سوال،
از: مولانا غفران ساجد قاسمی
دعاء کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنے کاکیاحکم ہے؟ کیایہ عمل احادیث سے ثابت ہے؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ فی الدارین
جواب :
اس بابت اہل علم کے تین قول ہیں:
بعد از دعا چہرہ ہر ہاته پهیرنا سنت ہے.
بعد از دعا چہرہ ہر ہاته پهیرنا بدعت ہے.
بعد از دعا چہرہ ہر ہاته پهیرنا مباح ہے.
اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی صحیح روایت ثابت نہیں ہے. ہاں سنن ترمذی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ، سنن ابوداود میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور ابن ماجہ میں بھی بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک روایت منقول ہے، مگر یہ تمام روایتیں فنی اعتبار سے کمزور ہیں.
سنن ترمذی کی روایت اس طرح ہے :
أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رَفَعَ يديه لا يردُّهما حتى يمسح بهما وجهَه.
اس تفصیل کے بعد خیال ہوتا ہے کہ:
چونکہ ضعیف روایتوں پر احکام کی بنیاد نہیں رکهی جاسکتی ہے ؛ اس لئے بعد از دعا چہرہ پر ہاته پهیرنا ایک مباح عمل ہوگا، نہ کرنے والے پر نکیر کی جائے گی اور نا ہی نہ کرنے والے پر نکیر درست ہوگی.
البتہ جن حضرات کے ہاں ضعیف روایتوں پر حکم شرعی کی بنیاد رکهی جاسکتی ہے وه اسے سنت کی حیثیت دیں گے مذکورہ ضعیف روایتوں کی وجہ سے
وللہ اعلم بالصواب.
محمد عمر عابدین قاسمی مدنی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دعا کرو اللہ سے ہتھیلیاں اوپر اٹھا کر ، نہ کہ ہتھیلیوں کی پشت اوپر کر کے ، جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھ منہ پر پھیر دو۔
ابو داؤد ، كتاب الوتر ، باب : الدعاء ، حدیث : 1487
حافظ ابن حجر العسقلانی نے اپنی مشہور کتاب
بُلُوغُ اَلْمَرَامِ مِنْ أَدِلَّةِ اَلْأَحْكَامِ
میں 'باب الذکر و الدعا' کے تحت ترمذی کی درج ذیل روایت پیش کی ہے :
حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا میں اپنے ہاتھ اٹھاتے تو انہیں واپس نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ انہیں اپنے چہرے پر پھیرتے۔
محمد بن مثنی نے اپنی روایت میں کہا کہ نہ لوٹاتے ان کو (ہاتھوں کو) جب تک اپنے منہ پر پھیر نہ لیتے۔
ترمذی ، كتاب الدعوات عن رسول اللہ (صلیاللہ علیہ وسلم ) ، باب : ما جاء فی رفع الايدی عند الدعاء ، حدیث : 3714
حدیث کو پیش کرنے کے بعد حافظ صاحب نے لکھا ہے :
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کے کئی شواہد ہیں جن میں ایک ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو ابوداؤد وغیرہ میں ہے ، ان سب کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ حسن حدیث ہے۔
No comments:
Post a Comment