Thursday 24 December 2015

دولت اسلامیہ پر اٹکلیں

ایس اے ساگر

ان دنوں دولت اسلامیہ موضوع بحث ہے. اس سلسلہ میں روس نے نیا شوشہ چھوڑا ہے. نہ جانے کیوں روس نے اعلان کیا ہے کہ اُس نے طالبان کیساتھ روابط شروع کر دیے ہیں تاکہ دولتِ اسلامیہ کے مشترکہ دشمن کیخلاف 'جنگ' کی جا سکے۔ صدر پوتن کے افغانستان میں خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے انٹرفیکس نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ ماسکو کے مفادات اور طالبان کے مفادات سے ملتے ہیں اور وہ طالبان سے معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں جبکہ یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ افغانستان کی حکومت کس کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے نیز دولت اسلامیہ کی افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں موجودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن روس کے وزیر دفاع سرگئی شوگوکا دعوی  ہے کہ روس کرغزستان کی افواج کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے تاکہ ہو دولت اسلامیہ کے خطرے کا سامنا کر سکیں. کرغستان کے حکام کا کہنا ہے کہ کرغستان کے چار سو کے قریب شہری دولت اسلامیں میں شامل ہو کر شام اور عراق میں سرگرم عمل ہیں جبکہ ان میں سے بہت سے واپس آ گئے ہیں اور ملک کیلئے کسی وقت بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

کیا خارجیوں میں شامل ہیں؟

یہ کوئی نئی صورتحال نہیں ہے بلکہ ذرائع ابلاغ میں نہ صرف مخالفت میں بلکہ حمایت میں بھی ہوائیں گشت کر رہی ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دولت اسلامیہ کا شمار خوارج میں ہوگا؟  جبکہ عرب کے شیخ الحدیث، مفسر قرآن، مفتی اعظم ڈاکٹر طرھونی کا مناظرہ کا چیلنج دیتے ہوئے دولت اسلامیہ کو خوارج کہنے والوں کی بولتی بند کردی ہے. انصاراللہ اردو نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کہا ہے کہ خلافت اسلامیہ کیخلاف ثقافتی وفکری جنگ لڑنے میں مصروف دنیا بھر کے طواغیت کے علمائے سوء نے اپنے مقاصد کو پانے کیلئے اسلام میں تحریف کرتے ہوئے خوارج کی احادیث کو دولت خلافت اسلامیہ پر فٹ کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔

یہ سلسلہ عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور ان کو خلافت اسلامیہ سے دور اور متنفر کرنے کے لیے شروع کیا گیا تاکہ اسلام کا نام لیکر ہی اہل اسلام کو خلافت اور ان کے دین سے دور کیا جاسکے۔

یہ سلسلہ اس قدر بڑھ چکا کہ اسلام کا مذاق اڑایا جانے لگا اور جو بھی کفار ومرتدین کو اچھا نہیں لگتا، اسے خارجی قرار دیکر بدنام کرنے کا سلسلہ ایسے شروع کررکھا ہے جیساکہ اسلام اللہ کا نازل کردہ دین نہیں بلکہ کفار وطواغیت کے درباری علماء کا دین ہے۔

اس کا بنیادی سبب وہ علمائے سوء تھے جنہوں نے اسلام کا نام لیکر کفار ومرتدین کے اہداف پورا کرتے ہوئے مجاہدین کیخلاف فکری وثقافتی جنگ کو برپا کیا۔

علمائے سوء کی وجہ سے اسلام کے اڑائے جانے والے مذاق کی صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر عرب کے شیخ الحدیث، مفسر قرآن، مفتی اعظم ڈاکٹر محمد طرھونی حفظہ اللہ نے پوری دنیا کے علمائے سوء کو چیلنج دیا کہ جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دولت خلافت اسلامیہ والے خوارج ہیں تو وہ آکر ان سے کہیں بھی اور کسی بھی طریقے سے مناظرہ کرلیں۔

محدث شیخ محمد طرھونی کے اس چیلنج سے خلیج وآل سعود کے گمراہ کن علماء کو شدید دھچکا لگا کیونکہ شیخ محمد طرھونی کوئی عام عالم دین نہیں ہے بلکہ وہ اس وقت کے نامور جید شیوخ الحدیث ومفسرین قرآن اور مفتیان اسلام میں سے ایک ہیں جن کے سینکڑوں علماء شاگرد ہیں۔

شیخ محمد طرھونی کو عرب خطے میں رہنے والا ہر مسلمان جانتا ہے جبکہ وہ یہاں مدینہ منورہ میں قرآن کریم کی دس قراءتوں، تجوید، حدیث، تفسیر ، فقہ اور دیگر اسلامی علوم کئی علماء کو پڑھاکر ان کو سندوں کے ساتھ روایت کرنے کی اجازت دیتے تھے۔

سعودیہ کے سینکڑوں علماء ان کے شاگرد ہیں جبکہ عرب خطے اور پوری دنیا میں ان کے ہزاروں علماء شاگرد ہیں۔

تجوید کے جو دروس وہ اپنی مسجد العامر میں رمضان میں دیتے تھے، ان میں سے کئی دروس میں سعودی حکومتی امیر سلطان بن عبد العزیز بھی شریک ہوتے تھے۔

اسی طرح وہ امیر عبد اللہ بن فیصل بن مساعد بن سعود بن عبد العزیز آل سعود کے استاذ خاص تھے۔

اس کے علاوہ مجمع الملک فہد، کئی تعلیمی اداروں ، یونیورسٹیوں، اسلامی ریسرچ سینٹرز میں پڑھانے، تحقیقی کام کرکے قرآن وتفسیر اور اسلامی علوم سے متعلق بیسیوں کتابیں لکھنے اور علمی پروجیکٹوں پر کام کرنے والے تھے۔

انٹرنیٹ پر حدیث شریف اور اسلامی ریسرچ کا اوپن یونیورسٹی قائم کرنے کا آئیڈیا بھی انہی کا تھا جبکہ وہ تعلیمی اداروں میں نصاب تشکیل دینے اور کئی دیگر علمی وفتاوی سرگرمیوں کو انجام دیتے تھے۔

انہوں نے اپنے ہم عصر کبار علمائے کرام شیخ عبد الرزاق عفیفی رحمہ اللہ ، شیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ، شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ، شیخ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ ، شیخ عامر السید عثمان رحمہ اللہ کی صحبت میں رہ کر ان کے علم سے فیض یاب ہوئے۔
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کے شاگرد خاص تھے اور انہی کے کہنے پر اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ میں داخلہ لیکر وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔

آپ 4 رجب1379ھ بمطابق جنوری 1960ء میں القاہرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کی نسبت عرب طرھونہ کی طرف ہیں۔ یہ وہ عرب لوگ ہیں جنہوں نے الحجاز سے مصر اور لیبیا کی طرف ہجرت کرکے وہاں سکونت اختیار کرلی۔

آپ کا پورا مکمل نام محمد بن رزق بن عبد الناصر بن طرھونی الكعبی السلمی ابو الارقم المصری المدنی ہے۔

آپ نے عصری تعلیم، قرآن کریم حفظ اور شرعی علوم مکمل طور پر مصر میں حاصل کیا اور پھر مدینہ منورہ چلے گئے جہاں آپ نے تمام اسلامی علوم مکمل طور سیکھتے ہوئے وہی درس وتدریس کا کام کرنا شروع کردیا۔

حرم مدنی کے امام شیخ قاضی ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم جیسے کئی امام وخطباء آپ کے شاگرد ہیں اور قرآن کو روایت کرنے کی سند انہوں نے آپ سے حاصل کی ہے۔

آپ نے مزید تعلیم کے لیے مدینہ منورہ چھوڑنا نہ چاہا لیکن اپنے علماء ساتھیوں کے کہنے پر ازہر یونرسٹی جاکر اسلامی علوم میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی۔

مدینہ منورہ میں اس وقت قائم الخندق مدارس کی بنیاد آپ ہی نے رکھی تھی۔

الغرض آپ ممتاز حافظ ، مفسر ، مفتی اور اسلامی مصنف ہیں۔ آپ نے کئی موضوعات پر تحقیقی کتابیں لکھیں ہیں ۔

2003ء میں انٹرنیٹ پر سعودی جیلوں میں علماء اور مجاہدین پر ہونے والے تشدد سے متعلق ایک مضمون نشر ہوا، اس مضمون کو لکھنے کا الزام آپ پر لگاکر سعودی حکومت نے آپ کو شک کی بنیاد پر گرفتار کرلیا۔آپ نے اس مضمون سے کسی قسم کا تعلق ہونے کی تردید کی ، لیکن آپ کو 10 سال قید رکھنے کے بعد جج نے یہ کہہ کر چھوڑدیا کہ آپ بڑے عالم دین ہے اور شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ہم سے غلطی ہوئی اس لیے معذرت ۔‘‘

رہا ہونے کے بعد آپ کو مصر بھجوادیا گیا اور سعودی حکومت نے آپ کی سعودی بیوی کو مصر نہ جانے دینے اور طلاق دینے پر مجبور کیا لیکن ان کی یہ کوشش ناکام رہی۔

بہرحال مصر میں آنے کے بعد آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور آپ نے عیسائیوں سے مناظرے کرکے ان پر اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے کا دعوتی کام کرنے لگ گئے جس سے بیسیوں عیسائی آپ کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔

اس کے علاوہ آپ نے قرآن کریم کی قراءتوں ، حدیث ، فقہ ، تفسیر اور دیگر اسلامی علوم کو پڑھاکر ان کو روایت کرنے کی سند جو آپ کے پاس آپ کے استاڈ سے ہوتے ہوئے ہر دور کے مایہ ناز جید علماء سے گزرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تک موجود ہیں، اسے دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اس پر مستزاد انٹرنیٹ پر حدیث اور اسلامی دراسات کے کالج کو چلاتے ہوئے آپ دنیا بھر میں موجود اپنے کئی شاگروں کو پڑھارہے ہیں۔

انٹرنیٹ پر کئی اسلامی دعوتی ویب سائٹوں میں آپ تحقیقی مواد لکھ کر نشر کرتے ہیں جبکہ سوشل ویب سائٹوں پر کئی تبلیغی رومز میں آپ ہر ہفتے دنیا بھر کے عام مسلمانوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی آپ کی کافی سرگرمیاں ہیں اور ان سب کا احاطہ یہاں کرنا انتہائی مشکل ہے۔ آپ کی سیرت زندگی اور مکمل تعارف آپ کی اپنی ویب سائٹ اور انسائیکلوپیڈیا پر دستیاب ہیں ...

خلافت اسلامیہ کے قائم ہوجانے کے بعد آل سعود وخلیج حکام کے درباری علماء نے دولت اسلامیہ والوں کو خوارج قرار دینے کی مہم شروع کی ۔

اب اس مہم میں نام تو اسلام کا استعمال کیا جارہا ہے، مگر حقیقت میں اسلام کی جگہ اپنے طواغیت کے دین ارتداد کو فروغ دیا جارہا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے دیکھا کہ کس بے شرمی کیساتھ علمائے سوء اپنے طواغیت حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے قرآن وحدیث کے دلائل کی اپنی من مانی تشریح کرتے ہوئے دولت خلافت اسلامیہ والوں کو خوارج قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں، تو آپ سے یہ برداشت نہیں ہوا۔

اسی وجہ سے آپ نے ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی دولت خلافت اسلامیہ کو خوارج کہتا ہے، تو وہ مجھ سے اس پر مناظرہ کرلیں اور جہاں اور جس طرح وہ چاہے گا، میں مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہو۔

آپ نے یہ مناظرہ دولت خلافت اسلامیہ کیساتھ کسی قسم کے تعلق ہونے کی تردید کرتے ہوئے صرف اس بنا پر کررہے ہیں کہ آپ کو اسلام کے تمام علوم بالمشافہ سند کے ساتھ حاصل کرنے کے بعد یاد ہیں۔

آج اسلام ہی کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہوئے علمائے سوء اس کا حلیہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے حکمرانوں کی خوشنودی کو پانے کے لیے غلط فتاوی دیتے ہوئے عوام الناس کو گمراہ کررہے ہیں۔

اس مناظرے سے آپ کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ خوارج اصل میں کون تھے اور دولت خلافت اسلامیہ والے کسی بھی طرح خوارج نہیں ہیں۔

آپ کے مناظرے کا چیلنج دینے سے بہت سے علمائے سوء کی زبانیں بند ہوگئی اور وہ مناظرے پر آنے کی بجائے کترانے لگے۔

آل سعود نے اپنے ایک درباری عالم دین شیخ عصام العوید کو مناظرہ کے لیے تیار کیا اور علماء کا ایک پورا وفد اسے بطور مدد فراہم کیا۔

لیکن شیخ عصام العوید سے المسلم فورم پر تحریری مناظرہ ہوا جہاں وہ نہ خوارج کی تعریف بیان کرسکا اور نہ ہی دولت اسلامیہ کا تعارف کراسکا۔

آپ نے ہی پہلے دولت اسلامیہ کا تعارف کرواتے ہوئے ثابت کیا کہ وہ کس طرح تنظیم نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک مملکت وریاست ہے ۔ پھر اس کے بعد آپ نے خوارج کی تعریف اور اس کے اوصاف کو بیان کیا ۔

پھر آل سعود کے درباری عالم دین شیخ عصام العوید سے آپ نے مطالبہ کیا کہ وہ بیان کریں کہ کس طرح دولت اسلامیہ والے خوارج ہیں؟

اس پر آل سعود سے قریب تر مسلم فورم کا ایڈمن رضا احمد جو دونوں فریقین میں مناظرہ کرانے کی ذمے داری نبھارہا تھا، وہ غائب ہوگیا اور واپس نہیں آیا۔

اس کے بعد تحریری مناظرہ رک گیا اور آپ شیخ ڈاکٹر محمد الطرھونی نے آل سعود کے درباری عالم دین شیخ عصام العوید کو پال ٹاک PALTALK پر مناظرہ پورا کرنے کی طرف بلایا لیکن وہ بھی بھاگ کھڑا ہوا اور مناظرہ پورا کرنے سے انکار کردیا۔

اس پر آپ نے تنہا ہی پالٹوک پر ہزاروں مسلمانوں سے مخاطب ہوکر مناظرے کو تنہا مکمل کرتے ہوئے مناظرے کے تمام موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی اور دولت خلافت اسلامیہ کے مخالفین کے تمام شبہات واعتراضات کا تفصیلی جواب دیا اور پھر واضح کیا کہ اسلام میں خوارج کون ہیں اور ان کے اوصاف کیا ہیں؟

پھر اس کے بعد آپ نے واضح کیا کہ خوارج کی صفات کا انطباق دولت خلافت اسلامیہ پر کسی طرح نہیں ہوتا ہے بلکہ خوارج کے اوصاف سے قریب تر آل سعود وخلیجی حکام اور ان کی افواج ہیں۔

آپ نے درباری عالم دین کے بھاگ جانے کے بعد کئی گھنٹوں مناظرے سے متعلق تمام موضوعات پر تفصیلی گفتگو فرماتے ہوئے مسلمانوں کو ان موضوعات پر اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کرایا ہے، جن کی ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہے ..

باقی آپ نے جو درباری عالم دین شیخ عصام العوید سے تحریری مناظرہ کیا، 

یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور آپ شیخ ڈاکٹر محدث محمد الطرھونی حفظہ اللہ اب تک دولت خلافت اسلامیہ کے تمام مخالفین اور درباری علمائے سوء کو کا تعاقب کرتے ہوئے ان کو تکفیر وخارج کے موضوعات پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بے نقاب کررہے ہیں ۔

اس کے علاوہ عام مسلمانوں کے تمام سوالات اور خوابوں کی تعبیر سمیت شیعوں، نصاری اور دیگر دشمنان اسلام سے مناظرہ کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت اور صحیح عقیدہ کو مختلف سماجی ویب سائٹوں اور پالٹوک پر ’’ حراس العقیدۃ‘‘ (عقیدۃ کے محافظ) کے نام سے موجود روم میں گفتگو کرکے نشر کررہے ہیں اور عام مسلمانوں کو صحیح اسلام وتوحید سے آگاہ کررہے CQs/s640/2015-09-22_001122.png

اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر آپ کئی دعوتی پروگرام لائیو کرتے ہیں، جن کی تفصیلات اور ان کو آپ الہدی چینل پر سے سن سکتے ہیں، 

شیخ ڈاکٹر محدث محمد الطرھونی حفظہ اللہ کا اب بھی دولت خلافت اسلامیہ کو خوارج کہنے والے تمام علمائے سوء کو چیلنج ہے کہ وہ آکر ان سے مناظرہ کرلیں۔

اب تک طواغیت کے درباری علماء میں سے دوبارہ کسی نے ہمت نہیں کی ہے اور نہ ہی القاعدۃ کے نام نہاد السباعی، المقدسی ،ابوقتادۃ وغیرہ علمائے سوء میں سے کسی کو جرأت ہوئی ہے کہ وہ اس موضوع پر ایک اسلام کے حقیقی معنوں میں محدث عالم دین سے مناظرہ کرسکے۔

اللہ تعالی آپ بزرگ شیخ ڈاکٹر محدث محمد الطرھونی حفظہ اللہ کو جزائے خیر دے ۔ آپ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دولت خلافت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود اسلام کی خاطر اس کا دفاع کیا اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے کہ آپ کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور آپ کو دولت خلافت اسلامیہ کا دفاع کرنے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے جیساکہ دیگر علمائے کرام کے ساتھ ہوا ، جنہوں نے دولت خلافت اسلامیہ کی بیعت یا اس کی حمایت کرنے کا اظہار صرف چند جملوں میں کیا تو ان کو گرفتار کرکے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھجوادیا گیا۔

لیکن آپ نے جان کی پروا کئے بغیر اسلامی غیرت رکھتے ہوئےببانگ دہل حق کو واضح کیا اور اسلام وخلافت اسلامیہ کا دفاع کیا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو اس کا اجر عظیم نصیب کرے۔ آمین

No comments:

Post a Comment