Thursday 10 December 2015

ادیبوں کے لطیفے

(1) پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ ”سنگھا” تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا:آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ دیجیے۔
(2) ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں وہ یہی ذات شریف ہیں۔لیکن یہ چہرے سے جتنے بے وقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔شوکت تھانوی نے فوراً کہا: جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔ یہ جتنے بے وقوف ہیں، چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔
پطرس بخاری
(1) کرنل مجید نے ایک دفعہ پطرس بخاری سے کہا: اگر آپ اپنے مضامین کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔پطرس نے جواب دیا: اور اگر آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام کلام مجید رکھیں۔
مولانا محمد علی جوہر
(1) مولانا محمد علی جوہر رام پور کے رہنے والے تھے۔ ایک دفعہ سیتا پور گئے تو کھانے کے بعد میزبانوں نے پوچھا کہ آپ میٹھا تو نہیں کھائیں گے؟ کیونکہ مولانا شوگر کے مریض تھے۔مولانا بولے: بھئی کیوں نہیں لوں گا؟ میرے سسرال کا کھانا ہے کیسے انکار کروں؟یہ سن کر سب لوگ حیران ہوئے اور پوچھا کہ سیتا پور میں آپ کے سسرال کیسے ہوئے ؟تو مولانا بولے: سیدھی سی بات ہے کہ میں رام پور کا رہنے والا ہوں۔ ظاہر ہے سیتا پور میرا سسرال ہوا۔
(2) مولانا محمد علی جوہر، مولانا ذوالفقار علی خاں گوہر، اور شوکت علی تین بھائی تھے۔ شوکت صاحب منجھلے تھے۔ انہوں نے 52 . 54سال کی عمر میں ایک اطالوی خاتون سے شادی کر لی۔ اخبار نویس نے اور سوالات کرنے کے بعد مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ آپ کے بڑے بھائی گوہر ہیں اور آپ کے چھوٹے بھائی جوہر،آپ کا کیا تخلص ہے تو فوراً بولے: شوہر۔
انشاء الله خان انشاء
(1) جرات نابینا تھے۔ایک روز بیٹھے فکرِ سخن کر رہے تھے کہ انشاء آ گئے۔ انہیں محو پایا تو پوچھا حضرت کس سوچ میں ہیں؟ جرات نے کہا : کچھ نہیں۔ بس ایک مصرع ہوا ہے۔ شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔ انشاء نے عرض کیا : کچھ ہمیں بھی پتا چلے۔
جرات نے کہا: نہیں۔ تم گرہ لگا کر مصرع مجھ سے چھین لو گے۔ آخر بڑے اصرار کے بعد جرات نے بتایا۔ مصرع تھا:
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
انشاء نے فوراً گرہ لگائی:
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جرات لاٹھی اٹھا کر انشا کی طرف لپکے۔ دیر تک انشاء آگے اور پیچھے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے.

شوکت تھانوی

No comments:

Post a Comment