Saturday, 7 May 2016

کیا میڈیکل انشورنس جائز ہے؟

ایس اے ساگر

آخرت کی فکر رکھنے والوں کے دلوں میں اکثر و بیشتر یہ سوال کروٹیں لیتا رہتا ہے کہ کیا میڈیکل انشورنس جائز ہے؟ غنیمت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے اس سلسلہ میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں ملک کے فقہاء اور علماء نے متفقہ طور سے ایک تجویز منظور کی ہے. اس تجویز میں سرکاری ملازمین کے لیے غیر اختیاری انشورنس ،غریبوں کے لیے سرکاری طور سے جاری کردہ طبی امداد کارڈ سے استفادہ اور اسپتالوں کی جانب سے مخصوص بیماریوں کے لیے میڈیکل پیکیج کو جائز قراردیا گیا ہے ۔ 7 مئی 2016 کو جاری اس فیصلے سے مذہبی رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے سرکاری ملازمین ا ور غریب مسلمان جو اب تک انشورنس کی ان قسموں سے دوری بنائے ہوئے تھے، ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

کشمیر کے معروف مقام بانڈی پورہ میں واقع دارالعلوم رحیمیہ میں جمعیۃ علماء ہند کے ادارہ مباحث فقہیہ کا بارہواں سہ روزہ فقہی اجتماع مختلف موقر حضرات کی صدار ت میں منعقد ہو کر اختتام پذیر ہوا۔اس اجتماع میں دو اہم موضوعات
(۱) میڈیکل انشورنس کی مختلف شکلیں اور باپ بیٹوں کے مشترکہ کاروبار کی متعدد صورتیں شامل تھے۔اس اجتماع میں پورے ملک سے تقریبا سات سو علماء اور مفتیان کرام نے شرکت کی ۔تقریبا دوسو مفتیان کرام نے مذکورہ موضوعات پر غوروخوض کیا اور اپنے مقالات پیش کیے۔ اجتماع کی چھ نشستوں کی صدارت مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند، مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند، مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا نعمت اللہ اعظمی اور پروگرام کے روح واں اور بے مثال انتظام کرنے والے مولانا رحمت اللہ میر مہتمم دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ نے کی ، اس موقع پر اجتماع کے اغراض ومقاصد اور دیگر امور پر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے تفصیلی خطبہ افتتاحیہ پیش کیا۔ گرچہ دونوں موضوعات پر اختلافی آراء بھی سامنے آئیں تاہم ان کے متعلق مختلف نکات پر مشتمل متفقہ تجاویز منظو ر کی گئیں ۔

اظہار خیال کرنے والے علمائے کرام :

دونوں موضوعات پر جن لوگوں نے اظہار خیال کیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں :

مولانا ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا ریاست علی بجنوری نائب صدر جمعےۃ علماء ہند واستاذ حدیث دارالعلوم دیوبند،مولانا برہان الدین سنبھلی مولانا حبیب الرحمن خیر آبادی صدر مفتی دارالعلوم دیوبند، مولانامجیب اللہ استاذ د ارالعلوم دیوبند ، مولانا زین العابدین دارالعلوم دیوبند ،مفتی اختراما م عادل ، مولانا مفتی نذیر احمد کشمیری صدر مفتی دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مفتی عتیق احمد بستوی ، مولانا شوکت حسین انجمن اسلامیہ کشمیر ، مولانا نیاز احمد فاروقی ، مفتی معصوم ثاقب، مفتی شبیر احمد قاسمی، مفتی جمیل احمد نذیری، مفتی عزیز الرحمن ممبئی،مولانا متین الحق اسامہ کانپوری ، مفتی نعمان سیتاپوری ، مفتی وقاراحمد دارالعلوم دیوبند ، مفتی فرید احمد کاوی، مفتی جنید پالن پوری ، مفتی اسد اللہ دارالعلوم دیوبند، مفتی ظہیر ، مفتی زاہد ، مفتی عثمان گرینی ، مولانا عبداللہ معروفی ، مفتی اشفاق اعظمی ، مفتی اقبال کانپوری ، مفتی ریاست علی رام پوری ، مفتی منصف بدایونی ، مفتی زین الاسلام ، مفتی وحید الدین ، مفتی اشتیاق ، مولانا صدیق اللہ بنگال ، حافظ پیر شبیر احمد آندھراپردیش،مفتی عمران اللہ ، مولانا ابراہیم تاراپوری، ڈاکٹر عبدالرحمن انگلینڈ،مولانا شمیم اشرف دبئی ، مفتی شفیق بڑودوی ،مولانا منیر الدین قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند، مفتی افتخار کرناٹک ،مفتی جمال دارالعلوم حید رآباد، مفتی راشد اعظمی استاذ دارالعلوم دیوبند ، مفتی عفان منصورپوری وغیرہم۔ان کے علاوہ مولانا بدر مجیبی خانقہ مجیبیہ پھلواری شریف، پیرزادہ سید سراج الدین ندوی اجمیر، مولاناقاسم پٹنہ، مولانا محبوب حسن آسام ،ڈاکٹر سعید الدین دہلی ، ڈاکٹر اسلام اتراکھنڈ ، مفتی جاوید اقبال کشن گنج، عبدالحمید نعمانی ، رحیم الدین انصاری دارالعلوم حید رآباد، مولانا حمید اللہ میر، مولانا عنایت اللہ میر ، مفتی اشتیاق دارالعلوم دیوبند ، قاری شوکت علی ویٹ ، مولانا حسیب صدیقی ، مولانا زین العابدین مظاہر مہتمم شاہ ولی اللہ بنگلور،مولانا شمس الدین بجلی وغیرہ ۔

