Saturday, 6 January 2018

حضرت مولانا محمد مصطفی اعظمی قاسمی کو خراج عقیدت

ہند نزاد سعودی عرب کے شہری مشہور و معروف محدث مولانا ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کے انتقال پر ریاض شہر میں فضلاء دارالعلوم دیوبند کی ’لجنہ علمیہ‘ کی جانب سے ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔ 30 دسمبر 2017 کو موصولہ پریس ریلیز کے مطابق  اس موقع پر ریاض شہر کی سرکردہ شخصیات، متعدد تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ فضلاء دارالعلوم دیوبند کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تعزیتی مجلس  کا آغاز مولانا عتیق قاسمی میرٹھی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ نظامت کے فرائض مولانا محمد نجیب قاسمی نے انجام دئے ۔ ڈاکٹر اعظمی کی شخصیت کے مختلف پہلؤوں پر مقالے پیش کئے گئے۔ مولانا محمد انعام الحق قاسمی نے مرحوم کی سوانح حیات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر اعظمی نے دارالعلوم دیوبند اور جامعہ ازہر جیسی عظیم دینی درسگاہوں سے تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ کیمبرج جیسی بڑی عصری یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 
مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات:
مولانا محفوظ احمد قاسمی نے ڈاکٹر اعظمی کی قرآن کریم سے متعلق خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مرحوم کی حال میں شائع ہونے والی اہم کتاب 'ایجلیس قرآنس ٹائم لیس ٹیکسٹ' Ageless Qur'an Timeless Text کا تعارف پیش کیا۔ نیز آپ نے بتایا کہ قرآن کریم کے نسخوں پر مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات کے لئے 250 صفحات پر مشتمل ڈاکٹر صاحب کی یہ آخری کتاب ہے جو انھوں نے تقریباً 15 سال میں مکمل کی ہے۔ مرحوم نے اس کتاب میں قرآن کریم کے دنیا میں موجود مشہور ومعروف 19 مخطوطوں میں نقطے اور اعراب ہٹاکر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں 1400 سال سے آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ اس کتاب میں 50 صفحات پر انگریزی میں جبکہ 50 صفحات پر عربی میں ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی مقدمہ، نیز 150 صفحات پر مشتمل قرآن کریم کے مخطوطوں کا مقارنہ ہے۔
'اسٹڈی ان ارلی حدیث لٹریچر'
  مولانا نہال انور قاسمی نے مرحوم کی حدیث کے متعلق علمی خدمات کا تعارف کروایا. خاص طور پر ان کی مشہور ومعروف کتاب 'اسٹڈی ان ارلی حدیث لٹریچر' Studies in Early Hadith Literature جو دراصل انگریزی زبان میں ان کی ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ تھا، جس کے اردو کے علاوہ مختلف زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ نیز متعدد یونیورسٹیوں میں یہ کتاب نصاب میں داخل ہے۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ بہت مقبول ہوا ہے۔ اس کتاب میں مستند دلائل سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ہی ہوگیا تھا نیز اس دعوی کو غلط ثابت کیا گیا ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ہوا تھا۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی نے لجنہ علمیہ ریاض کا مختصر تعارف کروانے کے ساتھ ڈاکٹر اعظمی کی زندگی کے مختلف پہلؤوں پر اپنی نظامت کے دوران روشنی ڈالی۔ 
احادیث کی عربی عبارتوں کو  کیا کمپیوٹرائز:
انھوں نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی ہی دنیا میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے احادیث کی عربی عبارتوں کو کمپیوٹرائز کیا۔ مولانا شانِ الٰہی قاسمی نے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی اپنے علاقہ سے متعلق سماجی ورفاہی خدمات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر مرحوم نے اعظم گڑھ اور مؤ میں اپنے ذاتی مصارف سے متعدد مساجد کی تعمیر کرواکے پوری زندگی اُن کے بیشتر اخراجات کو برداشت کیا، ڈاکٹر مرحوم بے شمار بیواؤں اور یتیموں کے مکمل خرچے خود برداشت کرتے تھے۔ نیز انھوں نے بتایا کہ علاقہ کے لوگ انھیں مصطفی مصری کے نام سے جانتے ہیں۔ 
اہم کتابوں کا اردو تراجم کرنے کی تجویز:
ہندوستانی سفارت خانہ میں فرسٹ سکریٹری ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی نے مرحوم کے متعلق اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مرحوم کو قرآن وحدیث کے مخطوطوں کی بہت زیادہ فکر رہا کرتی تھی کہ ان مخطوطوں کی حفاظت کے انتظامات کے لئے ضروری اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں، علماء کرام کو آسانی سے اُن تک رسائی نہیں ہوتی ہے جبکہ مستشرقین کے لیے اُن مخطوطوں پر کام کرنے کی بھی سہولت کے ساتھ اجازت مل جاتی ہے۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر حفظ الرحمن نے ڈاکٹر صاحب کی اہم کتابوں کا اردو تراجم کرنے کی تجویز لجنہ علمیہ کے ذمہ داروں کو پیش کرکے کہا کہ کتاب کی اشاعت کے مکمل اخراجات وہ خود برداشت کریں گے۔ 
مخطوطوں سے متعلق آخری تحقیقی کتاب شائع:
اویس احمد علیگ نے کہا کہ ڈاکٹر مرحوم کی اس دوران کئی مرتبہ طبعیت بہت زیادہ خراب ہوئی اور زندگی کی بظاہر کوئی توقع نہیں رہی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر مرتبہ شفا عطا فرمائی حتی کہ قرآن کریم کے مخطوطوں سے متعلق اُن کی آخری تحقیقی کتاب شائع ہوگئی۔ مشہور اسکالر سالم زبیدی نے کہا کہ مرحوم احادیث نبویہ کو کمپیوٹرائز کرتے وقت گرمی کے مہینہ میں بھی سردی کے کپڑے حتی کہ کمبل اوڑھ کر کام کرتے تھے کیونکہ اُس زمانہ میں الماری کی طرح کمپیوٹر کو گرمی سے بچانے کے لئے سخت ٹھنڈ میں رکھنا پڑتا تھا۔ 
 میمینٹو پیش کیا گیا:
لجنہ علمیہ ریاض کی جانب سے ڈاکٹر اعظمی کی وفات کے بعد مرحوم کی قرآن وحدیث کی عظیم خدمات پر ایک میمینٹو بھی پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر شفاعت اللہ خان کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شرکت کرنے والے حضرات میں انڈین اسکول ریاض کے چیرمین ڈاکٹر دلشاد احمد، انڈین اسکول ریاض کے پرنسپل ڈاکٹر شوکت پرویز، مولانا محمد ہارون قاسمی، تنظیم ہم ہندوستانی کے صدر محمد قیصر کے نام قابل ذکر ہیں۔ مولانا محمد انعام الحق قاسمی کی دعا پر پروگرام اختتام کو پہنچا۔

No comments:

Post a Comment