینے کے ہر ہفتے اور ہفتے کے ہر دن میں اسے یکساں طور پر باعثِ سعادت سمجھا جائے اور اسکے لئے کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کرلیا جائے، مثلاً سیرت پر لکھی گئی معتبر کتابوں کے مطالعہ کا معمول بنالیا جائے وغیرہ، ایسا کرنانہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجروثواب ہے مگر ان تمام مفاسد اور منکرات سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے جو عام طور پر مروّجہ میلاد کی محفلوں میں پائے جاتے ہیں ، ان میں سے بعض مفاسد ومنکرات درج ذیل ہیں:
(1)...ماہِ ربیع الآول کی بارہ تاریخ کو خصوصیت کیساتھ محفلِ میلاد منعقد کرنا یا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا ، کیونکہ اسکا کوئی ثبوت حضرات ِ صحابہ کرام و تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ دین کے مبارک دور میں نہیں ملتا،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو کسی معین تاریخ یا مہینے کیساتھ مخصوص کرلینا دین میں اضافہ اور بدعت ہے۔
(2)...ان محفلوں کے انعقاد میں ریااور نام ونمود شامل ہونا۔
(3)...اگر کوئی شخص ایسی محفلوں میں شریک نہ ہو تو اسے برا سمجھنا۔
(4)...ایسی محفلوں میں حلوہ یا مٹھائی کی تقسیم کو لازم سمجھنا۔
(5)...مٹھائی ، حلوہ وغیرہ کیلئے لوگوں سے چندہ وصول کرنا جس میں لوگ عموماً لحاظ ومروّت کی خاطر یا جان چھڑانے کیلئے چندہ دے دیتے ہیں اور حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کا مال ا س کی خوشدلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔
(6)...ان محفلوں میں ضرورت سے زائد روشنی اور چراغاں کا اہتمام ہونا، ان کی سجاوٹ میں حد سے زیادہ تکلف کرنا اور غیر ضروری آرائش پر حد سے زیادہ اخراجات کرنا جو بلاشبہ اسراف میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔
(7)...جلسوں کے انتظامی انہماک کی وجہ سے یا رات کو دیر تک جاگنے کے سبب فرض نماز ترک کرنا یا اس کا قضاہوجانا اور مرد وزن کا آزادانہ اختلاط جیسے خلافِ شرع امور اور گناہ کبیرہ کا بے دریغ ارتکاب کرنا۔
(8)...ان محفلوں میں بعض دفعہ بے احتیاطی کی وجہ سے ایسی کہانیاں بیان کردی جاتی ہیں جو صحیح ومعتبر روایات سے ثابت نہیں ہوتیں حالانکہ اس مقدّس موضوع کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ صحیح روایات سے ثابت شدہ واقعات نہایت احتیاط کیساتھ بیان کئے جائیں۔
(9)...آنحضرت نے ہر شعبہ زندگی سے متعلق واضح ہدایات اور تعلیمات بیان فرمائی ہیں ، اسکا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تعلیمات پر روشنی ڈالی جائے۔ عبادات ، معاملات ، معاشرت اور اعمال و اخلاق پر سیر حاصل گفتگو ہو....لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ آج کی زیادہ تر میلاد کی محفلوں میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا تذکرہ کیا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ آپ کے معجزات کا بیان ہوجاتا ہے لیکن عموماً تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق جامع تعلیماتِ نبوی کا بیان نہیں ہوتا اور انکی جگہ خرافات ، مفاسد اورمنکرات نے لے لی ہے۔
لہٰذا مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر میلاد کی رائج الوقت محفلیں واجب الترک ہیں ، البتہ اگر ان مفاسدمیں سے کوئی بھی نہ ہو اور شرعی حدود و آداب کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی کوئی محفل محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر منعقد کرلی جائے تو ا س میں ان شااللہ سراسر خیر وبرکت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
از :دارالافتاوالارشاد


Prophet’s Birthday Celebration ‘Sinful’
By: S. A. Sagar
Grand Mufti Sheikh Abdul Aziz Al-Asheikh has warned against celebrating the birthday of the Prophet (peace be upon him), saying that it is a superstitious practice that was illegally added to the religion. According to reports, Saturday 3 January 2015, “It is a bida (a sinful religious innovation) that crept into Islam after the first three centuries when the companions and successors of the companions lived.” Instead, it is obligatory for Muslims to follow the Prophet’s teachings as contained in the Sunnah, the sheikh said in his Friday congregational sermon at the Imam Turki bin Abdullah mosque in Riyadh.
The sheikh said that those who urge others to celebrate the birthday of the Prophet are evil and corrupt. “The true love of the Messenger of Allah Sallallahu Alaihi Wasallam is manifested by following in his footsteps and supporting his Sunnah ... that is how the love for the Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam is expressed.” He said Almighty Allah has said: “Say: ‘If you do love Allah, follow me: Allah will love you and forgive your sins.’” Muslims have a duty to believe in the Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam as the servant and messenger of Allah, who was sent as a guide to the entire universe, Al-Asheikh said.
It is the duty of Muslims to love and respect him. They should also defend him against those who misinterpret his teachings, the atheists who deny him, and those who abuse or mock him. These are the duties of Muslims who truly love the Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam, the sheikh said. He said that Almighty Allah states in the Holy Qur’an: “Say: If it be that your fathers, your sons, your brothers, your mates, or your kindred; the wealth that you have gained; the commerce in which you fear a decline; or the dwellings in which you delight, are dearer to you than Allah, or His messenger, or the striving in His cause, then wait until Allah brings about His decision, and Allah guides not the rebellious.”
151215 ibadat kaise ban gai bidat by s a sagar
http://sagarurdutahzeeb.blogspot.in/2015/12/prophets-birthday-celebration-sinful.html







No comments:

Post a Comment