ایس اے ساگر
دہلی کے وزیر اعلی نے ایک دن طاق عدد اور دوسرے دن جفت عدد نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو سڑک پر آنے کا منصوبہ کیاپیش کیا کہ تنازع کھڑا ہوگیا۔کیجری وال کیلئے یہ اطلاع کتنی اہم ہے کہ تیل کے شدید بحران کے پیش نظر 1994 کے دوران اسپین کے ٹولیڈوToledo میں منعقد ایک بین الاقوامی کانفرنس میں تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس کانفرنس میںعالمی سطح پر کار فری ڈے یعنی کار سے نجات منانے والے دن کی روایت شروع کرنے کی وکالت کی گئی تھی۔ اس کیلئے بائیس ستمبر کا دن بھی طے کیا گیا اور اس کے اگلے سال یعنی 1995 تک ریکجاوReykjavík(آئس لینڈ)، باتھ (برطانیہ) اور لا رچےل (فرانس) میں غیر رسمی طور پر یہ دن منایا بھی گیا۔ اسی سال یوم عالمی کار نجات دن منعقد بھی کیا گیا، لیکن اپنی سطح پر قومی مہم چلانے والا برطانیہ ایسا پہلا ملک تھا جس نے غیر رسمی طور پر 1997 کے دوران اپنے یہاں’کار فری ڈے‘ شروع کردیا اور اس کے بعد فرانس نے بھی 1998 کے دوران’ان ٹاو ¿ن، ودآوٹ مائی کار ‘نعرے کیساتھ کار فری ڈے منعقد کیا۔اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ تیل کے بحران سے شروع ہونے والی یہ تحریک ایک دن فضائی آلودگی سے نجات کا ذریعہ بھی ثابت ہوگی۔ آج نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ مرکزی دارالحکومت دہلی میں کاروں کی کثیر تعداد نے انتظامیہ کی چولیں ہلادی ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ روڈ ٹیکس وصول کرتے وقت اور گاڑیوں کو لائسنس جاری کرنے سے قبل حکومت کو ادراک نہ تھا کہ فضائی آلودگی میں اضافہ خطرہ کی کس حد کو پار کر چکا ہے۔
عالمی برادری کو کیا نظر انداز!
یہ الگ بات ہے کہ دنیا بھر کے سروے کہتے رہے ہیں کہ دہلی میں پائی جانے والی فضائی آلودگی کا معیار خوفناک بن چکا ہے۔ ہوش تو اس وقت آیا جب ہندوستان میں ہوا کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ سے عوام کا غصہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ تارکین وطن ناروے سے موصول ہونے والی ان اطلاعات پر تشویش میں مبتلا ہیں جن میں دہلی کی فضائی آلودگی کی درجہ بندی کو ایک ’مصیبت‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان اطلاعات میں یہ بھی کہا گیا کہ دہلی کی فضائی آلودگی کی وجہ سے وہاں موجود ایک بین الاقوامی اسکول نے باہر کی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ہے۔ حتی کہ ملک کی ایک عدالت نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ دہلی فضائی آلودگی کی وجہ سے ’گیس چیمبر‘ بن چکا ہے۔Mazeed Mutaaley Ke liye Click Karey<http://sasagarurdutahzeeb.blogspot.in/2015/12/odd-even-scheme.html>
Tuesday, 8 December 2015
مرے دکھ کی دوا کرے کو ئی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment