Wednesday 25 May 2016

دعوت کو مقصد بنانے کی ضرورت

میرے دوستو دعوت وتبلیغ کے متعلق صحیح کیا ہے غلط کیا ہے. اس چھان بین کی بجائے دعوت کے عمل کو اپنی زندگی میں لانے کی ضرورت ہے۔ آج امت عمومی فتنہ میں گِری ہوئی ہے  بڑاہی پُرسوز پُور خطر اور ایمان سوز حالات سے دو چار ہے. اس پُر فتن دورمیں دعوت کا عظیم عمل امت کیلئے کشتئی نوح ہے. اس سے جوبھی غفلت برتے گا سزا پائے گا.

امت کے درد سے اگر مقربین نے غفلت برتی ہے تو معصوموں کو بھی اللہ باری تعالٰی  نے متنبہ کیا ہے
منشأ خُداوندی اور حفاظت دین کے بارے میں
اللہ تعالی نے اھلیان نبوت کو بھی نہی بخشا
دعوت کاعظیم کام الہامی ، اورکار نبوت بایں معنی ہے کہ اللہ باری تعالی نے انبیاء کرام علیہ السلام کو جو بنیادی وظیفہ دیا وہ امت کا درد ہے، اسی بنیاد پر جوبھی امت کے درد کو لیکر پھرے گا اور دامے درمے قدمے سخنے قلمے قربانی دے گا، اللہ اس کو اور اس کی نسلوں کو چمکائےگا، بھلے بوریہ نشین ہو...اور جو امت کی تباہی کاسامان کرے گا، اور جو منشا خُداوندی اور کار نبوت سے ٹکرائے گا، فرعون قارون نمروُد جیساحشر ہوگا...اور اللہ تعالی نسلوں کو بے نام ونشاں کردے گا. یہ حالات شاید منجھے ہوئے کارندوں کی غفلت کی سزا ہے.
خُوب آہ نیم شبی اور استغفار اور توبۃ النصوحہ کی ضرورت ہے. اللہ تعلی شاید کسی کے رونے اور
گڑ گڑانےکا منتظر ہے؟ آو ہم عہد کریں اخلاص استخلاص اور احسان کا، ہمارے آپس کا انتشار اور جماعت بازی سے بھی یم باز آجائیں، اس تفرقہ بازی نے قرن اول میں اسلام کی جغرفیائی کو محدود اور سُکیڑ کر رکھ دیاتھا. تاریخ اسلام میں اسلام کانقصان، فتنئہ تاتار اور سقُوط بغداد اور سقوط ترک سے اتنا نقصان نہی ہوا تھا جتنا دعوت وتبلیغ کے سقوط سے ہوگا، کیونکہ  اللہ تعالٰی نے دعوت وعمل کی برکات سے ایک عالم کو منور کیا ہے
ریگستان اور کوہستان کو نخلستان بنایاہے، جہاں اتوار کو جمعہ کی نماز پڑھی جاتی تھی وہاں قال اللہ والرسُول کی صدائیں گُونجیں ، وہاں جامعات، مدارس اورحفاظ علماء کرام کے جُھنڈ کے جُھنڈ اور اتقیاء پیداہوئے ۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں بس مُعاون بننا ہے، کیونکہ دعوت وعمل
عُلماء کرام ، مدارس ، مکاتیب ، اور خانقاہ کی سیرابی اسی سے ہے. دعا کریں کہ یااللہ تادم ہمیں کار نبوت اور دعوت کے عمل سے لگائے رکھیو،
فللله المشتكي وعليه المستعان والتكلان
حکیم عبد الرشید بمبئی

No comments:

Post a Comment