Monday, 14 December 2015

What are the responsibilities of husband & wife? میاں بیوی میں جھگڑا

ایس اے ساگر
دین سے دوری کے سبب میاں بیوی کے درمیان دوستی کی بجائے دشمنی پنپتی جارہی ہے۔ جمن، شبراتی کو تو جانے دیجئے، اچھے خاصے’دین دار‘سمجھے جانے والے میاں بیوی بھی آپسی ناچاقیوں میں مبتلا ہیں ۔جبکہ اللہ نے تمھارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے اور پھر اس میں تمہارے لئے آپس میں محبت و رحمت رکھ دی۔ابن ماجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایاہے کہ محبت کا جوڑ لگانے والی چیزوں میں سے نکاح کا جوڑ سب سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے۔ ارشادات اکابر کے صفحہ 29 پر حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ تو صاف فرماتے ہیں کہ مردوں کو یہ آیت تو یاد رہتی ہے کہ
’مرد عورتوں پر حکمران اور حاکم ہیں‘
اب بیٹھ کر عورتوں پر حکم چلارہے ہیں اور ذہن میں یہ بات ہے کہ عورت کو ہر حال میں نوکر اور تابع فرمان ہونا چاہئے اور ہمارا ان کیساتھ آقا اور نوکر جیسا رشتہ ہے،معاذاللہ....لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور بھی آیت نازل فرمائی ہے وہ آیت مردوں کو یاد نہیں رہتی....اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’اس نے تمہارے لئے تمہارے جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم دونوں میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی۔‘
(سورہ روم 21)
حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیشک مرد عورت کیلئے انتظامی طور پر تو قوام (حاکم) ہے لیکن باہمی تعلق دوستی جیسا ہے،لہٰذا ایسا تعلق نہیں جیسا آقا اور کنیز کے درمیان ہوتا ہے....اس کی مثال ایسے ہے جیسے دو دوست کہیں سفر پر جارہے ہوں اور ایک دوست نے دوسرے دوست کو امیر بنالیا ہو....اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ امیر اس دوست پر حاکم بن جائے۔۔شوہر اس لحاظ سے تو امیر ہے کہ ساری زندگی کا فیصلہ کرنے کا وہ ذمہ دار ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کیساتھ نوکروں جیسا معاملہ کرے....بلکہ اس دوستی کے تعلق کے کچھ آداب اور تقاضے ہیں۔
کسے کہتے ہیں امیر ؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں امیر کا تصور کیا ہے؟ اسے سمجھنے کیلئے اصلاحی خطبات، جلد دوم کے صفحہ 80 سے رجوع کرنا ہوگا۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم دیوبند سے کسی دوسری جگہ سفر پر جانے لگے تو ہمارے استاد حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمة اللہ علیہ جو دارالعلوم دیوبند میں ’شیخ الادب‘ کے نام سے مشہور تھے وہ بھی ہمارے ساتھ سفر میں تھے، جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو گاڑی کے آنے میں دیر تھی،مولانا اعزاز علی صاحب (رحمہ اللہ )نے فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم کہیں سفر پر جاو ¿ تو کسی کو اپنا امیر بنالو، لہذا ہمیں بھی اپنا امیر بنا لینا چاہئے،مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ چونکہ ہم شاگرد تھے وہ استاد تھے اس لئے ہم نے کہا کہ امیر بنانے کی کیا ضرورت ہے، امیر تو بنے بنائے موجود ہیں،
حضرت مولانا نے پوچھا کہ کون؟
ہم نے کہا کہ امیر آپ ہیں، اس لئے کہ آپ استاد ہیں، ہم شاگرد ہیں،
حضرت مولانا نے کہا....اچھا آپ لوگ مجھے امیر بنانا چاہتے ہیں،
ہم نے کہا کہ جی ہاں، آپ کے سوا اور کون امیر بن سکتا ہے؟
مولانا نے فرمایا کہ اچھا ٹھیک ھے لیکن امیر کا ہر حکم ماننا ہوگا، اس لئے کہ امیر کے معنی یہ ہیں کہ اس کے حکم کی اطاعت کی جائے،
ہم نے کہا جب امیر بنایا ہے تو ان شاءاللہ ہر حکم کی اطاعت بھی کریں گے،
مولانا نے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں امیر ہوں اور میرا حکم ماننا،
جب گاڑی آئی تو حضرت مولانا نے تمام ساتھیوں کا کچھ سامان سر پر اور کچھ ہاتھ میں اٹھایا اور چلنا شروع کردیا،
ہم نے کہا کہ حضرت یہ کیا غضب کر رہے ہیں؟ ہمیں اٹھانے دیجئے،
مولانا نے فرمایا کہ نہیں، جب امیر بنایا ہے تو اب حکم ماننا ہوگا اور یہ سامان مجھے اٹھانے دیں،
چنانچہ وہ سارا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھا اور پھر پورے سفر میں جہاں کہیں مشقت کا کام آتا تو وہ کام خود کرتے اور جب ہم کچھ کہتے تو فوراً مولانا فرماتے کہ دیکھو تم نے مجھے امیر بنایا ہے اور امیر کا حکم ماننا ہوگا، لہذا میرا حکم مانو، ان کو امیر بنانا ہمارے لئے قیامت ہوگیا، حقیقت میں امیر کا تصور یہ ہے۔
حسین ترین رشتہ :
گویا کہ بندہ اور رب کے بعد سب سے پہلا اور خوبصوت رشتہ میاں بیوی کا بنایا گیا ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کو جب تنہائی محسوس ہوئی تو ان کے سکون و تسکین کیلئے اللہ نے حضرت اماں حوا کو انہی کی پسلی سے تخلیق کیا، یہ وہ خوبصورت رشتہ ہے جس پر شیطان کی سب سے بھیانک نظر ہوتی ہے کہ اس میں پھوٹ ڈلوا کر وہ نسل آدم کو گمراہ کر سکے۔
ایک دوسرے کا لباس :
میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیاہے۔ لباس کیا ہوتا ہے؟ جو ڈھانپتا ہے، ستر پوشی کرتا ہے، کوئی انسان کامل نہیں ہوتا، اللہ انسان کے شریک حیات کو نہایت حکمت سے منتخب کرتا ہے، کوئی کہاں سے آکر کیسے آپ کی پوری زندگی کا ساتھ بن جاتا ہے.... آپ نے سوچا بھی نہیں۔ شادی کر کے زندگی میں یونہی سکون میں نہیں آجاتا بلکہ زندگی کو پرسکون بنایا جاتا ہے۔ زندگی کسی بھی سطح پر ہو اس کو صبر شکر و حمد آسان کرتی ہے، تکلیف دہ باتوں کو درگزر کر کے، اس پر محبت و تحمل سے برداشت کر کے اپنی پہلے اور پھر ضرورت پڑنے ہر دوسرے کی محبت بھری اصلاح کر کے زندگی کو آسان بنایا جاتا ہے۔ شادی شدہ زندگی میں شکر گزاری کی بہت اہمیت ہے۔
شکر گزاری کی ضرورت :
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ روشن مثال ہے ۔کہتے ہیں کہ جب وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی غیر موجودگی میں ان کی بیگم سے پہلی بار ملنے گئے اور ان کے ناشکری کے کلمات سنے تو انھوں نے اپنی بہو کو ایک’اجنبی بزرگ‘ کے طور پر مشورہ دیا کہ تمھارا خاوند آئے تو اسے کہنا کہ چوکھٹ بدل لے! وہ تو اپنی کم فہمی میں سمجھی بھی نہیں، شوہر کے آنے پر بتایا تو انہوں نے اسے طلاق دے دی اور دوبارہ شادی کی۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام پھرتشریف لائے تو ان کے بیٹے گھر پر نہیں تھے، اب کے نئی بہو سے سلام دعا ہوئی تو شکرگزاری کے کلمات سنے، اس پر جاتے ہوے دعا دی اور کہا کہ اپنے شوہر سے کہناکہ اس چوکھٹ کو سلامت رکھے۔ بیوی نے ایسے ہی کلمات شوہر سے عرض کردئے۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور الحمدللہ کہا، اپنے بابا جان کی دعا کی برکت سے بہت نعمتیں پائیں۔ درحقیقت عورت کا احساسِ شکرگزاری اورمرد کا ظرف کسی بھی گھر کو جنت یا دوزخ بنا سکتا ہے۔
جہنم میں جانے کا سبب :
شکر اللہ اور اللہ کے فیصلوں سے نباہ کا صرف لفظی نہیں عملی اظہار بھی ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا کہ انہوں نے سب سے زیادہ عورتوں کو جہنم میں دیکھا کہ وہ اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں! آج کل بیویاں جانے، انجانے میں اپنی خواہش و ہوس کے ہاتھوں ناشکری کرتی ہیں ، اپنی بیوی یا شوہر کو دوسروں کی بیوی یا شوہر سے موازنہ کرنا تو اتنا عام ہو چکا ہے کہ اسے اب کوئی عار نہہیں سمجھا جاتا، موازنہ کرنے والے کیساتھ مسئلہ ہوتا ہے بدلنے کا.... فلاں شخص کے معیار پر پورا نہیں اتر سکے، یا فلاں شخص فلاں کی طرح کیوں نہیں ہے، ہر وہ شخص جو پرفیکشنزم کا حامل ہے اس کو اتنی ہی ذہنی اصلاح کی ضرورت ہے جتنی کے اس کو، جو دوسرے کے معیار پر پورا اترنے کیلئے اذیت میں ہے۔
ایک ہاتھ سے نہیں بجتی تالی :
اپنی شخصیت میں اللہ کیلئے نکھار پیدا کریں اپنی ذینت اپنے شوہر یا بیوی کیلئے درست کریں ۔پر سکون ذہن تب ہی میسر آتا ہے جب اتباع نفس نہیں بلکہ اتباع شریعت ہو، کوئی کسی ذہنی یا روحانی مسئلے میں الجھا ہوا ہے اس کا فرق اس کے ذہنی سکون سے اندازہ لگا کر کیا جاتا ہے ۔ اصل زینت محض جسم کا سجنا سنورنا نہیں بلکہ اصل روح کی بالیدگی ہوتی ہے جبکہ روح کا سنگھار صبر و شکر ہوتا ہے۔ اسی سے خلوص، وفا، نباہ، درگزر اور احساس ہمدردی اور خیر خواہی پیدا ہوتا ہے، زندگی سے لے کر موت تک ہر ہر معاملہ آزمائش ہے، انا شادی شدہ رشتے کی دشمن ہی نہیں سب سے پہلے انانیت انسان کی خود کی دشمن ہوتی ہے، جو اسے مختلف وجہیں تلاش کر ناشکری اور اذیت میں مبتلا رکھتی ہیں، اور انسان خود ایسی اذیت میں رہتا ہے۔ وہ اپنے سکون کو خود اپنے ہاتھوں سے دور کرتا چلا جاتا ہے لیکن حقیقت جان نہیں پاتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
الزام تراشیوں سے گریز :
میاں ،بیوی خود احتسابی کی بجائے الزام تراشی زیادہ آسان سمجھتے ہیں اور محبت کا رشتہ ہوتے ہوتے مقابلے بازی میں بدل جاتا ہے۔ انانیت اور خودسری شیطان کا عطیہ ہے، جو لہو میں دوڑ رہا ہے وہ ہر پل، ہر لمحہ’میں‘ کو اکساتا رہتا ہے.... اللہ سے غافل ہوتے ہی ازواجی رشتہ’ہم‘ میں پروان چڑھنے کی بجائے تو تو ، میں میں کے ہاتھوں ذبح ہو جاتا ہے۔ اور قاتل خود کو مقتول سمجھتے رہتے ہیں، خود احتسابی کی بجائے الزام تراشی وطیرہ بن جاتی ہے ۔
محبت کا ذریعہ نکاح :
ابن ماجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا کہ محبت کا جوڑ لگانے والی چیزوں میں سے نکاح کا جوڑ سب سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے۔نکاح سے بڑھ کر کوئی اور چیز ایسی نہیں جس سے محبت میسر ہو جآ، اب اگر میاں بیوی میں وہ سکون و محبت و رحمت نہیں ہے تو سب سے پہلے ایک دوسرے کو الزام دینے کی بجآ اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دوسری جانب واقعی اصلاح کی ضرورت ہو۔ اس کیلئے ترک تعلق کی بجائے ارباب عقدوحل کی مدد لینی چاہئے جو شریعت مطہرہ کی روشنی میں صحیح رہنمائی کر سکیں، جیسے کوئی شخص بیمار ہو جاتا ہے تو اسے معالج کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔متاثرہ عضو کو براہ راست کاٹا نہیں جاتا بلکہ اس کا علاج کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں کاو ¿نسلنگ بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔
کیا ہے سب سے نا پسندیدہ چیز؟
اللہ پاک کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ شے طلاق ہے، اور شیطان ایک شادی شدہ رشتہ کو ایک نسل ایک خاندان کی بربادی کیلئے اسی جانب لاتا ہے۔ خطبات حکیم الا مت حقوق الزوجین میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کیونکہ ہماری عورتوں میں محبت کا مادہ اس قدر ہے کہ سچ مچ عشق کا مرتبہ ہے۔ کانپور میں دیکھا گیا ہے کہ بعضی عورتوں نے خاوند کے ظلم اور مار پٹائی سے تنگ آکر قاضی جی کے یہاں جاکر طلاق لینے کی درخواست کی۔ قاضی جی نے کوشش کر کے طلاق دلوادی۔ ساری عمر کی مصیبتوں اور مار پٹائی کی وجہ سے طلاق لے تو لی۔ مگر طلاق کے وقت زار زار روتی تھیں اور یہ حالت تھی کہ ابھی مر جائیں گی۔ یا زمین پھٹ جائے تو اس میں سما جائیں گی۔ عورتوں کی یہ بات بہت قابل قدر ہے کہ ان کو خاوند سے عشق ہوتا ہے۔ پھر کیا اس کی یہی قدر ہے کہ ان کو تکلیف دی جائے یا ذرا سی ناگواری پر ان کو الگ کر دیا جائے....
کسی نے خوب کہا ہے
آنرا کہ بجائے تست ہردم کرمے
عزرش بنر از کند ز بعمرے سخنے
 کہ جس سے ہر وقت راحت پہنچے اس سے کسی وقت اذیت بھی پہنچے تو چشم پوشی کرنا چاہئے۔
میاں بیوی دونوں رکھیںیاد:
حضرت لقمان علیہ السلام نے جو حکیم تو سب کے نزدیک ہیں اور بعض کے نزدیک پیغمبر بھی ہیں ایک باغ میں نوکری کرلی،اس سے سبق لینا چاہئے کہ حلال پیشہ کو حقیر نہ سمجھنا چاہئے۔مالک باغ ایک روز باغ میں آیا اور ان سے ککڑیاں منگائیں اور اس کو تراش کر ایک ٹکڑا ان کو دیا یہ بے تکلف بکر بکر کھاتے رہے اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ بڑے مزے سے کھارہے ہیں، یہ سمجھا کہ یہ ککڑی نہایت لذیذ ہے۔ ایک قاش اپنے منھ میں بھی رکھ لی تو وہ کڑوی زہر تھی، فوراً تھوک دی اور بہت منھ بنایا۔ پھر کہا، اے لقمان تم تو اس ککڑی کو بہت مزے سے کھا رہے ہو، یہ تو کڑوی زہر ہے۔ کہا جی ہاں کڑوی تو ہے کہا پھر تم نے کیوں نہیں کہا کہ یہ کڑوی ہے؟ کہا میں کیا کہتا مجھے یہ خیال ہوا کہ جس ہاتھ سے ہزاروں دفعہ مٹھائی کھائی ہے ،اگر اس ہاتھ سے ساری عمر میں ایک دفعہ کڑوی چیز ملی تو اس کو کیا منھ پر لاو ¿ں! یہ ایسا اصول ہے کہ اگر اس کو میاں بیوی دونوں یاد رکھیں تو کبھی لڑائی جھگڑا نہ ہو اور کوئی بدمزگی پیش نہ آوے۔ بیوی یاد کرے کہ میاں نے ہزاروں طرح کے ناز میرے اٹھائے ہیں ایک دفعہ سختی کی تو کچھ بات نہیں۔ اور خاوند خیال کرے کہ بیوی ہزاروں قسم کی خدمتیں میری کرتی ہے ایک دفعہ خلاف طبع بھی سہی، اللہ پاک اپنے پاس سے تمام ازواجی بندھنوں میں خیر و برکت و محبت و برداشت و سکون عطا فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو دل و جان سے جینے اور رشتوں میں توازن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ پاک سرخروئی عطا فرمائے اللھم آمین!




What are the responsibilities of husband & wife?
By: S. A. Sagar
It is said, the rights in marriage fall into 3 categories:What are the responsibilities of husband & wife?
By: S. A. Sagar
It is said, the rights in marriage fall into 3 categories:
    1- Mutual rights between the two spouses.
    2- Husband’s rights.
    3- Wife’s rights.
These rights translate into the following duties that the husband and wife owe to each other:
Duties that are mutual:
First Duty: To forgive each other’s small mistakes.
Second Duty: To provide emotional support in both happiness and sadness
Third Duty: To offer each other wholesome advice concerning obedience to Allah.
(These 3 duties are implied in Allah’s statement: “Live with them in kindness.”)
Fourth Duty: To keep each other’s secrets. The Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam) says: “The people of the worst stature with Allah on the Day of Judgment are men who confide in their wives, and wives who confide in their husbands, and then they spread each other’s secrets around.” [Sahîh Muslim]
Fifth Duty: To pass the night with one another. Women must tend to their husband’s needs even if they don’t feel that need themselves. The Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam) said: “If a man invites his wife to his bed and she refuses, and as a consequence he goes to sleep angry, then the angels curse her until she rises.” [Sahîh al-Bukhârî].
This is a mutual duty. Regarding men, the Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam) said to his ascetic Companion Abû al-Dardâ’: “O Abâ al-Dardâ, you have a duty to your body, and to your Lord, and to your guest, and to your wife. Fast and break your fasts, pray, and be intimate with your wife. Give everyone their due right.” [Sahîh al-Bukhârî]
Sixth Duty: To adorn themselves in a reasonable manner. This is implied in the verse: “Be intimate with them in kindness.” And “They have as what is asked of them in kindness.”
The husband’s duties to his wife are as follows:
First Duty: To financially support his wife. This is a financial right, and includes: food, drink, clothing, and other basic needs.
Allah says: “Someone who is well off should spend from his fortune, and whoever is poor should spend from what Allah gives him.”
Islamic Law does not define this expenditure monetarily, but left it to the customary practices of society.
The Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam) says: “Fear Allah when it comes to women, for they are helpers you took in faithfulness to Allah. You also find it permissible to enjoy their femininity lawfully with Allah’s word. You owe it to them to spend money on them for their food and clothes in kindness.” [Sahîh Muslim]
The expenditure should be within the means of the husband. He should not be asked to spend what he cannot afford.
Second Duty: To provide appropriate housing within the means of the husband. The wife has a right to her own home wherein she can feel comfortable. Allah says, regarding a newly divorced woman: “House them as you house yourselves as is available.” If this is for the divorced woman, then the wife who is under the marriage contract is worthier.
Third Duty: Assisting them in their quest for salvation by teaching them their religion and reprimanding them for disobeying Allah.
Allah says: “O believers! Protect yourselves and your families from a Fire which is fuelled by men and stones.”
Fourth Duty: To pay a dower. This is a right which precedes the contract. It is a symbol of honoring the woman and it is not permissible to neglect it until after the contract.
The wife’s duties to her husband are as follows:
First Duty: Obedience. A wife should be as obedient as she can to her husband. This preserves the family and protects it from collapsing. This is part of Islam’s organizing of the family structure. The Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam) was asked: ‘Which women are the best?’ he answered: “The one who pleases him when he looks at her, obeys him when he asks something of her, and is not disobedient in herself or her money in what he hates.” [Musnad Ahmad]
One should note that a wife’s obedience to her husband falls into one of four categories:
    1- To ask her to do something this is commanded by Islam, such as the five prayers. Here the wife must obey her husband, and she would be considered sinful from two perspectives if she fails to obey.
    2- To ask her to do something which is beneficial to him, or to refrain from doing something which is harmful to him, such as things which have to do with his food or clothes. She should obey him here unless there is a valid excuse not to.
    3- To ask her to do something which falls into her personal affairs, such as asking her to give him money or forbidding her from speaking to a friend for no good reason. Here she can obey him if she wants but she does not have to. She should consider the benefit and harm of such obedience.
    4- To order her to disobey Allah’s commands, and here she must disobey her husband.
Second duty: Not to leave the house unless the husband permits it. She should also never sleep outside the house unless she has permission.
Third duty: To refrain from fasting voluntarily unless she has permission. Abu Hurayrah reported that the Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam) said: “It is not permissible for a woman to fast while her husband is present unless he permits it, nor is it permissible for her to allow anyone into the house unless he permits it.”
Fourth duty: Not to let anyone into the house unless he permits it. This is also derived from the above-mentioned hadîth.
Fifth duty: To guard his property. The Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam) said: “The best women who have ridden camels are those of Quraysh. They are the most tender to a young child and guard what their husbands own.” [Sahîh al-Bukharî]
Sixth duty: To serve and run the house in a reasonable fashion. This does not mean physical work on the part of the woman if a woman of her standing does not generally engage in physical work. It also does not mean physical work if her health does not permit it.

50 Things You Need to Know About Marital Relationships
Great relationships don’t just happen; they are created. You have to work at it.
If your job takes all of your best energy, your marriage will suffer.
One of the greatest gifts you can give your spouse is your own happiness.
It is possible to love and hate someone at the same time.
When you complain about your spouse to your friends, remember that their feedback can be distorted.
The only rules in your marriage are those you both choose to agree with.
It is not conflict that destroys marriage; it is the cold, smoldering resentment that you hold for a long time.
It’s not what you’ve got, it’s what you do with what you have.
If you think you are too good for your spouse, think again.
Growing up in a happy household doesn’t ensure a happy marriage, or vice versa.
It’s never too late to repair damaged trust.
The real issue is usually not the one you are arguing about.
Love isn’t just a feeling; it is expressed through our actions.
Expectations set us up for disappointment and resentment.
Arguments cannot be avoided, but destructive arguments can be avoided.
One of the greatest gifts you can give your spouse is focused attention.
Even people with happy marriages sometimes worry that they married the wrong person.
Your spouse cannot rescue you from unhappiness, but they can help you rescue yourself.
The cost of a lie is far greater than any advantage you gain from speaking it.
Your opinion is not necessarily the truth.
Trust takes years to establish and moments to destroy.
Guilt-tripping won’t get you what you really want.
Don’t neglect your friends.
If you think, “You are not the person I married,” you are probably right.
Resisting the temptation to prove your point will win you a lot of points.
Generosity of spirit is the foundation of a good marriage.
If your spouse is being defensive, you might be giving them reasons to be like that.
Marriage isn’t 50/50; it’s 100/100.
You can pay now or pay later, but the later you pay, the more interest and penalties you acquire.
Marriage requires sacrifice, but your benefits outweigh your costs.
Forgiveness isn’t a one-time event; it’s a continous process.
Accepting the challenges of marriage will shape you into a better person.
Creating a marriage is like launching a rocket: once it clears the pull of gravity, it takes much less energy to sustain the flight.
A successful marriage has more to do with how you deal with your current reality than with what you’ve experienced in the past.
Don’t keep feelings of gratitude to yourself.
There is no greater eloquence than the silence of real listening.
One of the greatest questions to ask your spouse is “How best can I love you?”
Marriage can stay fresh over time.
Assumptions are fine as long as you check them before acting upon them.
Intention may not be the only thing, but it is the most important thing.
Good sex won’t make your marriage, but it’ll help.
Privacy won’t hurt your marriage, but secrecy will.
Possessiveness and jealousy are born out of fear, not love.
Authenticity is contagious and habit-forming.
If your spouse thinks something is important, then it is.
Marriage never outgrows the need for romance.
The sparkle of a new relationship is always temporary.
There is violence in silence when it’s used as a weapon.
It’s better to focus on what you can do to make things right, then what your partner did to make things wrong.
If you think marriage counseling is too expensive, try divorce.

171215 miya biwi me jhagda by s a sagar

http://sasagarurdutahzeeb.blogspot.in/2015/12/what-are-responsibilities-of-husband.html

No comments:

Post a Comment