Tuesday 8 December 2015

کیسا ہے یہ اظہار محبت ؟

ایس اے ساگر

ملعون کملیش تیواری کے توہین رسالت بیان کے بعد ملک بھر میں احتجاج بڑھتا ہی جارہا ہے. لیکن ذرا مسلمان اور عشق رسول صلى اللہ  علیہ وسلم کے ضمن میں شيخ الہند رحمہ اللہ كا بصيرت افروز تجزیہ ملاحظہ فرمائیے :

مولانا سید مناظر احسن گیلانی (م۔۱۹۷۵ء) دارالعلوم دیوبند میں اپنی طالبعلمی کے احوال لکھتے ہوئے اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن (م ۱۹۲۰ء) کے درس کا ایک واقعہ سناتے ہیں :

’’بخاری شریف کا سبق ہو رہا تھا۔ مشہور حدیث گذری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے مال، بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ میں اس کیلئے محبوب نہ ہو جاؤں۔ فقیر نے عرض کیا کہ’’بحمد اللہ عام مسلمان بھی سرکارِ کائنات کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو تو ایک حد تک مسلمان برداشت کر لیتا ہے۔۔لیکن رسالتمأب کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کر دیتی ہے کہ ہوش حواس کھو بیٹھتے ہیں، آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے ہیں۔‘‘
یہ سن کر حضرت نے فرمایا:
ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا۔ لیکن کیوں ہوتا ہے؟ تہ تک تمھاری نظر نہیں پہنچی، محبت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے ،
لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آنحضرت کی مرضئ مبارک کیساتھ ہے وہ بھی ہمارے تمھارے سامنے ہے۔ پیغمبر نے ہم سے کیا چاہا تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں، اس سے کون ناواقف ہے، پھر سبکی آپ کی جو مسلمانوں کیلئے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے اس کی وجہ محبت تو نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
خاکسار نے عرض کیا کہ تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟ نفسیاتِ انسانی کے اس مبصرِ حاذق نے فرمایا کہ
’’سوچو گے تو درحقیقت آنحضرت کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیر شعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی خودی اور انا مجروح ہوتی ہے۔ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں تم اس کی اہانت نہیں کر سکتے۔ چوٹ درحقیقت اپنی اسی ’انانیت‘ پر پڑتی ہے لیکن مغالطہ ہو تا ہے کہ پیغمبر کی محبت نے ان کو انتقام پر آمادہ کیا ہے۔ نفس کا یہ دھوکہ ہے۔۔۔۔محبوب کی مرضی کی جسے پروا نہ ہو، اذان ہورہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے مؤذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہئے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منہ پہ کس حد تک پھبتا ہے۔ ‘‘
احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن ، صفحہ۱۵۳۔۱۵۴ سے منقول اس واقعہ میں امت کیلئے بہت بڑا پیغام  پوشیدہ ہے.

No comments:

Post a Comment