Sunday 29 May 2016

ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط رحمہ اللہ؛ حیات و خدمات

دعوتی ورفاہی کاموں کا شہسوارڈاکٹر عبدالرحمن السمیط رحمہ اللہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے افریقی ممالک میں29 سال کا عرصہ بتانے والا کویتی داعی جن کے ہاتھ پر 11ملین سے زائد مردوخواتین نے اسلام قبول کیا. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اکثریت دوسروں کی خدمات کا اعتراف بہت کم کرتی ہے، ہمارے بیچ مثبت سوچ کے حامل افراد خال خال نظرآتے ہیں، جبکہ منفی ذہن رکھنے والے بکثرت پائے جاتے ہیں، اگر اعتراض کرنے، بیجا نقدوتبصرہ کرنے اوربال کی کھال نکالنے کا معاملہ آئے تواس میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد مل جائے گی۔ لیکن جب خدما ت کے اعتراف اور کارناموں کی تحسین وستائش کا معاملہ آئے تو اکثر لوگوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔آج ہم اپنے معاشرے میں رول ماڈل کے فقدان کا رونا روتے ہیں، ہمیشہ ہماری یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے والے عنقا ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری نئی نسل کے سامنے عملی پیکر اورکردار کے غازی دکھائی نہیں دیتے۔ یہ شکایت صد فیصد بجا ہے لیکن کیا ہم نے اپنے معاشرے کے باہمت اوراعلی سوچ کی حامل شخصیات سے کم ازکم اپنی نئی نسل کو متعارف کرایا، کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہمارے بیچ سے کتنے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افراد چلے گئے لیکن ان کی زندگی کے روشن پہلو ہماری نئی نسل کے سامنے نہ آ سکے۔
انہیں باہمت اوراعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات میں سرزمین کویت کی ایک ممتاز شخصیت ،فاتح افریقہ ،رفاہی کاموںکے قائد اورامیر،دعوت کے سفیر، عظیم دیدہ ور،عالم اسلام کے معروف داعی ،مرکزدراسات العمل الخیری کے رئیس اورجمعیة العون المباشر کے موسس وبانی ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط ہیں، جو تقریباً گذشتہ ایک سال سے صاحبِ فراش تھے، بالآخر قضا آئی اور15اگست کو دارفانی سے داربقا کی طرف کوچ کرگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

آپ کی زندگی سلف صالحین کانمونہ تھی جنہوںنے دین کی تبلیغ کے لیے اپنی زندگی کے آرام وراحت کو قربان کیا اور دنیا کے چپے چپے میں پھیل کر اپنے عمل اورکردار سے لوگوںکو اسلام کی طرف دعوت دی ،ذیل کے سطورمیںاس فقیدالمثال شخصیت کی زندگی کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے:

عہدطفولت :
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط نے 15اکتوبر سن 1947ء میں کویت کی سرزمین پرایک متوسط گھرانے میں آنکھیں کھولیں،بچپن سے مطالعہ کے بیحد شوقین تھے ، یہاںتک کہ ان کے والد نے متعددبار دھمکی دی کہ ان کو اپنے ہمراہ بازارلے کر نہیں جائیں گے کیونکہ سڑک سے گذرتے ہوئے اگران کی نظر کسی گرے پڑے رسالے یامجلے پر پڑجاتی تو انہیں پڑھنے کے لیے اٹھانے لگتے ،جس میںمتعددبار لوگوںسے ٹکڑا جاتے تھے۔ آپ نے کویت کے حولی علاقہ میں واقع ایک مکتبہ میں طویل عرصہ تک مراجع ومصادر کی کتابوںکا مطالعہ کیا ،ان کتابوںکے مطالعہ سے جہاں آپ کی معلومات میں اضافہ ہوا وہیں آپ کی آنکھیں کھلیں ۔ آپ کی عادت تھی کہ اگر کوئی کتاب ہاتھ میں لیتے تو خواہ ان کے صفحات کتنے ہی ہوں ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتے تھے ۔بچپن سے خدمتِ خلق ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

تعلیم اورعمل :
ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی سے سیکنڈری تک کی تعلیم کویت میں ہی حاصل کی ،پھر بغداد یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور جولائی 1972 میں وہاں سے فراغت حاصل کی ، اپریل 1974 میں انگلینڈ لیوریول یونیورسٹی سے ڈپلوما کیا،پھر جولائی 1974 میںباطنی امراض اورGastroenterology میں تخصص کیا۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدلندن میں مونٹرجنرل ہسپتال اورکنگزکالج ہسپتال میں طبی خدمات انجام دی پھر کویت لوٹ کر آئے تو صباح ہاسپیٹل میں Gastroenterology کے شعبہ میں بحال کیے گیے۔

رفاہی خدمات :
سیکنڈری میں زیرتعلیم تھے تواپنے دوستوں کے ساتھ مل کر یومیہ اخراجات میں سے کٹوتی کرکے کچھ رقم جمع کیا اوراس سے ایک گاڑی خریدی ، اوراپنے ایک ساتھی کواس خدمت پر مامورکیا کہ معمولی تنخواہ پانے والے تارکین وطن کو مفت میں ڈیوٹی کے مقامات اوران کی رہائش گاہوں تک پہنچا دیا کریں۔ بغداد یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں اپنے اخراجات سے ایک خطیررقم نکالتے اوران سے اسلامی کتابیں خرید کر مساجد میں تقسیم کردیتے۔طبیعت میں سادگی ایسی تھی کہ شب وروز میں ایک مرتبہ ہی کھانا کھاتے، بیڈ پرسونے کو آرام پسندی اور آسائش خیال کرتے اور زمین پر سونے کو ترجیح دیتے تھے، میڈیکل کی اعلی تعلیم کے لیے یورپ کا سفرکیا تو وہاں بھی ہرمسلم طالب علم سے ایک ڈالر ماہانہ جمع کرتے اوراسلامی کتابیں شائع کرکے جنوب مشرقی ایشیا اورافریقہ کے ممالک میں بھیج دیا کرتے تھے۔

افریقہ کا سفر:
جن دنوں آپ کویت کے صباح ہاسپیٹل میں بحیثیت ڈاکٹر کام کررہے تھے وہاں آپ مریضوں کے معالجہ کے ساتھ ان کی عیادت کرتے، ان کے خانگی، اجتماعی اوراقتصادی حالات کی جانکاری لیتے اوران کی امداد بھی کرتے تھے۔ کمزوروں اور بدحالوں کے ساتھ آپ کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ انہیں دنوں سابق امیر کویت شیخ جابرالصباح ؒ کی اہلیہ نے ڈاکٹر موصوف کو مکلف کیا کہ ان کے اخراجات پر کویت میں ایک مسجد بنوائیں ،لیکن ڈاکٹر موصوف نے فیصلہ کیا کہ یہ مسجد افریقہ میں بنائی جائے ،اسی ارادے سے 1980 میں اپنے دو کویتی احباب کے ساتھ ملاوی کا سفر کیا جہاں سب سے پہلی مسجد بنوائی ۔ یہاں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف افریقہ کے مسلمان بری طرح سے قحط سالی اوربھوک مری کا شکار ہیں تو دوسری طرف عیسائی مشینریز ارتدادی مہم میں سرگرم اورپرجوش ہیں، اس نازک صورت حال کے سامنے ان کی غیرت ایمانی بیدار ہوئی،چنانچہ جسمانی علاج کی بجائے روحانی علاج کے لیے خود کووقف کردیا۔ کویت کی آرام پسند زندگی کو خیرباد کہہ کر افریقی ممالک میں رفاہی خدمات انجام دینی شروع کردیں ۔ ملاوی میں غیرمسلم مسلمانوں کو ’الاسالی ‘کے نام سے پکارتے تھے جس کا مطلب ہوتا ہے ”پسماندہ انسان“۔ ڈاکٹر موصوف کہتے ہیں کہ مسلمانوںکی بری حالت اورتعلیمی پسماندگی کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا تھا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ تبدیلی کی کلید تعلیم ہی ہوسکتی ہے ،میں نے مہنگی فیس دے کر ان کے بچوںکوپڑھاناشروع کیااوراب الحمدللہ وہاں تعلیم مفت ہوچکی ہے۔
اس مردمجاہد نے دعوت کے لیے اپنی زندگی کیوں وقف کی اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بعض نومسلموں نے قبول اسلام کے بعد مجھ سے شکایت کی کہ” اے مسلمانو! تم کہا ں تھے ،تم نے اتنے دنوں تک اسلام ہم تک کیوں نہ پہنچایا یہاںتک کہ ہمارے والدین کفرپر مرچکے ، کاش کہ تم نے اس وقت ہمیں اسلام کی دعوت دی ہوتی جب کہ ہمارے والدین باحیات تھے“۔

افریقہ میں دعوتی ورفاہی خدمات :
آپ نے اپنی پوری جوانی افریقی ممالک میں گذار دی ، خاص طورپر مالاوی ،کونگو،سنگال ،نیجراورسیرالیون میں آپ نے اپنی رفاہی خدمات کی جال بچھادی ، یتیموں،بیواوں اورفقیروںکی خدمت کرکے فخر محسوس کرتے رہے، اس بیچ آپ نے کتنے ڈاکٹرس اورانجنئرس پیدا کئے ، چار ہزارسے زائد دعاة تیار کئے جو ابھی میدان میں کام کررہے ہیں ، کتنے عیسائی مبلغین کوآپ کے ہاتھوںپر ہدایت نصیب ہوئی اور وہ اسلام کی تبلیغ میں لگ گئے ۔ 29سال کی طویل مدت جوآپ نے افریقی ممالک میں گذاری ، اس عرصہ میں 11 ملین لوگ آپ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے، 5700 مساجد تعمیر کیں، 860 مدرسے قائم کئے ، 4 یونیورسیٹیاں قائم کیں، 7ریڈیواسٹیشن لانچ کیے اور168ہاسپیٹلزبنائے۔ تقریبا 15000 یتیموں کی کفالت کی 204 اسلامی مراکز قائم کئے ،پینے کے پانی کے لئے تقریبا 9500 کنویں کھدوائی، دعوت کے لیے کسی بستی میں پہنچنا ہوتا تو سوسوکیلومیٹر تک پیدل چلتے، پیرکے جوتے ٹوٹ جاتے۔ گاڑی خراب ہوجاتی، لیکن ہمت نہ ہارتے۔
دین کی خدمت کے لیے گویا اپنی زندگی وقف کردی تھی۔دعوت اور رفاہی خدمت کے لیے دوڑدھوپ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا،ڈاکٹر موصوف فرماتے ہیں”اس دن مجھے کون حساب وکتاب سے بچائے گا جس دن افریقہ والے میرے خلاف شکایت کریں گے کہ میں نے ان کی ہدایت کی راہ میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی “۔
یہ ساری کاوشیں جنت کی طلب میں تھیں۔ اسی لیے جب ان سے ایک مرتبہ ایک انٹرویومیں پوچھا گیا کہ آپ سفرکے مشاغل سے کب فرصت پائیں گے ؟ تو آپ کا جواب تھا :
”جس دن آپ مجھے جنت کی ضمانت دے دیں…. اورظاہرہے کہ جب جنت کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھرموت کے آنے تک عمل کرنے سے کسی کو چارہ کارنہیں، کہ حساب وکتاب کا مرحلہ بڑا سخت ہے۔ اورکیوں کرمیں بیٹھ جاوں جب کہ لاکھوں لوگ اس بات کے ضرورتمند ہیں کہ کوئی ان کو ہدایت کا راستہ دکھائے، میں کیسے آرام پسند زندگی گزاروں جب کہ ہرہفتہ لوگ ایک کثیر تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ “
ڈاکٹر موصوف نے ایک مرتبہ بیان فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی کی بابت اطلاع ملی جہاں اسلام کا پیغام اب تک نہ پہنچ سکا ہے توہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کرلیا ،رفقاءنے کہا کہ اس بستی میں پہنچنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے اوراس کے بیچ ایک نہر ہے جس میں بڑے بڑے مگرمچھ پائے جاتے ہیں جن کے حملے سے بچنا مشکل ہے ، ہم نے رفقاءسے عرض کیا کہ مجھے وہاں لے چلو اورمیں اس کا ذمہ دار ہوں، چنانچہ کشتی میں سوار ہوئے اوربستی کا رخ کیا،ادھر مگر مچھ اردگرد چکر کاٹ رہے تھے یہاں تک کہ صحیح سلامت بستی میں داخل ہوگئے ،بستی والوں نے دیکھا تو ازراہ تعجب پوچھا کہ یہاں کیسے آگئے ؟ہم نے جواب دیا کہ اللہ نے ہماری حفاظت فرمائی کہ اس کے دین کی تبلیغ مقصود تھی ۔ پھر بستی والوںپر اسلام پیش کیا تو اس کے ایک زمیندار نے کہا کہ ہم آپ کی بات ماننے کے لیے تیار ہیں تاہم ایک شرط ہے ، کئی سالوں سے بارش نہیں ہورہی ہے ،اپنے رب سے دعا کردیں،اگربارش ہوگئی تو ہم سب اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔میں نے کہا: ٹھیک ہے ، بستی والوں کو جمع کرو، اس طرح سب اکٹھا ہوگئے ،میں کھڑا ہوا ، وضو کیا،اورنماز پڑھنے لگا ،بحالت سجدہ خوب گرگراکر رویا اوراللہ سے دعا کی کہ ”الہ العالمین ! عبدالرحمن کے دین کو عبدالرحمن کے گناہ کی وجہ سے رسوا نہ کرنا “۔جب سجدہ سے سر اُٹھایا تو واقعی بارش ہونے لگی ، اس طرح پوری بستی نے کلمہ شہادت کا اقرار کرلیا ۔

