Wednesday 16 December 2015

ختمِ نبوت ﷺ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

ایس اے ساگر
دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث و صدر المدرسین حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم خطبۂ مسنونہ کے بعدفرماتے ہیں کہ
      
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
(سورۂ احزاب آیت نمبر ٤٠ )
اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے بقاء کا سامان کیا ہے:
بزرگو اور بھائیو! جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو کر فرعون کے پاس پہنچے، اور ان کو ایمان کی دعوت دی، تو فرعون نے کہا:{مَنْ رَبُّكُمَا يَا مُوسَىٰ} ( سورۂ طٰہ آیت نمبر ٤٩ ) تم دونوں کا رب کون ہے ائے موسیٰ ‌؟ یعنی جس رب پر ایمان لانے کی تم مجھے دعوت دے رہے ہو، وہ کون ہے ‌؟ اس کا تعارف کراؤ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:{ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ }( سورۂ طٰہ آیت نمبر ٥٠ ) ہمارا پروردگار وہ ہے، جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی، یعنی اس کو پیدا کیا، وجود بخشا، پھر اس کی راہنمائی فرمائی، یعنی مخلوقات جس ہدایت کی اور جن چیزوں کی محتاج تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی وہ ضرورت پوری کی، اور اس کی راہنمائی فرمائی۔
         دنیا میں جتنی مخلوقات ہیں، ان کی صرف جسمانی ضروریات ہیں، تمام مخلوقات اپنا وجود باقی رکھنے کےلئے کچھ چیزوں کی محتاج ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اس کی بقاء کا سامان کیا، تاکہ وہ زندگی کے اسٹیج پر برقرار رہ سکے ، ساتھ ہی ہر مخلوق کو یہ بھی سمجھا دیا کہ وہ ان چیزوں کو کس طرح استعمال کرے، اور ان سے کس طرح متمتع ہو، ثُمَّ ھَدیٰ کے مفہوم میں یہ سب کچھ شامل ہے۔
انسان کی دو ضرورتیں، جسمانی اور روحانی:
       مگر انسان کی دو ضرورتیں ہیں، ایک اس کے جسم کی ضرورت ہے، یعنی دیگر مخلوقات کی طرح انسان بھی اپنا وجود باقی رکھنے کےلئے کچھ اسباب کا محتاج ہے، اللہ تعالیٰ نے وہ اسباب بھی پیدا کئے، جو انسان کے وجود کو باقی رکھنے کےلئے ضروری ہیں، دوسری انسان کی روحانی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں ایک روح ودیعت فرمائی ہے، اور انسان میں دو روحیں رکھی ہیں، یہ بات حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حجة اللہ البالغہ میں بیان فرمائی ہے، تمام حیوانات میں صرف ایک روح ہے، وہ روحِ حیوانی ہے [ ‌اور اسی وجہ سے قیامت کے دن حساب کتاب کے بعد تمام حیوانات مٹی بنادئیے جائیں گے، کیونکہ ان میں روحِ فوقانی نہیں، جس کو عالمِ بالا میں بھیجا جائے ]‌ اور انسان میں دو روحیں ہیں، روحِ حیوانی اور روحِ ربانی، اور اللہ تعالٰی نے روحِ حیوانی کی ضرورتوں کا بھی انتظام کیا ہے، اور روحِ ربانی کی ضرورتوں کا بھی، اور انسانیت کے آغاز ہی سے روحِ ربانی کی ضرورتوں کا انتظام فرمایا ہے، آپ جانتے ہیں، جو پہلا انسان ہے، وہی پہلا نبی ہے، حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان ہیں، اور وہی سب سے پہلے نبی ہیں، کیونکہ انسان کی روح کی تربیت کا نظم و انتظام اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر ممکن نہیں، اور یہ راہنمائی اللہ تعالیٰ نبیوں کے ذریعہ فرماتے ہیں، اور حضرت آدم علیہ السلام بھی ایک انسان تھے، ان کی اور ان کی اولاد کی روحانی ضرورت کےلئے اللہ تعالیٰ نے ان کونبی بنایا، اور ان پر ہدایات نازل فرمائیں، اس طرح حضرت آدم علیہ السلام کی روح کی، اور ان کی اولاد کی ارواح کی تربیت کا انتظام فرمایا، یہی سلسلہ نبوت کہلاتا ہے، جو انسانیت کے آغاز ہی سے شروع ہوا، پھر یہ سلسلہ چلتا رہا، مختلف قوموں میں، مختلف زمانوں میں، اور مختلف جگہوں میں اللہ تعالیٰ نے بھت سے نبی اور رسول بھیجے۔
نوح علیہ السلام سب سے پہلے رسول ہیں:
        چھوٹے حضرات نبی کہلاتے ہیں، اور بڑے حضرات رسول کہلاتے ہیں، نبی صرف نبی ہوتا ہے، اور رسول نبی بھی ہوتا ہے، اور رسول بھی ہوتا ہے، پس رسالت بڑا درجہ ہے، جیسے مولوی اور مفتی، جو مولوی ہے اس کا مفتی ہونا ضروری نہیں، لیکن جو مفتی ہے، وہ مولوی ضرور ہوتا ہے [ پس دونوں میں عام خاص کی نسبت ہے، نبی عام ہے، اور رسول خاص ]۔
     اور اس طرح بھی فرق کیا گیا ہے کہ جس انسان پر خدا کی وحی نازل ہونی ہے، وہ "نبی " ہے، اور جس کو نئی شریعت بھی عطا کی گئی ہے، وہ "رسول " ہے۔ اور اس طرح بھی فرق کیا گیا ہے، کہ جو مؤمنین کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں، وہ "نبی " ہیں، اور جو کفار کی طرف بھی مبعوث کئے گئے ہیں، وہ "رسول " ہیں۔
        اور اگر ملائکہ کو شامل کرکے نسبت بیان کی جائے، تو من وجہٍ کی نسبت ہوگی، جبرئیل علیہ السلام صرف رسول ہیں، انبیائے بنی اسرائیل علیھم الصلوٰۃ والتسلیمات صرف نبی ہیں، اور اولوالعزم رسول: رسول بھی ہیں، اور نبی بھی، پس حضرت آدم علیہ السلام صرف نبی ہیں، اور سب سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام ہیں، مسلم شریف بابِ شفاعت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت ہے، اس میں اس بات کی صراحت ہے: یَا نُوْحُ! أنْتَ أوَّلُ الرُّسُلِ الی الأرْض : ائے نوح! آپ زمین پر سب سے پہلے رسول ہیں۔
تمام انسان حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں:
        اور حضرت نوح علیہ السلام کا لقب آدمِ ثانی، اور ابوالبشر ثانی ہے، اور آپ کا یہ لقب اس لئے ہے، کہ آج دنیا میں جتنے انسان ہیں، سب حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں، قرآن کریم میں ہے:{ وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ}( سورة الصف آیت نمبر ٧٧ )  اور ہم نے انہی کی اولاد کو باقی رہنے والا بنایا، یعنی کشتی والوں میں سے اور کسی کی نسل نہیں چلی۔
           آپ حضرات جانتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں جو طوفان آیا تھا، اس میں تمام انسان غرق ہوگئے تھے، اس وقت انسان ساری زمین پر بسے ہوئے نہیں تھے، زمین کے ایک مخصوص حصہ میں بسے ہوئے تھے، اور جہاں انسان بسے ہوئے تھے، وہاں پانی کا طوفان آیا تھا، اس لئے سب ہلاک ہوگئے، صرف حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں جو لوگ سوار تھے، جو کم و بیش اسّی مردوزن تھے، وہی بچے، طوفان کے بعد ان کی نسلیں چلیں، مگر آہستہ آہستہ سب کی نسلیں ختم ہوگئیں، صرف حضرت نوح علیہ السلام کے جو تین صاحبزادے کشتی میں سوار تھے، انہیں کی نسلیں باقی رہیں، آج دنیا میں جتنے انسان ہیں، وہ سب حضرت نوح علیہ السلام کے انہیں تین بیٹوں کی اولاد ہیں، یہی مطلب ہے ارشاد پاک وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ کا، یعنی ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد ہی کو باقی رہنے والا بنایا، یعنی سب کی نسلیں ختم ہوگئیں، صرف حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد کی نسل چلی، اس لئے حضرت نوح علیہ السلام آدمِ ثانی اور ابوالبشر ثانی ہیں، اور وہی سب سے پہلے رسول ہیں، ان سے پہلے جتنے انبیاء تھے، وہ صرف نبی تھے۔
آدم و نوح علیہما السلام کے درمیان انبیاء کی تعداد:
              حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے کتنے نبی ہوئے ہیں ‌؟ اور کون ہیں ‌؟ یہ بات میں یقین سے نہیں بتاسکتا، قرآن کریم میں حضرت آدم و نوح علیہما السلام کا ذکر ہے، مگر آدم و نوح علیہما السلام کے درمیان کتنے انبیاء ہوئے ہیں ‌؟ اور کون ہیں ‌؟ اس کاذکر نہیں ہے، حضرت شیث علیہ السلام کے بارے میں تقریباﹰ اتفاق ہے، کہ وہ حضرت آدم و نوح علیہما السلام کے درمیان ہوئے ہیں، اور حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہے، کہ وہ آدم و نوح علیہما السلام کے درمیان میں ہوئے ہیں، یا بعد میں ‌؟ اور ہمارے لئے یہ بات جاننا ضروری بھی نہیں، اور دونوں کے درمیان کتنی بشتیں گذری ہیں، اس کی تعیین بھی ضروری نہیں، اصل بات جو سمجھنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ رسولوں کا سلسلہ حضرت نوح علیہ السلام سے شروع ہوا ہے، ان سے پہلے جتنے بڑے حضرات گذرے ہیں، وہ سب نبی تھے، رسول نہیں تھے۔
رسول اور نبی میں فرق کی مزید وضاحت:
        رسول اور نبی میں فرق اچھی طرح سمجھیں: جو شخصیتیں مؤمنین کی طرف مبعوث کی گئی ہیں، وہ انبیاء ہیں، اور جو شخصیتیں کفار کی طرف بھی مبعوث کی گئی ہیں، وہ رسول ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد ایک لمبے عرصہ تک سب انسان مؤمن تھے، پھر گمراہی شروع ہوئی، یہاں تک کہ کوئی مؤمن باقی نہ رہا، سب کفر و شرک کی دلدل میں پھنس گئے، پس ان کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکالنے کےلئے، اور ایمان کی روشنی دکھانے کےلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، جو ان پر ایمان لائے، وہ مؤمنین کہلائے، اور جو ایمان نہ لائے، وہ کافر رہے، غرض کفار کی طرف مبعوث ہونے والی سب سے پہلی شخصیت حضرت نوح علیہ السلام کی ہے، اس لئے وہ سب سے پہلے رسول ہیں، اور جو شخصیتیں مؤمنین کی طرف مبعوث ہوئی ہیں، وہ انبیاء ہیں، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان میں انبیاءِ بنی اسرائیل ہوئے ہیں، وہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کئے گئے تھے، جو سب مؤمنین تھے، اس لئے وہ نبی کہلائے ہیں۔
نبیوں اور رسولوں کی تعداد کتنی ہے ‌؟
              اور کتنے نبی اور کتنے رسول آئے ہیں ‌؟ ان کی تعداد بتانا مشکل ہے، البتہ ایک ضعیف روایت میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد آئی ہے، جن میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں (رواہ احمد، مشکوٰۃ شریف حدیث نمبر ٥٧٣٧، باب بدء الخلق، کتاب أحوال القیامة ‌)  مگر یہ ضعیف حدیث ہے، اور تعداد جاننا ضروری بھی نہیں، بالاجمال تمام انبیاء پر ایمان لانا کافی ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  آخری نبی ہیں:

        نبوت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا، وہ فخرِ عالم ﷺ پر پورا ہوگیا، اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:{ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا } یعنی حضرت محمد ﷺ  تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، البتہ آپ میں دو صفتیں ہیں، ایک: آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، دوسری: آپ ﷺ  نبیوں کے سلسلہ کی آخری کڑی ہیں، نبیوں کے سلسلہ کو پورا کرنے والے ہیں، اب اور کوئی نیا نبی آنے والا نہیں۔
لے پالک کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے:
         اس آیتِ پاک میں پہلا مضمون یہ ہے کہ نبی پاک ﷺ  تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، اس مضمون کا ایک پس منظر ہے، اس کو سمجھنا چاھئے، نبی پاک ﷺ  کی ایک زوجہ تھیں حضرت زینب رضی اللہ عنہا، وہ حضورِ اکرم ﷺ  کی پھوپھی زاد بہن تھیں، ان کا نکاح حضرت زید رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا، جو حضورِ اکرم ﷺ  کے منہ بولے بیٹے تھے، حضورِ اکرم ﷺ  نے ان کو گود لیا تھا، ان دونوں میں نباہ نہیں ہوا، چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دیدی، عدت کے بعد نبی پاک ﷺ  نے ان سے نکاح کرلیا، کیونکہ متبنیٰ کی بیوی سے نکاح جائز ہے، مگر غیر مسلموں میں یہ تصور پایا جاتا تھا، اور آج بھی پایا جاتا ہے کہ اگر کسی کی اولاد کو گود لے لیا، تو وہ حقیقی بیٹا / بیٹی کی طرح ہوجاتے ہیں ، اسلام نے اس خیال کو رد کردیا ہے، کہ گود لینے سے حقیقی بیٹا / بیٹی نہیں ہوجاتے، وہ غیر ہی کا بیٹا / بیٹی رہتی ہے، البتہ گود لینے والا اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرسکتا ہے، بلکہ کرنا چاھئے۔
ظہار سے بیوی ماں نہیں ہوجاتی:
            اس کی نظیر ظہار ہے، ظہار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہہ دے، کہ تو میرے لئے میری ماں کی طرح ہے، اس طرح کہنے سے ظہار ہوجاتا ہے، اور کفارہ کی ادائیگی تک بیوی حرام ہوجاتی ہے، جب تک کفارہ ادا نہیں کرے گا، بیوی سے صحبت کرنا جائز نہیں ہوگا، مگر بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی، بدستور بیوی ہی رہتی ہے، اسی طرح گود لیا ہوا بچہ جس کا ہے، اسی کا رہتا ہے، گود لینے سے وہ حقیقی بیٹے اور بیٹی کی طرح نہیں ہوجاتا، مگر زمانۂ جاہلیت میں غیرمسلم یہ سمجھتے تھے، کہ گود لینے سے بچہ حقیقی بیٹے کی طرح ہوجاتا ہے، وہ میراث پاتا ہے، اور باپ کی جگہ گود لینے والے کا نام لکھتے تھے، نبی پاک ﷺ  نے جب حضرت زید رضی اللہ عنہ کو اپنا بیٹا بنایا، تو لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگے، آیت کے پہلے حصے میں اسی باطل نظریہ کی تردید ہے۔

حضرت زید رضی اللہ عنہ کو گود لینے کی داستان:

          اور آنحضرت ﷺ  نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بیٹا کیوں بنایا تھا ‌؟ دوسرے کی اولاد کو گود وہ لیتا ہے، جس کی کوئی اولاد نہ ہو، آپ ﷺ  کی تو اولاد تھی، چار صاحبزادیاں تھیں، تین صاحبزادے ہوئے تھے، اور جس کی اولاد ہوتی ہے، وہ دوسرے کے بچہ کو گود نہیں لیتا، پھر حضورِ اکرم ﷺ  نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو گود کیوں لیا ‌؟
          اس کی ایک داستان ہے، زمانۂ جاہلیت میں قبیلے آپس میں لڑتے تھے، اور ایک دوسرے کو قید کرتے تھے، اور ان کو غلام بناتے تھے، زمانۂ جاہلیت میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قبیلہ پر دشمن نے حملہ کیا، جو قیدی پکڑے گئے، ان میں حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، اس وقت وہ بچے تھے، وہ غلام بناکر بیچ دئیے گئے، یہ بچہ بکتا بکتا مکہ پہنچا، اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی ملکیت میں آیا، حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آنحضورﷺ  کی سب سے پہلی بیوی ہیں، پھر جب حضورِ اکرم ﷺ  سے ان کا نکاح ہوا، تو یہ بچہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضورِ اکرم ﷺ  کے گھر آیا۔
             اُدھر حضرت زید رضی اللہ عنہ کا باپ اپنے بیٹے کی جدائی میں تڑپتا تھا، وہ زندگی بھر تلاش کرتا رہا، مگر نامراد رہا، مرتے وقت اس نے دوسرے بیٹے کو، اور اپنے بھائی کو وصیت کی، کہ تم دونوں اس کو ڈھونڈنا، اور جہاں بھی ملے، ہر قیمت پر اس کو واپس لانا، چنانچہ ایک مرتبہ ان کے قبیلہ کے کچھ لوگ حج کےلئے آئے، زمانۂ جاہلیت میں بھی حج ہوتا تھا، کسی نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو دیکھا، اور پہچان لیا، واپس جاکر ان کے چچا کو اور بھائی کو بتایا، کہ زید کو ہم نے منیٰ میں ایک آدمی کے ساتھ دیکھا ہے، ابھی آنحضورﷺ نبوت سے سرفراز نہیں کئے گئے تھے، مگر آپ ﷺ  ہر سال حج کرتے تھے، جب حضرت زید کے بھائی اور چچا کو اطلاع ملی کہ زید مکہ میں ہے، اور قریش کے کسی آدمی کے پاس ہے، تو وہ بھت سا مال لے کر مکہ آئے، تاکہ فدیہ دیکر بھائی کو اور بھتیجے کو چھڑائیں، وہ تلاش کرتے ہوئے، اور لوگوں سے پوچھتے ہوئے نبی پاک ﷺ  تک پہنچے، اور آپ ﷺ  سے پوری داستان بیان کی، کہ یہ ہمارا بھائی اور بھتیجہ ہے، وہ غلام نہیں ہے، وہ کیسے قید ہوا، اور اس کے باپ کی کیا حالت تھی، اور مرتے وقت اس نے کیا وصیت کی تھی، یہ سب داستان آپ ﷺ  کو سنائی، اور عرض کیا کہ آپ جو قیمت چاہیں، ہم دینے کےلئے تیار ہیں، آپ اسے ہمیں دیدیں، حضورِ اکرم ﷺ  نے فرمایا: اس سے پوچھ لو، اگر وہ تمہارے ساتھ جانے کےلئے تیار ہے، تو شوق سے لے جاؤ، مجھے کوئی قیمت نہیں چاھئے، وہ خوش ہوگئے، اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، ابھی وہ نابالغ تھے، جاکر ان سے اپنا تعارف کرایا، کہ میں تیرا چچا ہوں، یہ تیرا بھائی ہے، تیرا باپ تیری جدائی میں بھت تڑپتا رہا ہے، اور اس نے مرتے وقت ہمیں وصیت کی ہے، اور ہم تجھے لینے آئے ہیں، اور تیرا آقا بھی تجھے بھیجنے پر راضی ہے، مگر اس بچے نے ساتھ جانے سے انکار کردیا، اس نے کہا: میں زندگی بھر اپنے آقا کے ساتھ رہونگا، میں نے اپنے آقا میں ایک چیز دیکھی ہے، اس لئے میں کبھی ان سے جدا نہیں ہوؤں گا، بھائی اور چچا حیرت میں پڑگئے، انہوں نے کہا: باؤلے! تیرا دماغ چل گیا ہے، تو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے، مگر وہ بچہ کسی صورت میں تیار نہیں ہوا، تو انہوں نے آنحضورﷺ  سے عرض کیا، کہ وہ تو ہمارے ساتھ آنے کےلئے تیار نہیں، آپ سمجھائیں، تاکہ وہ ہمارے ساتھ آئے، آپ ﷺ  نے فرمایا: جب وہ تمہارے ساتھ جانے کےلئے تیار نہیں، تو میں اس کو زبردستی اپنے سے کیسے دور کروں۔
            آپ ﷺ  کو زید ؓ کی اس بات سے اتنی خوشی ہوئی، کہ آپ ﷺ  ان کو لے کر کعبہ شریف کے پاس آئے، وہاں قریش کی مجلس جمی ہوئی تھی، آپ ﷺ  نے ان کو اٹھایا، اور فرمایا: لوگو! گواہ رہو، میں نے آج سے اس کو اپنا بیٹا بنالیا ہے، ان کے بھائی اور چچا اس سے مطمئن ہوگئے، اور خوش ہوکر واپس لوٹ گئے، کیونکہ زید اب غلام نہیں رہے تھے، بلکہ عرب کے سب سے معزز قبیلہ، قبیلۂ قریش کے ایک شخص کے بیٹے بن گئے تھے، یوں آپ ﷺ  نے ان کو بیٹا بنایا تھا، ورنہ حضورِ اکرم ﷺ  کو بیٹا بنانے کی ضرورت نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ  کو اولاد سے نوازا تھا، اور جب بیٹا بنالیا تو اپنے ہی خاندان میں ان کی شادی کی، حضرت زینب رضی اللہ عنہا جو آپ ﷺ  کی پھوپھی زاد بہن تھیں، ان سے ان کا نکاح کیا، مگر دونوں میں موافقت نہ ہوئی، نبی پاک ﷺ  بار بار سمجھاتے کہ اللہ سے ڈرو، بگاڑ مت پیدا کرو، باہم الفت و محبت سے رہو، مگر بیل منڈھے نہ چڑھی، بالآخر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دیدی، عدت کے زمانہ میں نبی پاک ﷺ  نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا پر سے داغ دھونے کےلئے سوچا، کہ ان سے نکاح کرلیں، تاکہ ان کا سر فخر سے اونچا ہوجائے، مگر خوف یہ تھا، کہ کفار پروپیگنڈہ کریں گے، کہ اپنے بیٹے کی مطلقہ (بہو ‌) کو بیوی بنالیا، اور ان کے اس پروپیگنڈہ سے اسلام کو نقصان پہنچے گا، مگر جب عدت پوری ہوئی تو وحی نازل ہوئی، اور آنحضورﷺ  کو اطلاع دی گئی، کہ ہم نے آپ کا نکاح حضرت زینب ؓ سے کردیا، اب حضورِ اکرم ﷺ  کےلئے کچھ سوچنے کا موقع نہیں رہا تھا، چنانچہ باقاعدہ دنیا میں بھی آپ ﷺ  کا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا، اور وہ بیوی بن کر حضورِ اکرم ﷺ  کے گھر میں آگئیں، اور جیسا کہ اندیشہ تھا، چاروں طرف طوفان کھڑا ہوگیا، کہ لو اپنی بہو کو گھر میں بسالیا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی، اور یہ بات صاف کردی، کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں، پس اس کی بیوی سے نکاح جائز ہے۔ 

تعددِ ازدواجِ رسول ﷺ کی حکمتیں

مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ 
          نبی پاک ﷺ  نے جو متعدد نکاح فرمائے ہیں، اس پر اغیار اعتراض کرتے ہیں، اس لئے اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے، کہ آپ ﷺ  نے متعدد نکاح کیوں کئے ہیں ‌؟ اور اعدائے اسلام جو اعتراض کرتے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے ‌؟
           نبی پاک ﷺ  نے سب سے پہلا نکاح حضرت خدیجۃ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا سے کیا، اس وقت آپ ﷺ  کی عمرِ مبارک ٢٥ سال تھی، اور جب تک حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں، آپ ﷺ  نے دوسرا کوئی نکاح نہیں کیا، آپ ﷺ  کی ساری اولاد [ ایک صاحبزادے کے علاوہ، جو ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے، اور جن کا نام ابراہیم ؓ تھا ]‌ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ہی ہوئی ہے، دو یا تین صاحبزادے پیدا ہوئے، جو بچپن ہی میں وفات پاگئے، اور چار صاحبزادیاں ہوئیں، جب آنحضرت ﷺ  نبوت سے سرفراز کئے گئے، اس وقت آپ ﷺ  کی یہی ایک بیوی تھی۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح خانگی ضرورت سے کیا:
         پھر جب نبوت کے پانچویں، یا ساتویں سال حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا، تو گھر کا انتظام کرنے والا کوئی نہ رہا، آپ ﷺ  پر ایک طرف نبوت کی ذمہ داریاں تھیں، دوسری طرف گھر کے انتظام اور بچیوں کی پرورش کا مسئلہ تھا، اس لئے خاندان کی عورتوں نے مشورہ دیا، کہ آپ دوسری شادی کرلیں، تاکہ بیوی آپ کے گھر کا انتظام بھی کرے، اور بچیوں کو بھی سنبھالے، چنانچہ آپ ﷺ  نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ابتداءِ نبوت ہی میں مشرف باسلام ہوچکی تھیں، اور بیوہ تھیں، ان کا پہلا نکاح ان کے چچازاد بھائی "سکران بن عمرو " سے ہوا تھا، انہوں نے آکر گھر اور بچیوں کو سنبھالا، یہ دوسری بیوی ہیں، جو حضورِ اکرم ﷺ  کے گھر میں آئیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بہ اذنِ الٰہی ہوا:
         اسی زمانے میں نبیﷺ  نے ایک خواب دیکھا، اور دو مرتبہ دیکھا، ایک فرشتہ ریشمی کپڑا لایا، اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! اس کو کھولئے، نبی پاک ﷺ  نے اس کو کھولا، تو اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نظر آئیں۔
          حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں، اور ان کے گھر میں آنحضورﷺ  کا بکثرت آنا جانا تھا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بچی تھیں، چھ سال کی تھیں، اور آپ ﷺ  نے ان کو دیکھا تھا، اس لئے جب آپ ﷺ  نے کپڑا کھولا، اور اس میں وہ نظر آئیں، تو آپ ﷺ  نے فوراﹰ پہچان لیا، کہ عائشہ ہیں، فرشتہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! یہ آپ کی بیوی ہیں ( بخاری شریف حدیث نمبر ٧٠١٢ )۔
          آپ ﷺ نے سوچا، کہ شادی تو کرنی ہے، مگر عائشہ ابھی بچی ہیں، سات، آٹھ سال کے بعد بالغ ہونگی، اور رخصتی کے لائق ہونگی، اور بیوی کی ضرورت ابھی ہے، جو گھر کو سنبھالے، اور بچیوں کی پرورش کرے، بخاری شریف کی روایت میں ہے، کہ آپ ﷺ  نے دل میں سوچا: اگر یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو اس کا کوئی سبب بنے گا، چند دن کے بعد آپ ﷺ  نے پھر بعینہٖ یہی خواب دیکھا۔
          دوسری طرف یہ ہوا، کہ جب خاندان کے لوگ آنحضورﷺ  کےلئے مناسب رشتہ تلاش کر رہے تھے، ابوبکر ؓ کے دل میں خیال آیا، کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بوڑھی عورت ہیں، چند دن کی مہمان ہیں، اگر کسی مناسب جگہ آپ ﷺ  کا رشتہ ہوجاتا، تو بہتر تھا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بچی تھیں، اور دوسری کوئی صاحبزادی ان کی نہیں تھی۔ آپ ﷺ  نے خیال کیا، کہ عائشہ ابھی بچی ہیں، نکاح کے لائق نہیں، مگر انہوں نے سوچا کہ حضرت سودہ ؓ بوڑھی عورت ہیں، بظاہر زیادہ دنوں کی مہمان نہیں، مگر اللہ تعالٰی نے ان کی عمر میں برکت فرمائی، اور وہ حضور ﷺ  کے بعد تک زندہ رہیں، لیکن عمرِ طبعی کے اعتبار سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ اندازہ کیا، کہ چند سالوں میں ان کا انتقال ہوجائےگا، اور اس وقت تک عائشہ بڑی ہوجائیں گی، اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بعد وہ آپ ﷺ  کا گھر سنبھال لیں گی، یہ سب باتیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں تھیں۔
         اُدھر حضور ﷺ  دو مرتبہ خواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھ چکے تھے، اور فرشتہ کہہ چکا تھا، کہ وہ آپ کی بیوی ہیں، چنانچہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیشکش کی تو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آنحضورﷺ  کا نکاح ہوگیا، مگر وہ شوہر کے گھر بھیجنے کے قابل نہیں تھیں، اس لئے صرف نکاح ہوا، رخصتی عمل میں نہیں آئی۔ [  یورپ و امریکہ میں لوگ سوال کرتے ہیں، کہ چھ سال کی لڑکی سے نکاح کرنے کا کیا تک ہے ‌؟ وہ لوگ نکاح اور زفاف کا فرق نہیں جانتے، زمانۂ جاہلیت میں بھی، ہندوؤں میں بھی، اور مسلمانوں میں بھی نابالغوں کے نکاح کا رواج ہے، مگر لڑکی شوہر کے گھر اس وقت بھیجی جاتی ہے، جب وہ شوہر کے قابل ہوجائے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بلوغ کے بعد رخصت کی گئی تھیں، اور یورپ و امریکہ والوں کے نزدیک بلوغ کی عمر، سترہ اٹھارہ سال ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے یہ غلط ہے، اسلام میں جب لڑکی کو ماہواری آجائے تو وہ بالغ ہوجاتی ہے ]۔
          ہجرت تک تنہا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ  کے گھر میں رہیں، ہجرت کے بعد دوسرے سال، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس قابل ہوگئیں، کہ وہ شوہر کے گھر بھیجی جاسکیں، چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال ان کی رخصتی عمل میں آئی، اب آپ ﷺ  کے گھر میں دو بیویاں اکٹھی ہوئیں، اس وقت نبی پاک ﷺ  کی عمرِ مبارک 55 سال تھی، اور پوری عمرِ مبارک 63 سال ہوئی ہے، پس گویا وفات سے آٹھ سال پہلے حضور ﷺ  کے گھر میں دو بیویاں جمع ہوئیں ہیں۔
         آنحضورﷺ  نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تمام نکاح ملی، ملکی اور شخصی مصلحتوں سے کئے ہیں:
        یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آدمی کو چند بیویوں کی ضرورت جوانی میں ہوتی ہے، پچپن سال میں آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے، اس عمر میں متعدد بیویوں کی ضرورت نہیں ہوتی، اور آپ ﷺ  کی جوانی، اور ادھیڑ عمر ایک بیوی کے ساتھ گذری ہے، اور ایک سے زائد بیویاں عمرِ مبارک کے آخری آٹھ سالوں میں کی ہیں، اس سے ہر صاحبِ فھم سمجھ سکتا ہے، کہ آپ ﷺ  نے جو متعدد نکاح کئے ہیں، وہ ذاتی ضرورت سے نہیں کئے، بلکہ کسی مصلحت سے کئے ہیں، اور وہ مصلحتیں تین ہیں، ملی، ملکی اور شخصی، اور شخصی سے مراد حضورِ اکرم ﷺ  کی ذات نہیں ہے، بلکہ بیوی صاحبہ کی، یا ان کے علاوہ کسی کی دلجوئی کےلئے نکاح کیا ہے، یہاں سب نکاحوں کی تفصیل کرنا تو مشکل ہے، ایک ایک مصلحت کی، ایک ایک مثال پیش کرتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح ملی مصلحت سے کیا ہے:
         پہلے دو باتیں آپ حضرات ذہن میں رکھیں:
پہلی بات: نبی پاک ﷺ  نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تمام نکاح بیوہ عورتوں سے کئے ہیں، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا جو آپ ﷺ  کی سب سے پہلی زوجۂ مطہرہ ہیں، اور جن کے ساتھ آپ ﷺ  نے پوری جوانی کا زمانہ گذارا ہے، وہ بھی بیوہ تھیں، حضورِ اکرم ﷺ  سے پہلے دو جگہ ان کی شادی ہوچکی تھی، پہلا نکاح "ابوہالہ بن زرارہ تمیمی " سے ہوا تھا، اور دوسرا نکاح "عتیق بن عائذ مخزومی " سے ہوا تھا۔
دوسری بات: دو نکاح اللہ تعالیٰ نے کرائے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نکاح کرنے کا صریح حکم آیا ہے، یا اشارہ ملا ہے، اس لئے آپ ﷺ  نے وہ دونوں نکاح کئے ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح اللہ تعالیٰ نے کرایا ہے، اس نکاح کا تذکرہ قرآن کریم میں سورۂ احزاب آیت نمبر ٣٧ میں ہے: فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا۔ جب زید ؓ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ( اور انہوں نے طلاق دیدی ) تو ہم نے ان کے ساتھ آپ ﷺ کا نکاح کردیا، پس حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح، وحی متلو سے ہوا، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، وحی غیر متلو سے ہوا ہے، ان کو خواب میں دکھایا گیا، اور بتایا گیا، کہ یہ آپ کی بیوی ہیں، یہ دو نکاح تو اللہ تعالیٰ نے کرائے ہیں، باقی جتنے نکاح کئے ہیں، وہ حضورِ اقدس ﷺ  نے خود کئے ہیں، اور سارے نکاح مذکورہ تین مصلحتوں سے کئے ہیں۔
ملی، ملکی اور شخصی مصلحتوں کی مثالیں:
          ملی ضرورت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ نے نکاح کرایا ہے، اور حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے جو حضور ﷺ  نے نکاح کیا ہے، وہ ملکی ( سیاسی ) مصلحت سے کیا ہے، اور شخصی مصلحت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کیا ہے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کےلئے، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ان کی دلجوئی کےلئے کیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی مصلحت:
           نبی پاک ﷺ  کی زندگی خلوت و جلوت میں منقسم ہے، اور آپ ﷺ  کے قول و فعل سے شریعت بنتی ہے، اور آپ ﷺ  جلوت میں جو کچھ ارشاد فرمائیں گے، یا جو کام کریں گے، اس کو صحابہ ؓ سنیں گے، دیکھیں گے، اور محفوظ کریں گے، مگر خلوت کے اقوال و افعال کو صحابہ ؓ اخذ نہیں کرسکتے، جبکہ وہ اقوال و افعال بھی شریعت ہیں، اس لئے ضروری تھا، کہ آپ ﷺ  کے گھر میں کوئی ایسی سمجھ دار، زیرک بیوی ہو، جو خانگی زندگی کے اقوال و افعال کو محفوظ کرے، اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اگرچہ آپ ﷺ  کے گھر میں تھیں، مگر وہ عمر رسیدہ تھیں، اور بھت زیادہ زیرک بھی نہیں تھیں، وہ اس اہم ترین ذمہ داری کو بخوبی انجام نہیں دے سکتی تھیں، اس لئے وحی غیر متلو سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ  کا نکاح کرایا گیا، تاکہ وہ خانگی زندگی کے اقوال و افعال کو محفوظ کرکے امت تک پہنچائیں، اور شریعت مکمل ہو، چنانچہ جب دو ہجری سے شریعت نازل ہونی شروع ہوئی، تب وہ حضور ﷺ  کے گھر میں آئیں۔ [  مکی زندگی میں اسلامی عقائد یعنی توحیدِ خداوندی، اور رسالتِ محمدی اور آخرت پر زور دیا گیا تھا، احکام تفصیل سے نازل نہیں ہوئے تھے، بالاجمال زکوٰۃ وغیرہ کا حکم آیا تھا، مگر اس کی تفصیلات نازل نہیں ہوئی تھیں، تفصیلات دو ہجری سے نازل ہونی شروع ہوئی ہیں ]۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نصفِ دین کی حامل:
            ایک موقع پر حضور ﷺ  نے صحابہ ؓ میں اعلان فرمایا: خُذُوا نِصْفَ دِیْنِکمْ مِنْ حُمَیراء ( آدھا دین عائشہؓ  سے حاصل کرو )  آدھے دین سے پچاس فیصد مراد نہیں ہے، عربی میں لفظِ نصف مختلف اعتبارات سے بولا جاتا ہے، علمِ میراث ( علم الفرائض ) کو آدھا علم کہا گیا ہے، تَعَلموا الفَرائضَ فانھا نِصْف العلم: علم الفرائض کو سیکھو، وہ آدھا علم ہے، انسان کی زندگی دو حصوں میں منقسم ہے، موت سے پہلے کی زندگی، اور موت کے بعد کی زندگی، پس جو احکام دنیا کی زندگی سے متعلق ہیں، وہ آدھا علم ہیں، اور علمِ میراث موت کے بعد کے احوال سے متعلق ہے، اس لئے وہ آدھا علم ہے، غرض آدھے کےلئے پچاس فیصد ہونا ضروری نہیں، مختلف اعتبارات سے نصف کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں، حضورِ اکرم ﷺ  نے جو فرمایا ہے کہ نصف علم عائشہ ؓ سے حاصل کرو، اس کا مطلب ہے کہ خلوت کے احکام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے معلوم کرو، اور جلوت کے احکام، صحابہ ؓ سے سیکھو، نفس الامر میں جلوت کے مسائل زیادہ ہیں، اور خلوت کے کم، مگر جلوت اور خلوت آپ ﷺ  کی زندگی کے دو پہلو ہیں، اس اعتبار سے خلوت کے احکام کو نصف علم کہا گیا ہے۔[  حدیث خذوا شطر دینکم من الحمیراء محض بے اصل روایت ہے، کسی کتاب میں اس کی کوئی سند نہیں ( تحفة الاحوذی جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر ٣٦٤ ) مگر ترمذی شریف میں حدیث ( نمبر ٣٩١٠ ) ہے: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، جب بھی صحابہ پر کوئی بات مشتبہ ہوتی تھی، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس مسئلہ کا کچھ نہ کچھ علم ہوتا تھا، پس مضمون صحیح ہے، کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دین کا بڑا علم تھا ]۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح لےپالک کی رسم ختم کرنے کےلئے کیا ہے:
          میں یہ بیان کر رہا تھا کہ جب سے شریعت کی تفصیلات نازل ہونی شروع ہوئی ہیں، تب سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضور ﷺ  کے گھر میں آئی ہیں، تاکہ خلوت کے احکام محفوظ کرکے امت کو پہنچائیں، یہ ملی مصلحت ہے، اسی مصلحت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ ﷺ  سے کرایا ہے، اور اسی مصلحت سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے بھی اللہ تعالیٰ نے نکاح کرایا ہے، زمانۂ جاہلیت سے یہ تصور چلا آرہا تھا، کہ منہ بولا بیٹا / بیٹی حقیقی اولاد کی طرح ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے جو آپ ﷺ  کے متبنیٰ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ تھیں، نکاح کرا کر اس رسم کو ختم کردیا۔
منہ بولے بیٹے / بیٹی سے پردہ واجب ہے:
        چنانچہ آج معمولی پڑھے لکھے آدمی کے ذہن میں بھی کوئی الجھن نہیں، وہ بخوبی جانتا ہے، کہ منہ بولا بیٹا اور بیٹی حقیقی اولاد نہیں، لہٰذا ان کو میراث نہیں ملے گی، ہاں گود لینے والا اپنی زندگی میں ان کو مکان، زمین، دولت وغیرہ دیدے، یا تہائی مال کی وصیت کرے تو جائز ہے، مگر ان کو میراث نہیں ملے گی، میراث صرف ورثاء کا حق ہے، اور متبنیٰ وارث نہیں، اس کے احکام وہی ہیں، جو اجنبی کے ہیں، چنانچہ گود لی ہوئی لڑکی سے بالغ ہونے کے بعد پردہ واجب ہے، کیونکہ وہ اجنبی ہے، گود لینے سے وہ بیٹی نہیں بن گئی، اسی طرح کسی عورت نے کوئی لڑکا گود لیا، تو بالغ ہونے کے بعد گود لینے والی پر پردہ کرنا واجب ہے، کیونکہ وہ ماں نہیں ہے، یہ تمام احکام اس نکاح کے ذریعہ واضح کئے گئے، اور زمانۂ جاہلیت سے جو تصور چلا آرہا تھا، اس کو اس نکاح کے ذریعہ ختم کردیا گیا۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ملکی ( سیاسی ) مصلحت سے کیا ہے:
            اور حضور ﷺ  نے بعض نکاح ملکی مصلحت سے کئے ہیں، نبی پاک ﷺ  جہاں اللہ تعالیٰ کے رسول تھے، حکومت کے سربراہ بھی تھے، اور حکومت کے سربراہ کو بھت سے معاملات سیاسی انداز سے سوچنے پڑتے ہیں، اور ان کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے، اسی ملکی مصلحت سے حضور ﷺ  نے کئی نکاح کئے ہیں، ان کی تفصیل کرونگا، تو بات لمبی ہوجائےگی، اس لئے میں نے اس کی جو مثال دی ہے، اس کی وضاحت کرتا ہوں، وہ مثال حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب نبی پاک ﷺ  اور صحابۂ کرام ؓ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے، اور جو مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے، وہ بھی مدینہ آنے لگے، اور انصار نے ہر طرح مسلمانوں کی نصرت و حمایت کا وعدہ کیا، تو کفارِ مکہ نے اہلِ مدینہ کو خط لکھا، کہ جو مسلمان بھاگ کر تمہارے یہاں آئے ہیں، ان کو واپس کرو، ورنہ ہم تم پر حملہ کریں گے، مدینہ والوں نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا، اس سے قریش کا پارہ چڑھ گیا، انہوں نے حملہ کی تیاریاں شروع کردیں، ایک قافلہ ہتھیار خریدنے کےلئے ملکِ شام بھیجا، جب وہ قافلہ ہتھیار لے کر لوٹا، تو مسلمانوں کو اس کی خبر ہوئی، انہوں نے اس کا تعاقب کرنے کا ارادہ کیا، جب اس کی اطلاع کفارِ مکہ کو ہوئی، تو وہ بڑے لشکر کے ساتھ قافلہ کو بچانے کےلئے نکلے، اس طرح بدر کا معرکہ پیش آیا۔
          یہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ تھی، اس جنگ میں مکہ والے حملہ آور نہیں ہوئے تھے، حقیقت میں وہ اپنا قافلہ بچانے کےلئے نکلے تھے، جو شام سے ہتھیار لے کر مکہ آرہا تھا، قافلہ تو صحیح سالم نکل گیا، مگر مکہ سے جو لشکر قافلہ کو بچانے کےلئے چلا تھا، وہ واپس نہیں لوٹا، بلکہ مدینہ منورہ کی طرف بڑھا، اور بدر کا معرکہ پیش آیا، اس جنگ کے بعد بھی بار بار مکہ والے، مدینہ منورہ پر چڑھ کر آئے، احد میں چڑھ کر آئے، غزوۂ احزاب میں تو تمام قبیلے ایک ساتھ اکٹھا ہوکر حملہ آور ہوئے، اور ان تمام جنگوں میں __ بدر کے علاوہ __ کمانڈر انچیف ابوسفیان تھے، وہی سردارِ مکہ تھے، اور وہی بار بار فوج کشی کر رہے تھے، اگرچہ وہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، مگر جنگِ بدر کے علاوہ جتنی مرتبہ کفار مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے ہیں، تمام جنگوں میں کمانڈر انچیف ابوسفیان ہی تھے، ابوسفیان کی ایک صاحبزادی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا تھیں، وہ مسلمان ہوگئی تھیں، اور اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئی تھیں، جب ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا، اور نبی پاک ﷺ  کو اس کی خبر ہوئی، تو آپ ﷺ  نے ایک وفد شاہِ حبشہ نِجاشی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجا، آپ ﷺ  نے اس وفد کے ساتھ نِجاشی ؒ کے پاس یہ پیغام بھیجا، کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو میرے نکاح کا پیغام دو، چنانچہ شاہِ حبشہ نِجاشی ؒ نے نبی پاک ﷺ  کی طرف سے منگنی بھیجی، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کےلئے اس سے بڑی کیا سعادت ہوسکتی تھی، انہوں نے فوراﹰ منگنی قبول کرلی، پھر نِجاشی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح پڑھا گیا، اور حضورِ اکرم ﷺ  کی طرف سے نِجاشی رحمہ اللہ تعالیٰ وکیل بنے، اور خود انہوں نے اپنی طرف سے مہر ادا کیا، اور فرمایا کہ جب نبیوں کا نکاح ہوتا ہے، تو اس کے بعد کوئی نہ کوئی میٹھی چیز ضرور کھلائی جاتی ہے، چنانچہ انہوں نے نکاح کے بعد مٹھائی تقسیم کی، پھر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو وفد کے ساتھ بھت سے ہدایا دے کر مدینہ منورہ بھیج دیا، اس نکاح کی جب ابوسفیان کو خبر ہوئی، تو ان کی مکھی تیل میں گری، اس کے بعد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی ہمت نہیں ہوئی، کہ وہ مدینہ منورہ پر چڑھائی کریں، غزوۂ احزاب کے بعد یہ نکاح ہوا تھا، جب ابوسفیان کو اس نکاح کی خبر ہوئی، تو انہوں نے نبی پاک ﷺ  کے بارے میں کہا: اس سانڈ کو کوئی نکیل نہیں ڈال سکتا۔
           غرض حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے مکہ والوں سے لڑائی ختم ہوگئی، یہ ملکی مصلحت تھی، اور بھی کئی نکاح حضور ﷺ  نے اس مصلحت سے کئے ہیں، پھر کبھی مقصد پورا ہوا، کبھی پورا نہیں ہوا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا جو مقصد تھا، اس میں سو فیصد کامیابی ہوئی۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی نکاح ملکی مصلحت سے کیا ہے:
         اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح یہودیوں کو قریب لانے کےلئے کیا تھا، مگر اس میں ناکامی ہوئی، یہود بے بہبود آنحضورﷺ  اور اسلام کے کٹر مخالف تھے، اس کے دل بغض و عناد سے بھرے ہوئے تھے، اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حیی بن اخطب سردار بنی نضیر کی بیٹی تھیں، اور دوسرے سردار کنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں، جنگِ خیبر میں یہ دونوں مارے گئے تھے، نبی پاک ﷺ  نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں لے لیا، تاکہ یہود قریب آئیں، کیونکہ جب حضور ﷺ  ان کے داماد بن جائیں گے، تو قدرتی طور سے ان کو حضور ﷺ  سے محبت ہوگی، اور قریب آئیں گے وہ، مگر جو مقصد تھا، وہ حاصل نہیں ہوا، وہ ناہنجار قوم ذرا قریب نہیں آئی، یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار کی بات ہے، کہ مقصد حاصل ہوگا، یا نہیں ‌؟ بندہ تو اسباب اختیار کرتا ہے، پھر کبھی اسباب کارگر ہوتے ہیں، اور کبھی فیل ہوجاتے ہیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کےلئے کیا ہے:
          اور بعض نکاح حضور ﷺ  نے شخصی مصلحت کئے ہیں، مگر میں نے بتایا ہے کہ شخص سے مراد، حضور ﷺ  کی ذات نہیں ہے، یعنی حضور ﷺ  نے اپنی ذاتی ضرورت سے وہ نکاح نہیں کئے، بلکہ یا تو جس عورت سے نکاح کیا ہے، اس کی دلجوئی مقصود تھی، یا اس عورت کے کسی متعلق کی، جیسے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کےلئے کیا ہے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح خُنیس بن حذافہ سَھمی رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا، یہ بدری صحابی ہیں، اور جنگِ بدر کے بعد مدینہ منورہ میں ان کا انتقال ہوا ہے، جب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی شادی کی فکر ہوئی، چنانچہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملے، اور ان کے سامنے پیشکش کی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں سوچ کر جواب دونگا، پھر چند دن کے بعد جب دوبارہ ملاقات ہوئی، تو انہوں نے کہا: میرا فی الحال شادی کرنے کا ارادہ نہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملے، اور ان کے سامنے پیشکش کی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے، کوئی جواب نہیں دیا، جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملال ہوا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے انکار سے ملال نہیں ہوا تھا، کیونکہ انہوں نے صاف جواب دے دیا تھا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھت زیادہ محبت کرتے تھے، اور ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھت زیادہ امید تھی، اگر وہ بھی انکار کردیتے، تو زیادہ غم نہ ہوتا، کیونکہ ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے، کسی پر زبردستی اپنی مرضی نہیں تھوپی جاسکتی، مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بات سن کر خاموش ہوگئے، کوئی جواب نہیں دیا، اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بڑا رنج ہوا۔
            اس کے بعد چند دن گذرے تھے، کہ نبی پاک ﷺ  نے اپنے لئے پیام دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خوش ہوگئے، اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا آپ ﷺ  سے نکاح کردیا، تب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم نے جس وقت حفصہ ؓ سے نکاح کی پیشکش کی تھی، اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا، اس وقت تمہیں غصہ تو آیا ہوگا ‌؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھت غصہ آیا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ ایک راز تھا، میں نے اس وجہ سے جواب نہیں دیا تھا، کہ حضورِ اکرم ﷺ  نے، حفصہ ؓ کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا تھا، کہ جب سے میں نے عائشہ ؓ سے نکاح کیا ہے، عمر ؓ کا دل ٹوٹا ہوا ہے، اب حفصہ ؓ خالی ہوئی ہیں، پس کیا میں ان سے نکاح کرلوں ‌؟ میں نے آپ ﷺ  کو مشورہ دیا تھا، کہ آپ ضرور ان سے شادی کرلیں، اس سے عمر ؓ کی دلجوئی ہوگی، اور میں اس وقت رسول اللہ ﷺ  کا راز فاش کرنا نہیں چاہتا تھا، اگر آپ ﷺ  حفصہ ؓ سے شادی نہ کرتے، تو میں کرلیتا، غرض آنحضورﷺ  نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، نہ اپنی ضرورت کےلئے کیا، نہ حفصہ ؓ کی ضرورت سے، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کےلئے کیا تھا۔ [ ‌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے دین میں آگے بڑھنا چاھتے تھے، مگر کبھی نہ بڑھ سکے، جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا آپ ﷺ  سے نکاح کیا، اس زمانہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس کے خواہشمند تھے، مگر اس وقت ان کی کوئی لڑکی نہیں تھی، چنانچہ اس وقت سے ان کا دل ٹوٹا ہوا تھا، اب موقع آیا، تو آپ ﷺ  نے حفصہ ؓ سے نکاح کرکے ان کی دلجوئی کی ]۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی نکاح شخصی مصلحت سے کیا ہے:
            اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، خود ان کی دلجوئی کےلئے کیا ہے، ان کا پہلا نکاح ان کے چچازاد بھائی "ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ عنہ " سے ہوا تھا، انہی کے ساتھ وہ مشرف باسلام ہوئیں تھیں، اور انہی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، پھر وہاں سے مکہ مکرمہ واپس آکر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، جب مدینہ منورہ میں حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا، تو نبی پاک ﷺ  نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی دلداری کےلئے ان سے نکاح کرلیا، اور ازواجِ مطہرات میں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد علم و فضل میں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی کا نمبر ہے، آنحضورﷺ  کی خانگی زندگی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے زیادہ انہوں نے محفوظ کیا ہے۔

نبی پاک ﷺ  کسی مرد کے باپ نہیں:
            خیر بات دوسری طرف نکل گئی، میں یہ مضمون سمجھا رہا تھا، کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آنحضورﷺ  کے متبنیٰ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، جب انہوں نے طلاق دیدی، اور عدت کے بعد نبی پاک ﷺ  نے ان سے نکاح کرلیا، تو مشرکین نے بڑا طوفان مچایا، کہ لوجی بہو سے نکاح کرلیا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی: { مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ } ان کو جواب دیا کہ کیا پروپیگنڈہ کر رہے ہو، حضورِ پاک ﷺ  کا کوئی  بچہ بالغ نہیں ہوا، رجل: عربی میں بالغ آدمی کو کہتے ہیں، بچہ بلوغ سے پہلے صَبِیٌّ کہلاتا ہے، حضور ﷺ  کے نابالغ لڑکے تو ہوئے ہیں، مگر کوئی لڑکا رَجُل نہیں ہوا، پھر بیٹے کی بہو کہاں سے آئی ‌؟ اس ٹکڑے میں یہی بات کہی گئی ہے۔
حضورِ اقدس ﷺ کی دو خوبیاں:
             لیکن یہاں ذہنوں میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب سب لوگوں کے بالغ لڑکے ہیں، اور حضور ﷺ  کا کوئی بالغ لڑکا نہیں ہوا، تو یہ بات ایک اعتبار سے نقص ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ  کی دو خوبیاں بیان کیں: { وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ } لٰکِنْ استدراک کےلئے آتا ہے، یعنی پہلے کلام سے جو وہم پیدا ہوتا ہے، اس کو لٰکِنْ سے دفع کیا جاتا ہے، فرمایا: آپ ﷺ  تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں کے سلسلہ کو پورا کرنے والے ہیں، یہ دو خوبیاں حضورِ اکرم ﷺ  میں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ  ہونے کی وضاحت:
             پہلی خوبی یہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ  اللہ کے رسول ہیں، اور رسول اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، جیسے استاذ اپنے شاگردوں کا روحانی باپ ہوتا ہے، پیر اپنے مریدوں کا روحانی باپ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا رسول بھی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، کیونکہ اس کا درجہ استاذ اور پیر سے بڑھا ہوا ہے، پس قیامت تک جتنے مؤمنین ہونگے، نبی پاک ﷺ  سب کے روحانی باپ ہیں، پس اگر نبی پاک ﷺ  کے چند جسمانی بیٹے نہ ہوئے تو کیا فرق پڑتا ہے ‌؟[ نسبی بیٹا ہونا بھی ایک کمال ہے، اور روحانی بیٹا ہونا بھی، اور تمام کمالات ہر بندے کو ملنے ضروری نہیں، ہر کمال کی مالک ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اب رہی یہ بات کہ کس کو کونسا کمال دینا چاھئے ‌؟ یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت پر موقوف ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ  کو بالغ بیٹے نہیں دئیے، اس کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اور انگنت روحانی اولاد عطا فرمائی، اس کی حکمت ظاہر ہے ]۔
خاتم النبین کی وضاحت:
            اور آپ ﷺ  کی دوسری خوبی یہ ہے کہ آپ ﷺ  تمام نبیوں کے خاتم ہیں، خاتم کے معنیٰ ہیں: آخری سرا، ہر چیز جس سرے پر رک جاتی ہے، وہ سرا خاتم ہے، جیسے مسجد میں روشنی بلب سے پھیل رہی ہے، اور بلب میں روشنی پاور ہاؤس سے آرہی ہے، پس پاور ہاؤس خاتم ہے، اسی طرح ہر کمال کا ایک آخری سرا ہوتا ہے، اور نبوت انسانیت کےلئے بڑا کمال ہے، بلکہ اس سے بڑا کوئی کمال نہیں، اور انبیاء بےشمار ہوئے ہیں، اور جو رسول ہیں، وہ نبی بھی ہیں، پس ان سب کا آخری سرا کون ہے ‌؟ ان کا آخری سرا، سرکارِ مدینہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  ہیں۔
آپ ﷺ نبوت کے ساتھ بالذات، اور دوسرے انبیاء بالعرض متصف ہیں:
           اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والتسلیمات کو جو نبوت ملی، وہ نبی پاک ﷺ  کے طفیل میں ملی ہے، نبی پاک ﷺ  نبوت کے ساتھ متصف بالذات ہیں، اور دوسرے انبیاء متصف بالعرض، جیسے سورج نکلتا ہے، تو زمین کا ذرہ ذرہ روشن ہوجاتا ہے، سورج سے صحن میں روشنی آتی ہے، صحن سے کمرہ روشن ہوجاتا ہے، پس روشنی کے ساتھ سورج بالذات متصف ہے، اور صحن اور کمرہ بالعرض، صحن بلاواسطہ، اور کمرہ بالواسطہ، اسی طرح تمام انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والتسلیمات کو نبی پاک ﷺ  کے فیض سے نبوت ملی ہے، اصل نبی حضورِ اکرم ﷺ  ہیں، اور باقی انبیاء آپ ﷺ  کے فیض سے نبی بنے ہیں، سورۂ آل عمران آیت نمبر ٨١ میں ارشادِ پاک ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ
اس آیتِ کریمہ میں یہ مضمون ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، اور ان کی پشت سے قیامت تک کی ساری اولاد نکالی گئی، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے دو عہد لئے، ایک: ألَسْتُ بِرَبّکُمْ ، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں‌؟ سب نے اقرار کیا کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں، یہ عہد، عہدِ الست کہلاتا ہے، اور سورۂ اعراف آیت نمبر ١٧٢ میں اس کا ذکر ہے، اور دوسرا عہد نبیوں سے لیا گیا، اس آیت میں اسی دوسرے عہد کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دیکھو اگر میں تمہیں نبوت سے سرفراز کروں، آسمانی کتاب تم پر نازل کروں، حکمت عنایت کروں، پھر تمہارے زمانہ میں محمد ﷺ  آجائیں، تو تم سب ان پر ایمان لاؤگے ‌؟ اور ان کی مدد کروگے ‌؟ سب نبیوں نے جواب دیا: ہم اپنی نبوت چھوڑ دیں گے، اور خاتم النبین محمد ﷺ  پر ایمان لے آئیں گے، یہ اس آیت کا خلاصہ ہے، اور اس کی تفصیل لمبی ہے، اس آیت سے معلوم ہوا، کہ نبوت سے درحقیقت حضورِ اکرم ﷺ  سرفراز کئے گئے ہیں، اور آپ ﷺ  کے فیض سے تمام انبیاء کو نبوت ملی ہے، اور جب اصل اور عارض جمع ہوجائیں تو اصل کی چلتی ہے، عارض کی نہیں چلتی، اسی لئے نبی پاک ﷺ  نے فرمایا: اگر موسیٰ علیہ السلام آج موجود ہوتے، تو میری پیروی کے سوا ان کےلئے کوئی چارہ نہیں تھا، اسی طرح جو بھی نبی، حضور ﷺ  کے زمانہ میں موجود ہوگا، اس کےلئے آپ ﷺ  کی اتباع ضروری ہوگی۔
عیسیٰ علیہ السلام نبی پاک ﷺ  کی شریعت پر عمل کریں گے:
            چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو پہلے کے نبی ہیں، جب وہ قیامت سے پہلے آسمان سے اتریں گے تو اپنی نبوت پر عمل نہیں کریں گے، بلکہ نبی پاک ﷺ  کی شریعت پر عمل کریں گے، اور اسی کے مطابق مسلمانوں کی راہنمائی کریں گے۔
            یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان پر کیا گناہ کیا تھا، جو ان کی نبوت ختم ہوگئی ‌؟ وہ آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نبی تھے، اور جب اتریں گے تو نبی نہیں ہونگے، ایسا سوچنے والے غلطی پر ہیں، ان کی نبوت برقرار رہے گی، مگر اب وہ اپنی شریعت پر عمل نہیں کریں گے، اس کو ایک مثال سے سمجھیں: ہندوستان کا وزیراعظم یہاں امریکہ میں آیا، جب تک وہ امریکہ میں رہے گا، اپنے ملک کا وزیراعظم ہوگا، مگر اس ملک میں اس کا کوئی قانون نہیں چلے گا، اس کو اِس ملک کے قانون کی پیروی کرنی ہوگی، اگر وہ اس ملک کے قانون کے خلاف کار چلائے گا تو ماخوذ ہوگا، اس کی وزارت ختم نہیں ہوئی، وہ بدستور اپنے ملک کا وزیراعظم ہے، مگر اس کو اتباع اس ملک کے قانون کی کرنی ہوگی، یہاں امریکہ میں وہ اپنے ملک کا قانون نہیں چلاسکتا۔
        اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیشک نبی ہونگے، ان کی نبوت برقرار ہوگی، مگر جب حضورِ اکرم ﷺ  کے زمانہ میں تشریف لائیں گے، تو آپ ﷺ  ہی کی شریعت پر خود بھی عمل کریں گے، اور دوسروں کو بھی عمل کرائیں گے۔
نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت قرآن کریم سے:
           اور یہ بات قرآن کریم میں دو جگہ آئی ہے، ایک سورۂ آل عمران میں، دوسری سورۂ انعام کے آخر میں ______ فرشتے نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو خوشخبری دیتے ہوئے کہا تھا:
وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيل
(‌سورۂ آل عمران آیت نمبر ٤٨)  اللہ تعالیٰ ان کو قرآن کریم سکھائیں گے، حدیث سکھائیں گے، تورات سکھائیں گے، اور انجیل سکھائیں گے۔
            یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں رہے، قرآن کریم نہیں اترا تھا، قرآن کریم حضورِ اکرم ﷺ  پر اترا، اور حدیثیں حضورِ اکرم ﷺ  کے ارشادات ہیں، وہ بھی وجود میں نہیں آئی تھیں، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث کب سکھائیں گے ‌؟ اس میں صاف اشارہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری دور میں اترنا ہے، جب دنیا میں قرآن و حدیث کا وجود ہوجائےگا، اس وقت اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سکھلائیں گے، پس پہلا اشارہ تو آیتِ پاک میں یہ ہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی نہیں دی گئی، جیسا کہ عیسائیوں کا، اور یہودیوں کا عقیدہ ہے، ان کے خیالِ فاسد کو قرآن کریم نے رد کیا ہے{ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ }(سورة النساء آیت نمبر ١٥٧‌)  بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس اٹھالیا ہے، کیوں اٹھالیا ہے ‌؟ ان کو آخری دور میں اتارنا ہے، اور ان کو قرآن و حدیث سکھانا ہے، اور دوسرا اشارہ یہ ہے کہ نزول کے بعد آپ شریعتِ محمدی پر عمل کریں گے، ورنہ قرآن و حدیث سکھانے کی کیا ضرورت تھی ‌؟
انجیل تورات کا ضمیمہ ہے:
         اور اس میں تیسرا اشارہ یہ ہے کہ انجیل مستقل کتاب نہیں، بلکہ تورات کا ضمیمہ ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ تورات بھی سکھائیں گے، اور انجیل ان پر نازل فرمائیں گے، وہ اپنے زمانہ میں ان دونوں کتابوں سے راہنمائی فرمائیں گے، پھر وہ آسمان پر اٹھالئے جائیں گے، پھر آخری زمانہ میں ان کو اتاریں گے، اور قرآن و حدیث سکھلائیں گے۔

قرآن و حدیث کی تقدیم اہمیت ظاہر کرنے کےلئے ہے:
          یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب و حکمت (قرآن و حدیث ‌) کی تعلیم کو پہلے بیان کیا ہے، جب کہ نفس الامر میں تورات و انجیل پہلے سکھلائی ہے، اور قرآن و حدیث قربِ قیامت میں جب ان کا نزول ہوگا، تب سکھلائیں گے، پس قرآن و حدیث کی تقدیم کی وجہ کیا ہے ‌؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی اہمیت ظاہر کرنے کےلئے ان کو پہلے بیان کیا ہے، اور قرآن کریم میں اس کی بھت مثالیں ہیں، ایک چیز نفس الامر میں بعد میں ہوتی ہے، مگر اس کو پہلے بیان کیا جاتا ہے، تاکہ اس کی اہمیت ظاہر ہو، جیسے اللہ پاک نے سورۂ آل عمران آیت نمبر ٥٥ میں فرمایا ہے:
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ
'' یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ائے عیسیٰ! میں تمہیں موت دینے والا ہوں، اور میں تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں'' اس آیت میں موت کا ذکر پہلے کیا ہے، اور اٹھائے جانے کا ذکر بعد میں، حالانکہ وجود میں اس کے برعکس ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر پہلے اٹھایا ہے، اور موت قربِ قیامت میں جب وہ اتریں گے، تب آئے گی، مگر موت کا ذکر پہلے اس لئے کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کو غلط فہمی نہ ہو، پہلے سے بتادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک انسان ہیں، اور جیسے تمام انسانوں کو موت آنی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آنی ہے، لیکن فی الحال وہ آسمانوں پر اٹھائے جائیں گے، اگر پہلے سے یہ کہہ دیا جاتا کہ میں تمہیں اٹھانے والا ہوں، تو ان کی امت کو غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام غیر معمولی شخصیت ہیں، چنانچہ ان کو موت نہیں آئی، اس وہم کو ختم کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے موت کا ذکر پہلے کیا۔
          اسی طرح یہاں بھی قرآن و حدیث کی تعلیم اگرچہ وجود میں بعد میں آئے گی، مگر اس کو پہلے ذکر کیا، کیوں ‌؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قربِ قیامت میں نزول واقعی ہے، اور ان کو اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث ضرور سکھلائیں گے، مگر جب تک ان کا نزول نہیں ہوتا، اور ان کو اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث نہیں سکھلاتے، وہاں تک انکار کرنے والوں کےلئے انکار کا موقع تھا، اس لئے تاکید کےلئے کتاب و حکمت کو پہلے بیان کیا۔
        خیر بات پھیلتی چلی گئی، اور کہیں سے کہیں نکل گئی، مجھے تو سمجھانا یہ تھا، کہ تمام نبیوں کی نبوت سرکارِ مدینہ ﷺ  کی نبوت کا فیض ہے، نبی پاک ﷺ  نبوت کے ساتھ متصف بالذات ہیں، اور باقی تمام انبیاء متصف بالعرض، اور آپ ﷺ  خاتم النبین ہیں، نبوت کے سلسلہ کی آخری کڑی ہیں، اور قیامت تک کے تمام لوگوں کے روحانی باپ ہیں، اور گذشتہ تمام امتوں کے روحانی دادا ہیں، آپ ﷺ  کا فیض نبیوں کو پہنچا، اور نبیوں کا فیض ان کی امتوں کو پہنچا، اس طرح آپ ﷺ  گذشتہ امتوں کے روحانی دادا ہوئے۔
          یہاں کوئی سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ  کو دونوں فضیلتوں سے سرفراز کرسکتے تھے، آپ ﷺ  کے روحانی بیٹے پوتے بھی ہوتے، اور جسمانی بھی، اس میں کیا حرج تھا ‌؟ دونوں فضیلتیں اکٹھا ہوجاتیں، تو کیا نقصان تھا، اس کا جواب اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا} اور اللہ تعالٰی ہر چیز کو خوب جاننے والے ہیں، ان کی حکمتیں ہم نہیں جان سکتے، یعنی ایسا کیوں کیا ‌؟ ایک فضیلت دی، دوسری نہیں دی، اس میں کیا حکمت ہے ‌؟ وہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، وہی ہر چیز کا پورا علم رکھتے ہیں، ہم ہر بات نہیں جانتے۔
آپ ﷺ  خاتمِ رُتبی بھی ہیں، اور زمانی بھی:
         یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاھئے کہ جب آپ ﷺ  نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہیں، اور دوسرے انبیاء بالعرض، تو آپ ﷺ  کے بعد بھی لوگ آپ ﷺ  کے فیض سے نبی ہوسکتے ہیں، ایسا خیال صحیح نہیں قادیانیوں کو ایسا ہی دھوکہ ہوا ہے، کیونکہ آپ ﷺ  صرف خاتمِ رُتبی نہیں ہیں، بلکہ خاتمِ زمانی بھی ہیں، تمام نبیوں کے آخر میں مبعوث ہوئے ہیں، کیونکہ ستارے سورج طلوع ہونے سے پہلے جگمگا سکتے ہیں، مگر جب سورج نکل آتا ہے تو ان کی ضیاپاشی ختم ہوجاتی ہے، اور نبی پاک ﷺ  کو قرآن کریم میں سِرَاجَاً مُنِیراً کہا گیا ہے، یعنی آپ ﷺ  آفتابِ نبوت ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیاء کو پہلے بھیجا، جب وہ اپنی تابانی دکھا چکے، تو آفتابِ نبوت طلوع ہوا، اور وہ اب قیامت تک چمکتا رہے گا، اب سابقہ کوئی نبی تابع ہوکر تو آسکتا ہے، مگر نیا کوئی نبی نہیں آسکتا۔
خاتَم (‌بفتح التاء ) اور خاتِم (‌بکسر التاء ) کے ایک معنیٰ ہیں:
        آیتِ کریمہ میں خَاتَمَ النَّبِيِّينَ تاء کے زبر کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اور زیر کے ساتھ بھی، بکسر التاء کے معنیٰ ہیں: ختم کرنے والا، پورا کرنے والا، اور بفتح التاء کے معروف معنیٰ ہیں: مہر، انگوٹھی (پہلے مہر انگوٹھی میں بنتی تھی ‌)  اور مہر دستاویز کے آخر میں لگائی جاتی ہے، جہاں مضمونِ خط پورا ہوجاتا ہے، وہاں اعتبار پیدا کرنے کےلئے مہر لگائی جاتی ہے، نبی پاک ﷺ  کے والا ناموں پر بھی مہر خط کے آخر میں لگائی گئی تھی، پس مہر: خط کا مضمون ختم ہونے کی علامت ہے، اور تفسیر کا قاعده ہے، کہ ایک آیت، دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے، اور دو قرأتیں بمنزلہ دو آیتوں کے ہوتی ہیں، اس لئے دونوں لفظ ختمِ نبوتِ زمانی پر بھی دلالت کرتے ہیں، اور رُتبی پر بھی، یعنی آپ ﷺ  کا زمانہ تمام نبیوں کے بعد ہے، آپ ﷺ  کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی آنے والا نہیں، اور آپ ﷺ  کا مرتبہ نبیوں میں سب سے بڑھ کر ہے، آپ ﷺ  وصفِ نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہیں، اور دیگر انبیاء بالعرض، بلکہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ختمِ نبوتِ مکانی بھی اس آیت سے ثابت کی ہے، جس کی تفصیل تحذیر الناس میں ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہِ رَبّ العَالَمین

ناقل: عادل سعیدی پالن پوری

دار العرفان دیوبند مینارہ مارکیٹ نزد جامع رشید دار العلوم دیوبند 247554
+91 98370 94598
Email
darulirfandbd@gmail.com
MUSTAFA AMEEN QASMI PALANPURI

No comments:

Post a Comment