Monday 28 December 2015

کیا ہے کامیابی کا فارمولا ؟

ایس اے ساگر
کیا آپ جانتے ہیں کہ کامیابی یا ناکامی انسان کے اندر کے حال کا نام ہے؟ کہتے ہیں کہ جدوجہد جتنی دشوار اور سخت ہوگی، کامیابی اتنی ہی شاندار ہو گی ۔گرمی کا روزہ اور سردی کا وضو بھلا سردی کے روزہ اور گرمی کے وضو کا کیا مقابلہ! لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپ کی ناکامی سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا جبکہ کچھ لوگ ناکامی کو اپنی قسمت سمجھ کر ہمت ہارکے بیٹھ جاتے ہیں تو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناکام ہو نے پر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خود سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور کچھ لوگ تو آپ کیساتھ کچھ غلط ہی کر بیٹھتے ہیں۔ جو انہوں نے خود بھی کبھی سوچا نہیں ہوتا۔
مزدور کیسے بنا امیرترین شخص؟
انگوارڈ Agonnaryd 2007 میں دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص بن گیا جبکہ اس کے والدین ایک فارم ہاو ¿س ایلمٹریاڈ Elmtaryd میں مزدوری کرتے تھے، اس کے والدین نے پانچ برس کی عمر میں اسے بھی مزدوری پر لگا دیا لیکن اس نے مزدور کی بجائے کاروبار کا فیصلہ کیا، اس کا نام تین سال کی عمر میں رکھا گیا، اس کے نام کے دو حصے تھے انگوار اور کیمپارڈ، اس نے گیارہ سال کی عمر میں ماچسیں بیچنا شروع کیں تھیں۔آج اس کا کاروبار یوروپ سے لے کر امریکہ تک اور دبئی سے لے کر نیوزی لینڈ تک دنیا کے 34 بڑے ممالک میں پھیلا ہوا ہے، اس کے اسٹورز پر روزانہ 900 ملین ڈالر کی فروخت ہوتی ہے اور آج یہ کہا جاتا ہے یوروپ میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو گا جس میں ’اکیا‘ کی کوئی نہ کوئی پروڈکٹ نہ ہو، مارچ 2007کے دوران فوربس انٹرنیشنل نے مزدور کے اس بیٹے کو دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص قراردیا تھا جبکہ جون 2015کے دوران بلوم برگ بلینریز انڈیکس Bloomberg Billionaires Index نے اسے دنیا کا آٹھواں امیر ترین شخص قرار دیا، اس وقت اس کے ذاتی اکاو ¿نٹ میں 43 بلین ڈالر جمع ہیں جبکہ اس کی دولت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
ناکامی سے کامیابی تک کا سفر:
معروف ادارے آئی بی ایم کے ٹوم واٹسن Tom Watson کے بقول، اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو آپنی جدوجہد کی شرح دونی کر دیجئے۔ ٹھوکر کھانے کے بعد ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہئے کہ ہم نے اس ٹھوکر سے کیا سیکھا؟ ناکامی کو طاقت بنا کر کامیاب ہونے کا خصوصیات ہر عظیم شخص میں دکھائی دیتی ہے۔
1) جان کوم Jan Koum اوربرین ایکٹن Brian Acton جب فیس بک میں کام کیلئے گئے تھے، تو فیس بک نے ان دونوں کو قابل نہ مان کر کام دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد میں ان دونوں نے بہت محنت سے وہاٹس اپپ کو بنایا۔ جسے کچھ عرصہ قبل ہی فیس بک نے تقریبا پچانوے ہزار کروڑ روپے میں خریدا۔
2) جب امیتابھ بچن ریڈیو اسٹیشن میں کام مانگنے کیلئے گئے تھے، تو انہیں یہ کہہ کر نوکری نہیں دی گئی تھی کہ ان کی آواز خراب ہے۔ لیکن آج لوگ اسی آواز کے دیوانے ہیں۔ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے ہیں۔
3) اے پی جے عبدالکلام پائلٹ کے ٹیسٹ میں فیل ہو گئے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ مایوس نہیں ہوئے، انہوں نے اپنی ناکامی کو اپنی طاقت بنا دیا، اور تمام دیگر شعبوں میں کامیاب ہوئے۔
4 ) ابراہم لنکن محض بیس سال کی عمر میں ایک بزنس میں ناکام ہوئے، 22 سال کی عمر میں وہ انتخابات ہارے، 24 سال کی عمر میں پھر ایک بار بزنس میں ناکام ہوئے، 26 سال کی عمر میں ان کی بیوی کی موت ہو گئی، 34 سال کی عمر میں وہ کانگریس کے انتخابات اور 45 میں سینیٹ کے انتخابات ہار گئے۔ 40 سال سے بھی زیادہ وقت تک جدوجہد کرنے کے بعد اور اپنی ناکامی سے مایوس نہ ہونے کے خصوصیت کی وجہ سے ہی وہ کامیاب ہوئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان تمام شخصیات کو ناکامیوں سے کوئی فرق نہیں پڑا، یا یہ لوگ اپنی ناکامی کو اپنی قسمت مان سمجھ بیٹھتے اور مزید کوشش اور سعی سے منہ پھیر لیتے تو کیا ہوتا؟
دراصل کامیابی یا ناکامی کسی کی قسمت میں نہیں ہوتی، فرد کی سوچ اور مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمت ہارنے میں ہوتی ہے۔ یہی نظریہ فرد کی کامیابی اور ناکامی کی علامت ہے۔ کامیاب لوگ اپنی ہمیشہ مثبت خیالات کے حامل ہوتے ہیں، انہیں خود پر یقین ہوتا ہے کہ ان کی محنت ایک دن رنگ لائے گی، اور وہ کامیابی کی چوٹی پر ہو گے۔ جبکہ ناکام لوگ مشکلات میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسائل ہمارے مقدر میں ہیں ، اور وہ کچھ بھی کر لیں، انہیں حل نہیں کر سکتے۔ ایسا سوچ کر وہ آگے بڑھنے چھوڑ دیتے ہیں۔ جبکہ ناکام ہونے کے بعد دکھ سہنے سے اندرونی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے، حاصل شدہ معلومات اور تجربہ کو کامیاب ہونے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ناکام کرنے والی 11 عادات:
زندگی یا کیرئیر میں ترقی کیلئے زیادہ محنت نہیں بلکہ اسمارٹ طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس طریقہ کار کو دن کے بیشتر حصے پر اپنانا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ کوئی آسان کام نہیں مگر آپ کم وقت میں کافی حد تک اپنے طے کردہ کام مکمل کرسکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ آپ نے اپنی ذات کو چند بری عادات سے تباہ نہ کرلیا ہو۔ یہاں ایسی ہی عادات کی نشاندہی کی جارہی ہے جنھیں ترک کردینا ہی بہتر ہے۔
بے مقصد ویب بر
وازنگ:
آج کے عہد میں بیشتر افراد کو دفاتر میں انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور ذہن میں اٹحنے والے سوالات کے جواب کو تلاش کرنا آسان ہوتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا کاموں کو متاثر کرتا ہے اور اگر آپ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کسی جگہ لکھ لیں اور اپنے کام کے دوران ان کی تلاش سے گریز کریں۔
ملٹی ٹاسکنگ کی عادت:
اگرچہ بیشتر افراد کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت دو کام بہترین انداز سے کرسکتے ہیں مگر سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ صرف دو فیصد افراد ہی موثر طریقے سے ملٹی ٹاسکنگ کے اہل ہوتے ہیں۔ باقی سب کیلئے یہ ایک بری عادت ہے جو توجہ کی صلاحیت کو کم کرتی ہے اور طویل المعیاد بنیادوں کیلئے ہمارے کاموں کو متاثر کرتی ہے۔
ای میلز او سوشل میڈیا کا استعمال:
انٹرنیٹ تک رسائی کے نتیجے میں لوگوں کے اندر دن بھر ای میلز کو دیکھنا اور سوشل میڈیا اکا?نٹس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ مگر اس کے نتیجے میں دن بھر میں کام کے 25 منٹ ضائع ہوجاتے ہیں جبکہ سائنسی تحقیقی رپورٹس کے مطابق مسلسل سوشل میڈیا اور ای میلز کو چیک کرنا ہماری ذہانت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
اہم ترین کام التوا میں ڈالنا:
لوگ اکثر اپنے دن کا آغاز آسان کاموں کو مکمل کرکے کرتے ہیں اور مشکل کام کو بعد کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی عادت نہیں اور ایسا اکثر کرنے سے اہم کام مکمل بھی نہیں ہوپاتے۔ ایک تحقیق کے مطابق لوگوں کی قوت ارادی دن میں وقت گزرنے کیساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
بہت زیادہ ملاقاتیں یا میٹنگز:
کام کی روانی کو جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ غیر ضروری ملاقاتیں یا میٹنگز ہوتی ہیں۔ جب ای میل، انسٹنٹ میسنجر اور ویڈیو چیٹ جیسے ٹولز پہنچ میں ہو تو لوگوں سے ملاقاتیں یا میٹنگز سنجیدہ معاملات پر بات چیت کیلئے کی جانی چاہئے۔
پورے دن بیٹھے رہنا:
ماہرین کے مطابق پورا دن بیٹھنے کی بجائے کچھ دیر بعد اٹھ کر چہل قدمی کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ میٹنگز بھی دفاتر میں کرنے کی بجائے کھلی ہوا میں چلتے پھرتے کرنا کامیابی کی ضمانت نتا ہے۔ تازہ ہوا میں گھومنے سے دماغ بھی تازہ دم ہوجاتا ہے۔
ترجیحات طے کرنے میں ناکامی:
کچھ لوگوں کا سوچنا ہوتا ہے کہ متعدد مقاصد طے کرنا کامیابی کے حصول کا بہترین راستہ ہے، اگر ایک ارادہ ناکام ہو تو دیگر کا تو انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ سوچ انتہائی ناقص ہے۔ ماہرین کے مطابق زندگی کے مقاصد کے حصول میں ناکامی کی وجہ ترجیحات طے نہ کرنا ہوتا ہے۔ ان کے بقول کم مقاصد کو طے کریں جو آپ کے خیال میں بہت ضروری یا نظرانداز کیے جانے کے قابل ہیں اور بس۔
حد سے زیادہ منصوبہ بندی:
بیشتر پرجوش اور منظم افراد اپنے دن کے ہر گھنٹے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ بات ٹھیک ہے کہ دنیا میں سب سے منصوبہ بندی سے ممکن نہیں، بیماری یا غیر متوقع اسائنمنٹ پورے دن کے شیڈول کو کچرے کا ڈھیر بنادیتا ہے۔ اس کے برعکس ہر روز کے چار سے پانچ گھنٹوں کی منصوبہ بندی کی کوشش کریں اور اس میں لچک کا عنصر بھی رکھیں۔
منصوبہ بندی نہ کرنا:
طویل المدتی مقاصد کے حصول کی کوشش سے پہلے حکمت عملی کو ترتیب دینا چاہئے۔ اگر آپ بغیر سوچے سمجھے کوئی کام کررہے ہو اور درمیان اچانک کوئی مسئلہ ہو تو یہ انتہائی دل شکن تجربہ اور وقت کا ضیاع ثابت ہوتا ہے۔
اپنے فون کو بیڈ کے سرہانے رکھنا:
ہمارے اسمارٹ فونز، ٹیب لیٹس اور لیپ ٹاپس کی ایل ای ڈی اسکرینیں نیلی روشنی خارج کرتی ہیں جو مختلف طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق بینائی کو نقصان پہنچانے کیساتھ ایک ہارمون میلاٹونین کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے، یہ ہارمون نیند کے سائیکل میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس ہارمون کی کمی کے شکار افراد میں ڈپریشن جیسے مرض کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ عملی زندگی میں اکثر ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
ٹال مٹول کی عادت:
اچھا کام نہ کرنے کا ڈر ٹال مٹول کا باعث بنتے ہیں اور ہم اسی وقت کام کا آغاز کرتے ہیں جب ہم خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس عادت سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ پرفیکشن ازم کی کوشش کو ترک کردیں اور تفصیلات میں جانے کی بجائے کام میں آگے بڑھنے کو ترجیح دیں۔ اس طرح کام جلد پورا کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ نیپولین ہل نے کہا تھا کہ ہر پریشانی اپنے ساتھ اپنے مساوی یا مزید شاندار مواقع ساتھ لاتی ہے۔
چیونٹی سے سیکھا سبق:
تاریخ شاہد ہے کہ تیمور لنگ میدانِ جنگ میں شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا اور ایک خندق میں جا چھپا جہاں اس نے چیونٹی دیکھی جو بار بار دیوار پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھی اور تھوڑا اوپر چڑھنے کے بعد گر جاتی مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بلآخر کامیاب ہو گئی، اس سے بادشاہ کو بھی حوصلہ ہوا اور پھر اس نے پوری طاقت سے حملہ کرکے فتح حاصل کرلی۔
اپنے لئے کریں کام:
 انگوار ڈکا کہنا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ ویژن، علم اور دماغ میں اس سے کہیں بہتر ہیں بس ان میں ایک خامی تھی، ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں تھا، انھیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا۔اگر کوئی شخص انگوار کیلئے کام کر سکتا ہے تو وہ خود اپنے لئے بھی کام کر سکتا ہے،بس اس کیلئے ذرا سا حوصلہ چاہئے۔‘ اس نے دنیا بھر کے نوجوانوں کو پیغام دیاکہ ’ترقی چیونٹی کے پاوں لے کر پیدا ہوتی ہے لیکن جوان ہونے تک اس کے پاوں ہاتھی جتنے بڑے ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ دنیا کا کوئی کیمیائی عمل لوہے کو سونا نہیں بنا سکتا لیکن انسانی ہاتھ وہ طاقت ہیں جو دنیا کی کسی بھی دھات کو سونے میں بدل سکتے ہیں۔‘

What makes a man successful?
By: S. A. Sagar
We live in a world that's changing everyday, yet successful men share traits that are as timeless as they are evident. From Andrew Carnegie to Warren Buffet, all the way to Steve Jobs and Tiger Woods, there are certain attitudes and inclinations that set certain individuals above the rest. History is not kind to those men who fail, conversely, those who set themselves apart and don't compromise are held in a special regard; titans of industry, masters of finance, artists of no equal. Recognizing characteristics of men like these and emulating their ethos is a good start to living the life of a successful man. It is said, from The Beatles to Harry Potter, Inspector Morse and Elvis, there are numerous brainwaves that first fell on deaf ears. WhatsApp founders Jan Koum and Brian Acton became overnight billionaires courtesy of Facebook when the social network giant bought their app.
But Facebook bosses should be kicking themselves after turning Acton down for a job in 2009. At the time he took to Twitter saying: "Facebook turned me down.. looking forward to the next adventure." And what an adventure followed - his next venture was WhatsApp, which shook up the world of messaging, turning users away from text messages and Facebook. The service now has 450 million users and adds approximately a million new users a day. It’s not the first time a good idea has fallen on deaf ears. Here are 10 other money spinning brain waves that were snubbed before making it big.
The Beatles
The Fab Four auditioned for Decca records but didn’t give a particularly good account of themselves after they got lost on the way to the London studio. Decca rejected the band, saying “guitar groups are on the way out” and “The Beatles have no future in show business. The record label opted to sign Brian Poole and the Tremeloes because they hailed from Dagenham and it seemed more convenient for a London record label to have them on the books than a group from Liverpool. A few months the Beatles signed with EMI subsidiary Parlophone and the rest is history. E.T. may have had a sweet tooth, but those brown, orange and yellow candies he was snacking on weren’t M&Ms.
It could have been M&Ms, but Mars passed on the chance to use their candy in “E.T., the Extra-Terrestrial” when Spielberg asked. Instead, Hershey stepped in with Reese’s Pieces and sale jumped 65 percent in June 1982, the same month E.T. was released.
Getty JK Rowling
JK Rowling
In 1996 the manuscript of her first Harry Potter book Harry Potter and the Philosopher’s Stone was turned down by 12 publishers before Bloomsbury picked it up for an advance of just £1,500. The series went on to sell more than 450 million copies worldwide. Then last year it was revealed Rowling’s adult book The Cuckoo’s Calling had been similarly turned down after she wrote it under a pseudonym. The book was critically acclaimed but had sold fewer than 500 copies before the Harry Potter creator was unmasked as its author. One leading editor bravely admitted she had unwittingly turned down the crime novel, which was billed as the debut of a former soldier, because it failed to stand out from all the other manuscripts sent in by hopeful authors.
Getty Anne Frank
“The girl doesn’t, it seems to me, have a special perception or feeling which would lift that book above the ‘curiosity’ level,” was one publisher’s brusque assessment of The Diary of Anne Frank. More than a dozen others reached a similar conclusion about a book that has now been translated into more than 60 languages, with more than 30 million copies sold. Getty Images Scottish scientist and inventor Alexander Graham Bell.
Alexander Graham Bell
It was 1876 and Bell had just sent speech down a wire through a newfangled gadget -- the telephone. Bell, his assistant Thomas Watson, and his investors, Gardiner Hubbard and Thomas Sanders, turned their attention to commercializing their invention. It is said that that Hubbard offered the Bell telephone patent to Western Union -- the telegraph monoply and telecom giant of the day -- in 1876 for $100,000. William Orton the boss of Western Union, apparently replied: “After careful consideration,” he wrote to the inventor, “while it is a very interesting novelty, we have come to the conclusion that it has no commercial possibilities.” ITV Inspector Morse TV detective series with John Thaw and Kevin Whately
The story goes it was the mid 1980s when a script-reader for Central Television advised his superiors not “to touch with a bargepole” a script for a new detective drama.
The writer was called Anthony Minghella and the drama turned out to be Inspector Morse.
ITV Elvis Presley
In 1954, Jimmy Denny, manager of the Grand Ole Opry venue, fired Elvis Presley after one performance. He told Presley: “You ain’t goin’ nowhere, son. You ought to go back to drivin’ a truck.”
Fred Smith
The founder of Federal Express, received a “C” on his college essay detailing his idea for a reliable overnight delivery service.
His professor at Yale told him: “Well, Fred, the concept is interesting and well formed, but in order to earn better than a “C” grade, your ideas also have to be feasible.”
Walt Disney
The creator of Mickey Mouse was fired by a newspaper editor because “he lacked imagination and had no good ideas.” He went bankrupt several times before he built Disneyland. In fact, the proposed park was rejected by the city of Anaheim on the grounds that it would only attract riffraff.

जितना कठिन संघर्ष होगा, 
जीत उतनी ही शानदार होगी।

दोस्तों हम में से बहुत से लोग ऐसे होते हैं जिन्हे अपनी असफलता से कोई फर्क ही नहीं पड़ता, और कुछ लोग असफलता को अपना भाग्य समझ कर बैठ जाते हैं, तो कुछ लोग ऐसे होते हैं, जो असफल होकर अपने प्रति हीन भावना पैदा कर लेते हैं। ऐसे लोग खुद से नफ़रत करने लगते हैं, और कुछ लोग तो अपने साथ कुछ गलत ही कर बैठते हैं। जो उन्होंने खुद भी कभी सोचा नहीं होता।
असफलता से सफलता तक का सफर
IBM के Tom Watson का कहना है, “अगर आप सफल होना चाहते हैं तो अपनी असफलता कि दर दूनी कर दीजिये।” ठोकर खाने के बाद हमे खुद से यह पूछना चाहिए कि हमने इस ठोकर से क्या सीखा? असफलता को ताकत बनाकर सफल होने का गुण हर महान व्यक्ति में दिखता है।
1 ) Jan Koum और Brian Acton जब फेसबुक में नौकरी के लिए गए थे, तब फेसबुक ने इन दोनों को काबिल न मानकर नौकरी देने से मना कर दिया था। बाद में उन दोनों ने बहुत मेनहत की और व्हाट्सप्प को बनाया। जिसे कुछ समय पहले ही फेसबुक ने लगभग 95 हज़ार करोड़ रुपयों में खरीदा।
2 ) रेडियो स्टेशन में जब अमिताभ बच्चन नौकरी के लिए गए थे, तब उन्हें यह कहकर नौकरी नहीं दी थी, कि उनकी आवाज ख़राब है। लेकिन आज लोग उसी खराव आवाज के दीवाने हैं। उनकी एक झलक पाने को लोग तरसते हैं।
3 ) A.P.J. Abdul Kalam पायलट के test में fail हो गए थे, लेकिन टेस्ट में फेल होने पर वो निराश नहीं हुए, उन्होंने अपनी असफलता को अपनी ताकत बनाया, और अन्य सभी रूपों में सफल हुए।
4 ) Abraham Lincoln जिन्हे आप सभी लोग जानते होगे, वो मात्र 20 साल की उम्र में एक बिज़नेस में असफल हुए, 22 साल की उम्र में वो चुनाव हारे, 24 साल की उम्र में फिर एक बार बिज़नेस में असफल हुए, 26 वर्ष की उम्र में उनकी पत्नी की मृत्यु हो गई, 34 साल की उम्र में वह कांग्रेस का चुनाव और 45 में सीनेट का चुनाव हार गए। 40 साल से भी अधिक समय तक संघर्ष करने के बाद और अपनी असफलता से निराश न होने के गुण के कारण ही वो सफल हुए।
सोचिये अगर ये सभी लोगो को अपनी असफलता से कोई फर्क ना पड़ता, या ये लोग अपनी असफलता को अपनी किस्मत मानकर बैठ जाते, तो क्या होता ?
दोस्तों सफलता या असफलता किसी की किस्मत में नहीं होती। हमारी सोच और समस्याओ के प्रति हमारा नजरिया हमारी सफलता और असफलता का प्रतीक होता है। सफल लोग अपनी समस्याओ के प्रति हमेशा सकारात्मक विचार रखते हैं, और उन्हें खुद पर विश्वास होता है कि उनकी मेनहत एक दिन रंग लायेगी, और वो सफलता के शिखर पर होगे। असफल लोग अपनी समस्याओ के प्रति हमेशा नकारात्मक विचार रखते हैं। वे सोचते हैं,कि ये समस्या हमारी किस्मत में ही हैं, और हम कुछ भी कर ले इन्हे दूर नहीं कर सकते। ऐसा सोचकर वह आगे बढ़ना छोड़ देते हैं।
दोस्तों असफल होने के बाद होने वाले दुःख से हमारे अन्दर बहुत ज्यादा ताकत आ जाती हैं, जिसे हम सफल होने के लिए इस्तेमाल कर सकते हैं।
Napolean Hill ने कहा भी हैं –
हर समस्या अपने साथ अपने बराबर का या अपने से बड़ा अवसर साथ लाती है।
✏maryam pathan
Khanqh e chistiya




301215 kiya hai kaamyabi ka formula by s a sagar

1 comment: