Friday, 11 December 2015

کیا قرآن سننا زیادہ افضل ہے؟

ایس اے ساگر

کیا آپ کو معلوم ہے کہ قرآن پڑھنے کا اجروثواب قرآن سننے سے زیادہ ہے ،اگرچہ قرآن کی تلاوت کرنا اور قرآن کا سماع دونوں ہی عمل مستحب اور بہت زیادہ اجروثواب کا باعث ہیں ،لیکن قرآن کی تلاوت کرنا قرآن سننے سے افضل عمل ہے۔ اہل علم نے تلاوت قرآن کی افضلیت پر درج ذیل احادیث دال ہیں:
1- حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَثَلُ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالأُتْرُجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَرِيحُهَا طَيِّبٌ وَالَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلاَ رِيحَ لَهَا.
اس شخص کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتاہے سنگترے کی مانند ہے جس کا ذائقہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی پیاری اورجوشخص قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے،جس کا ذائقہ اچھا ہے لیکن خوشبو نہیں
(صحیح بخاری :5020،صحیح مسلم:797۔)
2 .حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیا تم میں سے کوئی پسند کرتاہے کہ جب وہ گھرواپس جائے تو اسے تین موٹی حاملہ اونٹنیاں ملیں؟
ہم نے عرض کیا:
جی ہاں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فثلاث آيات يقرؤبهن أحدكم في صلاته خير له من ثلاث خلفات عظام سمان
صحيح مسلم کے مطابق تین آیات جوکوئی نماز میں تلاوت کرتاہے یہ اس کیلئے تین موٹی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہے۔
3- حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  نے فرمایا:
من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر أمثالها لا أقول الم حرف ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف
یعنی کہ جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اس کیلئے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ،بلکہ الف ایک حرف ،لام الگ حرف اور میم الگ حرف ہے۔
(جامع ترمذی:2910،الصحیحۃ:3327)
یہ احادیث دلیل ہیں کہ قراءت قرآن کاثواب سماعت قرآن سے زیادہ ہے، کیونکہ ان کا تعلق پڑھنے کیساتھ ہے۔البتہ تلاوت سننا بھی مستحب فعل ہے اور اس کے استحباب پر درج ذیل روایت دال ہے۔ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا:
مجھ پر قرآن تلاوت کرو،
انہوں نے عرض کیا :کیا میں آپ پر قرآن پیش کروں جبکہ آپ پر قرآن نازل ہواہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے غیر سے سننا پسند کرتاہوں، پھر انہوں نے سورہ نساء شروع سے تلاوت کرنا شروع کی اور جب وہ
فَكَيفَ إِذا جِئنا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهيدٍ وَجِئنا بِكَ عَلىٰ هـٰؤُلاءِ شَهيدًا
٤١،سورة النساء
آیت پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو دئے۔ (صحیح مسلم)
یہ حدیث دلیل ہے کہ کسی معروف قاری وحافظ سے قرآن سننا مستحب فعل ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نےاس حدیث پر یہ عنوان قائم ہے
’باب فَضْلِ اسْتِمَاعِ الْقُرْآنِ وَطَلَبِ الْقِرَاءَةِ مِنْ حَافِظِهِ لِلاِسْتِمَاعِ وَالْبُكَاءِ عِنْدَ الْقِرَاءَةِ وَالتَّدَبُّرِ.‘
قرآن سننے ،حافظ قرآن سے قرآن سننے کی فضیلت کابیان اور قراءت کے وقت رونے اور غوروفکر کا بیان۔
المختصر قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور سننا دونوں ہی افضل اعمال ہیں لیکن قرآن کی تلاوت کا اجروثواب زیادہ ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت کے اجروثواب کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے ،وہ فضیلت سماعت قرآن کے ثابت نہیں۔
واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment