ایس اے ساگر
ان دنوں نام نہاد جدید معاشرے میں متعدد خرابیاں در آئی ہیں. اللہ کا فضل ہے کہ اہل علم اس صورتحال سے غافل نہیں ہیں. اس سلسلے میں حضرت مولانا مفتی أبولبابہ صاحب دامت برکاتہم کی ایک اہم فکر انگیز تحریر نے امت کے اس طبقہ کو جھنجھوڑا ہے جو خود کو تعلیم یافتہ سمجھتا ہے. مفتی موصوف ایک محقق عالم ، نہایت سنجیدہ مصنف ، اور باکمال فقیہ ہیں . علوم ظاہرہ کیساتھ ساتھ باری تعالٰی نے سلوک واحسان میں بھی بلند مقام عطا فرمایا ہے . آپ شیخ کامل ، جامع شریعت وطریقت ، حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب دامت برکاتہم کے ممتاز خلفاء میں ہیں.
خطرناک غلطیاں :
مفتی ابو لبابہ شاہ منصور کے بقول فتنہ میں مبتلا ہونے کا ایک بڑا سبب جہالت ہے۔ جہالت سے بڑا سبب یہ ہے کہ انسان جہالت اور نادانی میں مبتلا ہو، لیکن خود کو عالم اور دانا سمجھتا ہو۔ سیانوں نے اسے ’جہل مرکب‘ کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ ’جو شخص جانتا نہ ہو، لیکن اسے زعم ہو کہ وہ جانتا ہے، اس کے متعلق اندیشہ ہے کہ ہمیشہ ’جہل مرکب‘ کی اندھیری وادی میں بھٹکتا رہے گا۔ دور حاضر کے جدید تعلیم یافتہ کہلائے جانے والے طبقے کی اس متضاد ذہنی کیفیت کی بنا پر بعض حضرات انہیں ’تعلیم یافتہ‘ کی بجائے ’تعلیم آفتہ‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے ماڈرن طبقے کی اس کیفیت سے مغرب کے دانش ور خوب فائدہ اُٹھارہے ہیں اور اپنی وادی جہالت کی جس گھاٹی میں چاہیں لڑھکائے پھرتے ہیں۔ راقم ذیل میں اس کی چند تازہ ترین مثالیں اور مظاہر پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ علم وہی ہے جو دونوں جہانوں میں کام آئے یا دوسرے لفظوں میں علم وہ معلومات ہیں جن کے ذریعے مخلوق خالق کو پہچان کر اس کے قریب ہوسکے، یا اسے اپنے قریب کرسکے۔
کسے کہتے ہیں جہل مرکب؟
اگر علم کے نام سے چلنے والا کوئی سلسلہ مرنے کے بعد شروع ہونے والی اصل زندگی میں کام نہیں آتا یا انسان اس کے ذریعے اپنے خالق و مالک کی پہچان اور اپنے مقصد حیات کا شعور حاصل نہیں کرسکتا تو وہ علم نہیں، جہل ہے اور سچ یہ ہے کہ ’جہل مرکب‘ ہے. مغرب کے فتنہ خانہ سے ڈھل کر نکلا ہوا ایک خطرناک لفظ بہت چل پڑا ہے اور مغربی معاشروں سے ہوتا ہوا ہمارے مغرب زدہ نوجوانوں میں آہستہ آہستہ مقبول ہورہا ہے۔ شرٹ کے سینے یا پشت پر ثبت یہ تازہ شہرت یافتہ لفظ YOLO یولو ہے۔ یہ ان چار الفاظ کا مخفف ہے: You Only Live Once یعنی ’زندگی صرف ایک مرتبہ ملتی ہے۔‘
آخرت کے انکار کی دعوت :
آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ آخرت کے انکار کی وہ دعوت ہے جو دین، مذہب اور اخلاقیات کے انکار کے علاوہ دنیا پرستی، عیش پرستی اور شہوت پرستی کی کھلی تشہیر ہے۔ اس کا دوسرا مطلب کھلی کھلی نفس پرستی اور شیطان پرستی کی دعوت ہے کہ اس حیات مستعار کے ہر لمحہ کو اللہ کی یاد سے قیمتی بنانے کی بجائے جتنا ہوسکے حیوانی لذتیں کشید کرو کہ یہ موقع پھر نہ ملے گا۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کی طرف فارسی کا یہ جملہ منسوب کیا جاتا ہے: ’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘
الحاد و لامذہبیت :
ہمارے ایک نومسلم دوست جو پہلے پادری تھے، بتاتے ہیں کہ ہماری نجی محفلوں میں پنجابی زبان کی یہ مثل بہت چلتی تھی:
’اے جہاں مٹھا، تے اگلا کیں ڈٹھا۔‘
یعنی مزے تو اس زندگی کے ہیں، اگلی زندگی کس نے دیکھی ہے؟) لیکن ان جملوں میں الحاد و لامذہبیت اور فتنہ انگیزی کی وہ شیطانی تاثیر کہاں جو انگریزی کے اس جملے میں ہے جس کے متعلق اس عاجز نے عرض کیا کہ اسے ان فتنہ پرداز ذہنوں نے ایجاد کیا ہے جو آج کے بدقسمت مادّیت پرست انسان کو سرے سے لامذہب، دہریہ اور وادی اسفل السافلین کا باسی بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان اپنی لاعلمی کے سبب اس لفظ کو دھڑا دھڑ سینے پر سجارہے ہیں یا اس کا اشتہار پشت پر لٹکارہے ہیں، جبکہ یہ کھلی گمراہی کی دعوت ہے۔
بہت بڑی حماقت :
زندگی تو حقیقت میں وہی ہے جو اس فانی اور عارضی زندگی کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوگی: ’The Real Life is the Afterlife‘
یہ بہت بڑی حماقت ہوگی کہ انسان نے اپنی جہالت کے سبب عملاً تو اسی دنیاوی زندگی کو مقصد بنایا ہی تھا، اب وہ جہالت مرکبہ کی بدولت نظریاتی طور پر بھی یہ سمجھنا شروع کردے کہ حیاتِ فانی ہی حیات جاوداں ہے۔ اگر ٹوپی یا بنیان پر کچھ لکھنا ہی ہے تو الحاد پر مشتمل جملوں کے بجائے اس جیسے جملے کی تشہیر بحیثیت مسلمان ہمارے منصب سے سجتی ہے جو دو سطر پہلے لکھا گیا ہے۔
کس کے ہاتھ میں ہے سلامتی؟
ایک اور مثال لیجئے :
آج کل فیشن بن گیا ہے کہ رخصت ہوتے وقت کہا جاتا ہے، ٹیک کئیر Take Care یعنی اپنا خیال رکھئے گا۔ یہ کیسی حماقت آمیز روایت چل پڑی ہے۔ انسان کی حقیقت ہی کیا ہے کہ وہ اپنا خیال رکھ سکے۔ انسان کی ہر لمحے حفاظت کرنے والا اور اس پر اپنی رحمت کا سایہ رکھنے والا تو وہ وحدہٗ لاشریک ربّ العالمین ہے جس نے ذریعے کے طور پر اپنی مخلوق کی حفاظت کے لیے رحمت کے فرشتے اور تکوینی کارندے مقرر کر رکھے ہیں۔ اس لیے ہمارے یپارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا تھا کہ ملاقات اور رخصتی کے وقت کہا کرو:
’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
یعنی ’تم پر سلامتی ہو، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔‘
رحمت کی ضرورت :
اس میں تین جملے یا تین حصے تھے:
’پہلا یہ کہ تمہیں اللہ تعالیٰ اپنے خاص حفظ و ایمان میں رکھے۔ دوسرے لفظوں میں:
’اللہ تمہارا خیال رکھے‘ اور تمہیں ہر طرح کے شرّ و فتنے اور مصیبت و آفت سے بچائے۔ دوسرا یہ کہ تمہیں ہر طرح کی مصیبت سے محفوظ رکھنے کیساتھ تم پر اپنی رحمت نازل کرے اور اپنی رحمت کے صدقے ہر طرح کی مصیبت سے محفوظ رکھنے کے ساتھ تم پر اپنی رحمت نازل کرے اور اپنی رحمت کے صدقے تمہاری جائز خواہشات پوری کرے اور نیک مقاصد میں کامیابی عطا کرے۔ تیسرے حصے یا جملے کا مطلب یہ تھا کہ تمہیں ہر طرح کی مصیبت سے بچائے اور تم پر اپنی رحمت نچھاور کرکے تمہاری ضروریات پوری کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی برکتیں نازل کرے یعنی جو کچھ دینی اور دنیوی، ظاہری اور باطنی نعمتیں تمہیں عطا کی ہیں، ان میں اضافہ ہی اضافہ کرے۔ برکت کا معنی اَن دیکھا اضافہ اور نظر نہ آنے والی بڑھوتری ہے۔
سلامتی، رحمت، برکت :
آپ ملاحظہ فرمائیے کہ سلامت، رحمت، برکت سبھی کچھ تو مل گیا، اس جیسے جامع الفاظ، دین و دنیا کے حوالہ سے لاثانی دعا، مختصر ترین اور زبان پر چڑھنے والے مثالی کلمات دنیا کے کسی مذہب اور کسی قوم کے رواج میں نہ ہوں گے۔ ہیلو ہائے اور ہائے ہائے جیسے سطحی اور بے معنی الفاظ اس کو کہاں پہنچ سکتے ہیں؟ مگر ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ پہلے تو
’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
جیسے بابرکت دعائیہ الفاظ سے ’اللہ حافظ، اللہ نگہبان‘ تک آئے۔ یہاں تک تو پھر بھی غنیمت تھی، مسنون الفاظ چھٹ گئے تھے، بے معنی اور احمقانہ کلمات نے تو سلام کی جگہ نہ لی تھی، مگر اب تو حد ہوگئی ہے کہ قدرت والے خدا سے خیال رکھنے کی دعا کے بجائے عاجز انسان کو خود اپنا خیال رکھنے کا کہا جارہا ہے۔ نہ یہ دعا ہے، نہ ہی اس کے پیچھے کوئی بامعنی بات ہے نہ روحانی نظریہ نہ معقول رویہ۔ بس لاعلمی اور غیروں کی نقالی ہے جو ہماری تہذیب، روایت اور ہماری صبح شام کو بدلے جارہی ہے۔
سنتوں سے بڑھتی ہوئی دوری :
ہمیں مسنون سلام کو قصداً اور عمداً پھیلانا چاہئے اور مختلف کمپنیوں کو جو اس غیرمسنون اور بے معنی جملے کو رواج دے رہی ہیں، خطوط لکھ کر بھیجنے چاہئیں کہ بلاوجہ سنت کے مٹانے اور فضول رواج پھیلانے سے گریز کریں۔ ساری دنیا جمع ہوکر کسی کا خیال رکھنے پر اکٹھ کرلے اور اللہ اس کو پکڑنا چاہیں تو وہ بچ نہیں سکتا۔ اگر کسی کی سلامتی کی دعا کسی کو لگ جائے تو ساری دنیا بھی مل کر اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ’کُن‘ یعنی ہوجا نے بھڑکتی پوئی آگ کو گل و گلزار بنادیتا ہے۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ کے زمانہ میں دہلی میں سلام کی بجائے ’آداب عرض‘ وغیرہ جیسے الفاظ کا رواج پڑگیا۔ حضرت نے اپنے طلبہ کو حکم دیا کہ جب بھی بازاروں میں آئیں جائیں اور ہرآنے جانے والے، پہچانے اور انجانے کو سلام کریں۔ خدا جانے آج اس سنت کو کیوں چھوڑا جارہا ہے؟
No comments:
Post a Comment