آزمائشیں :
متعدد بار آپ پر جان لیوا حملے کیے گئے ، لحمد للہ وہ ان حملوں سے بچ نکلے۔ اور دعوتی سفر میں وہ موزمبیق اور کینیا وغیرہ کے جنگلات میں کئی بار جنگلی جانوروں کی زد میں آگئے۔ اور زھریلے سانپوں نے ان کو کئی بار ڈنک مارا ، لیکن اللہ نے ان کو بچالیا۔ دومرتبہ آپ کو پابندسلاسل کیاگیا، پہلی بار 1970ء بغداد کی جیل میں رکھا گیا۔ اور قریب تھا کہ ان کو سزائے موت دی جاتی۔ لیکن اس بار بھی بچ گئے۔ دوسری بار 1990ءمیں کویت اور عراق کے مابین جنگ کے دوران عراقی خفیہ ایجنسیوں نے غوا کرکے شدید ترین اذیتوں کا نشانہ بنایا ۔ ان کے چہرے ، ہاتھ اورقدم سے گوشت تک نوچ ڈالا۔ ذیابطیس کے مسلسل مریض تھے، تین بارسر اور دل کا دورہ پڑا لیکن ڈاکٹر السمیط کی ہمت مردانہ کو سلام کہ یہ ستم سامانیاں اورجسمانی عارضے ان کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہ لاسکے۔جنت کی جستجو میں نہ دشمنوں کا خوف تھا نہ بیماری کا احساس۔

خدمات کا اعتراف :
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط کو ان کی گرانقدر رفاہی خدمات کے اعتراف میں ملک وبیرون ملک کی مختلف حکومتوں اور تنظیموں کی طرف سے بے شمار ایوارڈز سے نوازاگیا جن میں شاہ فیصل ایوارڈ قابل ذکرہے۔ آپ نے ایوارڈ میں ملنے والی خطیر رقم کو افریقی بچوں کی تعلیم پروقف کردیا جس سے کتنے افریقی بچے اعلی تعلیم سے بہرہ ورہوئے۔
اسی طرح اعلی حضرت عزت مآب صباح الاحمد جابر الصباح امیر کویت نے بھی آپ کو آپ کی دعوتی اور رفاہی خدمات کی بنیاد پر 12دسمبر 2011 میں کویت کے اعلی درجہ کا ایوارڈ "ذوالوشاح " سے نوازا.
عزیزقاری! جب ہم اس بے مثال شخصیت کی دعوتی اوررفاہی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ انہوں نے صدیوں کا سفردنوں میں طے کیا ہے، ایک حکومت اورجماعت کے کرنے کا کام تنِ تنہا کیا ہے ، آپ صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے
         مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
         تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

وفات :
کافی عرصے سے علیل چل رہے تھے۔ اور ایک بار تو ان کی وفات کی افواہ بھی اڑ گئی تھی۔ بالآخر یہ شخصیت15 اگست 2013ءکو اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ کویت کے وقت کے مطابق صبح کے ساڑھے آٹھ بجے ان کی تدفین وتکفین ہوئی۔ اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین۔

پیغام :
ہم مسلمان ہیں،ہمارے وجود کا مقصد دوسروں کی رہنمائی ہے، ہم بہترین امت محض اس لیے قرار دئیے گئے ہیں کہ ہم خیر کے داعی اور دین کے سپاہی ہیں۔ آخرہم نے اپنے دین کے لیے کیا کیا ، ہم اپنے شب وروز کے معمول میں سے دین کے لیے کتنا وقت نکال پاتے ہیں، دنیا کے لیے جوہماری منصوبہ بندی اور پلاننگ ہوتی ہے اس کا کتنا حصہ ہم دین کے لیے دے رہے ہیں۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ آج ہماری اکثریت صبح سے لے کر شام تک دنیاوی زندگی کے تقاضوں میں لگی رہتی ہے ، ہم دین کی خدمت کے لیے سو بہانے بناتے ہیں، تو پھر کمر ہمت باندھیں ، فروعی اختلافات میں الجھ کر علم کا استحصال نہ کریں، ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھیں ، کرنے کے کام بہت ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ اللہ کس سے کون سا کام لے لے ،اس لیے خود کو حقیر نہ سمجھیں، آپ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ، قوم کو آپ کی سخت ضرورت ہے، آپ دین کے لیے جوبھی خدمت پیش کرسکتے ہیں پہلی فرصت میں اس کے لیے خود کو تیارکریں .
جب ملکی اورعالمی سطح پراہل باطل کی چستی ، اورباطل کے فروغ کے لیے منصوبہ بندی کے سامنے اہل حق کی سستی اورحق کے فروغ میں بے حسی پر غورکرتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ اورہمیں اپنی کوتاہی کاپورا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اگرہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو بلند ہمت ، اولوالعزم اورفولادی ارادہ کے مالک افراد کی ، جواسلام کوعملاً اپنی زندگی میں نافذ کرکے گھرگھراس کی تشہیرکرتے۔ اسلامیات کاگہرا مطالعہ کرنے والا ایک مستشرق جب اس نکتہ پر پہنچتا ہے توبے لاگ یہ تبصرہ کرنے پر مجبورہوتا ہے کہ :
یا لہ من دین لوکان لہ رجال”کیاہی عمدہ دین ہے کاش کہ اسے ویسے افراد مل جاتے“۔ شاید امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایسی ہی نازک حالت کے لیے یہ دعا کی تھی اللھم انی اعوذ بک من جلد الفاجروعجزالثقة ”اے اللہ ! میں تجھ سے فاجرکی ہمت وقوت اورثقہ کی پست ہمتی وکوتاہی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “
جی ہاں! اگرایک مسلم کوتاہ ہے تواس سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا گوکہ اس کے ایمان کی گواہی پوری زمین دیتی ہو، وہ معاشرے کے لیے مفید نہیں بن سکتا ،بلکہ بسا اوقات اس کی کوتاہی باطل کومعاشرے میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرے گی۔ ایک انسان جو اپنی ذات تک محدود ہووہ معاشرے کے لیے عضومعطل ہے ، کتنے لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم نے نماز روزے کی پابندی کرلی تواپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوگئے ، حالانکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری محض یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرلے اوربس بلکہ اسے’ خیرامت‘ کا لقب اس بنیادپر دیاگیا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ،وہ خیر کا ہرکارہ ہے۔آج انسانی معاشرے کو غفلت کیش اورپست ہمت عابد وزاہد کی ضرورت نہیں بلکہ بیدارمغزاوربلند ہمت داعی کی ضرورت ہے جو خود کی اصلاح کے ساتھ کفروشرک کی شب تاریک میں ایمان وعمل کی قندیل روشن کرسکے۔اس کی ذات سے دوسروں کو فیض پہنچ سکے ،اس کا وجود انسانیت کے لیے نیک فال بن سکے۔
ڈاکٹر السميط کی زندگی میں سارے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور عصری تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے بالخصوص بہت بڑاپیغام ہے کہ وہ جہاں اورجس میدان میں رہیں اسلام کے سپوت بن کر رہیں، اسلام کے غلبہ کے لیے فکرمند رہیں، اوراسلام کی خدمت کے لیے ایک لمحہ بھی فروگذاشت نہ کریں۔

آئیے ! عرش عظیم کے رب سے دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر موصوف کی خدمات کو اپنی رضا کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔ پھرموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ڈاکٹرموصوف کو ان کی گرانقدردعوتی اور رفاہی خدمات میں نمونہ بنائیں اور اپنی نئی نسل کی انہیں خطوط پرتربیت کریں تاکہ وہ جس میدان اورجس شعبہ میں رہیں اسلام کے علمبردار بن کر رہیں.

No comments:

Post a Comment