ایس اے ساگر
دور حاضر کی فیشن پرست خواتین اپنی بھنویں باریک کرنے کے فراق میں آخرت کو برباد کرنے پر تلی ہیں. انھیں کون سمجھائے کہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ جسم میں سرمہ یا نیل بھروائیں، ابرو کے بال اکھیڑیں یا دانتوں کو تراشوائیں۔ مسلم شريف میں وارد ہے کہ ایسی عورتوں پر لعنت ہو جو گدواتی ہیں، جو بھنویں Eye Brow اکھیڑتی اور اکھڑواتی ہیں اور دانتوں کو گھِسوا کر خوبصورت بناتی ہیں۔
لعنت کا سبب :
ايسا كرنا كسى بھی حالت ميں جائز نہیں ہے ۔ يہ تنمص ( بال نوچنا) ہے ۔ اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے بال نوچنے والى اور ايسا مطالبہ كرنے والى دونوں پر لعنت فرمائى ہے ۔ اور لعنت اس فعل كے حرام ہونے كى دليل ہے ۔ اس ميں كوئى شک نہیں كہ مخلوق كا حسن وہی ہے جس پر اس كى تخليق ہوئی ۔ ابرو كے یہ بال انسانى چہرے كى خوبصورتى كیلئے بنائے گئے ہیں جو كہ دھول، مٹی، گرد و غبار وغيرہ سے اس كى آنکھوں كى حفاظت كا باعث ہیں، لہذا ان كا اکھیڑنا اور باریک كرنا، خلق اللہ كو تبديل كرنا ہے جو كہ ناجائز ہے ۔
سنبھلنے کی ضرورت :
مولانا نجیب قاسمی سنبھلی کے بقول شرعی اعتبار سے انسان کے بدن پر بالوں کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں۔
۱) وہ بال جن کا کاٹنا ناجائز ہے مثلاً مرد کیلئے ایک مشت سے کم داڑھی کے بال کاٹنا یا کٹوانا اور مردوعورت دونوں کیلئے اپنی بھویں Eyebrow کاٹنا یا کٹوانا۔
۲) وہ بال جن کا کاٹناشریعت میں مطلوب ہے، مثلاً زیر ناف اور بغل کے بال۔
۳) وہ بال جن کے کاٹنے یانہ کاٹنے کے متعلق شریعت اسلامیہ میں کوئی تعلیمات موجود نہیں ہیں، مثلاً سینہ، بازو اور ٹانگ وغیرہ کے بال۔ بالوں کی تیسری قسم کے متعلق علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ ان بالوں کو ان کی اصل ہئیت پر چھوڑدیا جائے تو بہتر ہے۔
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ان دنوں خواتین محض فیشن کی غرض سے اپنی بھنویں مختلف اسٹائل میں کاٹتی ہیں یا مخصوص دوکان پر جاکر بال اکھڑواتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ مردوعورت دونوں کیلئے بھنویں کا ٹنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک یا دو بال زیادہ بڑھ جائیں تو ان کو کاٹنے کی گنجائش ہے۔ بخاری ومسلم وحدیث کی تقریباً تمام کتابوں میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھنویں کاٹنے والی اور کٹوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے:
لَعَنَ اللّٰہُ النَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصاتِ
احادیث کی بناء پر ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کے محدثین ومفسرین و فقہاء وعلماء نے یہی فرمایا ہے کہ بھویں کاٹنا جائز نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تعلیمات کی بناء پر موجودہ زمانہ کے بھی تمام مکاتب فکر کے علماء نے یہی فرمایا ہے کہ مختلف انداز میں عورتوں کا بھنویں بنانا جائز نہیں ہے۔ یہ حق بات عصر حاضر میں خواتین کیلئے کافی گراں گزرتی ہے، مگر ہمیں حق بات کہنے میں ہچکچانا نہیں چاہئے۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتب فکر کے دارالافتاء نے فیشن کیلئے مختلف اسٹائل میں بھنویں کاٹنے کے جواز کا فیصلہ نہیں صادر کیا ہے۔
اس لئے میں خواتین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مختلف اسٹائل میں بھویں نہ بنائیں کیونکہ صحابیات اور دیگر نیک عورتیں آپ کیلئے نمونہ ہیں نہ کہ موجودہ زمانے کی بے حیا عورتیں، شریعت اسلامیہ کی تعلیمات ہمارے لئے سب سے مقدم ہونی چاہئیں۔ نیز اللہ کی لعنت کیساتھ کوئی بھی شخص جنت میں کیسے داخل ہوسکتا ہے؟ یقیناًاسے اپنے گناہ کی سزا بھگتنی ہی ہوگی۔
بعض ڈاکٹروں نے تحریر کیا ہے کہ بھوئیں کاٹنے سے Chest Cancer کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام؟
اس سلسلہ میں جامعہ بنوری ٹاؤن ،جامعہ علوم اسلامیہ کے دارالافتاء کا موقف قابل غور ہے،
مرد عورت دونوں کیلئے بھنووں کے بال بنانے کا کیا حکم ہے؟
اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ بھنووں کے بال اگر بڑھے اور پھیلے ہوئے ہوں اور بدنما لگتے ہوں تو ان کو درست کرکے عام حالت کے مطابق کردینا جائز ہے، البتہ تزئین کیلئے اکھاڑ کر باریک دھار بنانا جائز نہیں، مرد وعورت دونوں کا یہی حکم ہے.
عورت کیلئے چہرہ وجسم کے زائد بال کاٹنے اور آبرو بنانے کا حکم
سوال : ایک پردہ دار عورت جس کے جسم اور چہرے پر بهت زیادہ بال ہوں اپنے شوہر کیلئے ان زائد بالوں کو کسی کریم یا دوا کے ذریعے ہٹا سکتی ہے؟کیا اس کیلئے ابرو بنانا جائز ہے؟کیا شوہر کیلئے کسی عورت سے بال کٹواسکتی ہے؟
جواب : عورت شرعی حدود میں رہتے ہوئے شوہر کیلئے زیب وزینت اختیار کرسکتی یے، لیکن زینت اختیار کرکے اجنبی مردوں کے سامنے آنا جائز نہیں، سوال میں پوچهے گئے مسائل کا حکم یہ ہے کہ دوا یا کریم وغیرہ کے ذریعے چہرے اور جسم کے زائد بالوں کو ہٹانے میں کوئی حرج نہیں، آج کل کے فیشن کے مطابق مختلف ڈیزائنوں کیساتھ ابروئیں بنانا تو شرعا ناجائز ہے، البتہ جو زائد بال بدنما لگ رہے ہوں ان کو صاف کرکے نارمل حالت پر لانے کی اجازت ہے، اسی طرح عورت کیلئے سر کے بال کاٹنا جائز نہیں، لیکن کوئی بیماری لاحق ہوجائے یا بالوں کے دو سرے ہوجائیں تو گنجائش ہے، نیز عمومی طور پر ماحول کی خرابی کہ بنا پر ان کاموں کے لئے بیوٹی پارلر جانے کی اجازت نہیں، واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment