Sunday, 20 December 2015

'معرکہ حق و باطل '

سید محمد کفیل شاہ بخاری ’معرکہ حق و باطل‘ کے نام سے حضرت امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ اور جسٹس منیر کا ایک دلچسپ اور ایمان افروز مکالمہ بیان کرتے ہیں:
1953ء کی تحریک ختم نبوت، اپنے شباب پر پہنچ کر مائل بہ اختتام تھی۔ تحریک کی قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں بند تھے۔ ’عدالتی تحقیقات‘ کیلئے جسٹس منیر اور ایم آر کیانی پر مشتمل کمیشن (لاہور ہائی کورٹ) سماعت کر رہا تھا۔ جسٹس منیر متعصب قادیانی نواز تھا۔ وہ علما کو کمرۂ عدالت میں بلا بلا کر بے عزت کر رہا تھا۔ تحریک ختم نبوت کو ’احرار، احمدی نزاع‘ اور ’فسادات پنجاب‘ کا نام دیتا تھا۔ اسلام کو موضوع بحث بنا کر علما کا مذاق اڑا رہا تھا، اور اپنے قادیانی آقائوں اور محسنوں کو خوش کر رہا تھا۔
لیکن… ایک دن وہ اپنی ہی عدالت میں پکڑا گیا۔ اس نے قائد تحریک تحفظ ختم نبوت، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری (علیہ الرحمتہ) کو عدالت میں طلب کر لیا۔ حکومت نے بیان داخل کرنے کے لیے امیر شریعت رحمہ اللہ کو سکھر جیل سے لاہور سنٹرل جیل منتقل کر دیا۔ پیشی کی تاریخ پر امیر شریعتؒ اور ان کے قیدی رفقا کو سخت پہرے میں عدالت میں لایا گیا۔
عدالتی ہر کارے نے آواز لگائی: سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہ وغیرہ
اب، اسیر ختم نبوت امیر شریعت، پورے قلندرانہ جاہ و جلال اور ایمانی جرأت و وقار کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے۔ سرفروشانِ احرار نے پورے ہائی کورٹ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدائین ختم نبوت اور شمع ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم  کے پروانے نعرہ زن تھے۔ نعرۂ تکبیر… اللہ اکبر، تاج و تختِ ختم نبوت… زندہ باد، مرزائیت… مردہ باد! امیر شریعت رحمہ اللہ نے عدالت کے دروازے پر کھڑے ہو کر ہتھکڑیاں فضا میں لہرائیں اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔
مجمع وارفتگی سے پوچھ رہا تھا:
کہئے کیا حکم ہے؟ دیوانہ بنوں یا نہ بنوں؟
حکم ہوا… خاموش!
تمام مجمع ساکت و جامد!
امیر شریعت رحمہ اللہ عدالت میں داخل ہو گئے۔
جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا، غصہ سے لال پیلا، گردن تنی ہوئی اور تکبر و غرور کا پیکر ناہنجار بنا کرسی پر بیٹھا تھا۔
مردِ مومن کے چہرۂ انور پر نگاہ پڑی تو اس کی آنکھیں جھک گئیں۔
جسٹس منیر دوسری مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
کارروائی شروع ہوئی۔
امیر شریعت رحمہ اللہ نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔ جسٹس منیر نے ایک نظر بیان کو دیکھا (جسے اس نے ’منیر انکوائری رپورٹ‘ میں شامل نہیں کیا) اور پھر اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا آغاز کر دیا۔
جسٹس منیر: ہندوستان میں اس وقت کتنے مسلمان ہیں؟
امیر شریعت رحمہ اللہ : سوال غیر متعلق ہے، مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھیں۔
جسٹس منیر: (تمسخر آمیز لہجے میں) ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟
امیر شریعت رحمہ اللہ : ہندوستان میں علما موجود ہیں، وہ بتائیں گے۔
جسٹس منیر: (طنز کرتے ہوئے) آپ بتا دیں؟
امیر شریعت رحمہ اللہ : پاکستان کے بارے میں پوچھیں، یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟
جسٹس منیر: مسلمان کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعت رحمہ اللہ : اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کیلئے صرف کلمہ شہادت کا اقرار و اعلان ہی کافی ہے۔ لیکن اسلام سے خارج ہونے کے ہزاروں روزن ہیں۔ ضروریاتِ دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر، اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم  کے منصب ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔
جسٹس منیر: (قادیانی وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
امیر شریعت رحمہ اللہ : خیال نہیں عقیدہ۔ جو ان کے بڑوں کے بارے میں ہے۔
مرزائی وکیل: نبی کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعت رحمہ اللہ : میرے نزدیک اسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہئے۔
جسٹس منیر: (بدتمیزی کے انداز میں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟
امیر شریعت رحمہ اللہ : میں اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی بیس برس ادھر کی بات ہے، یہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں، یہاں چیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے۔ اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہی جواب آج دہراتا ہوں۔ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ، مرزا کو کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں گا کافر کہتا رہوں گا۔ یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے اور اسی پر مرنا چاہتا ہوں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٰ نبوت کے جرم میں قتل کیا گیا۔
جسٹس منیر: (غصے سے بے قابو ہو کر، دانت پیستے ہوئے) اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے؟
امیر شریعت رحمہ اللہ : میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے!
حاضرین عدالت: نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر، ختم نبوت… زندہ باد، مرزائیت… مردہ باد… کمرۂ عدالت لرز گیا۔
جسٹس منیر: (بوکھلا کر) توہین عدالت…!
امیر شریعت رحمہ اللہ : (جلال میں آ کر) توہین رسالت…!
جسٹس منیر … دم بخود، خاموش، مبہوت، حواس باختہ، چہرہ زرد، ہوش عنقا… پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔
’عدالت‘ امیر شریعت کی جرأت ایمانی اور جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم  دیکھ کر سکتے میں آ چکی تھی۔
امیر شریعت رحمہ اللہ : (گرج دار آواز میں) کچھ اور…؟
جسٹس منیر: (پریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے) میرا خیال ہے ہمیں مزید کچھ بھی نہیں پوچھنا! عدالت برخواست ہو جاتی ہے۔

تین طبقوں سےایک ہی درخواست :

حضرت مولانامحمدعلی جالندهری رحمت اللہ علیہ نےایک مرتبہ جلسہ میں دوران تقریرفرمایاکہ :
دیکهو، میں اپنی عمر کےآخری پیٹےمیں ہوں، بوڑهاہوگیاہوں، شایدجدائی کاوقت قریب ہو، میں تین طبقوں سےایک ہی درخواست کرناچاہتاہوں، شاید آپ اس پرعمل کرکےمیری قبر ٹهنڈی کریں 
1-سرکاری حکام اورارباب حل وعقدکو میری وصیت ہیکہ وہ عقیدہ ختم نبوت کے وفاداربنکررہیں اورکسی عہدہ کےلالچ یا دنیاکی عارضی عزت کےبدلےپیارےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےبیوفائی کرتےہوئےمنکرین ختم نبوت کی مددیاحوصلہ افزائی نہ کریں، ورنہ انکاحشروہی ہوگا جوان سے پہلےان حکام کاہوچکاہےجنہوں نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کاعہدوفاتوڑدیااور دشمنان ختم نبوت کےہاتھ مضبوط کئے-
2- علماء کرام کوخبردارکرتاہوں کہ ان کی یہ درسگاہیں جو ان کیلئےآرام گاہیں بن چکی ہیں، انہیں میسرنہیں رہیں گی، جب ایسےحالات آجائیں توثابت قدمی سےدین پرخودبهی قائم رہیں اوراشاعت دین بهی کرتےرہیں-اس کےبرعکس ایسےحالات بهی آئیں گےکہ ملازمت یاعہدہ کالالچ دے کرعلماءکوخدمت دین سےباز رکهاجائےگا- خدارابهوکوں مرجانا مگراللہ کریم کےدین سےبےوفائی کرکےاس دنیاکی فناہونے والی عزت پرنقددین نہ لٹوانا، دین سکهاتےرہنا، بیشک کچھ بهی ہوجائے-
3-عام لوگوں سےمیری درخواست ہےکہ ایک وقت ایساآسکتاہےجب عقیدہ ختم نبوت کانام لیناجرم بن جائےگا، اللہ کرےایسانہ ہو، لیکن اگرحالات تمییں اس موڑپرلاکهڑا کردیں توجان دیدینامگرباوفانبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سےدنیاکی عارضی تکلیف پربےوفائی نہ کرنااوراپنےعقیدہ پر جمےرہنا، یہاں تک کہ موت تمہیں دنیاکی ان عارضی چیزوں سےبچاکراللہ کریم کی دائمی جنت میں داخل کردے کہ جس کی نعمتوں کےبارےمیں ارشادہے
"مالاعین راءت ولااذن سمعت ولاخطرعلی قلب بشر" 
(تحفظ ختم نبوت اہمیت وفضیلت ص188، 89)
{مجلسِ تحفظ ختم نبوت نوهر}

وہ صداقت جس کی بیباکی تھی حسرت آفریں

No comments:

Post a Comment