نفس انسان کے اندر ایک قوت ہے جس سے کسی چیز کی خواہش کرتا ہے۔ خواہ خواہش خیر ہو یا شر ہو، اگر اکثر شر کی خواہش کرے اور نادم بھی نہ ہو اس وقت وہ نفس امارہ کہلاتا ہے۔ اور اگر نادم بھی ہونے لگے تو نفس لَوَّوامہ کہلاتا ہے، اور اگر اکثر خواہش خیر کی کرے اس وقت مطمئنہ کہلاتا ہے۔ نفس کے یہ تین درجات ہیں، مشائخ طریقت کی صحبت میں رہ کر آدمی ریاضت اورمجاہدہ کرکے نفس امارہ سے ترقی کرکے نفس مطمئنہ تک پہنچتا ہے۔ نفس کے اندر کچھ اخلاقِ رذیلہ ہوتے ہیں جن کی اصلاح وتزکیہ کرکے اخلاقِ حمیدہ اور فاضلہ پیدا کیے جاتے ہیں۔ جن اخلاق حمیدہ کا نفس میں پیدا کرنا مطلوب ومستحسن ہے ان میں اعلیٰ درجہ کا خُلق تواضع ہے۔
تواضع کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے کو حقیقت میں کمتر سمجھے، اپنے کسی کمال وخوبی پر گھمنڈ نہ کرے نہ اترائے نہ شیخی بگھاڑے۔ محض انعامِ الٰہی سمجھ کر شکر اس کا بجا لائے۔
اخلاق رذیلہ مذمومہ جن سے نفس کا تزکیہ کرنا ضروری ہے، ان میں بدترین رذیلہ تکبر ہے، جس کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کمالِ دنیوی یا دینی میں اپنے آپ کو باختیار خود دوسرے سے بڑا سمجھنا کہ دوسرے کو حقیر سمجھے، یہ حرام اور معصیت ہے۔ تواضع اور تکبر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
(۲) عزت نفس ان دونوں کے درمیان کی چیز ہے کہ تواضع کی راہ اختیار کرنے میں ایسا کوئی طریقہ نہ اختیار کرے جس سے اپنی ذات کی تذلیل ہو، بے غیرتی، خساست چھچھوراپن، یا ذلت و رسوائی ظاہر ہو، مثلاً کسی ضرورت مند کے لیے دوسرے سے کوئی چیز مانگنا فی نفسہ جائز ہے اور مانگ لینے میں اظہار کمتری ہے جو بظاہر تواضع ہے لیکن نفس کو تذلیل سے بچانے کے خیال سے اظہار سوال سے گریز کرنا عزت نفس ہے، کہ اپنے نفس کو سوال کی ذلت سے اوپر اٹھالینا اور ہاتھ پھیلانے کی رسوائی سے بالا رکھنا، عزت نفس کے تقاضہ سے ہے جس میں بظاہر کبر کی بو ہے مگر درحقیقت کبر نہیں ہے بلکہ وصف محمود ہے۔ پس عزت نفس کو ملحوظ رکھنا اپنے موقعہ پر مستحسن چیز ہے۔
(۳) احترام کسی کی بڑائی اور عظمت کا احساس کرنا، اس کا مقابل اہانت ہے۔
(۴) عزت کہتے ہیں کسی سے محبت کرنا۔ اسے پسند کرنا، اہمیت دینا، اس کا مقابل ذلت ہے۔ بربنائے انسانیت کسی کا احترام اور اس کی عزت کرنا بزرگوں، والدین، اساتذہ، علماء کا احترام اور عزت کرنا اسلامی تعلیمات میں شامل ہے۔ یعنی ان کے ساتھ اہانت آمیز یا ذلت پر مبنی کوئی سلوک نہ کرے۔ اسی طرح اپنے نفس (ذات) کی عزت اور احترام کرنے کا حکم ہے یعنی تکبر سے احتراز کرتے ہوئے تواضع کا طریقہ اختیار کرے لیکن ایسا طریقہ نہیں جس سے نفس یعنی آپ کی ذات کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ کسی مومن کے لیے اپنے نفس کو ذلیل کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی عزت نفس ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ضابطہِ نبوی صلی الله علیہ والہ وسلم
انسان کا سب سے بڑا دشمن اور دوست اسکا اپنا نفس ہے۔ یہ ایک سرکش گھوڑا ہے جو اگر قابو آ جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں۔ اللہ نے جسم کو سواری بنایا، نفس کو کوچوان اور روح کو سوار ۔ اگر یہ تینوں اپنے اپنے مقام پر آ جائیں تو انسان عبدیت کی منزل پر آ جاتا ہے۔ روح امر ہے۔ یہ اللہ اور بندے کی درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ روح چونکہ امر ربی ہے اور قلب انسانی سے پیوست ہوتی ہے اس لئے پاکیزہ ہوتی ہے۔ روح خیر پر مائل کرتی ہے ۔ اسی لئے تمام ارواح خیر کی مسافر ہوتی ہیں۔ کوئی روح غلیظ نہیں ہوتی۔
انسان کا دوسرا جز نفس ہے۔..نفس کیا ہے؟ نفس در اصل وہ طاقت ہے جو بدن کی سواری کو چلاتی ہے اور اس پر طاقت رکھتی ہے۔نفس ہر جاندار میں موجود ہوتا ہے۔ نفس چونکہ آگاہی پیدا کرتا ہے اور اس آگاہی کی مدد سے جسم مختلف مواقع پر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ نفس کا مرکز دماغ ہے۔ نفس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روح کی مدد سے یہ خیر و شر کا شعور رکھتا ہے۔ اور اس شعور کی مدد سے خود کو ری پروگرام کر سکتا ہے۔ روح ، جسم اور نفس کے درمیان توازن مقام عبدیت کی طرف لے جاتا ہے۔عبدیت وہ منزل ہے جو ذات باری تعالٰی کے قریب ترین ہے۔ مخلوق کے لئے یہ آخری منزل ہے۔
مقام عبد ہی وہ مقام ہے کہ رب کعبہ نے صرف اپنے محبوب کے کلمے میں اسے عبد پکارنا فرض رکھا ۔ آدم صفی اللہ کہلائے، نوح نجی اللہ، ابراھیم کلیم اللہ تو عیسٰی روح اللہ ۔۔ لیکن یہ صرف محمد مصطفٰی کا ہی مقام تھا کہ وہ محمداً عبدہ و رسول کہلائے۔ مقام عبد ہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر بندے کے سر پر خلافت کا تاج رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ہی وہ مقام ہے جس پر بندا ایسا راضی برضا ہو جاتا ہے کہ مالک کائنات اسے اپنی صفات مرہمت کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک ہے کہ ۔۔۔۔ مومن اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی فراست سے دیکھتا ہے۔۔۔۔
حضور کا قول ہے کہ
"جس نے دنیا آخرت کے لئے، اور آخرت دنیا کے لئے چھوڑ دی وہ ہم میں سے نہیں"
والائیت اور عبدیت ' توازن قائم رکھنے والوں کا انعام ہے۔ تمام پیغمبر اور امام دنیا دار بھی تھے اور دین دار بھی۔.. انھوں نے اپنے مقدس زندگیوں سے ہمیں توازن قائم رکھنے کا درس دیا۔ اسلام کا مومن کوئی راہب نہیں جو دنیا چھوڑ چکا ہو۔۔بلکہ پریکٹیکل انسان ہے جو حقوق و فرائض کا علم رکھتا ہے۔ وہ اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے اور اس کے بندوں کے بھی۔.. وہ ان حقوق کی ادائیگی میں خود پر ظلم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظلم چیزون کا اپنے مقام پر نہ ہونے کا نام ہے۔..
یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ ، بندگی کی اس منزل پر ہوتا ہے جہاں ملےشکر اور نہ ملے تو اور بھی شکر اس کا شیوا ہوتا ہے۔
ہم آج دنیا سے لاتعلقی کو اسلام اور تصوف سمجھ بیٹھے ہیں۔ تصوف کچھ نہیں روح، جسم اور نفس کے درمیان توازن قائم رکھنے کا نام ہے۔ مشعل راہ حضور بنی کریم کی ہستی ہے اور آپ کے بعد آل محمد ، اصحاب نبی اور اولیا اللہ کی۔...
لیکں اللہ کے حکم کے مطابق نبی کا طریقہ واجب ہے۔ حضور نے نہ دنیا چھوری اور نہ ہی آخرت بلکہ اپنی ذات با کمال سے دنیا اور آخرت کو ایسا جوڑا کہ آپ جہاں گئے ایسا لگا کہ وہیں جنت ہو اور رب رحمان کی تمام رحمتیں وہیں مرکوز ہو گئی ہوں..۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی طالب علم بغیر کسی تعصب کے حیات طیبہ کا مطالعہ کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ
بلغ العلي' بكماله
كشف الدجي' بجماله
حسنت جميع خصاله
صلوا عليه و آله
انسان کا سب سے بڑا دشمن اور دوست اسکا اپنا نفس ہے۔ یہ ایک سرکش گھوڑا ہے جو اگر قابو آ جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں۔ اللہ نے جسم کو سواری بنایا، نفس کو کوچوان اور روح کو سوار ۔ اگر یہ تینوں اپنے اپنے مقام پر آ جائیں تو انسان عبدیت کی منزل پر آ جاتا ہے۔ روح امر ہے۔ یہ اللہ اور بندے کی درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ روح چونکہ امر ربی ہے اور قلب انسانی سے پیوست ہوتی ہے اس لئے پاکیزہ ہوتی ہے۔ روح خیر پر مائل کرتی ہے ۔ اسی لئے تمام ارواح خیر کی مسافر ہوتی ہیں۔ کوئی روح غلیظ نہیں ہوتی۔
انسان کا دوسرا جز نفس ہے۔..نفس کیا ہے؟ نفس در اصل وہ طاقت ہے جو بدن کی سواری کو چلاتی ہے اور اس پر طاقت رکھتی ہے۔نفس ہر جاندار میں موجود ہوتا ہے۔ نفس چونکہ آگاہی پیدا کرتا ہے اور اس آگاہی کی مدد سے جسم مختلف مواقع پر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ نفس کا مرکز دماغ ہے۔ نفس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روح کی مدد سے یہ خیر و شر کا شعور رکھتا ہے۔ اور اس شعور کی مدد سے خود کو ری پروگرام کر سکتا ہے۔ روح ، جسم اور نفس کے درمیان توازن مقام عبدیت کی طرف لے جاتا ہے۔عبدیت وہ منزل ہے جو ذات باری تعالٰی کے قریب ترین ہے۔ مخلوق کے لئے یہ آخری منزل ہے۔
مقام عبد ہی وہ مقام ہے کہ رب کعبہ نے صرف اپنے محبوب کے کلمے میں اسے عبد پکارنا فرض رکھا ۔ آدم صفی اللہ کہلائے، نوح نجی اللہ، ابراھیم کلیم اللہ تو عیسٰی روح اللہ ۔۔ لیکن یہ صرف محمد مصطفٰی کا ہی مقام تھا کہ وہ محمداً عبدہ و رسول کہلائے۔ مقام عبد ہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر بندے کے سر پر خلافت کا تاج رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ہی وہ مقام ہے جس پر بندا ایسا راضی برضا ہو جاتا ہے کہ مالک کائنات اسے اپنی صفات مرہمت کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک ہے کہ ۔۔۔۔ مومن اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی فراست سے دیکھتا ہے۔۔۔۔
حضور کا قول ہے کہ
"جس نے دنیا آخرت کے لئے، اور آخرت دنیا کے لئے چھوڑ دی وہ ہم میں سے نہیں"
والائیت اور عبدیت ' توازن قائم رکھنے والوں کا انعام ہے۔ تمام پیغمبر اور امام دنیا دار بھی تھے اور دین دار بھی۔.. انھوں نے اپنے مقدس زندگیوں سے ہمیں توازن قائم رکھنے کا درس دیا۔ اسلام کا مومن کوئی راہب نہیں جو دنیا چھوڑ چکا ہو۔۔بلکہ پریکٹیکل انسان ہے جو حقوق و فرائض کا علم رکھتا ہے۔ وہ اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے اور اس کے بندوں کے بھی۔.. وہ ان حقوق کی ادائیگی میں خود پر ظلم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظلم چیزون کا اپنے مقام پر نہ ہونے کا نام ہے۔..
یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ ، بندگی کی اس منزل پر ہوتا ہے جہاں ملےشکر اور نہ ملے تو اور بھی شکر اس کا شیوا ہوتا ہے۔
ہم آج دنیا سے لاتعلقی کو اسلام اور تصوف سمجھ بیٹھے ہیں۔ تصوف کچھ نہیں روح، جسم اور نفس کے درمیان توازن قائم رکھنے کا نام ہے۔ مشعل راہ حضور بنی کریم کی ہستی ہے اور آپ کے بعد آل محمد ، اصحاب نبی اور اولیا اللہ کی۔...
لیکں اللہ کے حکم کے مطابق نبی کا طریقہ واجب ہے۔ حضور نے نہ دنیا چھوری اور نہ ہی آخرت بلکہ اپنی ذات با کمال سے دنیا اور آخرت کو ایسا جوڑا کہ آپ جہاں گئے ایسا لگا کہ وہیں جنت ہو اور رب رحمان کی تمام رحمتیں وہیں مرکوز ہو گئی ہوں..۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی طالب علم بغیر کسی تعصب کے حیات طیبہ کا مطالعہ کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ
بلغ العلي' بكماله
كشف الدجي' بجماله
حسنت جميع خصاله
صلوا عليه و آله
نفس کی سات اقسام ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں :
1۔ نفس امارہ
2۔ نفس لوامہ
3۔ نفس ملھمہ
4۔ نفس مطمئنہ
5۔ نفس راضیہ
6۔ نفس مرضیہ
7۔ نفس کاملہ
نفس امارہ پہلا نفس ہے یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیاوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے جانے والا ہے۔ ریاضت اور مجاہدہ سے اس کی برائی کے غلبہ کو کم کر کے جب انسان نفس امارہ کے دائرہ سے نکل آتا ہے تو لوامہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہو جاتا ہے۔ جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے اسی وجہ سے اسے لوامہ یعنی سخت ملامت کرنے والا کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے :
وَلَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِO
’’اور میں نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں۔‘‘
القيامة، 75 : 2
تیسرا نفس نفس ملہمہ ہے۔ جب بندہ ملہمہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اس کے داخلی نور کے فیض سے دل اور طبعیت میں نیکی اور تقوی کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے چوتھا نفس مطمئنہ ہے جو بری خصلتوں سے بالکل پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور حالت سکون و اطمینان میں آجاتا ہے۔
یہ نفس بارگاہ الوہیت میں اسقدر محبوب ہے کہ حکم ہوتا ہے :
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ.
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔‘‘
الفجر، 89 : 27، 28
یہ نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے یہی ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے بعد نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ یہ سب ہی نفس مطمئنہ کی اعلیٰ حالتیں اور صفتیں ہیں اس مقام پر بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہتا ہے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو۔‘‘
الفجر، 89 : 28
نفس سے مراد کسی چیز کا وجود یا حقیقت یا ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس امارہ کی مخالفت کا حکم دیا ہے اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے نفس کے خلاف چلتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویٰ (اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے)۔
وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِاالسُّوٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ (اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا۔ بے شک نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے)۔
حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے نیکی کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو اس کے نفس کے عیوب سے خبردار کرتا ہے“۔
اور آثار میں ہے کہ اللہ عزوجل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی کی ”اے داؤد نفس کی مخالفت کرو کیونکہ میری محبت نفس کی مخالفت میں ہے۔“
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک سوال فرمایا کہ ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کا یہ ہو کہ اگر اس کا اعزاز و اکرام کرو، کھانا کھلاؤ، کپڑے پہناؤ تو وہ تمہیں بلا اور مصیبت میں ڈال دے اور تم اگر اس کی توہین کرو، بھوکا ننگا رکھو تو وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ برا تو دنیا میں ساتھی ہوہی نہیں سکتا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ نفس جو تمہارے پہلو میں ہے، وہ ایسا ہی ساتھی ہے“۔
ایک اور حدیث ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”تمہارا سب سے بڑا دشمن خود تمہارا نفس ہے جو تمہیں برے کاموں میں مبتلا کرکے ذلیل و خوار کرتا ہے اور طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔“
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”سب حجابوں سے بڑھ کر حجاب اپنے نفس کی پیروی کرنا ہے“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”کہ نفس ایسی چیز ہے جو باطل سے سکون حاصل کرتا ہے۔“ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”کفر کی بنیاد نفس کی اطاعت ہے۔“ حضرت ابو سلمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”نفس امانت میں خیانت کرنے والا اور قرب حق سے منع کرنے والا ہے اس لیے بہترین عمل مخالفت نفس ہے۔“
حضرت شیخ الشرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”نفس بھونکنے اور کاٹنے والا کتا ہے جب وہ ریاضت سے مطیع ہوجائے تو اس کا رکھنا مباح ہے۔“ اسی طرح کشف المحجوب میں ہے کہ ”نفس باغی کتا ہے جس کا چمڑا دباغ یعنی چمڑے رنگنے والا ہی پاک کرسکتا ہے۔ یعنی نفس کو مجاہدہ یا شیخ کامل ہی پاک اور صاف کرسکتا ہے۔
نفس کی تین بڑی اقسام بیان کی گئی ہیں۔
1۔ نفس امارہ۔ 2۔ نفس لوامہ۔ 3۔ نفس مطمئنہ
1۔ نفس امارہ: وہ نفس جو برائی پر ابھارتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حیوانیت کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نفس انسان کو جانوروں والی حیوانیت اور سفاکیت پر ابھارتا ہے۔ یعنی جب نفس حیوانی کا قوت روحانی پر غلبہ ہوجائے تو اس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے احکام کے تابع نہ کردے“۔
پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں کہ ”صوفیائے کرام کا ارشاد ہے کہ نفس سرکش کو نفس امارہ بھی کہتے ہیں۔ جو امر کا مبالغہ ہے کیونکہ وہ ہروقت برے کاموں کا حکم کرتا رہتا ہے“۔ (ضیاء القرآن)
یہی خواہشات نفسانی روزانہ الوہیت کے تین سو ساٹھ لباس پہن کر سامنے آتی ہے اور بندوں کو گمراہی کی طرف بلاتی ہے۔ قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَفَرَئَیْتَ مَنِ التَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوَاہُ (کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا جو خواہشات کو اپنا معبود بنالیتے ہیں)۔ (سورہ جاثیہ)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ: وَاتَّبِعْ ہَوَاہُ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ (جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اسکی مثال کتے کی طرح ہے)۔ (اعراف)
حقیقت یہ ہے کہ ترک نفس یا ترک خواہش بندے کو امیر بنادیتی ہے اور خواہش کی پیروی امیر کو اسیر بنادیتی ہے۔ جس طرح زلیخا نے اپنے نفس کی پیروی کی، امیر تھی لیکن اسیر (قیدی) ہوگئی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے خواہش کو ترک کیا اسیر تھے، امیر ہوگئے۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا ”وصول (قرب خداوندی) کیا ہے؟ کہا خواہش کی پیروی چھوڑدینا ”کیونکہ بندے کی کوئی عبادت خواہش کی مخالفت سے بڑھ کر نہیں۔ ناخن سے پہاڑ کھودنا آسان ہے مگر خواہش کی مخالفت کرنا بہت دشوار ہے۔
بعض مشائخ سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے؟
1۔ نفس امارہ
2۔ نفس لوامہ
3۔ نفس ملھمہ
4۔ نفس مطمئنہ
5۔ نفس راضیہ
6۔ نفس مرضیہ
7۔ نفس کاملہ
نفس امارہ پہلا نفس ہے یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیاوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے جانے والا ہے۔ ریاضت اور مجاہدہ سے اس کی برائی کے غلبہ کو کم کر کے جب انسان نفس امارہ کے دائرہ سے نکل آتا ہے تو لوامہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہو جاتا ہے۔ جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے اسی وجہ سے اسے لوامہ یعنی سخت ملامت کرنے والا کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے :
وَلَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِO
’’اور میں نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں۔‘‘
القيامة، 75 : 2
تیسرا نفس نفس ملہمہ ہے۔ جب بندہ ملہمہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اس کے داخلی نور کے فیض سے دل اور طبعیت میں نیکی اور تقوی کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے چوتھا نفس مطمئنہ ہے جو بری خصلتوں سے بالکل پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور حالت سکون و اطمینان میں آجاتا ہے۔
یہ نفس بارگاہ الوہیت میں اسقدر محبوب ہے کہ حکم ہوتا ہے :
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ.
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔‘‘
الفجر، 89 : 27، 28
یہ نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے یہی ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے بعد نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ یہ سب ہی نفس مطمئنہ کی اعلیٰ حالتیں اور صفتیں ہیں اس مقام پر بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہتا ہے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو۔‘‘
الفجر، 89 : 28
نفس سے مراد کسی چیز کا وجود یا حقیقت یا ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس امارہ کی مخالفت کا حکم دیا ہے اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے نفس کے خلاف چلتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویٰ (اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے)۔
وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِاالسُّوٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ (اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا۔ بے شک نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے)۔
حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے نیکی کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو اس کے نفس کے عیوب سے خبردار کرتا ہے“۔
اور آثار میں ہے کہ اللہ عزوجل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی کی ”اے داؤد نفس کی مخالفت کرو کیونکہ میری محبت نفس کی مخالفت میں ہے۔“
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک سوال فرمایا کہ ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کا یہ ہو کہ اگر اس کا اعزاز و اکرام کرو، کھانا کھلاؤ، کپڑے پہناؤ تو وہ تمہیں بلا اور مصیبت میں ڈال دے اور تم اگر اس کی توہین کرو، بھوکا ننگا رکھو تو وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ برا تو دنیا میں ساتھی ہوہی نہیں سکتا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ نفس جو تمہارے پہلو میں ہے، وہ ایسا ہی ساتھی ہے“۔
ایک اور حدیث ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”تمہارا سب سے بڑا دشمن خود تمہارا نفس ہے جو تمہیں برے کاموں میں مبتلا کرکے ذلیل و خوار کرتا ہے اور طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔“
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”سب حجابوں سے بڑھ کر حجاب اپنے نفس کی پیروی کرنا ہے“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”کہ نفس ایسی چیز ہے جو باطل سے سکون حاصل کرتا ہے۔“ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”کفر کی بنیاد نفس کی اطاعت ہے۔“ حضرت ابو سلمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”نفس امانت میں خیانت کرنے والا اور قرب حق سے منع کرنے والا ہے اس لیے بہترین عمل مخالفت نفس ہے۔“
حضرت شیخ الشرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”نفس بھونکنے اور کاٹنے والا کتا ہے جب وہ ریاضت سے مطیع ہوجائے تو اس کا رکھنا مباح ہے۔“ اسی طرح کشف المحجوب میں ہے کہ ”نفس باغی کتا ہے جس کا چمڑا دباغ یعنی چمڑے رنگنے والا ہی پاک کرسکتا ہے۔ یعنی نفس کو مجاہدہ یا شیخ کامل ہی پاک اور صاف کرسکتا ہے۔
نفس کی تین بڑی اقسام بیان کی گئی ہیں۔
1۔ نفس امارہ۔ 2۔ نفس لوامہ۔ 3۔ نفس مطمئنہ
1۔ نفس امارہ: وہ نفس جو برائی پر ابھارتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حیوانیت کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نفس انسان کو جانوروں والی حیوانیت اور سفاکیت پر ابھارتا ہے۔ یعنی جب نفس حیوانی کا قوت روحانی پر غلبہ ہوجائے تو اس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے احکام کے تابع نہ کردے“۔
پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں کہ ”صوفیائے کرام کا ارشاد ہے کہ نفس سرکش کو نفس امارہ بھی کہتے ہیں۔ جو امر کا مبالغہ ہے کیونکہ وہ ہروقت برے کاموں کا حکم کرتا رہتا ہے“۔ (ضیاء القرآن)
یہی خواہشات نفسانی روزانہ الوہیت کے تین سو ساٹھ لباس پہن کر سامنے آتی ہے اور بندوں کو گمراہی کی طرف بلاتی ہے۔ قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَفَرَئَیْتَ مَنِ التَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوَاہُ (کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا جو خواہشات کو اپنا معبود بنالیتے ہیں)۔ (سورہ جاثیہ)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ: وَاتَّبِعْ ہَوَاہُ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ (جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اسکی مثال کتے کی طرح ہے)۔ (اعراف)
حقیقت یہ ہے کہ ترک نفس یا ترک خواہش بندے کو امیر بنادیتی ہے اور خواہش کی پیروی امیر کو اسیر بنادیتی ہے۔ جس طرح زلیخا نے اپنے نفس کی پیروی کی، امیر تھی لیکن اسیر (قیدی) ہوگئی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے خواہش کو ترک کیا اسیر تھے، امیر ہوگئے۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا ”وصول (قرب خداوندی) کیا ہے؟ کہا خواہش کی پیروی چھوڑدینا ”کیونکہ بندے کی کوئی عبادت خواہش کی مخالفت سے بڑھ کر نہیں۔ ناخن سے پہاڑ کھودنا آسان ہے مگر خواہش کی مخالفت کرنا بہت دشوار ہے۔
بعض مشائخ سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے؟
جواب دیا ”مخالفت کی تلواروں سے نفسوں کو ذبح کردینا اسلام ہے.“
حضرت خواجہ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا
حضرت خواجہ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا
”عبادتوں کی کنجی فکر ہے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں رسائی اور قرب کی علامت نفس اور خواہشات کی مخالفت ہے“ (مکتوبات صدی)
نفس اور خواہشات کو قابو کرنے سے متعلق حضرت شیخ شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے خلاصۃً پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”نفس ہر وقت خواہشات کی طلب میں رہتا ہے اور اگر اس کی خواہشات کو پورا کردیا جائے تو ایک بہت لمبی فہرست تیار کرلیتا ہے۔“ اسلام نے انسان کی خواہشات کو دبانے کی بجائے اعتدال پر رکھنے کو پسند کیا ہے۔ عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ نفس کو دبانے کی جدوجہد کرتا رہے لیکن یکبارگی اس پر دھاوا بول دینا اور اس کو زیرکردینا دشوار ہے بلکہ اس میں نقصان وغیرہ کا اندیشہ ہے۔ راہ اعتدال یہ ہے کہ قوت دیتے ہوئے اس پر کاموں کا بوجھ ڈالا جائے تاکہ وہ متحمل ہوسکے اور نفس کو اس حد تک کمزور کیا جائے اور سختی سے کام لیا جائے کہ وہ تمہارے حکم سے گریز نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ غلط ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ سخت ریاضت و مجاہدہ کی وجہ سے نہایت کمزور ہوگئے ہیں اور ہاتھ پاؤں ہلانے سے بھی عاجز ہیں، انکی آنکھیں اندر دھنسی گئی ہیں، تو نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبداللہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کو ہلاک کرنا گناہ ہے۔ اس لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ نہ وہ انسان پر غالب ہوسکے اور نہ اسکی نافرمانی کرسکے۔ میانہ روی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے تھوڑا نرم کیا جائے تاکہ لگام دینے کے قابل ہوجائے۔ اس کے راستے کے عاملوں نے کہا کہ نفس کو نرم کرنے کی تین چیزیں ہیں۔
1۔ نفس کو خواہشات اور لذتوں سے روک دیا جائے کیونکہ جب چوپائے دانہ گھاس نہیں پاتے تو نرم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا دانہ پانی روک دیا جائے تاکہ ساری شرارتیں غائب ہوجائیں۔
2۔ عبادت کا بھاری بوجھ اس پر لادا جائے۔
3۔ اللہ رب العزت سے مدد مانگی جائے اور اس کی بارگاہ میں پناہ تلاش کی جائے۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔ ترجمہ: جنہوں نے ہماری راہ میں مجاہدہ کیا ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ (العنکبوت 96/29)
یعنی جو مجاہدہ کرتا ہے اسے مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ جملہ احکام شریعت پر عمل کرنا، حلال کھانا، حرام و مشتبہ سے بچنا، فرائض و واجبات کی پابندی کرنا یہ سب مجاہدہ ہے اور جو مجاہدہ کرتا ہے اس کا اثر ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گھوڑے کو ریاضت سے ایسا سدھایا جاتا ہے کہ حیوانی صفات چھوڑ کر آدمیت اختیار کرلیتا ہے اور اس کی صفتیں بدل جاتی ہیں یہاں تک کہ زمین سے کوڑا اٹھاکر سوار کو دیتا ہے اور گیند گھماتا ہے۔ اسی طرح وحشی جانوروں کو رام کرلیا جاتا ہے ایک ناپاک کتے کو مجاہدہ و تعلیم دے کر اس مرتبے پر پہنچادیا جاتا ہے کہ اس کا مارا ہوا شکار مومن کے مارے ہوئے شکار کی طرح حلال اور پاک ہوتا ہے۔
الغرض یہ کہ مجاہدہ و ریاضت بالاتفاق پسندیدہ ہے لیکن مجاہدہ کا دیکھنا یعنی (اس کا اعتبار کرنا) ایک آفت ھے .
نفس اور خواہشات کو قابو کرنے سے متعلق حضرت شیخ شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے خلاصۃً پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”نفس ہر وقت خواہشات کی طلب میں رہتا ہے اور اگر اس کی خواہشات کو پورا کردیا جائے تو ایک بہت لمبی فہرست تیار کرلیتا ہے۔“ اسلام نے انسان کی خواہشات کو دبانے کی بجائے اعتدال پر رکھنے کو پسند کیا ہے۔ عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ نفس کو دبانے کی جدوجہد کرتا رہے لیکن یکبارگی اس پر دھاوا بول دینا اور اس کو زیرکردینا دشوار ہے بلکہ اس میں نقصان وغیرہ کا اندیشہ ہے۔ راہ اعتدال یہ ہے کہ قوت دیتے ہوئے اس پر کاموں کا بوجھ ڈالا جائے تاکہ وہ متحمل ہوسکے اور نفس کو اس حد تک کمزور کیا جائے اور سختی سے کام لیا جائے کہ وہ تمہارے حکم سے گریز نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ غلط ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ سخت ریاضت و مجاہدہ کی وجہ سے نہایت کمزور ہوگئے ہیں اور ہاتھ پاؤں ہلانے سے بھی عاجز ہیں، انکی آنکھیں اندر دھنسی گئی ہیں، تو نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبداللہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کو ہلاک کرنا گناہ ہے۔ اس لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ نہ وہ انسان پر غالب ہوسکے اور نہ اسکی نافرمانی کرسکے۔ میانہ روی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے تھوڑا نرم کیا جائے تاکہ لگام دینے کے قابل ہوجائے۔ اس کے راستے کے عاملوں نے کہا کہ نفس کو نرم کرنے کی تین چیزیں ہیں۔
1۔ نفس کو خواہشات اور لذتوں سے روک دیا جائے کیونکہ جب چوپائے دانہ گھاس نہیں پاتے تو نرم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا دانہ پانی روک دیا جائے تاکہ ساری شرارتیں غائب ہوجائیں۔
2۔ عبادت کا بھاری بوجھ اس پر لادا جائے۔
3۔ اللہ رب العزت سے مدد مانگی جائے اور اس کی بارگاہ میں پناہ تلاش کی جائے۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔ ترجمہ: جنہوں نے ہماری راہ میں مجاہدہ کیا ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ (العنکبوت 96/29)
یعنی جو مجاہدہ کرتا ہے اسے مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ جملہ احکام شریعت پر عمل کرنا، حلال کھانا، حرام و مشتبہ سے بچنا، فرائض و واجبات کی پابندی کرنا یہ سب مجاہدہ ہے اور جو مجاہدہ کرتا ہے اس کا اثر ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گھوڑے کو ریاضت سے ایسا سدھایا جاتا ہے کہ حیوانی صفات چھوڑ کر آدمیت اختیار کرلیتا ہے اور اس کی صفتیں بدل جاتی ہیں یہاں تک کہ زمین سے کوڑا اٹھاکر سوار کو دیتا ہے اور گیند گھماتا ہے۔ اسی طرح وحشی جانوروں کو رام کرلیا جاتا ہے ایک ناپاک کتے کو مجاہدہ و تعلیم دے کر اس مرتبے پر پہنچادیا جاتا ہے کہ اس کا مارا ہوا شکار مومن کے مارے ہوئے شکار کی طرح حلال اور پاک ہوتا ہے۔
الغرض یہ کہ مجاہدہ و ریاضت بالاتفاق پسندیدہ ہے لیکن مجاہدہ کا دیکھنا یعنی (اس کا اعتبار کرنا) ایک آفت ھے .
بہت اچھی تحریر ھے
ReplyDelete