ایس اے ساگر
ہند و بیرونِ ہند کے دارالافتاوٴں سے جاری فتاوی کی کمی نہیں ہے جن سے اس کا حرام و ناجائز ہونا عوام و خواص کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے ،لیکن اس کے باوجو د اس میں عوام تو عوام خواصِ امت کا بھی ابتلاء عام ہے ، اسی صورتِ حال کو دیکھ کر بعض ناواقف لوگوں کو اس کے جائز ہونے کا شبہ ہوجاتا ہے ،بالخصوص جب علماء و مدارس اسلامیہ کے ذمہ دار حضرات کی جانب سے تصاویر کے سلسلہ میں نرم رویہ برتا جاتا ہے اور ان کی تصاویر اخبارات و رسائل وجرائد میں بلا کسی روک ٹوک کے شائع ہوتی ہیں، تو ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ حلال ہونے کی وجہ سے لی جا رہی ہے یا یہ کہ ان کے تساہل کا نتیجہ ہے؟ پھر جب وہ علماء کی جانب رجوع کرتا ہے اور اس کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو حرام ہے ۔اس سے اس کی پریشانی اور بڑھ جاتی ہے اور وہ علماء کے بارے میں کسی منفی رائے کے قائم کرنے میں حق بجانب معلوم ہوتا ہے۔ علماء کی تصاویر کے سلسلہ نے جہاں عوام الناس کو بے چینی و پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، وہیں اس سے ایک حرام کے حلال سمجھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے ، جو اور بھی زیادہ خطرناک و انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے ؛ کیونکہ حرام کو حرام اورحلال کو حلال سمجھنا ایمان کا لازمہ ہے ،اگر کوئی حرام کو حلال سمجھنے لگے تو اس سے ایمان بھی متأثر ہو تا ہے ۔ اس سلسلہ میں احسن الفتاوی کا عکس قابل غور ہے ...
No comments:
Post a Comment