ایس اے ساگر
سماجی روابط کی ویب سائٹس پر پیغام گردش کررہا ہے کہ یہ کیسی تیسری عید ھے، جبکہ تفاسیر کی کتب در منثور ۔ تفسیرکبیر ۔ روح المعانی ۔ جلالین اور ابن کثیر میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کے تذکرے اور فضائل تو موجود ھیں مگر بارہ ربیع الاول کی عیدمیلادالنبی کا کوئی ذکر ھی نہیں۔
بخاری شریف میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
مسلم شریف میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
ترمذی شریف میں میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
ابوداؤد شریف میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
نسائی شریف میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
ابن ماجہ میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
مسند احمد میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
مسند امام اعظم میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
موطا امام مالک میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
مستدرک حاکم میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
بیہقی میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
مشکوہ شریف میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
اب آجاؤ فقہ کی کتب کی طرف ،
فقہ حنفی کی سب سے مستند کتاب ھدایہ میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
قدوری میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
فتاوی عالمگیری میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
کنزالدقائق میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
فتاوی شامی میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
بدائع الصنائع میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں بارہ ربیع الاول 63 مرتبہ آیا،
پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لیجانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں 2 مرتبہ بارہ ربیع الاول آیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں 12 ربیع الاول شاید 4 مرتبہ آیا اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں کئی مرتبہ 12 ربیع الاول کا دن آیا اسی طرح جنت کے سردار حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں 12 ربیع الاول کئی مرتبہ آیا پھر امام ابوحنیفہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحم اللہ عنہم کے دور میں بہت مرتبہ بارہ ربیع الاول آیا ۔ ۔ کیا ان تمام محترم ھستیوں نے بارہ ربیع الاول کو عید کہہ کر جشن منائے؟ ھرگز نہیں، ورنہ حوالہ دو.
امام مالک رحمہ اللہ کی فقہ کی کتاب المدونہ الکبری میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی فقہ کی کتاب 'الام ' میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب مسندالامام الاعظم۔ کتاب الاثار ۔ سیرکبیر اور سیرصغیر میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ھے مگر عیدمیلادالنبی کا کوئی عنوان نہیں ۔
اور آخر یہ بارہ ربیع الاول کی کیسی عید ھے کہ مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی پر کوئی لائٹنگ اور شور شرابا نہیں ھے جبکہ عیدالفطر اور عیدالاضحی وھاں جوش و جذبے سے منائی جاتی ھے۔
سعودی عرب ۔ ترکی ۔ملیشیا انڈونیشیا عراق افغانستان کویت سوڈان بحرین سمیت بہت سے ممالک کے مسلمان عیدالفطر اور عیدالاضحی پر تو مکمل سرکاری چھٹی کرتے ھیں مگر بارہ ربیع الاول کو وھاں کوئی چھٹی اور جشن نہیں منائے جاتے۔
خانہ کعبہ و مسجدنبوی کے ائمہ ۔ لاکھوں دیوبندی علما لاکھوں غیر مقلد ،جماعت اسلامی والے جامعہ ازھر مصر والے دارالعلوم دیوبند والے ۔ شافعی علما ۔ حنبلی علما ۔ مالکی علما عیدالفطر اور عیدالاضحی تو مکمل اھتمام سے مناتے ھیں مگر یہ جشن عیدمیلادالنبی والی عید یہ سب کیوں نہیں مناتے؟ آخر سوچنے کی بات ھے۔
بریلوی فرقہ کے علاوہ پاکستان میں بارہ ربیع الاول والے دن تیسری عید کوئی نہیں مناتا ۔ کیا وجہ ھے؟
پھر کہتے ھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش والے دن روزہ رکھا تھا مگر بریلوی اس دن تیسری عید مناتے ھیں تو کیا عید والے دن روزہ رکھنا جائز ہے کیا؟
پھر کہتے ھیں کہ ابلیس کے سوا سب یہ تیسری عید مناتے ھیں ،اس کا مطلب ھے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ اربعہ رحم اللہ علیہم اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مستثنی نہیں کیا گیا ...؟
اب کیا کریں؟
محمد حامد الناصری رقم طراز ہیں کہ ...
سلسلة الأحاديث من رياض الصالحين للإمام النووي
باب التوبة:
قال العلماء: التوبة واجبة من كل ذنب، فإن كانت المعصية بين العبد وبين الله تعالى لا تتعلق بحق آدمي فلها ثلاثة شروط:
أحدها: أن يقلع عن المعصية.
والثاني: أن يندم على فعلها.
والثالث: أن يعزم أن لا يعود إليها أبدا. فإن فقد أحد الثلاثة لم تصح توبته.
وإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فشروطها أربعة: هذه الثلاثة، وأن يبرأ من حق صاحبها، فإن كانت مالا أو نحوه رده إليه، وإن كانت حد قذف ونحوه مكنه منه أو طلب عفوه، وإن كانت غيبة استحله منها. ويجب أن يتوب من جميع الذنوب، فإن تاب من بعضها صحت توبته عند أهل الحق من ذلك الذنب وبقي عليه الباقي.
وقد تظاهرت دلائل الكتاب والسنة، وإجماع الأمة على وجوب التوبة.
التوبة: الرجوع عن معصية الله تعالى إلى طاعته، وطلب الاستحلال من المقذوف ونحوه إن بلغه ذلك، وإلا كفى الاستغفار، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم: ((كفارة من اغتبته أن تسغفر له))
قال الله تعالى: {وتوبوا إلى الله جميعا أيه المؤمنون لعلكم تفلحون}
[النور: 31].
تشریح
باب التوبہ
علما نے فرمایا کہ گناہوں سے توبہ کرنا واجب ہے اور فرمایا کہ اگر گناہ حقوق اللہ کے قبیل سے ہے تو قبولیت توبہ کی تین شرطیں ہیں۔
👈 گناہ کوچھوڑے
👈 اپنے گناہ پرنادم ہو
👈 آئندہ نہ کرنے کاعزم
اور اگر گناہ حقوق العباد میں سےہو تو ان ٣ شرطوں کیساتھ چوتھی شرط بھی ہے کہ
👈 حق عبداداکرے
توبہ کے معنی اللہ کی نافرمانی چھوڑکر اللہ کی اطاعت کی طرف رجوع کرناہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا اے مؤمنو سب کے سب اللہ کی طرف توبہ یعنی رجوع کرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ۔
سورہ النور آیت ٣١
No comments:
Post a Comment