Sunday, 20 December 2015

مدلل اور منہ توڑ جواب

ایس اے ساگر

یہ امر اب مخفی نہیں رہ گیا ہے کہ امت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو عیسائیوں کے کرسمس کے طرز پر نہ صرف میلاد منانے پر مصر ہے بلکہ ایسے دلائل بھی پیش کررہا ہے. امت کو مغالطے سے نکالنے کیلئے مولاناساجد خان صاحب نقشبندی نے دلائل پیش کئے ہیں. ملاحظہ فرمائیے :

دلیل:قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذالک فلیفرحوا(یونس ۔آیت ۵۸)
اس آیت میں اللہ کی رحمت اور فضل پر خوش ہونے کا کہا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑا فضل و رحمت رب کی طرف سے اور کیا ہوسکتا ہے؟
جواب: مولنا یہ آیت تم پر نازل ہوئی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر؟ اس آیت کے اولین مخاطب تم ہو یا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین؟اگر اس آیت سے ہر سال ۱۲ ربیع الاول کو رنڈیاں نچانا میلاد کرنا جھنڈیاں لگانا جلوس نکالنا او رمیلاد نہ کرنے والوں کو کافر وہابی گستاخ کہنا نبی اور ان کے صحابہ نے سمجھا ہو(معاذ اللہ) تو پیش کرو ورنہ تفسیر کے نام پر تحریف نہ کرو۔
(۲)قرآن میں آتاہے فانقلبوا بنعمۃ من اللہ و فضل لم یمسسھم سوء (آل عمران آیت۷۴)
رب صحابہ کو کہہ رہا ہے کہ اس کے فضل و نعمت کے ساتھ جہاد سے لوٹے تو بتاؤ کیا صحابہؓ نے بھی اس نعمت و فضل کی خوشی اسی طرح ہر سال منائی جس طرح تم مناتے ہو؟
(۳) تمہارا صدر الافاضل سور ہ یونس کی آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ:
’’فرح کسی پیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اسکو فرح کہتے ہیں معنی یہ ہے کہ ایمان والوں کو اللہ کے فضل و رحمت پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں مواعظ اور شفاء صدور اور ایمان کے ساتھ دل کی راحت و سکون عطا فرمائے حضرت ابن عباس و حسن و قتادہ نے کہ اللہ کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے ایک قول یہ ہے کہ فضل اللہ سے قرآن اور رحمت سے احادیث مراد ہیں‘‘۔
(خزائن العرفان ۔ص:۲۵۶ناشر المجدد احمد رضا اکیڈمی ملنے کا پتہ دارالعلوم امجدیہ کراچی)
اس تفسیر سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ خوش ہونا دل کا معاملہ ہے نہ کہ جھنڈیاں لگانا جلوس کرنا بھنگڑے ڈالنا کیک کاٹنا،نیز اس آیت سے میلاد کی خوشی نہیں بلکہ مواعظ حسنہ کی خوشی کرنا معلوم ہوئی نیز یہاں فضل و رحمت سے مراد اسلام اور قرآن مراد ہے تو جو چیز آیت سے ثابت ہے اس پر خوشی کبھی زندگی میں نہیں کی اور جس کا آیت میں دور دور تک ذکر نہیں اس کی نام نہاد خوشی پر پورے ملک میں فساد مچایا ہواہے۔
دلیل:واما بنعمۃ ربک فحدث (الضحی ۔آیت ۱۱)
اپنے رب کی نعمتوں کا چرچا کرو۔اس آیت میں رب تعالی اپنی نعمتوں کا چرچا کرنے کا حکم فرمارہے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نعمت رب کی اور کیا ہوسکتی ہے اس لئے ہم میلا د کرتے ہیں۔
جواب: مولوی صاحب خدا کا خوف کرو ترجمہ میں تحریف نہ کرو ’حدث‘ واحد کا صیغہ ہے اور تم ترجمہ ’’کرو‘‘ جمع کاکررہے ہو۔اس آیت میں تو کہیں بھی دور دور تک ۱۲ ربیع الاول کو ہر سال جشن کرنے کا ذکر نہیں۔نیز اس آیت میں حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جارہا ہے تو بتاؤ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۲ ربیع الاول کو اسی طرح چرچا کیا تھا جس طرح تم کرتے ہو یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت پر عمل نہیں کیا وہ تو معاذ اللہ آیت کا مطلب نہیں سمجھ سکے اور تمہیں سمجھ آگئی۔نیز کیا صحابہؓ نے بھی آیت کا یہی مطلب بیان کیا جو تم کررہے ہو؟
(۲)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعمت ہونے کا انکار نہیں لیکن اگر اس آیت سے نعمت پر جشن کرنا بھنگڑے ڈالنا معلوم ہورہا ہے تو اللہ فرماتا ہے
و ان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا
(ابراہیم آیت ۳۴)
اگر تم رب کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کرسکو گے معلوم ہوا کہ رب کی نعمتیں لا تعداد ہیں پھر تو انسان کو اپنی زندگی کا ہر پل ہر گھڑی جشن جھنڈیوں جلوسوں روڈوں کو بلاک کرنے میں گزاردینا چاہئے ان تمام نعمتوں پر جشن نہ کرنا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ تم رب کی نعمتوں کے منکر ہو اسی لئے تو مشرک ہو۔
(۳) تمہارے مسلک کا مستند ترین مولوی غلام رسول سعیدی صاحب امام رازی رحم اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نعمت کے بیان کا حکم دیا گیا ہے ؟۔۔مجاہد نے کہا اس نعمت سے مراد قرآن ہے کیونکہ اللہ تعالی نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جوسب سے عظیم نعمت عطا فرمائی ہے وہ قرآن ہے ‘‘۔
(تبیان القرآن ج۱۲ ص ۸۳۶)
لو جی جس نعمت کا چرچا کرنے کا رب نے خود نبی کو حکم دیا اس پر جشن تو کیا تم کو پڑھنے کی توفیق نہیں اور جس بات کا ذکر دور دور تک نہیں اس پر پورے ملک میں تم نے ہنگامہ بدتمیزی کھڑا کیا ہوا ہے۔
(۴)تمہارے صدر الافاضل خلیفہ رضاخان نعیم الدین مراد آبادی لکھتا ہے کہ :
’’نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائیں اور وہ بھی جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا ‘‘۔
(خزائن العرفان ص۷۰۹)
لو جی بات ہی ختم یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نعمت ہونے کا ذکر نہیں بلکہ ان نعمتوں کا ذکر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی گئی ہیں جیسے حوض کوثر شفاعت کبری لواء حمد وغیرہا مولوی غلام رسول سعیدی نے قریبا ایسی ۱۵ نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی گئی ہیں اور جن کے بیان کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے
(تبیان القرآن ج۱۲ ص ۸۳۷)
مگر تم ان میں سے کسی ایک نعمت کا چرچا اس طرح نہیں کرتے جس طرح میلاد کا اب بتاؤ کون اقراری وہابی اور گستاخ بنا؟غرض قرآن میں تحریف نہ کرو تمہارا خود ساختہ مطلب تو خود تمہارے اکابر کو مسلم نہیں۔
دلیل:وذکرھم بایام اللہ دیکھو قرآن میں اللہ فرمارہا ہے کہ دن مناو اس لئے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد والا دن مناتے ہیں۔
جواب: مولوی صاحب خدا کا خوف کرو ترجمہ میں تحریف نہ کرو۔تمہیں دیکھ کر تو یہودی بھی شرماجائیں۔پوری آیت اس طرح ہے:
ولقد ارسلنا موسی بآیتنا ان اخرج قومک من الظلمات الی النور و ذکرھم بایام اللہ ان فی ذالک لایت لکل صبار شکور
(سورہ ابراہیم آیت ۵)
اس آیت میں اللہ تعالی حضرت موسی علیہ السلام کو ایام اللہ کی تذکیر کاحکم فرمارہے ہیں تو بتاؤ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی طرح اپنا میلاد ہر سال مانایاجس طرح تم مناتے ہو؟اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو رب کے کلام میں تحریف سے باز آجاؤ۔
(۲) آیت میں تو ایام اللہ جمع ہے اور تم صرف ایک یوم مناتے ہو اگر آیت کا وہی مطلب لیا جائے جو تم کہہ رہے ہو تو اس طرح تو کم سے کم سال میں تین میلاد منانے چاہئیں تم صرف ایک کیوں مناتے ہو؟
(۳)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،تابعین ،مسلم بین الفریقین مفسرین رحم اللہ علیہم میں سے کسی ایک کا قول اس آیت کی تفسیر میں دکھا دو جس نے اس آیت سے ہر سال ۱۲ ربیع الاول کو جشن منانا جلوس نکالنا کیک کاٹنا ماڈلز بنانا اور دیگر خرافات کے جواز کو نقل کیا ہو او ر منہ مانگا انعام وصول کرو۔
(۴)عمدۃ المفسرین عماد الدین ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
’’موسی علیہ السلام ان(بنی اسرائیل) کو اللہ کی نعمتیں یاد دلاؤیعنی فرعون کے ظلم و قہر سے اللہ کا ان کو نجات دلانا،سمند ر کا ان کیلئے پھاڑ دینا ،ان پر بادل سے سایہ کیئے رکھنا ،آسمان سے ان کیلئے من و سلوی کا نزول اس کے علاوہ وہ دیگر نعمتیں جو بنی اسرائیل پر اللہ نے کی وہ سب ان کو یاد دلاؤ‘‘۔
(تفسیر ابن کثیر ج۴ص۴۷۸)
پس اگر اس آیت سے جشن منانا ثابت ہوتا ہے تو ان تمام چیزوں کا بھی جشن مناؤ جس کا حکم خود اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دے رہے ہیں۔
(۵) نیز ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد اس دن اس لئے کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے میلاد کا معنی پیدائش تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو میلاد منانے کا حکم رب اس وقت دے رہا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے؟ یہ میلاد تو نہ ہوا ؟
دلیل:واذ اخذ اللہ میثا ق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جائکم رسول مصدق لما معکم ۔۔الآیۃ (آل عمران ۔۸۱۔۸۲) دیکھو خود رب تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منارہا ہے تو ہم کیوں نہ منائیں؟
جواب: مولوی صاحب خدا کا خوف کرو ترجمہ میں تحریف نہ کرو۔اس آیت کو پڑھ کر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وہی مطلب سمجھا جو تم سمجھ رہے ہو ؟اس آیت کو پڑھ کر کیا صحابہ ہر سال اسی طرح جشن میلاد مناتے تھے؟اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ان کے صحابی رضی اللہ عنہ کا قول یا کسی مستند تفسیر کا حوالہ پیش کرو کہ اس آیت کا مطلب ان ہستیوں نے وہی بیان کیا ہے جو تم کررہے ہو۔
(۲) ضروری نہیں کہ جو کام اللہ کرے وہ ہم بھی کریں اللہ جسے چاہے زندگی دے جسے چاہے مو ت دے جس بستی کو چاہے برباد کردے تو کیا کل کو تم بھی لوگوں کو مارنا قتل و غارت گری کرناشروع کردو گے ؟یہ کہہ کر کہ اللہ بھی تو یہ سب کررہا ہے ہم تو سنت اللہ پر عمل کررہے ہیں ۔معاذ اللہ۔
(۳)قرآن میں یہ بھی تو آتا ہے :
و اذاخذ ربک من بنی آدم من ظھورھم و ذریتھم و اشھدھم علی انفسھم الست بربکم قالوا بلی
(اعراف ۔آیت ۱۷۲)
تو چاہئے کہ اس آیت کی رو سے تمام بنی آدم اور ان کی ذریت کا میلاد مناؤ۔
(۴) ایک طرف تو کہتے ہوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد ان کی پیدائش کی خوشی میں منارہے ہیں دوسری طرف آیت وہ پیش کررہے ہو جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش تو ذکر تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے یہ تو عالم ارواح کا ذکر ہورہا ہے پھر تو میلاد سے پہلے جشن عالم ارواح اور جشن میثاق مناؤ۔
(۵)کیا اللہ رب العزت جب میلاد منارہا تھا معاذ اللہ تو اسی طرح منایا تھا جس طرح تم نے منایا؟ کیا عالم ارواح میں سبز رنگ کی نعلین کے نقش والی جھنڈیاں لگائی گئیں؟ عالم ارواح کے تمام راستے بلاک کئے گئے ؟ وہاں جلوس نکالا گیا ، وہاں کے جلسے میں مخالفین کو منہ بھر کر گالیاں، سب و شتم کیا گیا؟کیک کاٹے گئے؟ ماڈلز لگائے گئے؟ہر سال اس میلاد کا اسی طرح اعادہ کیا جاتا ؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو تم یہ سب خرافات کیوں کرتے ہو؟ پھر جس طرح اللہ نے منایا اسی طرح مناؤ نا۔
دلیل:واذ اخذ اللہ میثا ق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جائکم رسول مصدق لما معکم ۔۔الآیۃ (آل عمران ۔۸۱۔۸۲) دیکھو خود رب تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منارہا ہے تو ہم کیوں نہ منائیں؟
جواب: مولوی صاحب خدا کا خوف کرو ترجمہ میں تحریف نہ کرو۔اس آیت کو پڑھ کر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وہی مطلب سمجھا جو تم سمجھ رہے ہو ؟اس آیت کو پڑھ کر کیا صحابہ ہر سال اسی طرح جشن میلاد مناتے تھے؟اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ان کے صحابی کا قول یا کسی مستند تفسیر کا حوالہ پیش کرو کہ اس آیت کا مطلب ان ہستیوں نے وہی بیان کیا ہے جو تم کررہے ہو۔
(۲) ضروری نہیں کہ جو کام اللہ کرے وہ ہم بھی کریں اللہ جسے چاہے زندگی دے جسے چاہے مو ت دے جس بستی کو چاہے برباد کردے تو کیا کل کو تم بھی لوگوں کو مارنا قتل و غارت گری کرناشروع کردو گے ؟یہ کہہ کر کہ اللہ بھی تو یہ سب کررہا ہے ہم تو سنت اللہ پر عمل کررہے ہیں ۔معاذ اللہ۔
(۳)قرآن میں یہ بھی تو آتا ہے :
و اذاخذ ربک من بنی آدم من ظھورھم و ذریتھم و اشھدھم علی انفسھم الست بربکم قالوا بلی
(اعراف ۔آیت ۱۷۲)
تو چاہئے کہ اس آیت کی رو سے تمام بنی آدم اور ان کی ذریت کا میلاد مناؤ۔
(۴) ایک طرف تو کہتے ہوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد ان کی پیدائش کی خوشی میں منارہے ہیں دوسری طرف آیت وہ پیش کررہے ہو جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش تو ذکر تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے یہ تو عالم ارواح کا ذکر ہورہا ہے پھر تو میلاد سے پہلے جشن عالم ارواح اور جشن میثاق مناؤ۔
(۵)کیا اللہ رب العزت جب میلاد منارہا تھا معاذ اللہ تو اسی طرح منایا تھا جس طرح تم نے منایا؟ کیا عالم ارواح میں سبز رنگ کی نعلین کے نقش والی جھنڈیاں لگائی گئیں؟ عالم ارواح کے تمام راستے بلاک کئے گئے ؟ وہاں جلوس نکالا گیا ، وہاں کے جلسے میں مخالفین کو منہ بھر کر گالیاں، سب و شتم کیا گیا؟کیک کاٹے گئے؟ ماڈلز لگائے گئے؟ہر سال اس میلاد کا اسی طرح اعادہ کیا جاتا ؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو تم یہ سب خرافات کیوں کرتے ہو؟ پھر جس طرح اللہ نے منایا اسی طرح مناؤ نا۔
دلیل:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرپیرکے دن کا روزہ رکھتے آپ سے پوچھا گیا کہ کیوں رکھتے ہیں تو فرمایا اس دن میں پیدا ہوا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا سو ہم بھی مناتے ہیں۔
جواب: مولوی صاحب خدا کا خوف کرو حدیث کے متن و مطلب میں تحریف نہ کرو۔پوری حدیث اس طرح ہے:
سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن صوم الاثنین فقال فیہ ولدت و فیہ انزل علی رواہ مسلم
(مشکوۃ ج۱ص۱۸۱)
اگر یہاں ولدت سے میلاد منانا ثابت ہوا تو
’’انزل علی ‘‘
سے نزول وحی کا جشن منانا بھی تو ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ فرمارہے ہیں کہ اس دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا اس لئے اس کے شکر میں روزہ رکھتا ہوں تو آپ ’’جشن عید نزول وحی‘‘ کیوں نہیں مناتے ؟ آدھی حدیث پر عمل آدھی کو ترک کرنا کیا کھلی منافقت نہیں؟۔
(۳)اس میں تو پیر کے دن کا ذکر ہے اور تم نے شائد ہی آج تک پیر کے دن جشن عید میلاد منایا ہوکیونکہ تمہارا میلاد پیر کو نہیں ۱۲ ربیع الاول کو ہوتا ہے اور اس دن اکثر پیر نہیں ہوتا۔نیز کسی شارح حدیث کا اس حدیث کی تشریح میں ہر سال ۱۲ ربیع الاول کو جشن ،جلوس،کیک منانے کا ثبوت پیش کرو۔
(۴) اگر اس حدیث سے میلاد منانا ثابت ہوتا ہے تو چاہئے کہ پھر ہر ماہ ہی کم سے کم ۳ ،۴ بار تو جشن میلاد منایا جائے کیونکہ اس میں پیر کے دن کا ذکر ہے اور پیر کا دن ہر ماہ میں کم سے کم تین چار بار تو آہی جاتا ہے تم اس سب میلادوں کو چھوڑ کر سال میں صرف ایک میلاد مناتے ہو توبتاو حقیقی میلاد کے تم منکر نہ ہوئے ؟جو نبی کے طریقے کوچھوڑ کر صرف ایک دن میلاد منائے وہ بھی اس تاریخ میں جس میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں منایا۔
(۵)نبی تو بقول تمہارے میلاد کی خوشی میں روزہ رکھے اور تم میلادیوں پیٹوؤں حرا م خوروں کو شیرینی اور کیک کھلاؤ ،کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیک کھا کر، روزہ توڑ کر میلاد منایاتھا؟
(۶) آ پ کہتے ہیں کہ عید میلاد مسلمانوں کی دو عیدوں سے بھی افضل و برتر ہے جو جب مفضول عیدین یعنی عید الفطر و عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں او راس دن کے روزے کو شیطان کا روزہ کہاگیا ہے تو ان عیدوں سے افضل عید پر روز ہ رکھنا کیسے جائز ہوا ؟ اب ہم تمہاری عید درست مانیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ؟
دلیل:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود منبر پر کھڑے ہوکر اپنا میلاد منایا اور ایک بار حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو منبر پر کھڑے ہوکر میلاد ماننے کا حکم دیا۔تو ہم کیوں میلاد نہ منائیں؟
جواب: پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ غیر مقلد ہیں یا مقلدحنفی؟ اگر غیر مقلد ہیں تو پہلے تو ان دونوں حدیثوں کی مکمل سند پڑھیں اور اس کی توثیق بیان کریں ۔اور اگر مقلد ہیں تو آپ کو یہ اجازت کس نے دی کہ بلا واسطہ خود احادیث سے مسائل کشید کرنے لگ جائیں؟کسی مجتہد کا قول اس حدیث کی شرح میں یا فقہ حنفی کا مفتی بہ فتوی دکھائیں کہ اس سے ۱۲ ربیع الاول کی موجودہ خرافات پر استدلال کیا گیا ہو۔
(۲) آپ کے مولوی عبد السمیع رامپوری لکھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے دور میں ربیع الاول میں میلاد نہیں منایا جاتا (انوار ساطعہ ص۲۶۷) لیجئے آپ کا جھوٹ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد مناتے خود آ پ کے گھر سے واضح ہوگیا۔
(۳)مولوی صاحب خدا کا خوف کرو حدیث میں تحریف نہ کرو۔پوری حدیث اس طرح ہے
عن العباس انہ جاء الی النبی فکانہ سمع شیئا فقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی المنبر فقال من انا؟ قالوا انت رسول اللہ ۔۔الخ
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ای من الطعن فی نسبہ او حسبہ
(مرقاۃ ج۱۰ص۴۳۷)
لیجئے منبر پر کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا حسب و نسب بیان کرنے کیلئے نہ تھا بلکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بعض کفار سے آپ کے بارے میں کچھ نازیبا کلما ت سنے جس کی شکایت لیکر آپ کے پاس آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ناگوار گذرا اور آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر اس کی وضاحت فرمائی۔
(۴)کیا یہ ۱۲ ربیع الاول کادن تھا کیا پھر جلوس نکلا ؟ شیرینی تقسیم ہوئی؟ جھنڈیاں لگیں ؟ اور پھر کیا ہر سال اسی طرح میلاد منایا جاتا؟
(۴)حضرت حسان رضی اللہ عنہ والی حدیث میں بھی دور دور تک ۱۲ ربیع الاول جلوس جھنڈیوں جشن میلاد کا ذکر نہیں نہ ہی ہر سال یہ مجلس اسی طرح لگتی اس سے تو صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجو میں جو شعر کہتے حضرت حسان رضی اللہ عنہ اس کا جواب دیتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پسند فرماتے اس کا کون کافر منکر ہے؟
دلیل:علامہ سیوطی ، شاہ ولی اللہ  ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحم اللہ علیہم اجمعین نے میلاد منانے کو جائز قرار دیا۔
جواب: پہلی بات تو یہ کہ ہم حنفی ہیں اس لئے سیوطی رحمہ اللہ کی بات ہمارے لئے حجت نہیں اگر آپ کو اس بات سے کوئی تکلیف ہوئی تو عرض کردیں انشاء اللہ آ پ ہی کے گھر سے ہم یہ اصول دکھادیں گے نیز کیا آپ کو سیوطی رحمہ اللہ کی تمام باتوں سے اتفاق ہے؟ اگر ہاں تو ہم زیادہ نہیں دو تین مسئلے دکھادیں گے جس کو آپ نہیں مانتے وہاں سیوطی رحمہ اللہ کی بات کیوں نہیں مانتے؟ نیز سیوطی رحمہ اللہ نے تو یہ بھی کہا کہ میلاد منانے پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں سارا قیاس ہی قیاس ہے تو سیوطی رحمہ اللہ کی اس بات کو کیوں نہیں مانتے؟ اور میلاد کو ثابت کرنے کیلئے قرآن وحدیث میں تحریف کیوں کرتے ہو؟
(۲) جہاں تک بات شاہ ولی اللہ محدث دہلو ی رحمہ اللہ کی ہے تو وہ تو آپ کے مذہب میں معاذاللہ کافر وہابی ہے اس کی بات کیسے معتبر؟ نیز یہ بھی جھوٹ ہے کہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے میلاد منانے کو جائز لکھا ہے بلکہ وہ تو فرمارہے ہیں کہ مکہ میں جو جگہ آپ کی جائے پیدائش تھی جب فقیر وہاں گیا تو لوگ وہاں درود و سلام پڑھ رہے تھے اور عجیب و غریب قسم کے انوار و فیوضات کا نزول ہورہا تھا (ملخصا فیوض الحرمین ص۸۰) آج کل یہاں ایک عالیشان حجرہ بناہوا ہے اور سعودی حکومت نے اس میں ایک عظیم لائبریری قائم کی ہوئی ہے، الحمد للہ آج بھی جانے پر ایک عجیب سی کیفیت مومن پر طاری ہوجاتی ہے اور واقعی فیوض و برکات کا نزول ہوتا ہے ۔اس سے کس کو انکار ہے ؟ کہاں ہر سال ۱۲ ربیع الاول کو جشن منانا جھنڈیاں لگانا رنڈیاں نچانا ڈھول دھمکا کرنا کیک کاٹنا سڑکیں بلاک کرنا، اہل سنت پر تبرا کرنا اور یہ سب خرافات نہ کرنے والوں کو کافر وہابی کہنا کہاں زیارت کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش پر جانا ؟
(۳)رہی بات شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی توآپ کے مستند ترین عالم دین غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
’’شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تمام تر علمی خدمات اور عظمتوں کے باوجود بشر اور انسان تھے۔ نبی اور رسول نہ تھے ۔ ان کی رائے میں خطا ہوسکتی ہے نیز اس کو ایک محدث کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے ان کو فقیہ نہیں مانا گیا نہ ان کی کسی کتاب کو کتب فتاوی میں شمار کیا گیا ہے.
(شرح مسلم ج۱ص۹۳۰۔۹۳۱)
لو جی بات ہی ختم شیخ بھی انسان ہیں ان سے بھی خطا ہوسکتی ہے نیز جب شیخ فقیہ ہی نہیں تو کسی فقہی معاملے میں ان کی کوئی بات حجت نہیں۔نیز آپ کے اعلی حضرت اور مسلک کے علماء نے کئی جگہ شیخ کی باتوں سے اختلا ف کیا تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو ’’راہ سنت شمارہ نمبر ۷ مضمون شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور مسلک اعلی حضرت پر ایک نظر‘‘۔
دلیل: تمہارے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے بھی میلاد منانا۔
جواب: جناب حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ صرف ہمارے نہیں بلکہ آپ کے عبد السمیع رامپوری اور پیر مہر علی شاہ کے بھی پیر ہیں اور آپ کے اکثر مولوی حاجی صاحب کا ادب و احترام کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ کیا حاجی صاحب نے اسی طرح میلاد منانے کا حکم دیا جس طرح تم مناتے ہو؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو ان سے استدلال کا فائدہ؟
(۲) حاجی صاحب کی جو عبارت آپ پیش کرتے ہو اس سے متصل یہ عبارت بھی تو ہے :
’’وہ یہ ہے کہ ہر گاہ مسئلہ اختلافی اور ہر فریق کے پاس دلائل شرعی بھی ہیں.‘‘
(فیصلہ ہفت مسئلہ مندرجہ کلیات امدایہ ص۸۰)
اس میں اول تو انہوں نے اسے اختلافی مسئلہ بتایا(یاد رہے کہ رضاخانیوں والے میلاد کی بات یہاں حاجی صاحب نہیں کررہے ہیں بلکہ ایسی مجلس کو جو بلا کسی تداعی کے منعقد کی جائے اور اس میں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلادکا ذکر ہوں) جبکہ آپ اسے اختلافی نہیں مانتے اور اس کا انکار کرنے والوں پر کفر کے فتوے برساتے ہیں ثانیا حاجی صاحب نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ جو منع کرتے ہیں ان کے پاس بھی اس پر دلائل ہیں تو جواب دیں کیاآپ اسے تسلیم کرتے ہیں؟
(۳)نیز حاجی صاحب نے اسی ہفت مسئلہ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ:
’’عزیزی جناب مولوی رشید احمدصاحب کے وجود بابرکت کو ہندوستان میں غنیمت کبری و نعمت عظمی سمجھ کر ان سے فیوض و برکات حاصل کریں کہ مولوی صاحب جامع کمالات ظاہر ی و باطنی ہیں اور ان کی تحقیقات محض للہیت کی راہ سے ہیں‘‘۔(فیصلہ ہفت مسئلہ مندرجہ کلیات امدادیہ ص۸۷)
