ایس اے ساگر
دنیا میں کسی شخص سے بار بار کچھ نہ کچھ مانگا جاتا رہے تو وہ کتنا بڑا سخی ہو بالآخر اُکتا کر ناراض ہوجاتا ہے، لیکن اللہ تعالی کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے بندہ جتنا زیادہ مانگے گا اللہ تعالی اس سے اتنے ہی زیادہ خوش ہوں گے . دعا انسان پر اللہ کا خاص احسان ہے نیز قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔بندے کا اپنے رب سے مدد مانگنا اور اللہ کا اس کی دعا کو قبول کرنا وہ نعمت ہے جس کا شکرگزار ہونا ضروری ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے ۔دعا ایسی عبادت ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے دعا کی عادت ڈالنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر کام کیلئے اللہ سے رجوع کرتا ہے۔اسی کی مدد مانگتا ہے جس سے اسکا تعلق اللہ سے اور مضبوط ہوجاتا ہے. قرآن مجید میں دعا کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے تقریباً پچاس مرتبہ دعا کے بارے میں ارشاد کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو بار بار دعا مانگنے کی تلقین کی۔ دعا مانگتے ہوئے اول و آخر درود شریف کا اہتمام افضل ہے.
صحیح الجامع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے’’ ہر دعا معلق رہتی ہے جب تک دعا سے پہلے اور آخر میں درود و سلام نہ بھیجا جائے. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے قریب ہوتا ہے۔لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کرو
(صحیح مسلم)
دعا خشوع و خضوع اور گریہ وزاری کے ساتھ کرنی چاہیے اور دعا تردد کی حالت میں نہیں کرنی چاہیے۔ دعا قبول ہونے کی 3مختلف صورتیں ہیں۔
(1)اگر وہ دعا اُس شخص کے حق میں بہتر ہو تو اللہ اسکو ویسا ہی قبول کرکے پورا کردیتے ہیں۔
(2) بعض اوقات انسان دعا مانگتا ہے اس پر کوئی پریشانی آنے والی ہوتی ہے تو اللہ اس کی دعا کو ذریعہ بنا کر آنے والی پریشانی سے اسکو محفوظ کردیتے ہیں۔
(3)کسی کی دعائیں نیکیوں کا خزانہ بن کر آخرت میں جمع کردی جاتیں ہیں۔
ایک حدیث میں وارد ہے کہ جو شخص اللہ تعالی سے مانگتا نہیں اس سے اللہ تعالی ناراض ہوجاتے ہیں،
پھر یہی نہیں کہ دعا اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے بلکہ وہ ایک مستقل عبادت ہے،
یعنی دعا خواہ اپنے ذاتی اور دنیوی مقصد کیلئے مانگی جائے وہ بھی عبادت شمار ہوتی ہے، اور اس پر ثواب ملتا ہے،
اور جتنی زیادہ دعا مانگی جائے اتنا ہی اللہ تعالی کیساتھ تعلق میں اضافہ ہوتا ہے،
یہ ضروری نہیں کہ صرف تنگی اور مشکلات کے وقت ہی دعا مانگی جائے بلکہ خوش حالی اور مسرتوں کے وقت بھی دعائیں مانگتے رہنا چاہئے،
حدیث میں ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ مصائب اور تنگیوں کے وقت اس کی دعائیں قبول ہوں تو اسے چاہئے کہ خوش حالی کے وقت دعا کی کثرت کرے.
(جامع الاصول بحوالہ ترمذی)
۱: دعا کی قبولیت سے مرادیں پوری ہوتی ہیں .
۲: ہر دعا پر ثواب ملتا ہے .
۳: دعا کی کثرت سے اللہ تعالی کیساتھ تعلق میں اضافہ ہوتا ہے،
پھر اگر چہ دعا مانگنے کے آداب میں یہ بات داخل ہے کہ قبلہ رو ہاتھ اٹھاکر زبان سے دعا مانگی جائے اور پہلے حمد و ثنا اور درود شریف کا اہتمام کیا جائے لیکن اگر اس کا موقع نہ ہو تو اس کے بغیر بھی دعا کرنا جائز ہے،
اور اس طرح اللہ تعالی نے دعا کو اتنا آسان فرما دیا ہے کہ وہ تقریباً ہر وقت اور ہر جگہ مانگی جاسکتی ہے،
چلتے پھرتے بھی، کام کرتے وقت بھی،
اور اگر زبان سے مانگنے کا موقع نہ ہو (مثلاً بیت الخلاء وغیرہ میں) تو دل ہی دل میں بھی مانگی جاسکتی ھے،
لہذا اس بات کی عادت ڈال لینی چاہئے کہ جب کوئی چھوٹی سے چھوٹی حاجت بھی پیش آئے تو اس کو اللہ تعالی سے مانگا جائے،
کوئی معمولی سے معمولی تکلیف ہو تو اس کا ازالہ بھی اللہ تعالی سے طلب کیا جائے،
ان شاءاللہ اس سے بہت جلد ترقی ہوگی .
(ص 99)
No comments:
Post a Comment