ایس اے ساگر
ان دنوں مسلمانوں کو محسوس ہورہا کہ وہ چاروں طرف سازشوں میں گھر چکے ہیں.آر ایس ایس اور بی جے پی ہندو سماج کو گھر گھر جا کر مسلمانوں کیخلاف زہر پلا رہے ہیں. ملک کے کسی نہ کسی کونے میں مسلمانوں پر کسی بھی بہانے سے آئے دن مظالم ڈھائے جا رہے ہیں . شر پسند عناصر مسلمانوں پر زیادتی کے موقع کی تلاش کر رہے ہیں. اس کے باوجود مسلمانوں نے تمل ناڈو کے کروڑوں افراد کا دل جیت لیا ہے. سوشیل میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے توسط سے متاثرین نے اپنے تاثرات کا اظہا ر کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ اگر چنئی شہر اور تمل ناڈو کے مسلمان بروقت ہماری مدد کو نہیں پہنچتے تو اب تک چنئی سمیت دیگر متاثرہ علاقوں میں لاشیں تیر رہی ہوتیں۔
ایک طرف چنئی شہر کے تقریبا تمام مسجدوں میں متاثرین کو پناہ لینے کا اعلان کیا گیا۔ چنئی ٹریپلیکن کی مشہور والاجاہی مسجد میں ہزاروں افراد کو پناہ دیا گیا اور انہیں کھانا فراہم کیا گیا۔ چنئی کے آس پاس کے اضلاع سے مسجدوں میں کھانا تیار کرکے متاثرین کے لیے بھیجا گیا۔ اسی طرح مکہ مسجد اور شہر کے سینکڑوں مسجدوں میں متاثرین کو پناہ دینے کیساتھ ساتھ ان کیلئے کھانے کا بھی انتظام کیا. چنئی، کانجی پورم، تروللوراور کڈلور اضلاع گزشتہ ایک ہفتہ سے جزیرہ بن چکے تھے اور عوام تین دن تک بغیر کھائے اور سوئے بے یار و مددگار پڑے تھے۔ حکومت، فوج اور این ڈی آر ایف کی ٹیم کے ان علاقوں میں پہنچنے سے پہلے ہی امت مسلمہ نے امدادی کام شروع کردیا. پاپولر فرنٹ آف انڈیا، تمل ناڈو توحید جماعت، ٹی ایم ایم کے، ایس ڈی پی آئی، ایم ایم کے، انڈین توحید جماعت،کے ہزاروں کارکنان نے نہ صرف سیلاب میں پھنسے لوگوں کی جانیں بچائیں بلکہ انہیں کھانے پینے کا سامان بھی پہنچایا ۔ مسلم مرد ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر مسلم خواتین نے بھی اپنے گھروں میں کھانا بنا کر ہزاروں متاثرین میں تقسیم کیا. ایک اندازے کے مطابق تمل ناڈو کے مسلمانوں نے 250کروڑ سے زائد روپے ، راحت رسانی کیلئے سازو سامان متاثرین تک ان کے گھروں تک پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جمعیت العلماء ہند نے سیلاب متاثرین کیلئے 25لاکھ روپے، سمیت کھانے پینے کا بھی انتظام کیا۔ اسی طرح ایم آئی ایم نے بھی چنئی متاثرین کیلئے 10لاکھ کی لاگت کی دوائیاں روانہ کیں ۔ نیز شہر وانمباڑی، آمبور، میل وشارم، پرنامبٹ، کرشنگری، ہسور سے بھی مسلمانوں نے متاثرین کی راحت رسانی اور امداد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مذکورہ بالا مسلم تنظیموں کے کارکنان نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر ہزاروں افراد کی جان بچائی۔ نہ صرف پورے تمل ناڈو کے مسلمانوں نے بلکہ بیرون ممالک میں ملازمت و کاروبار کرنے والے مسلمانوں نے بھی متاثرین کی دل کھول کر مدد کی اور تمل ناڈو کے کروڑوں عوام کا دل جیت لیا ہے ، مسلمانوں کے راحت رسانی کے کام کو خود وزیر اعلی جئے للیتا نے ستائش کی ہے ۔ تمل ناڈو وزیر اعلی کے علاو ہ پولیس حکام، انتظامیہ، فوج ، این ڈی آر ایف اور ریاست کے معروف سماجی کارکنان سے لیکر ٹی وی چینلس اور پرنٹ میڈیا نے بھی امت کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ تمل ناڈوکے مختلف علاقوں سے پا پولر فرنٹ اور ایس ڈی پی آئی کے ایسے مسلم نوجوان رضاکار جو گہرے پانی میں تیراکی میں ماہر ہیں، ان کی ٹیموں نے چنئی پہنچ کر متاثرین کو بحفاظت نکال کر بوٹ کے ذریعے محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ راحت رسانی کے کام کو دیکھ کر ایک غیر مسلم خاندان نے کہا ہے کہ :
اب تک وہ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے آرہے تھے، لیکن مصیبت اور آفت کے دوران مسلم نوجوانوں نے جس طرح ہماری جانیں بچائیں ان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ دہشت گرد ہوسکتے ہیں۔ آج تک ہم نے جن سے نفرت کی تھی، انھیں ہمارا ہاتھ تھاما. ہم آج کے بعد سے انہیں عزت کے نگاہ سے دیکھیں گے۔ سیاست دانوں کے جھانسوں میں نہیں آئیں گے اور ہندو مسلم کی تفریق نہیں کریں گے اور سوشیل میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف کچھ غلط سلط نہیں لکھیں گے۔ ایک اور غیر مسلم جوڑے موہن ، چترا نے اپنی بچی کا نام یونس رکھا ہے کیونکہ اس کی حاملہ بیوی کو یونس نامی ایک مسلم نوجوان نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بچایا تھا اور اسپتال میں داخل کروایا تھا۔ ایک اور غیر مسلم مرلی گنیشن نے مسلم نوجوانوں کی خدمات کو دیکھ کر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خدا کیلئے ایک اور بابری مسجدمت گراؤ تاکہ آفت کے دوران ہمیں مسجدوں میں ہی پناہ مل سکے ۔ مسلم تنظیموں کے کارکنا ن کے علاوہ تنظیموں کے لیڈروں نے بھی راحت رسانی کے کام میں کارکنان کی رہنمائی کی۔ اس کے علاوہ مسلم ڈاکٹروں کی ٹیم نے بھی متاثرین کیلئے مفت علاج فراہم کیا ۔ صورتحال یہ ہے کہ پدوچیری اور کڈلور میں ابھی تک مسلم تنظیمیں ہی راحت رسانی کے کام میں لگی ہوئی ہیں۔
مسلم خیر سگالی کا ایک اور ثبوت :
شمالی ہند میں ہندوؤں کے بائکاٹ پر مسلمانوں نے ایک دلت کی آخری رسومات کا نہ صتف انتظام کیا بلکہ ارتھی کو کاندھا دیکر شمشان میں انتم سنسکار کیا. یو پی کئ سہارنپور میں گزشتہ جمعہ کو بے هٹ کے هلال پور گاؤں میں مسلم سماج کے لوگوں نے منافرت کے ماحول کو نظر انداز کرتے ہوئے منفرد مثال پیش کی ہے.
دراصل انتخابات میں دوسرے فرقے کے شخص کو ووٹ دینے کی وجہ سے دلت خاندان کے سربراہ کی موت پر آخری رسومات میں ہندو سماج کے لوگوں نے شامل ہونے سے دامن بچا لیا تھا. اس کے بعد مسلم سماج کے لوگ آگے آئے. ارتھی کو باقاعدہ کندھا دے کر ہندو رسم و رواج کے تحت آخری رسومات ادا کروائیں . دراصل مظفر آباد کی گرام پنچایت ديالپر میں سینی برادری کے دیپک کمار اور مسلم کمیونٹی کی تیلی برادری کے سعید احمد پردھانی کے انتخابات میں آمنے سامنے تھے. انتخابات میں سعید کیساتھ دلت رامديا کا خاندان کھل کر حمایت میں تھا. خاندان کا الزام ہے کہ انتخابات کے وقت ہندو سماج کے لوگوں نے اس دھمکی دی تھی کہ ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا. اگر ان کے خاندان میں کسی کی موت ہوتی ہے تو مسلم کمیونٹی کے لوگ ہی اس ارتھی اٹھا کر لے جائیں گے. جمعرات کی رات 70سالہ رامديا کی بیماری کی وجہ سے موت ہو گئی. کہا جاتا ہے کہ ہندو سماج کے لوگ محض تسلی دینے کیلئے بھی اس گھر تک نہیں پہنچے. میت کے بیٹے راجندر نے بتایا کہ جمعہ کی صبح لاش کی آخری رسومات ادا کی جانی تھیں . اس میں بھی ہندوؤں میں سے کوئی شامل نہیں ہوا. اطلاع ملتے ہی مسلم کمیونٹی کے لوگ اس کے گھر پہنچے. تب باپ کے آخری رسومات کے لئے لکڑی اور دیگر اشیاء مہیا کروائیں . ارتھی کو کندھا دیا اور شمشان لے جاکر آخری رسومات ادا کروائیں.
احتیاط کا چھوڑیں نہ دامن :
اس کے باوجود بے فکر ہونا مناسب نہیں ہے. بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق کو جانیں جو ہمیں ہندوستان کے آئین نے دئیے ہیں کیونکہ ہم اس ملک میں کرایہ دار نہیں ہے اس ملک کی ایک ایک انچ زمین پر ہمارا بھی برابر کا حق ہے. اگر کوئی بھی شخص آپ سے برا سلوک کرتا ہے یا آپ سے مسلم ہونے کی وجہ سے مار پیٹ یا گالی گلوج کرتا ہے تو آپ خاموش نہ بیٹھیں کیونکہ آپ کی یہی خاموشی شرپسندوں کے حوصلوں کو بلند کرتی ہے.
آپ کو ایک عزت دار شہری ہونے کا فرض نبھائے اور ایسے ملک کے دشمنوں کیخلاف شکایت درج كروائیں :
1. آل انڈیا مسلم پرسنل لا آف بورڈ یعنی AIMPLB ایک ایسی تنظیم ہے جو کئی برسوں سے مسلمانوں کے حقوق کیلئے کام کر رہی ہے.
جب بیرسٹر اسدالدين اویسی لندن سے وکالت کی تعلیم لے کر ہندوستان آئے تو مسلمانوں کے کمزور حالات اور ان کے ساتھ ہو رہی نا انصافی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کے کچھ مشہور مسلم وکلاء اور سماجی رضاکاروں کو ساتھ لے کر اس ادارے کا قیام کیا.
اگر کسی مسلمان بھائی کو کوئی بھی پریشانی ہو تو آپ اس ادارے میں كال کر سکتے ہیں جہاں سے آپ کو مکمل مفت قانونی مدد ملے گی اور وکیل بھی مہیا کروائے جائیں گے.
AIMPLB (Delhi)
Contact: 91-11-26322991
Fax: 91-11-26314784
Email: aimplboard@gmail.com
2. اگر کوئی مسلم بھائی کسی ہندو مندر، دھرم شالہ، گوشالا یا يوگشالا میں کام کرتا ہے یا ان کے ارد گرد اپنا دھندہ کرتا ہے تو اسے ان جگہوں کے اندر اندر جانے کی مکمل آزادی ہے.
اگر مسلم نوجوان نودرگا میں منعقد گربا فیسٹیول جیسے واقعات پر جانا چاہتا ہے تو اسے ہندوستان کا قانون مکمل آزادی دیتا ہے چاہے وہ ڈیکوریٹر، بجلی ملازم، موسیقی آرٹسٹ ہو یا صرف پروگرام کو دیکھنے گیا ہو.
اگر کسی مسلم بھائی پر زبردستی روک لگائی جاتی ہے یا کوئی RSS، BJP کے کارکن کی طرف سے برا سلوک کیا جاتا ہے تو، آپ کو حکومت ہند کی ہیلپ لائین نمبر پر فون کر کے اپنی كمپلینٹ درج کروا سکتے ہیں.
خدمت (Delhi)
اقلیتی ہیلپ لائن
1800112001 (toll free)
09002354354
3. اور بھی کئی مسلم ادارے ہیں جن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے:
CAVE (A. R. Agwan)
011-29946037
9911526380
MCED (Gaffar sheikh)
0240-2321223 / 24
09422206541
Muslim Yuva Manch
(Wasim Irfani)
01477-220137
Maulanan Foundation
(Shakaib Akhtar)
+919837486161
مسلم وقف بورڈ:
Andhra Pradesh
(M.J. Akbar)
09440810006
040-66106248
Assam
(Nakibur Jaman)
09864021968
0361-2235285
Bihar
(Syed Sharim Ali)
07z739323777
0612-2230581
Gujarat
(A.I. Sayed)
09909908299
079-23235467
Madhya Pradesh
(Shokat Mohammed Khan)
09425004331
0755-2543175
Utter Pradesh
(Zafar Ahmed faruqui)
09455557777
0522-2239378
Delhi
(S. M. Ali)
09650131666
011-23274417
جے ہند
جے بھارت
No comments:
Post a Comment