جواب دیں کیا آپ حضرت حاجی صاحب کی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ؟ اگر نہیں تو جو تاویل آپ یہاں کریں ہم حاجی صاحب کے متعلق میلاد کے مسئلہ میں کردیں گے ۔نیز یہاں خود حاجی صاحب نے ہندوستان کے لوگوں کیلئے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے وجود کو نعمت عظمی قرار دیا اور ان سے استفادہ کی تلقین کی تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مروجہ میلاد کو بدعت کہا اور حضرت حاجی صاحب کی رائے کے متعلق کہا کہ ان کو تسامح ہوا ہے وہ اصل صورتحال سے پر واقف نہ ہوسکے۔
(۴) جناب حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ادب و احترام اپنی جگہ مگر غلام رسول سعیدی کا اصول یاد کرلیں حاجی صاحب نہ فقیہ ہیں نہ ان کی کسی کتاب کو فتاوی کی کتاب شمار کیا گیا ہے اس لئے فقہی معاملات میں ان کی رائے پر عمل نہیں کیا جائے گا رضاخان کے والد نقی علی خان لکھتا ہے کہ :
’’دلیل کتاب و سنت سے چاہئے نہ قول و فعل پیر سے ‘‘َ ۔
(انوار جمال مصطفی ص:۵۴۱)
تو آپ بھی قرآن وسنت سے دلیل پیش کریں جو یقیناًآپ کے پاس نہیں اور جو تھی ان کا منہ توڑ جواب ہوچکا ہے نہ کہ پیران صاحبان کے اقوال پیش کریں۔
ہمارے جلسے جلوس پر اعتراض
دلیل:تم بھی تو مختلف عنوانات سے جلسے جلوس کرتے ہو وہ بدعت نہیں اورہمارا میلاد کا جلسہ بدعت۔
جواب:مولانا پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کا اپنے جلسے کو ہمارے جلسوں پر قیاس کرنا صحیح نہیں اس لئے کہ آپ کے شیخ الحدیث عبد الرزاق بھترالوی لکھتا ہے کہ :
’’آجکل مختلف عنوانات سے ربیع الاول میں جلسے ہورہے ہیں ،کسی کا نام پیغمبر انقلاب کانفرنس ،کسی کا نام ذکر ولادت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس اور کسی کا نام سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا نام حسن قرات و حمدو نعت کانفرنس ۔۔۔راقم نے کبھی کسی عنوان پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ خیال یہ ہوتا ہے کہ میرے پیارے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا رہے خواہ کسی نام سے بھی ہوتا رہے۔
(میلادمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ص:۴مکتبہ امام احمد رضا)
معلوم ہوا کہ ہمارے جلسوں پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں اور آپ بھی اسے درست سمجھتے ہیں تو جب ہمارے جلسے متفق علیہ ہیں او ر آ پ کے نزدیک بھی جائزتو اس جائزکام پر کسی بدعت کو کس طرح قیاس کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک مروجہ جشن میلاد بدعت ہے۔
دوسری بات یہ کہ مطلق وعظ و نصیحت تعلیم و تعلم سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیلئے جلسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا اور متواتر چلاآرہا ہے جس کا انکار بدیہات کاانکار ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں کھڑے ہوکر وعظ و تذکیر کیا کرتے، دینی امور کی تعلیم دیتے، اداب و اخلاق سکھائے جاتے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سینکڑوں احادیث کامنقول ہونا ایسے جلسوں کی غمازی کرتا ہے، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بیان کیا اور آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جو ضخیم کتابیں ہیں یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہر دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مجمعوں میں بیان ہوتے حدیث کی کتابوں میں آپ کو یہ الفاظ مل جائیں گے ،
سمعت عمر علی منبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم  ۔۔۔سمعت عثمان بن عفان خطیبا علی منبر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
۔قام موسی النبی خطیبا فی بن اسرائیل
خود عبد الرزاق بھترالوی کہتا ہے کہ :
’’اس وقت جلسے دو قسم کے ہوتے تھے ایک وہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان ہوتے تھے وہ جلسہ اللہ نے منعقد فرمایا انبیا ء کرام نے آپ کے اوصاف بیان کئے صحابہ کرام نے آپ کے اوصاف کا تذکرہ کیا .
(میلاد مصطفی ص ۶)
لہٰذا اتنا تو ثابت ہے کہ مطلق جلسہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے، اب رہا ان کیلئے کوئی دن یا وقت طے کردینا تو دیکھیں ایک ہوتا ہے تعین شرعی اور ایک ہوتا ہے تعین عرفی شریعت سے دونوں ثابت ہیں مثلا تعین شرعی جیسے نماز کیلئے وقت حج کیلئے جگہ زکوۃ کا نصاب وغیرہا اور تعین عرفی بھی جائز ہے جسے کسی کام کیلئے کوئی وقت انسان کی سہولت کیلئے مقرر کردیا کہ جی فلا ں کا نکاح فلاں دن وقت میں ہوگا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت سے بھی ثابت ہے کہ جب ایک عورت آپ کے پاس آئیں اور گزارش کی کہ کچھ احادیث ہم سے بھی بیان ہوجائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا کہ فلاں وقت میں فلاں جگہ جمع ہوجانا۔۔
جاء ت امراۃ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت یا رسول اللہ ذھب الرجال بحدیثک فاجعل لنا من نفسک یوما ناتیک فیہ تعلمنا مما علمک اللہ تعالی فقال اجتمعن فی یوم کذا و کذا و فی مکان کذا و کذا فاجتمعن
(بخاری ج۲ص۱۰۸۷)
ظاہر ہے کہ یہ مکان و جگہ کی تعین عرفی ہی تھی کہ تاکہ وہاں جمع ہونے میں آسانی ہو مسئلہ تب بنتا ہے کہ جب ان دونوں تعینات کوان کے مقام سے ہٹادیا جائے یعنی تعین عرفی کو شرعی قرار دے دیا جائے کہ اگر فلاں وقت میں فلاں کام نہ ہوا تو تم وہابی گستاخ ہوجاؤ گے یا تعین شرعی کو معا ذ اللہ عرفی قرار دے دیا جائے ۔ہماراان جلسوں کیلئے وقت یا جگہ مقرر کردینا تعین عرفی کے طور پر ہے کہ لوگ اس تاریخ سے پہلے جلسے میں شرکت کیلئے تیاررہیں اور جگہ تک پہنچنے میں آسانی ہو ہم سے کسی نے آج تک ان تعینات کو شرعی درجہ قرار نہیں دیا اور اس میں ردو و بدل بھی ہوتا رہتا ہے اسی طرح ہم نے ان جلسوں کو کبھی ان کے مقام سے نہیں ہٹایا ان کا مقام ابھی بھی وہی تصور کیا جاتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یا بعدکے زمانوں میں ہوتا تھا مگر دوسری طرف جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کا ایک مستقل حصہ تسلیم کرلیا گیا ہے اس کیلئے ۱۲ ربیع الاول کے علاوہ کسی اور دن کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور کسی وجہ سے کسی وقت ان جلسوں جلوسوں کو بند کرنے کا کہہ دیا جائے تو قتل و قتال تک کی دھمکیاں دے دی جاتی ہیں خود رضاخانیوں نے اس بات اعتراف کیا ہے کہ ہمارے ہاں جمعہ کی نما ز کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی اس جشن کو پھر یہ جشن جن خرافات کا آج مجموعہ بن چکا ہے وہ اس پر متضاد تو کس طرح اس کا جائز قرار دے دیا جائے؟ فی الحال ہماری طرف سے اتنی تفصیل کافی ہے اگر چہ ہم کچھ اور بھی کہنے کا ارادہ کرتے ہیں اگر مخالفین کی طرف سے کوئی جواب آیا تو انشاء اللہ مزید وضاحت پیش کی جائے گی۔

No comments:

Post a Comment