یہ ہے تجویز کا متن :

تجاویز بابت میڈیکل انشورنس اور اس کی چند شکلیں
(۱) میڈیکل انشورنس پالیسی ہولڈر اور انشورنس کرنے والے ادارے کے درمیان ایسا معاہدہ ہے جس میں وہ ادارہ پالیسی ہولڈر سے یکمشت یا قسط وار متعینہ رقم وصول کر کے محدود مدت کے اندر اندر پالیسی ہولڈر کے کلی یا جزئی علاج یا اس کے اخراجات کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ،اور اگر محدود مدت کے اندر اندر پایسی ہولڈر کو بیماری پیش نہ آئے تو جمع شدہ رقم واپس نہیں کی جاتی اور آج کل رائج میڈیکل انشورنس کی شکلیں دیگر انشورنس کی طرح قمار کے دائرے میں آتی ہیں اور ناجائز ہیں.

(۲) چونکہ اجتماع کے بعض شرکاء کی طرف سے مقالوں میں اور بحث کے دوران کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جن سے میڈیکل انشورنس کے قمار کے بجائے تعاون پر مبنی ہونے کا اشارہ ملتا ہے اس لئے یہ اجتماع مناسب سمجھتا ہے کہ ادارۃ المباحث الفقہیہ کی طرف سے علماء اور ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو انشورنس کمپنیوں کے اصول و ضوابط اور مختلف شکلوں کا جائزہ لیکر اپنی تحقیق پیش کرے۔ اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔

(۳) قانونی مجبوری کی صورت میں میڈکل انشونس کرانے کی گنجائش ہے۔

(۴)۔ملازمین کے لئے غیر اختیاری انشورنس جس میں انشورنس کی رقم ان کی تنخواہوں سے کمپنی از خود کاٹ لیتی ہیں یا وہ اپنے سے پاس سے جمع کراتی ہے تو اس طرح کی انشورنس پالیسی سے ملازمین کو فائدہ اُٹھانے کی گنجائش ہے۔

(۵)اسپتالوں کی طرف سے مخصوص بیماریوں کے علاج کے لئے جاری کئے جانے والے میڈیکل پیکییج لیکر اس سے فائدہ اُٹھانا جائز اور درست ہے۔

(۶)حکومت غریبوں کے لئے بلا معاوضہ یا معمولی رقم بطور فیس لیکر کارڈ جاری کرکے جو طبی امداد فراہم کرتی ہے اس سے بھی انتفاع جائز ہے ۔

(۷)آج کل ایک طرف جہاں نت نئی بیماریاں عام ہیں وہیں ان کا علاج بھی گراں سے گراں تر ہوتا جا رہا ہے خصوصاً اعضاء رئیسہ (دل گردہ وغیرہ) کا تعطل اور کینسر وغیرہ کا علاج ایک غریب بلکہ متوسط طبقے کے لئے بھی نا قابل تحمل ہے اس لئے بلا شبہ انسانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ امداد باہمی کا ایسا نظام قائم کیا جائے جس سے ضرورت مندوں کا بر وقت تعاون ہو سکے، اس لئے یہ فقہی اجتماع تمام مسلم اداروں بالخصوص طب و صحت اور رفاہی خدمات سے جڑی ہوئی تنظیموں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اثر میں منکرات و محرمات سے بچتے ہوئے شرعی تکافل (امداد باہمی) کا نظام قائم کر نے کی کوشش کریں۔اور اس سلسلے میں اسلامی اصولوں پر مبنی تکافل کا جو طریقہ کار بعض مسلم ملکوں میں متعین کیا گیا ہے اس سے استفادہ کیا جائے۔

تجویز بابت باپ بیٹوں کے مشترکہ کاروبار

شریعت کا تقاضہ یہ ہے کہ معاملات بالکل صاف ہوں اور جس کے لئے جو حق متعین ہے ، اُس کی پوری وضاحت ہوجائے ۔ مالی معاملات میں باپ بیٹوں کے درمیان بھی بہتر یہی ہے کہ ہر ایک کی ملکیت الگ الگ متعین ہواور اگر شرکت کا معاملہ ہو تو شرعی اصول کا لحاظ کرتے ہوئے سبھی شرکاء کا حق ضرورواضح کردیا جائے ؛ تاکہ بعد میں کوئی نزاع نہ رہے ، خاص طور پر جب کسی کی اولاد بالغ ہوجائے اور کمانے لگے، تو ان کی حیثیت کا تعین ضرور ہوجائے ، کہ کون اجیر وملازم ہوگا، کون شریک اور کون محض معاون ،پھر کون اپنی مستقل کمائی کا کس تناسب سے مکمل مالک ہوگا۔
ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہندائمہ ،خطباء اور علمائے کرام سے یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں معاملات کی صفائی کے سلسلے میں عوام کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں ،بالخصوص شرکت و میراث وغیرہ کے جو شرعی اصول ہیں، اُن سے لوگوں کو آگاہ کریں، اسی طرح والدین، اولاد، بھائیوں وغیرہ کے درمیان شرکت کے مسائل سے لوگوں کو واقف کرائیں ۔
باب اور بیٹوں کے مشترکہ کاروبار کے بارے میں درج ذیل تجاویزاتفاق رائے سے منظور کی گئیں:

(۱) اگر باپ نے اپنے سرمایہ سے کوئی کاروبار شروع کیا ، پھر مثلا: کوئی بیٹا اُس کے کاروبار میں سرمایہ اور معاہدہ کے بغیر شامل ہو گیا ہو ، جب کہ وہ باپ کی مکمل ماتحتی اور کفالت میں ہوتو ایسی صورت میں اُس بیٹے کی حیثیت شرعا باپ کے حق میں معاون کی ہوگی، لہذا باپ کے انتقال کے بعد کاروبار اور اُس کا نفع باپ کے ترکہ میں شمار ہوگا ۔

(۲) اگر اولاد کاروبار میں معاہدے کے بغیر باپ کی ماتحتی میں رہتے ہوئے اپنا کچھ سرمایہ بھی لگا دے اور اُس کا سرمایہ لگانا عرف میں تبرع سمجھا جاتا ہو، تو بیٹے کا سرمایہ لگانا شرعا تعاون سمجھا جائے گا اور ملکیت باپ کی ہوگی اور اگر کہیں اس طرح سرمایہ لگانے کو عرف میں شرکت پر محمول کیا جاتا ہو، تو شرعا اسی کا اعتبار ہوگا اور وہ بقدر سرمایہ شریک قرار پائے گا۔

(۳) اگر باپ نے بیٹوں کوکاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ دیا اوریہ طے کر دیا کہ سارے بیٹے کاروبار کی ملکیت و نفع میں باپ سمیت برابر کے شریک ہونگے ، تو اب سب شرکاء نفع اور ملکیت میں برابر کے حصہ دار ہونگے، بیٹوں کے عمل اور محنت میں فرق کی وجہ سے نفع میں کوئی فرق نہیں ہوگا ،باپ بھی نفع میں برابر کا شریک ہوگا خواہ وہ عمل میں بالکل شامل نہ ہو۔

(۴) اگر باپ نے بیٹوں کو سرمایہ لگائے بغیر فیصدکے حساب سے اپنے کاروبار میں شریک بنالیا اور بیٹوں کو اُن کے حصوں میں مالکانہ تصرف کا اختیار بھی دے دیا، تو شرعا اس کو ہبہ قرار دیا جائے گا، لہذا جتنے فیصد میں جس بیٹے کو شریک کیا، وہ اسی تناسب سے کاروبار کی ملکیت اور منافع کا حقدار ہوگا۔

(۵) اگر بیٹوں نے اپنے سرمایہ سے کاروبار شروع کیا اور احتراماً یا مصلحۃً والد کا نام ڈال دیا اور والد کو تصرف کا اختیار نہیں دیا، تو محض اس نام ڈالنے کی وجہ سے اس کاروبار پر شرعاً باپ کی ملکیت نہیں مانی جائے گی؛ بلکہ کاروبار میں سرمایہ لگانے والے بیٹے ہی اپنے سرمایہ کے بقدر کاروبار میں مالک ہونگے۔

(۶)اگر باپ کے سرمایہ سے کاروبار کرنے والے بیٹے اپنی کل آمدنی باپ کے پاس لاکر جمع کرتے رہتے ہیں، اور پھر باپ حسبِ ضرورت اُس آمدنی میں سے بیٹوں کو عطا کرتا ہے ، تو اِس صورت میں یہ سارا کاروبار والد کی ملکیت قرار پائے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ باپ اصل مالک ہے ، اور بیٹے اُس کے معاون ہیں۔

(۷) اگرباپ نے اپنے سرمایہ سے بیٹے کے لئے کوئی کاربار شروع کرا دیا اور کاروبار کرنے والا بیٹا اس کی آمدنی اپنے اختیار سے خود خرچ کرتا ہے ، اور باپ اُس میں کوئی دخل نہیں دیتا، تو ایسی صورت میں جو بیٹا جو کاروبار کررہا ہے ، وہی اُس کا مالک ہے ، اور باپ کے انتقال کے بعد اُس کاروبار کی ملکیت اور نفع میں دیگر ورثہ حق دار نہ ہوں گے.

(۸)تقسیم ترکہ سے پہلے اگر سب وارثین کی رضامندی سے باپ کے پرانے کاروبار کو آگے بڑھایا گیا ہے ، تو اُس میں جو بھی نفع حاصل ہوگا وہ سب ترکہ میں شامل ہوکر تمام وارثین کو ملے گا، خواہ وہ وارثین محنت میں شریک ہوں یا نہ ہوں۔

(۹)تقسیم ترکہ سے پہلے کسی وارث کو متروکہ مال میں کسی طرح کے تصرف کا شرعا حق نہیں ہے اور دیگر ورثا کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا خیانت یا غصب ہے ، البتہ اگر کوئی وارث تقسیم ترکہ سے قبل مورث کی متروکہ رقم لے کر اپنا کوئی کاروبار شروع کردے تو اِس رقم سے ہونے والے کاروبار کی تین شکلیں ہیں :

(۱) اگراس نے دیگر بالغ ورثاکی اجازت سے ان کے حصہ کے بقدر رقم بطور قرض حاصل کی، تو دیگر ورثا اس کا روبار کے نفع و نقصان میں شریک نہ ہوں گے؛ بلکہ صرف اپنی اصل رقم کے حقدار ہوں گے ، اور سارا نفع کارو بار کرنے والے کا ہوگا۔اور نابالغ ورثا کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

(۲) اگردیگر ورثا نے کاروبار کرنے والوں کوعقد شرکت کے طور پر تصرف کرنے کی اجازت دی ہو، تویہ سب لوگ اس تجارت کے نفع و نقصان میں شریک رہیں گے ، اور نفع کی تقسیم ملکیت کے تناسب سے ہوگی.

(۳) اگرکسی وارث نے بلا اجازت ورثا ازخود اس مال سے تجارت شروع کردی تویہ تصرف ناجائز ہوگا اور خسارے کا وہ خود ذمہ دار ہوگا؛ البتہ حاصل شدہ نفع سب ورثا کو حسبِ حصص شرعیہ دیا جائے گا۔
اجتماع سے متعلق صدر جمعےۃ علماء ہند مولانا قاری عثمان منصورپوری ، جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی اور رحمت اللہ میر نے اس توقع کا اظہار کیا کہ فقہی اجتماع سے عصر حاضر کے درپیش اور نئے مساء کے حل کا راستہ نکلے گا ( ان شا ء اللہ ) اور آئندہ ہونے فقہی اجتماع دیگر جدید درپیش مسائل پر غوروفکر کیا جائے گا اور سردست مسئلے کے جو پہلو واضح نہیں ہوئے ہیں ان کو تحقیق کے بعد واضح شکل میں کوشش کی ۔مولانا محمود مدنی نے اجتماع کے انعقاد میں اہم رول ادا کرنے والے دیگر حضرات کے ساتھ خاص طور سے مولانا رحمت اللہ میر ، مولانا حمید اللہ میر ، مولانا معزالدین احمد ناظم امارت شرعیہ ہند ،مولانا عبداللہ معروفی مفتی سلمان منصورپوری مفتی عبدالرزاق ، مفتی عفان منصورپوری ، مفتی مصعب کا شکریہ ادا کیا ۔جب کہ نظامت فرائض مشترکہ طور پر مفتی محمد سلمان منصورپوری ، مفتی عفان منصورپوری ، مفتی شمس الدین بجلی نے انجام دیے ۔

No comments:

Post a Comment