Tuesday, 22 December 2015

البانی پر دارالعلوم دیوبند کا موقف

ایس اے ساگر
سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایسے غیر معتبر اقوال اور اطلاعات کی کمی نہیں ہے جن کے بارے میں مصدقہ ذرائع سے وضاحت جاری ہوچکی ہے۔کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا حکم معلوم کرنے کے سلسلہ میں البانی کی ویب سائٹ
http://www.dorar.net
کے علاوہ ایپ 
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.zad.hadith
اور
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.zad.hadith
کی بھی دھڑلے سے تشہیر کی جارہی ہے۔غنیمت ہے کہ اس سلسلہ میں پہلے ہی فتاوی جاری ہوچکے ہیں. لہذا مذکورہ بالا ویب سائٹ یا ایپس سے استفادہ سے قبل مندرجہ ذیل موقف پر غور فرمائیے :
عرض یہ ہے کہ ناصرالدین البانی صاحب کے بارے میں کیا موقف اختیار کرنا چاہئے؟ کیوں کہ ہم نے بہت سوں سے سنا ہے کہ جناب نے ذخیرہ احادیث میں زبردست خرد برد کیا ہے ،نیزکیا ان کے نظریات اور آراسے ہمیں بیزاری کا اظہار کرنا درست ہے؟ غرض جناب والا کے تعلق سے ہمیں مزید بتلائیں مہربانی ہوگی۔
 May 28,2008 Answer: 5577
فتوی: 169=169/ م
ناصرالدین البانی کے متعلق آپ نے جو کچھ سنا ہے وہ بالکل درست ہے، احادیث پر حکم لگانے میں انھوں نے بڑی بے اصولی کی ہے، یہ عجیب بات ہے کہ وہ جن حدیثوں کو ایک کتاب میں صحیح قرار دیتے ہیں، انھی احادیث کو دوسری کتاب میں ضعیف کہہ دیتے ہیں، یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ علامہ حسن بن علی سقّاف کے حوالے سے کہہ رہا ہوں جنھوں نے البانی کے تناقضات کو اپنی کتاب میں بڑے محقق اور مدلل انداز میں ثابت کیا ہے وہ کتاب’تناقضات اللبانی الواضحات‘کے نام سے معروف ہے، اس کتاب کے مقدمہ میں شیخ حسن بن علی سقاف نے لکھا ہے کہ : 
لا یجوز التعویل علی تحقیقاتہ ولا الاغترار بتصحیحاتہ و تضعیفاتہ الخ 
یعنی البانی کی تحقیقات پر اعتماد کرنا اور ان کی تصحیحات و تضعیفات سے دھوکہ کھانا جائز نہیں۔ پس البانی کے متعلق ہمارا یہی موقف ہونا چاہئے کہ ان کی جو آراو نظریات جمہور محدثین اور مشہور ائمہ جرح و التعدیل کے نظریات سے متصادم ہوں ان کو رد کردینا چاہئے۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھئے 'التعریف ب?وھام من قسم السنن الی الصحیح وضعیف
بقلم محمود سعید ممدوح صاحب
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند
 ضعیف احادیث کا کلی انکار:
’تحفظ‘ کے نزدیک ضعیف حدیث کا مطلقاً انکار آج کے دور کا ایک بڑا فتنہ ہے۔اور منکرین حدیث کا نیا روپ بھی۔ دور اول میں اس فتنے کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن آج اس فتنے کو ہوا دینے والے جگہ جگہ موجود ہیں۔ خصوصا ناصر الدین البانی صاحب نے اس فتنہ کو ہوا دے کر شعلہ بنایا اور اس کی فکر سے متاثر ہوکر آج عام کردیا گیا ہے۔ ان متاثرین میں ماہنامہ’الحدیث‘ کے مدیر زبیر علی زئی صاحب نے اس فتنہ کو اور ہوا دی۔ ’الحدیث‘ کے آخری صفحہ پر مستقل یہ بات لکھی ہوتی ہے کہ ہماراعزم ’ضعیف و مردود روایات سے کلی اجتناب‘ اور زبیر صاحب نے ناصر الدین البانی کی تقلید میں سنن اربعہ میں سے ضعیف روایات کو اکھٹا کرکے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ جس کا نام ہے ’انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعہ‘
منکرین حدیث کا نیا روپ :
پھر اس کی تقلید میں ماہنامہ ’ضرب حق‘ کے مدیر سبطین شاہ آف سرگودھا نے بھی یہی عزم ظاہر کیا۔ چنانچہ ماہنامہ ضرب حق کے آخری صفحہ پر مستقل لکھا ہوتا ہے۔ ’ضعیف احادیث سے قطعی اجتناب‘ ان کی دیکھا دیکھی دیگر کئی لوگوں نے البانی سے متاثر ہوکر ضعیف احادیث کا مطلقاً انکار شروع کردیا۔ اور یوں یہ منکرین حدیث کا نیا روپ ہمارے سامنے آیا۔ اور ان کا طریقہ واردات بالکل پرانے منکرین حدیث جیسا ہے۔ کیونکہ وہ مطلقا حدیث کا انکارکرتے تھے اورجب اپنی بات کا ثبوت دینا ہوتا تو اپنے مطلب کی روایات کو دلیل بناکر پیش کردیتے۔ بالکل اسی طرح یہ گروہ بھی ضعیف احادیث کا کلی انکار بھی کرتا ہے۔اور اپنی بات کا ثبوت دینے کیلئے طرح طرح کے بہانے بناکر ضعیف احادیث بھی پیش کرتاہے۔ حالانکہ یہ گروہ شروع ہی سے مختلف نام تبدیل کرتا رہا۔ کبھی یہ سلفی بنا تو کبھی توحیدی۔ کبھی وہابی تو کبھی نام تبدیل کروا کے اہل حدیث، اور کبھی محمدی۔ الغرض گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا یہ گروہ آج ایک نئے روپ میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہورہا ہے اور وہ ہے’ضعیف احادیث سے کلی انکار کاروپ‘ لوگوں کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ضعیف روایات اور مردود وموضوع روایات میں کوئی فرق نہیں۔حالانکہ اہل سنت و جماعت کے سلف صالحین، محدثین و محققین کا یہ طریقہ کارنہیں رہا۔ ضعیف احادیث کا کلی انکار کرنا، انکار احادیث کا دروازہ کھولنا ہے اور منکرین احادیث کی کھلم کھلا حمایت کرنی ہے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کا امت محمدیہ پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول وفعل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ایک سنت کوپہلے اپنے سینوں میں محفوظ کیا پھر اس کو سفینہ میں درج کرکے تمام امت کیلئے شریعت پر عمل کرنے کا راستہ آسان کردیا۔ اس راہ میں انہوں نے جو جانفشانیاں اٹھائی ہیں، اس کا اس زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایک حدیث کیلئے راتوں اور دنوں کا سفر کیا، خشکی کا سفر کیا، بیابان کی خاک چھانی سمندروں کو پار کیا۔ مال لٹایا، فاقہ کیا، تو کیا یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلط سلط باتوں کوجمع کرنے کیلئے یہ محنت و مشقت اٹھاتے تھے؟ (معاذ اللہ) یہ لوگ تو متقی، پرہیزگار، موحد، سچے عاشق رسول تھے اور ان کی محبت میں دیوانے تھے۔ اخلاص کے پیکر تھے۔ ان محدثین کے بارے میں یہ تصور بھی ہمارے لئے گناہ ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی باتوں کواپنی کتابوں میں درج کیا۔ جبکہ انہی محدثین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے ’جس نے میرے اوپر جان بوجھ کرجھوٹ گڑھا، اس کاٹھکانہ جہنم ہے‘ تو کیا امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داﺅد، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ رحمہم اللہ اور ان جیسے دوسرے محدثین کے بارے میں یہ لب کشائی جائز ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جو جھوٹی باتی تھی۔ اسی کواپنی کتابوں میں درج کرکے اتنے بڑے گناہ کاکام کیا۔ معاذ اللہ یقینا نہیں۔ حالانکہ انہی محدثین نے احادیث کے درجے قائم کئے۔ لیکن ضعیف احادیث روایات کے بارے میں کیا منہج تھا،اب اسی کو واضح کیا جائے گا تاکہ آج کے اس فتنہ سے بچا جاسکے۔ جو سلف کے نام پر دھبہ لگا رہے ہیں۔
کیا ہے درجہ بندی کا مقصد؟
 محدثین نے یہ درجے صرف حدیث کو سمجھنے کیلئے کئے۔ اور جھوٹی روایات کو بالکل الگ کردیا مگر آج کے یہ نااہل لوگ ضعیف روایات کو جھوٹی روایات کے ساتھ ملا رہے ہیں۔ حالانکہ محدثین کے نزدیک احادیث کو قبول کرنے کا الگ الگ پیمانہ ہے۔ جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں۔ اگر کسی محدث کے نزدیک ایک روایت صحیح نہیں، تو دوسرے محدث کی شرط پر صحیح ہے تو کیا جس محدث کے نزدیک وہ حدیث صحیح نہیں، تو کیاوہ مردود ہے؟جبکہ ضعیف احادیث کا کلی انکار کرنا اور ان کو احادیث کی فہرست سے خارج کردینا اور ان کو مردود قرار دینا، یہ اسلاف کی طرز اور ان کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ حدیث دوستی نہیں،حدیث دشمنی ہے۔یہ دین نہیں، بے دینی ہے۔ یہ سلفیت نہیں، رافضیت ہے۔ یہ سنت نہیں، بدعت ہے۔یہ راستہ مومنین کا نہیں بلکہ منکرین حدیث کا ہے۔یہ طریقہ محدثین کانہیں، بلکہ آج کے نام نہاد سلفیوں اور البانیوں کا ہے۔ اسلاف کا طریقہ ہے کہ وہ ضعیف اہادیث کو قبول کرتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی راوی ظاہر العدالتہ ہے۔ تو اس کی روایت قبول کی جائے گی۔ خواہ اس سے روایت کرنے والے کئی ہوں یا ایک۔ تو اس کی بنیاد پرقرآن مجیدپارہ26، سورہ الحجرات آیت6’ ’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو‘ سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص فسق سے محفوظ ہو تو اس کی بات کو قبول کیا جائے گا۔ یہیں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بہت سی وہ روایتیں جن پر محدثین ضعف کا حکم لگاتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے ہاں وہ صحیح ہیں۔اب نئے نام نہاد محققین دیگر محدثین کے فیصلے کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے مسائل کو جانچنا شروع کردیتے ہیں اور ان کے مسائل کے دلائل قوی اور صحیح ہوتے ہیں۔ اس کیلئے جامع ترمذی کی چند مثالیں واضح کرتی ہیں کہ سلف صالحین کا ضعیف روایات پر عمل تھا۔
چند اہم نکات پر ایک نظر:
1:جامع ترمذی مترجم 734/1 طبع فرید بک اسٹال لاہور کے مطابق عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ
قال سالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن صید البازی؟
یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے شکار کردہ جانور کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کھانا حلال ہے یا نہیں۔ فقال ماامسک علیک فکل۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کچھ وہ تمہارے لئے پکڑرکھے اسے کھالو‘ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ہم بواسطہ مجالدعن الشعبی کی سند سے جانتے ہیں۔ والعمل علیٰ ہذا عنداہل العلم یعنی اس حدیث پر اہل علم کا عمل ہے ۔حالانکہ مجالد ضعیف راوی ہے۔ جیسا کہ زبیر علی زئی صاحب ،مدیر ماہنامہ الحدیث،نے بھی انوار الصحیفہ صفحہ نمبر 102 برقم 2827 میں لکھا مجالد ضعیف قال الہیشمی وضعفہ الجمہور (مجمع الزوائد 416/9)اس روایت پر اہل علم کا عمل ہے، سے ثابت ہوا کہ اہل علم ضعیف روایتوں کو قبول کرتے اور اس کی بنیاد پر عمل بھی کرتے تھے۔ یہ اہل علم صحابہ و تابعین، محدثین و فقہاہیں۔
2:جامع ترمذی 739/1، مترجم طبع فرید بک اسٹال لاہورکے مطابق امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عن ابی واقد اللیثی قال قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینة وہم یجبون اسنمة الابل ویقطعون الیات الغنم قال ماقطع من البہیمة وحیة فہو میتة
ترجمہ: حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے۔ وہاں کے لوگ زندہ اونٹوں کے کوہان، زندہ دنبوں کی چکیاں کاٹتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ زندہ جانور سے جوحصہ کاٹا جائے وہ مردار ہے ۔
اس سند میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار القرشی مولیٰ ابن عمر ہیں۔ جن کے بارے میں ابن حجر عسقلانی تقریبا التہذیب 577/1 برقم 3927 میں فرماتے ہیں۔ صدوق ، یخطی اسی طرح تہذیب الکمال209/17 برقم 3866 میں ہے۔
عن یحیی بن معیض فی حدیثہ عندی ضعف
جامع ترمذی 739/1 کے مطابق یحیی بن معین فرماتے ہیں۔ اس حدیث میں ضعف ہے۔ اسی میں ابو حاتم فرماتے ہیں ولا یحتج بہ اس سے حجت نہ پکڑی جائے اور ابن عدی فرماتے ہیں۔ اس کی بعض روایتیں منکر ہیں۔ ابن جوزی نے اسے ’الضعفائ‘ صفحہ 94 میںلکھا۔ اسی طرح ابن حبان نے ’المجروحین‘ 52,51/2 لکھا۔ اب محدثین کی اصطلاح کے اعتبار سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ مگر امام ترمذی فرماتے ہیں۔ والعمل علیٰ ہذا عنداہل العلم یعنی اہل علم (فقہاو محدثین) کا اسی پر عمل ہے ۔
3: امام ترمذی روایت کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
جامع ترمذی 685/1 کے مطابق 
من ملک ذارحم محرم فہو حر
یعنی جو شخص اپنے محرم رشتہ دار کی غلامی میں آجائے، آزاد ہوجائے گا۔ 
اب اس روایت کے بارے میں امام ترمذی ہی فرماتے ہیں۔ جامع ترمذی 685/1 باب ماجافی من ملک ذا محرم کے مطابق وہو حدیث خطاعند اہل الحدیث یعنی محدثین کے نزدیک اس روایت میں خطاہے ۔
اسی روایت کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں ’لایصح‘ یہ صحیح نہیں ہے۔التلخیص الحبیر 508/4، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت کے مطابق امام بخاری کے ستاد علی بن مدینی فرماتے ہیں’ ہو حدیث منکر‘ یہ حدیث منکر ہے۔ امام نسائی فرماتے ہیں ’حدیث منکر‘ یہ حدیث منکر ہے۔ 
لیکن ابن اثیر فرماتے ہیں:
والذی ذہب الیہ اکثر اہل العلم من الصحابة والتابعین والیہ ذہب ابو حنیفة واصحابہ واحمد ان من ملک ذا رحم محرم عتق علیہ ذکر او انثیٰ (النہایہ فی غریب الاثر 504/2)
 اکثر اہل علم صحابہ وتابعین کا عمل:
یعنی اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ وتابعین کا عمل ہے۔ اور اسی کے قائل امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں۔ اور یہی مذہب امام احمد کابھی ہے۔ ان حضرات کے یہاں کوئی شخص اپنے کسی رشتہ دار محرم کا مالک ہوجاتا ہے تو وہ محرم آزاد ہوجائے گا خواہ وہ محرم مذکر ہو یا مونث۔ذرا اندازہ لگائیں۔ جو حدیث امام بخاری، امام مدینی،امام نسائی کے نزدیک ضعیف ہو، مگر ان سے پہلے لوگوں جن میںصحابہ و تابعین وفقہاو محدثین کااس حدیث پر عمل ہے۔ یہ ہے سلف کا طریقہ ضعیف حدیث کے بارے میں۔ جامع ترمذی کے حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ کسی حدیث کے بارے میں اگر یہ فیصلہ کریں کہ یہ حدیث محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔ اور پھر یہ کہیں کہ اسی پر اہل علم کا عمل ہے تو گویا یہ امام ترمذی کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح ہے۔یعنی امام ترمذی اصول محدثین پر اس کو ضعیف کہہ رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت کے اعتبار سے وہ حدیث ان کے نزدیک پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رحمہم اللہ اس پر عمل کیوں کرتے جس طرح امام ترمذی محدثین رحمہم اللہ کی اصطلاح کے اعتبار سے ضعیف حدیث کو ذکر کرتے ہیں پھر یہ کہہ کر کہ اس پر اہل علم، صحابہ و تابعین، فقہاو محدثین کاعمل ہے۔ اس حدیث کی صحت کااشارہ کرتے ہیں۔ اس طرح امام ابو داﺅد، امام نسائی، امام ابن ماجہ اپنی اپنی کتاب میں یہی طرز اختیار کرتے ہیں۔یعنی یہ حضرات عام طور پر انہی حدیثوں کو ذکرکرتے ہیں۔ جس پر دور اول میں مسلمانوں کا عمل رہا ہو۔ ان کتابوں میں گنتی کی چند ہی روایتیں ایسی ہوں گی۔ جو سنداً ضعیف ہوں مگر ان پر عمل کرنا جائز نہ ہو ابن ماجہ میں کچھ ایسی روایتیں ضرور ہیں۔ جن پر محدثین نے شدید جرح کی ہے۔ امام ابو داﺅد اپنی کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں۔
واما ہذا المسائل مسائل الثوری ومالک والشافعی فہذہ الاحدیث اصولہا
ترجمہ: اور امام ثوری، امام مالک، اور امام شافعی کے جو مسائل ہیں تو یہ احادیث اس کی اصل ہیں ،بحوالہ: رسالہ ابی داﺅد صفحہ 28، طبع بیروت۔
امام ابوداﺅد کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میری کتاب میںجو حدیثیں ہیں۔عام طور پر ان ائمہ کرام کے مذہب کی بنیاد انہیں احادیث پر ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ سنن ابو داﺅد کی کچھ حدیثیں اصول محدثین کے مطابق ضعیف بھی ہوںتو ان ائمہ کرام نے ان احادیث پر اپنے قول اور اپنے فقہ کی بنیاد رکھی ہے۔ یعنی یہ تمام احادیث ان ائمہ کرام کے یہاں معمول بہا ہیں۔ جب ان ائمہ نے ان کواحکام میں قبول کیا ہے۔ تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان ائمہ کرام کے نزدیک فی الاصل یہ احادیث ضعیف ان معنی میں نہیںہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں ہیں۔ بلکہ محض اصول محدثین پر ضعیف ہیں۔ جو احادثین کے اصول پر ضعیف ہوں۔ ان کا ترک کرنا کسی امام کے ہاں ضروری نہیں۔ لیکن یہ کہ ان ائمہ کرام کو خود ان کا ضعف اتنا واضح ہو کہ اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہ ہو۔ امام ابو داﺅد اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں۔
والاحادیث التی وضعتہا فی کتاب السنن اکثرہا مشاہیر
ترجمہ: میں نے اپنی سنن کی کتاب میںجو احادیث داخل کی ہیں، ان میں اکثر مشہور ہیں،بحوالہ: رسالہ ابی داﺅد صفحہ 29۔
یہاں مشہور سے مراد یہ ہے کہ ان پر ائمہ فقہاکاعمل ہے۔ اگرچہ وہ اصطلاحاً ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ’امام ابو داﺅد نے جن احادیث کو ذکر کرکے ان پر سکوت اختیار کیا ہے وہ چار قسم ہیں۔
1: بعض وہ جو بخاری و مسلم کی شرط پر ہیں یا ان میں موجود ہیں۔
2:بعض وہ جو حسن لذاتہ کی قبیل سے ہیں
3: بعض وہ جو حسن لغیرہ ہیں اور یہ دونوں زیادہ ہیں
4: بعض وہ جو ضعیف ہیں پھر فرماتے ہیں
وکیل ہذا الاقسام عندہ تصلح للاحتجاج بہا
ترجمہ: اور یہ تمام قسمیں (امام ابو داﺅد) کے نزدیک قابل احتجاج ہیں،بحوالہ:النکت علی کتاب ابن الصلاح435/1۔
ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث سے حجت پکڑی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے ان محدثین نے ضعیف احادیث کو اپنی کتابوں میں داخل کیا۔ مگر آج ان ضعیف احادیث کو ان البانیوں اور اصل میں منکرین حدیثوں نے ان احادیث کو ترک کروا رکھا ہے۔ جو سلف کا طریقہ نہیں،بلکہ نئی بدعت ہے۔ یہ دراصل خود بدعتی ہیں مگر دوسروں کو بدعتی بدعتی کہتے تھکتے نہیں۔ خوب جان لوکہ مطلقا کلی طور پر ضعیف حدیث کا انکار دور جدید کا فتنہ ہے۔ محدث شام شیخ عبدالفتاح ابو غدہ فرماتے ہیں:
’محدثین، ائمہ متقدمین اپنی کتابوں میں ضعیف احادیث بھی ذکر کیا کرتے تھے تاکہ ان پر بھی عمل ہوجائے اور ان سے مسائل شرعیہ میںدلیل پکڑی جائے۔ ضعیف احادیث سے ان کو پرہیز نہ تھا۔ اور نہ وہ ان احادیث ضعیفہ کو منکر اور پس پشت ڈالنے والی بات کرتے تھے جیسا کہ آج بعض مدعیوں کا دعویٰ ہے ،بحوالہ:ظفر الامانی ص 176۔
ابن عبدالبر، کتاب ’التہمید‘ 58/1 میں فرماتے ہیں:
ورب حدیث ضعیف الاسناد صحیح المعنی
یعنی بہت ساری احادیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہوتی ہیں مگر معنی کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہیں۔
حدیث کا معنی ہی تو اصل ہے۔ سند تو محض حدیث تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ذریعہ خراب ہے اور اصل صحیح ہے۔ تو اصل کو اختیار میں کون سی چیز مانع ہے۔اور محض ذریعہ کی خرابی کی وجہ سے اصل ہی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کا انکار کیا جائے۔ یہ کون سی عقل مندی ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ سے بڑا محدث ان نام نہاد سلفیوں اور البانیوں کے نزدیک اور کوئی نہیں۔ اب ذرا ان کی کتب میں ضعیف احادیث کی کیا حیثیت ہے دیکھئے کہ:
صحیح بخاری کے سوا باقی ساری کتب ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہیں۔ او راس سے تو ان کو بھی انکار نہیں، یہاں تک کہ ’ادب المفرد‘ کے دو حصے کردیئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تو صحیح بخاری میںبھی ضعیف راویوں سے روایتیں ہیں۔ کچھ تعلیقاً، فضائل اور ترغیب وترہیب کے باب میں۔ اس کی مثال حاضر ہے۔
1: ایک راوی ہے۔ اسدی بن زید بن الجمال۔ جس سے امام بخاری نے ’صحیح بخاری باب یدخل الجنة سبعون الفا بغیر حساب برقم 6541 مطبوعہ قاہرہ‘ میں ایک روایت لی ہے۔ یہ راوی ضعیف ہے۔
2: امام نسائی فرماتے ہیں۔ متروک الحدیث ،کتاب الضعفاوالمتروکین برقم 54۔
3: امام ذہبی نے مغنی فی العضا 90/1 برقم 747 میںبحوالہ یحیی بن معین کذاب اور متروک لکھا
4: امام دار قطنی نے ضعفامیں شمار کیا ،کتاب الضعفاوالمتروکین۔
5: علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ’کذب، دار قطنی نے اسے ضعیف قرار دیا،تہذیب التہذیب، 301/1، برقم 628۔
6: ابن شاہین نے کذاب لکھا ،تاریخ اسماالضعفا والکذابین ابن شاہین 47/1، برقم 3۔
7: ابن حبان نے مجروحین 180/1 میںلکھا۔
8: یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ،تاریخ ابن معین روایتاً الدوری برقم 1914۔
9: ابن ابی حاتم رازی نے کذاب لکھا ،الجرح والتعدیل 318/2 برقم 1204۔
10: امام ابن جوزی نے الضعفاوالمتروکین 124/1 برقم 432 کے تحت کذاب، متروک لکھا۔
11: امام عقیلی نے بھی العضا للعقیلی 28/1 میں کذاب لکھا۔
12: ابن عدی نے الکامل فی الضعفا 400/1 کذاب ، متروک لکھا۔
13: سوالات لابن الجنید لابی ذکریا یحییٰ بن معین 292/1 برقم 79 کذب لکھا۔ اب اتنا سخت ضعیف راوی ہے لیکن امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں اس سے روایت لے رہے ہیں۔ اب ذرا غورفرمائیے کہ غیر مقلدین کی بھی ، لکھتے ہیں ’بفرض تسلیم اگر یہ ایسے ہی ہیں، جیسا کہ معترض نے لکھا ہے تو ہم کومضر نہیں۔ اس لئے کہ امام بخاری نے جس حدیث کو اسید بن زید سے روایت کیا ہے وہ بطور متابعت کے ہے،بحوالہ:دفاع صحیح بخاری ،صفحہ 452 مطبوعہ گوجرانوالہ۔
آخر متابعت میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ضعیف راوی کو اہمیت دی۔جبکہ یہاں یہی سمجھایا جا رہا ہے کہ ضعیف روایات کو متقدمین نے یکسر چھوڑ نہیں دیا تھا۔ جیسا کہ آج کل کے جاہل لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرمایئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری 99/1 میں، باب وجوب الصلوٰة فی الثیاب قائم کیا پھر فرماتے ہیں:
ویذکر عن سلمة بن اکوع ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال یزرہ ولو یشوکہ فی اسنادہ نظر
یعنی سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بٹن لگایا کرتے تھے، اگرچہ کانٹا ہی کیوں نہ ہو، اور اس کی سند میں نظر ہے۔ امام بخاری کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر استدلال فرما رہے ہیں۔ طوالت کے خوف اتنا ہی کافی ہے ورنہ صحیح بخاری میں بھی فضائل، مناقب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ضعیف راویوں کی روایتوں سے استدلال فرمایا ہے۔ معلوم ہوا کہ متقدمین ضعیف روایتوں سے استدلال فرماتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصلاحا روایت ضعیف ہوتی ہے۔ اور اس کا مضمون خلاف قیاس ہوتا ہے۔ تو ایسی صورت میں تمام فقہا خصوصا ائمہ اربعہ قیاس کے مقابلے میں اس ضعیف روایت پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ ابن قیم صاحب نے اعلام الموقعین 25/1 میں لکھا۔ اب ان نئے منکرین حدیث نے کہا کہ یہ ضعیف حدیث ہے لہذا اس کو چھوڑ دینا چاہئے اور چھوڑ دیا، اور اپنے قیاس پر عمل کرلیا اور اس کا نام اہل حدیث رکھ لیا۔ اب ان منکرین حدیث کا دوسرا روپ بھی دیکھئے۔ کہ جب اپنے مطلب کی روایت ہو، خواہ وہ ضعیف ہو، اس کو راجح کہہ کر قبول کرلیتے ہیں۔ اور دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم صحیح و حسن احادیث پر عامل ہیں۔ ان لوگوں کا ضعیف احادیث پر عمل دیکھئے۔
1: امام ترمذی رحمہ اللہ نے جامع ترمذی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ? کا قول نقل کیا۔ ’جو شخص وضو کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا، اس کا وضو نہیں‘ بحوالہ:جامع ترمذی 90/1 مترجم۔
یہ روایت ضعیف ہے۔ اس بارے میں جتنی روایتیں ہیں وہ بھی سب ضعیف ہیں، جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’بلوغ المرام صفحہ11، امام زیلعی نے نصاب الرایہ 4/1، حافظ ابن رشد نے بدایہ المجتہد 17/1، اور عبدالرحمن مبارک پوری غیر مقلد نے تحفہ الاحوذی 35/1 میں لکھا۔ مگر اس کے باوجود غیر مقلدین نے مولانا عبدالرحمن مبارک پوری کا یہ فیصلہ آنکھیں بند کرکے قبول کرلیا۔
لاشک فی ان ہذا الحدیث نص علی ان التسمیہ رکن للوضوئ
یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث نص ہے۔ کہ بسم اللہ پڑھنا، وضو کا رکن ہے ،بحوالہ:تحفتہ الاحوذی 38/1۔
اب اس حدیث کو قبول کرتے ہوئے غیر مقلدین نے بسم اللہ پڑھنے کو وضو کا فرض مانا ہے۔ حالانکہ ان کے اصول کے مطابق فرض تو دور کی بات ، اس روایت پر ان کے ہاں عمل کرنا ہی جائز نہیں ہونا چاہئے۔ مگر کیا کیا جائے، ہے جو اپنے مطلب کی روایت۔

2: غیر مقلدین اونچی آواز میںآمین کہنے کے بارے میں اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا۔ حالانکہ رسول اللہ جب غیر المغضوب علیہم والالضالین پڑھتے تو آمین بھی اتنی زور سے کہتے۔ کہ پہلی صف والے سنتے اور مسجد گونج اٹھتی۔ یہ روایت سنن ابن ماجہ 278/1 برقم 853 ہے۔ اس کو ناصر الدین البانی نے ضعیف کہا ہے۔ اس کا ایک راوی بشر بن رافع پر امام بخاری، امام احمد، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی اور دیگر محدثین نے سخت جرحیں کی ہیں اور جمہور کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔ مگر غیر مقلدین کے عوام اور ان کے محدثین و محققین نے اس ضعیف حدیث کو قبول کیا ہے کیونکہ اپنے مطلب کی ہے۔
3: غیر مقلدین ظہر کی نماز سارا سال اول وقت میں پڑھتے ہیں۔ جامع ترمذی 292/1 برقم 55 ایک روایت ہے۔ یہ ضعیف روایت ہے۔ اس کو ناصر الدین البانی نے بھی ضعیف کہا ہے۔ اس کی سند میںایک راوی حکیم بن جبیر ہے۔ محدثین نے اس پر سخت کلام کیا ہے۔ امام احمد، امام بخاری، امام نسائی، امام دارقطنی، امام شعبہ، ابن مہدی، امام جوزجانی نے ضعیف، متروک الحدیث، کذاب وغیرہ قرار دیا ہے (دیکھئیِ: میزان الاعتدال 584/1 برقم 2215)
مگر ان سخت جرحوں کے باوجود بھی غیر مقلدین کا اس روایت پر عمل وفتویٰ ہے۔ کیونکہ اپنے مطلب کی ہے لہذا ان تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیث ضعیف کا مطلقا انکار کرنا، انکار حدیث ہے اور سلف صالحین، متقدمین و متاخرین، محدثین، مفسرین، فقہاکرام اور علمااہل سنت کا یہ طریقہ نہیں تھا جو آج بزعم خود اہل حدیث کہلوانے والوں کا ہے۔ ان کا یہ طریقہ کہ مطلق ضعیف احادیث کا انکار، دراصل منکرین کا نیا روپ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین



No comments:

Post a Comment